Tum Sirf Meri Ho

 

ناول:تم صرف میری ہو

مصنف: زارون علی

 

قسط نمبر: 1

شام کے بڑھتے ہوئے سائے اور موسم کے بدلتے تیور دیکھ کر نور کی جان پر بن آئی تھی اُس نے حاشر کو کوسنے کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہوئے اپنے ڈیپارٹمنٹ کا رخ کیا تاکہ بارش تیز ہونے سے پہلے وہاں پہنچ کر حاشر کا انتظار کر سکے جو اُس کی بیس بار یاد دہانی پر بھی ابھی تک اُسے لینے نہیں پہنچا تھا۔ آج گھر جاتے ہی ابو سے شکایت کروں گی اور حارث بھائی سے بھی۔ نور نے تیز قدم اُٹھاتے یونیورسٹی میں موجود چند نفوس کو دیکھا جو اُسی کی طرح یا تو کسی کے انتظار میں بیٹھے تھے یا پھر لیٹ کلاس کے چکر میں اس وقت یہاں بارش میں خوار ہو رہے تھے۔ اُففف اللہ کیا مصیبت ہے تیز ہوتی بارش سے گھبراتے اُس نے بھاگ کر اپنا اور ڈیپارٹمنٹ کا چند قدم کا فاصلہ طے کیا اور وہاں قدم رکھتے ایک اور مصیبت اُس کے لیے تیار تھی۔ آج کا دن ہی منحوس ہے۔ ڈیپارٹمنٹ میں ہر جگہ سناٹا دیکھ کر اُس نے واپس پلٹنے کا سوچا مگر اُس سے پہلے ہی اُسے میم فاطمہ اور میم حنا اسٹاف روم میں بیٹھی نظر آگئیں۔ شکر ہے کوئی تو ہے یہاں،دل میں کہتے اُس نے سامنے کلاس کا رخ کیا تاکہ اپنے بیگ سے موبائل نکال کر حاشر کا پوچھ سکے مگر قسمت یہاں بھی اُسے دغا دے چکی تھی۔ اُس کے موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہوتے موبائل بس بند ہونے کے قریب تھا۔اللہ یہ ساری مصیبتیں میری زندگی میں آج ہی آنی تھیں۔ خود کلامی کرتے اس سے پہلے کے وہ میسج ٹائپ کرتی سکرین آرجے کے نام سے بلنک ہوئی۔ ”کہاں ہو؟؟ کہیں اپنے خالہ زاد کہ خیالوں میں کھو کر اپنے چار سالہ پرانے دوست کو تو نہیں بھول گئی؟؟“ غصے والے اور شکی ایموجی کہ ساتھ سینڈ کیے گئے میسج پر اب نور نے آبرو اچکاتے آنکھیں نکالیں اور نقاب اُتارنے کی زحمت کیے بغیر ہی چیئر پر بیٹھتے میسج ٹائپ کرنے لگی۔ ”یونی ہوں اور خالہ زاد سے ایک مہینے بعد شادی ہے ابھی ہوئی نہیں کہ اُس کے خیالوں میں کھو جاؤں اور رہی بات چار سال پرانے دوست کی اُس سے میں ایک گھنٹے میں گھر آکر بات کرتی ہوں“۔ ناراضگی والے ایموجی کہ ساتھ اُس نے حاشر کی بجائے آرجے کو  میسج سینڈ کیا تاکہ وہ پریشان نہ ہو۔ (جو ان چار سالوں میں اُس کے لیے ایک اچھے دوست کے ساتھ ساتھ اپنی نرم اور خیال کرنے والی طبیعت کے سبب نور کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا تھا اور اُس نے آج تک کبھی نور سے کوئی غیر اخلاقی بات نہیں کی اور اب اُسکی شادی پر وہ سب سے زیادہ خوش تھا۔ ہر معاملے میں نور کا ساتھ دینا اُسکی ہر بات کو اہمیت دینا ہر تکلیف میں اُسکے ساتھ رہنا حتیٰ کہ اُس کے سر درد پر وہ ساری ساری رات جاگتا اور بے چین رہتا تھا اور با ر بار اُسے میسج کرتے اُسکی طبیعت کا پوچھتا جس سے نور اکثر تنگ بھی آجایا کرتی تھی پر اُسکا فکر کرنا ہر وقت اپنے لیے بے چین دیکھنا اب نور کو بھی اچھا لگتا ) اُس کا موبائل آف ہو گیا۔ اُففف اب کیا کروں میں موبائل ہاتھ میں لیے اُس نے متلاشی نظروں سے باہر دیکھا جہاں کچھ لوگ ڈیپارٹمنٹ میں وقفے وقفے سے داخل ہو رہے تھے۔ جو شکل سے تو یونی کے سٹوڈنٹ ہی لگ رہے تھے مگر پھر بھی نور کو ایک ساتھ تقریبا بیس کے قریب لوگ دیکھ کر گھبراہٹ ہوئی تب ہی وہ اپنا نقاب ٹھیک کرتے گاؤن پہ لگی مٹی کو صاف کرتے بیگ اُٹھاتے کمرے سے باہر نکلنے لگی تاکہ دوبارہ سے گیٹ کے پاس جا سکے مگر جیسے ہی اُس نے قدم باہر کی جانب بڑھائے اُن میں سے ایک شخص (جس کا چہرہ باقیوں کی نسبت رومال سے ڈھکا ہوا تھا) اُسکی طرف آیا۔ ”عالیان یہاں آؤ“ اُس لڑکے نے اپنے ہی جیسے خوبرو نوجوان جو ہاتھ میں کچھ کاغذات پکڑے کھڑا تھا اُسے اشارہ کرتے کمرے کی طرف آنے کا کہا اور باقی کوآنکھ کے ذریعے سب پر نظر رکھنے کا کہا تب ہی دوشخص اسٹاف روم اور باقی دوسرے کمروں کی جانب بڑھے۔ نور نے یہ سب دیکھ کر بیگ سنبھالتے ہوئے جلدی سے باہر کا رخ کیا مگر اُس سے پہلے ہی رومال والے شخص نے اُسکے سامنے آکر اس کا راستہ روکا۔ ”کیا مسئلہ ہے آپ کو؟“ نور نے گھبراہٹ کے باوجود دلیری کا مظاہرہ کرتے اُس کی کالی خوبصورت آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ”کوئی مسئلہ نہیں اور تم سے مجھے کبھی کوئی بھی مسئلہ نہیں ہوسکتا“۔ عالیان کو اشارہ کرتے اُس نے نور کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا تو وہ دو قدم پیچھے ہوتے کمرے میں واپس اُسی کرسی پہ جا بیٹھی جس پر وہ پہلے بیٹھی تھی۔ ”پلیز مجھے جانے دو“۔ اس لڑکے کے ساتھ مزید پانچ لوگوں کو کمرے میں داخل ہوتے اور دروازہ بند کرتا دیکھ کر اب صحیح معنوں میں اُس کی جان نکلی تھی۔ اُس نے اُس نقاب پوش لڑکے کے آگے ہاتھ جوڑتے کہا تو وہ اُسکی خوف سے بھری آنکھوں کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔” گھبرانے کی ضرورت نہیں جب تک میں ہوں، یہاں کیا دنیا کا کوئی شخص بھی تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا بس پرسکون رہو اور قاری صاحب آپ شروع کر یں“۔ اُس کے گلے سے اُس کا یونی کارڈ (جس میں اُس کے شناختی کارڈ کہ ساتھ ساتھ سکندر صاحب کی بھی ایک شناختی کارڈ کی کاپی موجود تھی جو نور نے اپنی بھلکڑ طبیعت کی وجہ سے اُس میں رکھی تھی تاکہ کل فارم فل کرتے وقت اُسے پریشانی نہ ہو)نکال کر ایک شخص جو شکل سے قاری یا کسی مسجد کا امام لگ رہا تھا۔ ان کو پکڑاتے ہوئے باقی سب کو بیٹھنے کا اشارہ کرتا خود بھی نور کے ساتھ والی چیئر پر بیٹھ گیا۔ ”یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟؟“ نور جس کی خوف کی وجہ سے بولتی بند ہو چکی تھی۔ اُس نے گھٹی ہوئی آواز میں اپنے پاس اُسی نقاب پوش کو بیٹھتے دیکھ کر پوچھا جس کا چہرہ رومال کی وجہ سے وہ دیکھ نہیں پا رہی تھی۔” نکاح کر رہا ہوں تم سے“۔ کالی آنکھوں والے شخص نے جتنی تسلی سے جواب دیا نور نے اتنی ہی حیرت سے اُس کے ساتھ ساتھ اُن پانچ نفوس کو دیکھا جو کہیں سے بھی غنڈے یا چور نہیں لگ رہے تھے

قسط نمبر: 2

”میں یہ سب نہیں کر سکتی آپ کیوں کر رہے ہیں ایسا۔۔۔؟“ اُس نے اب خوف کہ ساتھ ساتھ  باپ اور بھائیوں کی بدنامی اور اپنی عزت کے ڈر سے مزاحمت کی اور ساتھ ہی اُٹھ کر کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر اُس سے پہلے ہی اُسے اپنے پیٹ پہ کسی چیز کا دباؤ محسوس ہوا۔ ”خاموشی سے بیٹھی رہو اور جو میں بول رہا ہوں وہی کرو ۔۔۔“ لفظوں کے ساتھ ساتھ اُس نے پسٹل کی نال کا دباؤ نور کے پیٹ پہ ڈالا تو وہ ڈرکی وجہ سے پسینے میں نہا گئی۔” پلیز میرے ساتھ ایسا مت کرو۔۔۔“ قاری صاحب نے اُس کالی آنکھوں والے کے اشارے پر نکاح شروع کیا تو نور نے ایک بار پھر سے مزاحمت کی....”کہا نا چپ کر کے بیٹھو اور جو قاری صاحب پوچھ رہے ہیں بس اُس کا جواب دو۔۔۔“ لہجے میں سختی کے ساتھ ساتھ اب اُس کی آنکھوں میں بھی غصہ دکھائی دے رہا تھا۔” میں یہ سب نہیں کروں گی بے شک تم جو مرضی کر لو۔۔۔۔۔“ اُس نے پسٹل کی پروا کیے بغیر اپنی عزت کی خاطر چیخ کر کہا اور ساتھ ہی کرسی سے اُٹھی۔” ٹھیک ہے۔ تمہیں تو میں کسی صورت نہیں مار سکتا۔ بس تمہاری میم اور جو کچھ اسٹوڈنٹس دوسری کلاس میں موجود ہیں اُنہیں تمہارا انکار اور یہ چیخنا چلانا دو منٹ میں اس دنیا سے اُس دنیا میں پہنچا دے گا۔۔۔۔“ نور کے چیخنے کا کوئی بھی اثر لیے بغیر اُس نے موبائل نکال کر کال ملائی اور اُسکی طرف دیکھتے ہوئے ایک شخص کا نام لے کر اُسے شوٹ کرنے کا کہا تو نور کی آنکھیں خوف سے مزید پھیل گئیں۔“ پلیز ایسا مت کرو اُنہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔۔۔“باقی پانچوں نفوس کو خاموش دیکھ کر نور نے اُس کالی آنکھوں والے کے سامنے ہاتھ جوڑے۔” بگاڑا تو میں نے بھی تمہارا کچھ نہیں پھر کیوں مجھے زبردستی کرنے پر مجبور کر رہی ہو۔۔۔“ اُٹھ کر اُس کے قریب آتے اُس نے بہت پیار اور نرمی سے کہا۔ ”پلیز۔۔۔۔“ نور نے زور سے آنکھیں بند کرکے اُسے خود سے مزید قریب ہونے سے روکا۔” ہمم اوکے شاباش اب اچھے بچوں کی طرح بیٹھو اور جو قاری صاحب پوچھ رہے ہیں جواب دو۔۔۔“ پسٹل دوبارہ سے اُسکے پیٹ پر رکھتے وہ بے حد نرمی سے بولا۔” پلیز میرے بھائی،۔۔۔۔“ نور نے پھر سے کچھ بولنا چاہا مگر اُس سے پہلے ہی اُس شخص نے ہوا میں فائر کیا جو پسٹل میں لگے سائلنسر کی وجہ سے بے آواز چھت سے ٹکراتے وہاں موجود سب لوگوں کو ساکت کر گیا۔ ”اب ایک اور لفظ نہیں جو بول رہا ہوں وہ کرو۔۔۔“ اُس کے بازو کو سختی سے اپنی گرفت میں لیتے اُس نے نور کو بٹھایا، ساتھ خود بھی بیٹھتے قاری صاحب کو نکاح شروع کرنے کا کہا۔ جو اُس شخص کی دہشت سے پہلے ہی کافی خوف زدہ تھے گولی چلانے سے اور ہو گئے۔ اسی لیے اُسکی بات پر اثبات میں سر ہلاتے کانپتی آواز میں نور کی طرف متوجہ ہوئے جو اب بے بسی سے بیٹھی رو رہی تھی۔” بیٹا آپ کو زارون علی ولد ہتشام علی سکہ حق مہر پچاس لاکھ…۔۔“ قاری صاحب نے بولنا شروع کیا تو نور نے اُس شخص کے خوف سے اُن کی کوئی بات سنے بغیر ہاں میں سر ہلایا اور بے دھیانی میں اُن کی بتائی جگہ پر دستخط کرتے وہ دل میں اُس شخص کا قتل کرنے کا ارادہ کر چکی تھی۔ جس نے کچھ ہی دیر میں اُس کی اور اُس کے گھر والوں کی عزت کو یوں نیلام کر دیا تھا۔ اس کی رضا مندی کے بعد قاری صاحب نے اُس شخص سے وہی سوال کیا اور اُس کے دستخط کرتے ہی دعا کے بعد سب اُسے مبارکباد دینے لگے جو اب کافی خوش لگ رہا تھا مگر نور بالکل ساکت، آنکھوں میں بے یقینی لیے اُس سارے ماحول سے بے خبر گم صم سی بیٹھی آنسو بہا رہی تھی۔ آپ لوگ باہر انتظار کریں میں آتا ہوں۔ اُن سب سے کہتے وہ اُسکی جانب متوجہ ہوا جس کی آنکھوں سے مسلسل گرتے آنسو اب اُسے تکلیف دے رہے تھے۔”تو سویٹ ہارٹ آج سے تم میری ہو صرف میری۔۔۔۔“ اُن کے جاتے ہی زارون نے دروازہ بند کرکے نور کا ہاتھ تھاما تو وہ بدک اُٹھی۔” تم نے جو میرے ساتھ کرنا تھا کر چکے اب پلیز میرے قریب مت آنا۔۔۔“  اُسکی بات پر ہوش میں آتے اُس نے خالی کمرے کو دیکھ کر بدحواسی سے کہا۔” قریب کب آیا؟؟ بس تمہیں منہ دیکھائی دینا چاہتا ہوں۔۔۔“ دو قدم آگے بڑھاتے ہوئے اُس نے نور کے نقاب میں چھپے چہرے کو دیکھتے اپنی پیش رفت جاری رکھی۔” پلیز تم جو بھی ہو پلیز میرے قریب مت آنا۔۔“ پیچھے دیوار کے ساتھ لگتے اُس نے پھر سے ہاتھ جوڑے۔”قریب آنے کا سرٹیفکیٹ مجھے چند منٹ پہلے اللہ کی طرف سے مل چکا ہے اور رہی بات کچھ کرنے کی تو میری جان میں ایک کام تمہاری مرضی کے خلاف کر چکا ہوں دوسرا نہیں کروں گا۔۔۔“ دیوار پر ایک ہاتھ رکھتے اُس نے دوسرے ہاتھ میں پکڑی پسٹل نور کی پسلی پہ رکھی۔” مجھے جانے دو۔۔۔۔“ خوف سے آنکھیں بند کرتے وہ اُس کی اس قدر قربت پر پریشان ہوئی۔” چلی جانا ویسے بھی تمہارا بھائی ابھی اپنی بائیک ٹھیک کروا رہا ہے۔۔“ اُسے آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ ”تب تک تم اور بس میں،۔۔۔“ آنکھوں میں شوخی لیے اُس نے نور کے کان کے قریب ہوتے سرگوشی کی تو وہ حاشر کے حوالے پر رونا بھول کر پوری آنکھیں کھول کر اُسے دیکھنے لگی جو مسکراتی آنکھوں سے اُسے دیکھتے اوپر لگے سوئچ بورڈ پہ ہاتھ مار کر لائٹ بند کر چکا تھا۔ ”پلیز،۔۔۔۔۔“ اُس کا ہاتھ اپنی کمر پر محسوس کرتے وہ اندھیرے اور انجان شخص کی قربت پر پریشان ہوکر پھر رونے لگی کیونکہ باہر شام کے سائے ڈھلنے اور بارش کی وجہ سے پہلے ہی اندھیرا تھا اور اب اُس کے لائٹ بند کرنے سے پورا کمرہ تاریکی میں نہا گیا مگر پھر بھی ایک طرف دروازے کی جھری سے تھوڑی سی روشنی آرہی تھی۔”رویا مت کرو تمہارا رونا مجھے تکلیف دیتا ہے ۔۔۔۔“ پسٹل کی نال مزید اُس کے پیٹ میں گھساتے وہ باہر سے آنے والی ہلکی روشنی میں اُسے دیکھتے ہوئے بولا۔ ”پلیز،میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے۔۔۔“ نور نے اُس کا رومال ہٹانے کی جرات نہیں کی۔ ”کچھ نہیں بگاڑا، تم تو میری جان ہو،۔۔۔“ ہاتھ سے اُس کی پن اُتار کر اُسے نقاب سے آزاد کرتے وہ اُس کے گلابی چہرے کو دیکھنے لگا جو رونے کی وجہ سے سرخ ہوچکا تھا۔” بیوٹیفل ،مائی ڈال،۔۔۔مسکراتے ہوئے زارون نے اُس کی بھوری آنکھوں میں دیکھا اور ساتھ ہی اُسے اپنی آنکھیں بند کرنے کا حکم دیا جو اب کسی بھی تاثر کے بغیر اُسے دیکھ رہی تھی....اُس پر کوئی اثر ہوتا نہ دیکھ کر زارون نے پسٹل پینٹ میں رکھتے اُسکی کمر میں ہاتھ رکھ کر خود سے قریب کیا جو بے خوفی سے اب اُسے دیکھ رہی تھی مگر اُس کے اگلے عمل سے وہ ڈر اور بے خوفی غصے اور بے بسی میں بدل چکی تھی۔ جب زارون نے خود اندھیرے والی سائیڈ پر ہوتے اُسے کمر سے پکڑ کر تھوڑا اوپر کرتے اپنا رومال ہٹا کر اُس کے ہونٹوں پر جھکتے اپنے رشتے کی پہلی مہر ثبت کی تو نور نے اُسکے عمل پر اُسکی شرٹ کو سختی سے مٹھی میں دبوچ کراپنی آنکھیں زور سے بند کیں۔ چند سیکنڈ بعد وہ اپنی شدت کا اظہار کرکے پیچھے ہٹا تو اُسکے چہرے پر رومال پھر سے موجود تھا۔ ”شادی مبارک ہو مائی بیوٹیفل ڈول۔۔“ پیچھے ہٹ کر اُس کی بند آنکھوں کو دیکھتے ہوئے وہ بولا اور اُس کے اسکارف کو پکڑ کر واپس پن لگاتے پھر سے اُسکے کان کے قریب جھکتے سر گوشی کی۔ ”مجھے ہمیشہ پاک چیزیں پسند ہیں اور میں کبھی بھی کسی ناپاک چیز کو نہیں چھوتا اور تم میرے لیے چیز نہیں بلکہ میری پرنسسز ہو اور تمہیں میں کیسے نامحرم ہو کر چھو سکتا تھا۔ ۔۔“ اپنی بات مکمل کرتے اُس نےلائٹ آن کی اور اُسکی کمر سے ہاتھ ہٹاتے الگ ہوا تو نور نے جلدی سے اپنی آنکھیں کھولیں جو رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں۔  ”آجاؤ باہر،۔۔۔۔“ دروازہ کھولتے اُس نے کارڈ پھر سے اُسے تھمایا اور باہر کھڑے اپنے لوگوں کو اشارہ کرتے ڈیپارٹمنٹ کا دروازہ کھولنے کا کہا۔ ”کیا سوچ رہی ہو چلو تمہارا بھائی آگیا ہے۔۔۔“ اُسے وہیں کھڑا دیکھ کر زارون نے بیگ اُسکو پکڑایا جو حاشر کے آنے کا سنتے ہی کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر بیگ اُٹھاتے جلدی سے کسی کو دیکھے بغیر باہر کی جانب بھاگی۔ اُسکے جاتے ہی زارون نے اپنے بندوں کوباہر نکالنے کا کہتے اپنی شناخت کے متعلق وہاں موجود لوگوں کے ساتھ ساتھ نور کے ذہن میں بھی کئی سوال چھوڑگیا تھا....

 

 

قسط نمبر: 3

 

خوف کے مارے وہ کہیں بھی دیکھے بغیر تقربیا بھاگتے ہوئے اپنے بے جان وجود کو لے کر گیٹ تک پہنچی مگر وہاں حاشر کی بجائے حارث کو دیکھتے ہی اُس کی ہمت جواب دے گئی..”سوری نور وہ حاشر کی بائیک خراب ہو گئی تھی اور اُس نے بتایا ہی مجھے اتنی دیر سے“۔ حارث اُسے دیکھتے ہی اُسکے قریب آتے بتانے لگا مگر اُسکی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی نور کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آیا اور وہ حارث کے بروقت پکڑنے سے اُس کی بانہوں میں ہی جھول گئی...     ”نور،نور العین کیا ہوا ہے تمہیں؟“ حارث نے اُس کو سنبھالتے فکر مندی سے آواز دی اور اُسکے جسم میں کوئی حرکت نہ دیکھ کر جلدی سے اپنی گاڑی میں ڈالا اور اگلے دس منٹ میں وہ اُسے لے کر ہسپتال پہنچ چکا تھا۔ جہاں تقریبا ایک گھنٹے بعد اُسے ہوش آیا..”میں کہاں ہوں؟“ آنکھیں کھولتے خود کو ایک انجان جگہ پر دیکھ کر اُس نے بیٹھنے کی کوشش کی تو حارث نے آگے بڑھ کر اُسے ایسا کرنے سے روکا۔۔۔  ”ہم ہسپتال میں ہیں، پریشان نہ ہو اور لیٹ جاؤ“۔ نرمی سے کہتے وہ اُسے لیٹانے لگا تو نور کو اپنے بے ہوش ہونے کے بارے میں یاد آیا اور اُس کے ساتھ ہی اُس سے چند منٹ پہلے ہونے والا واقعہ بھی جس کی وجہ سے اُسکی یہ حالت ہوئی تھی۔ ”کیا ہوا ہے میری گڑیا کیوں ایسے پریشان ہو رہی ہو؟ بس بی پی لو تھا اس لیے ڈاکٹر نے ڈرپ لگا دی“۔ حارث جو اُس کے قریب ہی کھڑا تھا اُس نے یہ سوچ کر اُسے تسلی دی کہ شائد وہ یہاں آنے اور ڈرپ کو دیکھ کر پریشان ہے۔۔۔”بھائی مجھے گھر جانا ہے“۔ نور نے اُسکی بات سنتے آنکھوں میں آنسو بھرتے کہا۔۔۔”بس یہ ڈرپ ختم ہو جائے تو چلتے ہیں اور تم دیکھنا آج حاشر کو مجھ سے کیسے جوتے پڑتے ہیں۔ ایک کام کا کہا تھا وہ بھی اُس سے نہیں ہوا“۔ اب کی بار حارث نے حاشر کے وقت سے نہ پہنچنے پر غصہ کیا تو نور نے اپنے بھائی کی پریشانی پر آنکھیں بند کرتے اپنے آنسو اندر اُتارے۔۔۔”یونیورسٹی میں کچھ ہوا تھا کیا؟؟؟“ حارث نے اُس کے جواب نہ دینے پر نرمی سے پوچھا۔۔۔”نہیں بھائی کچھ نہیں ہوا بس میں گھبرا گئی تھی۔ بارش بھی بہت تیز ہو رہی اور یونی بھی خالی تھی تو مجھے ڈر لگنے لگا“۔ حارث کے پوچھتے ہی نور نے اُس کے سوال سے زیادہ وضاحت دی تاکہ اُسے شک نہ ہو مگر کب تک ؟؟؟ کب تک وہ یہ بات سب سے چھپائے گی۔ سکندر صاحب تو پہلے ہی اُس کے آگے پڑھنے کے خلاف تھے اور اگر اُنہیں یہ بات پتا چل جائے تو وہ اُسے زندہ دفن کردیں گے۔ کوئی بھی اُس کی بات کا یقین نہیں کرے گا۔ یہ سوچ آتے ہی اُس کی آنکھیں سے پھر سے آنسوؤں سے بھر گئیں۔۔۔” نور کیا ہوا ہے؟ میری گڑیا کوئی مسئلہ ہے یا کسی نے کچھ کہا ہے تو مجھے بتاؤ“۔ حارث کو اُس کے بار بار رونے پہ پریشانی ہونے لگی اسی لیے اُس نے اپنی بات پھر سے دوہرا کر پوچھی۔۔۔”نہیں بھائی کچھ نہیں ہے۔ آپ کو پتا تو ہے مجھے بارش سے کتنا ڈر لگتا ہے اور شام بھی ہو گئی تھی اندھیرا ہو رہا تھا“۔ اپنے آنسو صاف کرتے اُس نے خود کو مزید رونے سے روکا۔”ہاں جانتا ہوں اندھیرے میں تمہاری جان نکل جاتی ہے۔ ویسے حد ہے نور خود کو تھوڑا مضبوط کرو۔ دیکھو تمہاری جیسی ہی لڑکیاں ہوتی ہیں جو اکیلے پوری دنیا گھوم آتی ہیں“۔ اب کی بار حارث نے اُسکی بات پر مسکراتے ہوئے مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کی جو اکثر ہی وہ بات بات پر کرتا تھا۔”جی اُن کے ابو میرے ابو جیسے نہیں ہوتے تب ہی وہ دنیا گھوم آتی ہیں“۔ نور نے تلخ ہوتے سکندر صاحب کا حوالہ دیا تو حارث بھی اُسکی بات سنتے چپ ہو گیا۔ ”اچھا چھوڑو یہ سب یہ بتاؤ کوئی دوست بنائی یا نہیں ؟“ حارث نے اپنے دو مہینے سے پوچھے جانے والے سوال کو پھر دوہرایا۔۔۔”نہیں ابھی تو نہیں بنائی“ نور کا دھیان اب مکمل طور پر حارث کی طرف تھا۔ ”تو بنا لو دو مہینے سے تمہیں کہہ رہا ہوں پر تم ہو کہ سنتی ہی نہیں اور دیکھو آج وہاں تمہاری کوئی دوست ہوتی تو تم اتنا پریشان نہ ہوتیں“۔ حارث نے ہمیشہ کی طرح اُسے چھوٹے بچوں کی طرح نصحیتں شروع کی تو نور بھی مسکراتے ہوئے اُس کی باتوں کا جواب دینے لگی اور اگلے آدھے گھنٹے میں ڈرپ ختم ہوئی تو حارث اُسے لے کر گھر آیا جہاں سکندر صاحب کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا...”کہاں سے آرہی ہو تم ؟؟“ اُنہوں نے حارث کو نور کا ہاتھ پکڑے اندر داخل ہوتا دیکھ کر چیخ کر پوچھا۔۔۔”وہ ابو حاشر کی بائیک خراب ہو گئی تھی تو مجھے یونیورسٹی پہنچتے دیر ہو گئی“۔ نور کی بجائے حارث نے جواب دیا تو سکندر صاحب نے ہاتھ کے اشارہ سے روکا۔”میں نے تم سے بات نہیں کی اس سے کر رہا ہوں“۔ نور جو پہلے ہی ڈری ہوئی تھی سکندر صاحب کی گرج سے مزید سہم کر حارث کہ پیچھے چھپ گئی۔۔۔۔”ابو میں آپ کو بتا رہا ہوں نا مجھے دیر ہو گئی تھی اور راستے میں اتنی بارش اور ٹریفک تھی کہ...“ میں نے تم سے نہیں پوچھا نور العین تم جواب دو۔سکندر صاحب کو پتا تھا کہ حارث نور کی غلطی ہوتے ہوئے بھی اُنہیں بھنک تک نہیں پڑنے دے گا۔ تب ہی اُنہوں نے سہمی کھڑی نور کو مخاطب کیا۔ جو تھی تو اُن کی بیٹی ہی مگر اس کی پیدائش کہ کچھ دیر بعد ہی عالیہ بیگم کی موت نے سکندر صاحب کو ہمیشہ کے لیے نور سے بدگمان کر دیا تھا۔وہ ہمیشہ اُس کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو پکڑ کر یونہی شروع ہو جاتے تھے۔۔۔”نور تم اپنے کمرے میں جاؤ“۔ حارث نے اُس کی طبیعت کہ پیش نظر سکندر صاحب کی پروا کیے بغیر اُس سے کہا جو اُسکی بات سنتے ہی جلدی سے اپنا بیگ تھامے سڑھیاں چڑھتے اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔”ابو کیا ہوجاتا ہے آپ کو؟؟ کیوں آپ اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ہر وقت اور میں نے جب آپکو بتایا کہ غلطی میری اور حاشر کی تھی تو آپ اُسے کیوں ڈانٹ رہے ہیں“۔ حارث نے اُن کے سامنے آکر غصے کے باوجود نرمی سے بتایا۔۔۔”مجھے اس لڑکی پہ ذرہ برابر اعتبار نہیں یہ پیدا ہوتے ہی اپنی ماں کو نگل گئی اور اب ہمیں بھی کسی قابل نہیں چھوڑے گی“۔ سکندر صاحب نے اپنی بہن کی پڑھائی ہوئی پٹی پر بولتے ہوئے (جو نور کی پھوپھو ہونے کے ساتھ ساتھ طلاق یافتہ ہو کر اپنی ایک بیٹی سارہ کہ ساتھ پچھلے بیس سال سے سکندر صاحب کہ ہی گھر میں موجود اپنی پوری حکمرانی جمائے بیٹھی ہمیشہ سارہ کو اچھا اور نور کو سکندر صاحب کی نظروں میں گرانے کی کوشش میں لگی رہتیں) حارث کو مزید غصہ دلایا۔۔۔”پہلی بات یہ کہ امی کو نورالعین کی وجہ سے کچھ نہیں ہوا تھا۔ وہ پہلے ہی مختلف بیماریوں میں مبتلا تھیں اور دوسری بات زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس میں کسی انسان کا قصور نہیں۔ باقی مجھے یقین ہے کہ میری بہن کبھی ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جس کی وجہ سے مجھے یا آپ کو شرمندگی ہو“۔ دو ٹوک جواب دیتے وہ سکندر صاحب کو مزید کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر سڑھیاں چڑھتے اوپر نور کے کمرے میں آگیا تاکہ اُسے دیکھ سکے۔۔۔”اس کا بھی دماغ ٹھیک کرنا ہی پڑے گا مجھے“۔  اُسے سڑھیاں چڑھتے دیکھ سکندر صاحب نے خود کلامی کی اوراپنے کمرے میں چلے گئے۔۔۔”بس کرو رونا پہلے ہی طبیعت خراب ہے“۔ حارث نے اُس کے کمرے میں آتے اُسے گھٹنوں پہ سر رکھے روتا دیکھ کر ڈانٹا۔ ”آپ نے ابو کو کیوں نہیں بتایا کہ ہم ہسپتال میں تھے؟“ نور نے ہچکیوں کے درمیان اُس سے پوچھا۔۔۔”اس لیے کہ وہ مزید کوئی اور ایشو بنا کر تمہیں نہ ڈانٹیں۔ شکر کرو پھوپھو اور سارہ گھر پہ نہیں تھیں ورنہ آج تمہارے ساتھ ساتھ ابو نے میری بھی طبیعت صاف کر دینی تھی“ اُس کے آنسو صاف کرتے وہ مسکراتے ہوئے اُسے ڈرنے کی کوشش کرنے لگا تو نور نے سوچتے ہوئے جھرجھری لی۔ ”بھائی پلیز نہ تنگ کریں پہلے ہی ابو کہ غصے کو دیکھ کر میری جان نکلی ہوئی ہے“ کہتے ہوئے اُس نے حارث کہ ہاتھ میں پکڑا پانی کا گلاس لبوں سے لگایا۔۔۔”بس کرو اور نہ ڈرا کرو اتنا یہ جو تم بات بات پہ رونے لگ جاتی ہو نا پھوپھو اور سارہ کو اسی لیے اتنی شہ ملی ہوئی ہے۔ اُن سے زیادہ یہ گھر تمہارا ہے۔ اس لیے خود کو مضبوط کرو اور اپنے حق کے لیے لڑنا سیکھو“۔ اب کی بار حارث نے تھوڑی سختی سے بات کی وہ نور کی رونے والی عادت سے بے حد عاجز تھا۔۔۔”ہوننہہ....!! ابو نے کبھی مجھے حق ہی نہیں دیا کہ میں اس گھر کو اپنا کہہ سکوں اور ویسے بھی اب ایک مہینہ ہی کی تو بات ہے۔ میں ابو سیمت آپ سب کی جان چھوڑ دوں گی“۔ نور نے اپنی شادی کا حوالہ دیا جو حارث کی بے جا مخالفت کہ باوجود بھی سکندر صاحب نے طے کر دی تھی اور اس شرط پہ ہی نور کو یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینے کی بھی اجازت ملی تھی۔۔۔”یہ گھر ہمیشہ تمہارا ہی رہے گا شادی کے بعد بھی۔ میں اور حاشر جب تک زندہ ہیں تمہیں کبھی بھی کوئی تکلیف نہیں آنے دیں گے اور یہ حاشر سے یاد آیا یہ بدتمیز ہے کہاں ابھی تک گھر نہیں آیا“۔ حارث نے بات کرتے کرتے حاشر کی غیر موجودگی کا نوٹس لیا اور نور کو اب کچھ دیر آرام کرنے کا کہتے خود حاشر کو کال کرنے کی غرض سے باہر آگیا۔۔

قسط نمبر: 4

 ”میں حارث بھائی کو سب بتا دوں۔۔؟“ نور نے اپنے آپ سے سوال کیا مگر پھر حارث کے ردعمل اور خود سے بدگمان ہونے کا سوچتے اُس نے اپنا ارادہ ترک کیا۔ اب بس ایک ہی شخص تھا جسے وہ یہ سب بتا سکتی تھی اور وہی اُس کی کوئی مدد کرسکتا تھا۔۔۔آرجے کا خیال ذہن میں آتے ہی اُس کہ جسم میں جان آئی۔ اُس نے جلدی سے اپنا موبائل بیگ سے نکال کر چارجنگ پہ لگایا اور اُسے آن کرتے ”کہاں ہیں۔۔۔؟“ کا میسج ٹائپ کرتے آرجے کو سینڈ کیا جس کا جواب اُس کی امید کے مطابق فورا ہی آگیا۔”میں اسی دنیا میں ہوں پر تم کہاں ہو ایک گھنٹے کا بولا تھا تم نے اور اب پورے تین گھنٹے بعد میسج کیا ہے“ غصے والے ایموجی کے ساتھ اُس نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تو نور نے اُسے اپنی طبیعت خرابی کا بتایا جس پر وہ اب پریشان ہونے کے ساتھ ساتھ اُسے اپنا خیال نہ رکھنے پر ڈانٹ رہا تھا۔۔۔۔”اُففف آرجے بس کریں اب کیوں ڈانٹ رہے ہیں مجھے میری پہلے ہی طبیعت خراب ہے اوپر سے حارث بھائی کو بھی میری وجہ سے اتنا کچھ سننا پڑا ابو سے۔“نور نے اُس کے نان اسٹاپ نصیحتوں اور مشوروں سے بھرے میسج آتا دیکھ غصے سے بھرا میسج کرتے اُس کو بریک لگانے کا کہا۔”میں ڈانٹ نہیں رہا مجھے فکر ہو رہی تھی تمہاری مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ تم ٹھیک نہیں ہو اور میں کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ اپنے ابو کو اُن کے حال پہ چھوڑ دو۔ان کی باتوں کو دل پہ نہ لیا کرو۔۔“آرجے نے پھر سے اپنا لیکچر شروع کیا تو نور نے زچ ہو کر اُس کے آگے ہاتھ جوڑے ایموجی سینڈ کیا۔۔۔”ہوننہ اُٹھ جاؤ کچھ کھاؤ اور بس اپنا خیال رکھو۔ کھانا کھا کہ بتا دینا میں پھر کھاؤں گا۔۔“”اُففف آرجے ایک تو میں آپ کی اس عادت سے تنگ ہوں“ نور نے اُس کی بات پر مسکراتے ہوئے میسج ٹائپ کیا۔”تو مجھے اچھی لگتی ہے اپنی یہ عادت تمہاری فکر میں نہیں کروں گا تو تمہیں تو اپنی کوئی پروا ہے نہیں“. اُس نے ایک بار پھر سے اپنا پسندیدہ کام شروع کیا تو نور بھی اب سب بھلائے اُسے تسلی دینے لگی کہ وہ ٹھیک ہے پر وہ جانتی تھی کہ اب وہ نہ ساری رات خود سوئے گا نہ اُسے سونے دے گا....زین....( آرجے کا اصل نام زین تھا مگر لوگ اُسے زیادہ تر آرجے کے نام سے ہی جانتے اور پہچانتے تھے تب ہی نور بھی اُس کے اصل نام کی بجائے اُسے آرجے کہہ کر پکارتی) سے اُس کی بات فیس بک پر ہوئی۔ جو چند مہینوں میں ہی دوستی کہ ساتھ ساتھ اعتبار اور یقین کے ایسے رشتے میں بندھی کہ نور اپنی ہر بات اور پریشانی اُس سے شیئر کرنے لگی۔ زین بھی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اُس کو بتاتا۔ ان چار سالوں میں وہ دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہونے کے باوجود بھی اپنی حددو میں رہے کیونکہ نور نے زین کو پہلے ہی اپنی بچپن کی منگنی کے بارے میں بتا دیا تھا۔۔۔سکندر صاحب دو بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ والدصاحب کا کپڑے کا اچھا خاصہ کاروبار ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے بچپن کافی خوشحالی میں گزارا مگر کاروبار دونوں بھائیوں کہ ہاتھوں میں جاتے ہی اُن کی لاپروا طبیعت کی وجہ سے برباد ہونے میں چند مہینے لگے تب ہی وہ باقی زمینوں وغیرہ سے اپنا حصہ لے کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ماں باپ اور دو بہنوں کا بوجھ سکندر صاحب پر ڈال کر دوسرے شہروں میں آباد ہو گئے۔ ان حالات میں سکندر صاحب نے اپنے حصہ کی رقم سے دوبارہ سے کپڑے کا کاروبار شروع کیا جو صدیق صاحب (سکندر صاحب کے والد)کی اچھی جان پہچان اور سکندر صاحب کی اپنی نرم اور مخلص طبیعت کی وجہ سے دن بدن ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔بہنوں کا فرض ادا کرنے کے بعد صدیق صاحب نے اپنے ہی ایک دوست کی بیٹی سے سکندر صاحب کی شادی کی جن کی آمد سے گھر کے ساتھ ساتھ کاروبار میں بھی مزید وسعت آئی۔ عالیہ بیگم خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سمجھ بوجھ رکھنے والی خاتون تھیں اُنہوں نے سکندر صاحب کا زندگی کے ہر موڑ پر ساتھ دیا۔ دو سال بعد اللہ نے پہلی اولاد حارث کی شکل میں دی تو سکندر صاحب کے ساتھ ساتھ صدیق صاحب اور عذرہ خاتون(سکندر صاحب کی والدہ) بھی بہت خوش تھیں۔ گھر میں ننھے مہمان سے جیسے بہار سی آگئی تھی۔ فریحہ اور رافعہ (سکندر صاحب کی بہنیں )بھی بھتیجے کی پیدائش پر کافی خوش تھیں تب ہی اللہ نے فریحہ پر بھی چار سال بعد اپنا کرم کیا اور حارث کے ایک سال کے ہوتے ہی فریحہ کی گود بھی ننھی سی سارہ آگئی جس کے پیدا ہوتے ہی سکندر صاحب نے اپنے صاحبزادے کے لیے سارہ کو چُنا۔ وقت ایسے ہی تیز رفتاری سے گزارا اور دوسال بعد اللہ نے سکندر صاحب کو ایک اور پیارے سے بیٹے سے نوازا جس کی پیدائش پر اُنہوں نے خوشی کا اظہار کرتے اللہ سے بیٹی کی دعا کی اُنہیں شروع سے ہی بیٹیاں بہت پسند تھیں....حاشر کی پیدائش کہ بعد وہ ہر وقت عالیہ بیگم سے یہ بات کہتے کہ اب اللہ مجھے بیٹی دے دے پر چار سال تک اللہ نے اُن کی یہ دعا قبول نہیں کی اور ان چار سالوں میں صدیق صاحب کے ساتھ ساتھ عذرہ بیگم بھی اُن کا ساتھ چھوڑ کر ابدی نیند سو چکی تھیں۔ حارث کے ساتھ ساتھ حاشر بھی اسکول جانے لگا تو ایک بار پھر سے عالیہ بیگم کی گود ہری ہوئی اور اس بار سکندر صاحب کی خوشی پہلے سے کہیں زیادہ تھی کیونکہ اس بار ڈاکٹر نے بیٹی کا بتاتے اُن کی اتنے سالوں کی خواہش کو پورا کر دیا تھا۔ اُنہیں بے صبری سے اپنی ننھی پری کا انتظار تھا۔ جو چند مہینوں بعد اس دنیا میں آئی تو عالیہ بیگم جیسے نقش اور اپنی بڑی بڑی بھوری آنکھوں اور دودھیا رنگت سے وہ سکندر صاحب کے ساتھ ساتھ حارث اور حاشر کو بھی کسی گڑیا جیسی لگی مگر عالیہ بیگم کی بگڑتی حالات کی وجہ سے سب ہی اُس گڑیا کو بھول گئے۔  نور العین (جس کا نام بھی سکندر صاحب نے خود رکھا)کی پیدائش کے کچھ گھنٹے بعد ہی عالیہ بیگم اُن سب کو روتا چھوڑ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلی گئیں تب ہی سب خاندان کے ساتھ ساتھ فریحہ نے بھی نور کو منحوس قرار دیتے سکندر صاحب کا دل اُس کی جانب سے بدگمان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن رافعہ نے اپنی صالح طبیعت کے پیش نظر سکندر صاحب کو سمجھایا اور پانچ مہینوں تک نور کا خیال رکھا۔ جو ماں کے لمس تک کو نہ پا سکی...سکندر صاحب نے سب کے کہنے کے باوجود بھی دوسری شادی نہیں کی اور نور کے لیے ایک آیا کا انتظام کیا مگر حارث سکول سے آتے ہی سارا وقت نور کے ساتھ رہتا اور خود اُس کے سارے کام کرتا (وہ شروع سے ہی ایک سمجھ دار بچہ تھا جو آٹھ سال میں ہی ماں کے بچھڑنے پر خود کو سنبھالتے اپنے دونوں چھوٹے بہن بھائی کو دیکھتا اُن کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا) کیونکہ وہ نرم سی گڑیا اُسے شروع دن سے ہی بہت پسند تھی اور نور بھی حارث کے لمس اور آواز سے اتنی مانوس تھی کہ اُس کے گھر آتے ہی وہ اپنے ننھے ہاتھ پاؤں چلانے لگتی۔ سکندر صاحب عالیہ بیگم کی وفات کے بعد بالکل بکھر چکے تھے اور اپنے کاروبار کو بھی دوسروں کے آثارے پہ چھوڑے خود سارا دن کمرے میں بند رہتے مگر رافعہ کے سمجھنے پر اُنہوں نے خود کو سنبھالا اور پھر سے اپنے کاروبار کو دیکھنے لگے تب ان ہی دنوں میں فریحہ کے شوہر نے دوسری شادی کرنے کے ساتھ ساتھ اُنہیں طلاق کا تحفہ دیتے سات سالہ سارہ کے ساتھ رات کے پہر گھر سے نکالا تو وہ سکندر صاحب کے در پر آبیٹھیں۔ بیوی کے غم کے بعد اب بہن کا دکھ سکندر صاحب کو آدھا کر گیا۔ اُنہوں نے فریحہ کو اپنے ہونے کا یقین دلاتے حوصلہ دیا اور کچھ سالوں تک دوسری شادی کے لیے بھی کہتے رہے مگر فریحہ نے انکار کرتے اب اُن کے بچوں کی بھی ذمہ داری لے لی سارا گھر اب فریحہ بیگم چلاتی تو سکندر صاحب بھی کچھ سال کہنے کے بعد خاموش ہو گئے...نور اب چار سال کی ہو چکی تھی اور اُس نے بھی حاشر کے ساتھ اسکول جانا شروع کر دیا جو حارث کے بر عکس شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ سکندر صاحب کے لاڈ پیار کی وجہ سے کافی ضدی بھی تھا۔ شروع شروع میں وہ نور کا کافی خیال رکھتا مگر پھر اپنی لاپروا طبیعت کی وجہ سے وہ اُس پر بالکل دھیان نہیں دیتااور گھر میں بھی سکندر صاحب کی ہر وقت ڈانٹ اور فریحہ بیگم کی روک ٹوک اور ہر وقت سارہ کو اُس پر ترجیح دینے اور سکندر صاحب کے سامنے نور کو بُرا بنانے کے چکر میں لگے رہنے کی وجہ سے وہ بہت چڑچڑی ہو گئی ہر وقت چپ چاپ گھر کے  کسی کونے میں بیٹھی رہتی یا پھر بات بات پر رونے لگتی۔ اسکول سے بھی مسلسل آتی شکایت پر جہاں سکندر صاحب نے نور کو ڈانٹا وہیں حارث نے اُس چھوٹی معصوم سی اپنی بہن کو سینے سے لگاتے ماں باپ بہن بھائی سب کا فرض ادا کرنے کا سوچ لیا اب وہ کالج سے آتے خود نور کو پڑھاتا۔ اُسکے ساتھ کھیلتا اُسے وقت دیتا اور حارث کو دیکھتے حاشر بھی اب نور العین کا خیال کرنے لگا مگر اتنے سال گزرنے کے باوجود بھی سکندر صاحب کے لہجے میں کوئی نرمی نہیں آئی اور اگر کبھی آبھی جاتی تو فریحہ بیگم پھر سے اُن کے کان بھرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔۔۔

قسط نمبر: 5

(سرپرائز ایپیسوڈ)”یار بس کرو،کب تک ایسے گھن چکر بنے پھیرتے رہو گے؟“ زارون نے عالیان کو پچھلے دو گھنٹے سے فلیٹ میں ادھر سے اُدھر چکر لگاتا دیکھ کر ٹوکا۔۔۔۔”تو اور کیا کروں بھنگڑے ڈالوں کے میرے یار نے زبردستی ایک لڑکی کی زندگی تباہ کر دی“ زارون کی بات سنتے ہی عالیان جو پہلے ہی تپا ہوا تھا اُس نے مزید جلتے ہوئے کہا۔”تو ڈال لو اس میں کیا ہے اور زبردستی کس بات کی نور میری تھی اور ہمیشہ میری ہی رہے گی“ اس کے غصے کی پروا کیے بغیر زارون نے کندھے اچکاتے جواب دیا تو عالیان کو اُس کا اتنا پرسکون ہو کر جواب دینا زہر لگا...”یار ویسے ایک بات بتاؤ ؟؟“ اب کی بار اُس نے زارون کے قریب صوفے پر بیٹھتے سوال کیا...”ہاں ایک کیا دو پوچھ لو“ نظریں ٹی وی کی سکرین پر جمائے اُس نے لاپروائی سے اجازت دی...”کیاتمہیں اپنے عمل پر ذرہ برابر بھی افسوس نہیں ہے؟“ عالیان نے ریموٹ اُس کے ہاتھ سے جھپٹ کر ٹی وی بند کرتے سنجیدگی سے سوال کیا....”کیوں ؟افسوس کس بات کا اپنی محبت کو حاصل کرنا کونسا گناہ ہے اور میں نے نکاح کیا ہے کوئی اُسے اُٹھا نہیں لایا جو تم بار بار اٖیسی باتیں کرکے مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہو“۔ غصے سے ریموٹ اُس کے ہاتھ سے لیتے وہ دنیا جہاں کا غرور اپنی آنکھوں میں لیے بولا تو عالیان کو اُسکی سوچ اور رویہ پر افسوس کہ ساتھ ساتھ غصہ بھی آیا....”قسم سے زارون اگر مجھے پتا ہوتا نا کہ تم اس لیے مجھے یونیورسٹی لے کر جا رہے ہو تو میں کبھی تمہارے ساتھ نہ جاتا۔ مجھے تو بار بار اُس لڑکی کا رونا اور فریاد کرنا یاد آرہا ہے۔ تم نے اچھا نہیں کیااور ویسے تو تم بہت اصول پسند ہو کبھی کسی غیر قانونی کام میں کسی کا ساتھ نہیں دیتے تو اب اپنی دفعہ تم نے ایسا کیوں کیا؟تم اُس کے گھر رشتہ بھی تو بھیج سکتے تھے نا۔۔؟“ (عالیان جسے زارون نے ایمرجنسی میں یونیورسٹی پہنچنے کا کہاتھا اُسے بالکل بھی خبر نہیں تھی کہ زارون کو ئی ایساکام کرنے جا رہا ہے )اُس نے اپنے ذہن میں آتے کئی سوالوں میں اسے ایک سوال پوچھا جو ضروری تھا....”ہاں پر مجھے پتا تھا اُس کے گھر والے کبھی نہیں مانیں گے اور گھر والے دور کی بات نور خود بھی کبھی نہیں مانتی کیونکہ وہ اپنے باپ اور بھائیوں کے لیے اپنی محبت کیا اپنی جان تک قربان کر سکتی ہے اور پچھلے دس سال سے میں محبت کرتا ہوں اُس سے بلکہ محبت کیا؟ عشق ہے مجھے اُس سے وہ بھی جنون کی حد تک اور تم تو جانتے ہو میں تو اپنی چیزوں کے معاملے میں کبھی کوئی لچک نہیں لیتا اور وہ تو پھر میری محبت ہے۔ اذیت دے رہا تھا مجھے بار بار اُس کا نام کسی اور کے نام کے ساتھ سننا“ یہ سب بتاتے غصے کے مارے اُس کی آنکھیں سرخ ہونے لگی تو عالیان نے اپنے جان سے پیارے دوست کی یہ حالت دیکھ کر خاموشی اختیار کی کیونکہ اب تو جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔۔۔”اچھا بس تم اب پریشان نہ ہو اور بتاؤ آگے کیا کرنا ہے؟“ شام والی بات پر مٹی ڈالتے اُس نے زارون سے آگے کا پروگرام پوچھا....”کچھ نہیں بس اب مجھے جلد از جلد نور کو اپنے پاس اپنے گھر میں لے کر آنا ہے اور کیسے یہ میں تمہیں کچھ دن میں بتا دوں گا“صوفے کی بیک سے ٹیک لگاتے اُس نے کہا تو عالیان نے اثبات میں سر ہلایا اور مزید کچھ کہے بغیر کچن میں چائے بنانے چلا گیا۔۔۔۔۔زارون علی جس کا تعلق ایک جاگیر دار گھرانے سے تھا۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے وہ بچپن سے ہی بڑی مغرور طبیعت کا مالک تھا۔ جو چیز پسند آجاتی وہ اُسے ہر حال میں چاہیے ہوتی اور ہتشام صاحب نے بھی آج تک اُسے کسی چیز کی کمی نہیں آنے دی اُس کی زبان سے نکلی ہر خواہش کو پلک جھپکتے پورا کر دیا جاتا۔ نور کو اُس نے پہلی بار عالیان کے کالج میں دیکھا تھا۔ اُُس وقت وہ تقریبا بارہ سال کے قریب تھی اور شائد وہ کسی کے ساتھ آئی تھی اور اب اُس کے نہ ملنے کی وجہ سے مسلسل رو رہی تھی۔ زارون جس کی عمر اٹھارہ سال تھی( عالیان جو اُس کا دوست تھا مگر چونکہ زارون کو یہ کالج پسند نہیں تھا۔ اس لیے ہتشام صاحب نے اُسکا ایڈمیشن دوسرے کالج میں کروا دیا مگر گھر ساتھ ساتھ ہونے کی وجہ سے اُن میں ابھی بھی کافی دوستی تھی اور آج عالیان کی گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے اُس نے زارون کو کال کرتے پک کرنے کا کہا ) اُس کا دل بس نور کی معصومیت اور گلابی نرم گالوں پر اٹک سا گیا تھا۔ اُس نے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر آگے قدم بڑھائے مگر اُس سے پہلے ہی ایک لڑکا اُس کے قریب آیا (جو شکل سے اُس کا بھائی لگ رہا تھا)اور اُسے چپ کرواتے اپنے ساتھ لے گیا پر زارون کا دل جیسے کسی نے اپنی مٹھی میں قید کر لیا ہو۔ اُس نے جلدی سے باہر کی طرف قدم بڑھائے پر اُس سے پہلے ہی حارث نور کو اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھا کر لے جا چکا تھا۔ اگلے دن زارون نے عالیان کے کالج میں آتے ہی اُس لڑکے کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی( جس کا نام تک بھی وہ نہیں جانتا تھا )مگر ایک ہفتے بعد تک اُس کی ہر کوشش بے کار گئی...اُس نے کافی لڑکوں سے جاننے کی بھی کوشش کی مگر کسی کو بھی اُس کے بارے میں نہیں پتا تھا تب ہی وہ مایوس ہوئے بغیر اُسے ایک مہینے تک تلاش کرتا رہا مگر اُسے لگ رہا تھا جیسے وہ اُس دن کے بعد کالج ہی چھوڑ گیا یا پھر وہ کالج کا اسٹوڈنٹ تھا ہی نہیں پر زارون نے تب بھی امید نہیں چھوڑی اورعالیان کے ساتھ مل کر کالج میں کافی لوگوں سے اُس کے بارے میں پوچھا پر مسئلہ یہ تھا کہ اُسے اُس لڑکے کا نام معلوم نہیں تھا اور نہ ہی یہ پتا تھا کہ وہ کونسی کلاس میں ہے۔ دو مہینے بعد بھی کوئی سرا ہاتھ میں نہ آتے دیکھ وہ کچھ مایوس ہوا اور ویسے بھی اُسے اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے لیے کچھ ہی دنوں میں مانچسڑ جانا تھا۔ اسی لیے وہ وقتی طور پر یہ سب بھلائے اپنی تیاری میں لگ گیا مگر آج اتنے سال بعد بھی وہ اُس چہرے کو بھولا نہیں سکا تھا اور ابھی کچھ سال پہلے جب وہ پاکستان واپس آیا تو اُس نے عالیان کے ساتھ مارکیٹ میں اُسے دیکھا (جس نے پچھلے چھ سالوں میں ایک سکنڈ بھی اُسے سکون لینے نہیں دیا )جو اب بھی اُسی دن کی طرح اپنے کھوجانے پر رو رہی تھی اوربڑی ہونے کے باوجود بھی بچپن والی معصومیت ابھی بھی اُس کے چہرے پر باقی تھی...زارون نے عالیان کو پیچھے چھوڑتے جلدی سے قدم اُس کی جانب بڑھائے کیونکہ اب وہ اس موقع کو اپنے ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا پر اس سے پہلے ہی ایک لڑکی اور ایک عورت اُس کے قریب آئیں اور وہ اُن کی طرف بڑھتے ہی عورت کے گلے لگتے پھر سے رونے لگی....”نور کیا ہو گیا ہے کیا بچوں والی حرکت ہے یہ، ہم دونوں یہی پر ہی تھے“ عورت نے اُسے لوگوں کی وجہ سے خود سے الگ کرتے سمجھایا تو اُسکا نام زارون کے کانوں میں پڑا۔” زارون کیا ہوا ہے یہاں کیوں کھڑے ہو؟“ عالیان جو زارون کے ساتھ ہی مانچسڑ میں اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے لیے گیا تھا اور اتنے سال ساتھ رہنے کی وجہ سے اُن کی دوستی مزید گہری اور پختہ ہو چکی تھی۔ ”کچھ نہیں بس وہ  نور۔۔۔۔“ زارون نے پیچھے موڑتے اُسے جواب دیا اور دوبارہ پلٹ کر دیکھا تو وہ وہاں موجود نہیں تھی...”کون نور۔۔۔؟“عالیان نے زارون کے منہ سے زندگی میں پہلے بار ایک لڑکی کا نام سنتے حیرت سے پوچھا...”کہاں گئی اُففف تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے وہ پھر سے آج گم ہو گئی ہے“زارون کو عالیان پر تپ چڑھی تو اُسے زارون کی بے چینی دیکھتے سمجھ آئی کہ وہ یہ کالج والی ہی لڑکی تھی جس نے اتنے سالوں سے زارون کے دل ودماغ پر قبضہ کیا ہوا تھا۔۔۔۔”مطلب میری ہونے والی بھابھی آخر تمہیں مل ہی گئی پر تم نے اتنے سالوں بعد بھی اُسے کیسے پہچان لیا؟“ زارون کو ایک طرف بڑھتا دیکھ کر عالیان نے تجسس سے پوچھا...”بھاڑ میں جاؤ تم. وہ بڑی ضرور ہوئی ہے پر بدلی نہیں۔ اب زیادہ بولو مت اور ڈھونڈو اُسے“ رک کر عالیان کی بات کا جواب دیتے اُس نے آنکھیں نکالتے کہا تو عالیان بھی خاموشی کے ساتھ زارون کے پیچھے چلتے ایک بار پھر سے نور کو تلاش کرنے لگا۔۔۔

قسط نمبر: 6

کہاں تھے تم۔۔۔۔؟“حارث جو کب سے حاشر کو کال کر رہا تھا مگر وہ ریسیو کرنے کی بجائے بار بار کاٹ رہا تھا اور اب آدھے گھنٹے بعد وہ انگلی میں چابی گھوماتے گھر کے اندر داخل ہوا۔۔۔۔”مطلب کہاں تھا میں نے بتایا تو تھا کہ با ئیک خراب ہے میری ۔۔۔“ حاشر نے حارث کی بات سنتے لاپروئی سے بتایا۔۔۔”بائیک خراب تھی یا نئی بناوا رہے تھے جو اتنا ٹائم لگا اور جب میں نے تم سے کہا تھا کہ نور العین کو وقت پر یونیورسٹی سے پک کر لینا تو کیوں نہیں کیا تمہیں پتا ہے آج تمہاری وجہ سے اُس کی کتنی طبیعت خراب ہوئی ہے بے ہوش ہو گئی تھی وہ پریشانی سے۔۔۔۔“ حارث نے سختی سے مگر اپنی آواز آہستہ رکھتے ہوئے حاشر کو اُس کی غلطی کا احساس دلانے کی کوشش کی ۔۔۔”بے ہوش کیسے ہو گئی کیا ہوا تھا اور ایک تو اس کی پریشانیاں اور ڈر توبہ ہے انسان خود کچھ ہمت کر لیتا ہے اور میں اس کے موبائل پر کال کر رہا تھا پر وہ بند تھا تب ہی میں نے تمہارے نمبر پہ کال کر کہ بتایا۔۔۔“ حاشر نے شرمندہ ہونے کی بجائے احسان جتانے والے انداز میں کہا تو حارث کو مزید غصہ آیا جو وہ فریحہ بیگم اور سارہ کو آتا دیکھ ضبط کر گیا۔۔۔۔۔”یہ تم دونوں کیا کھچڑی پکارہے تھے اور میرے آتے ہی چپ کیوں ہو گئے“فریحہ بیگم نے اُن دونوں کو مشکوک انداز میں دیکھتے پوچھا تو حارث نے حاشر کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔”وہ پھو پھو ہم سوچ رہے تھے کیوں نہ آپ کو اب تمام کاموں سے آزادی دے دی جائے،میرا مطلب ہے آپ ایسا کریں حارث اور نور العین کہ ساتھ ساتھ میرے بھی ہاتھ پیلے کر دیں ایک ساتھ دو دو بہوؤ آئیں گئی تو سوچیں آپ کو کتنا فائدہ ہو گا ویسے بھی اس سارہ کو تو کچھ آتا نہیں ہو سکتا ہے میرے والی ہی کام کی نکل آئے۔۔۔“ حاشر نے اُن کا دھیان بٹانے کے لیے بات کا رخ بدلا تو سارہ نے اپنی تعریف پر اُسے گھورتے ہوئے کمرے کا رخ کیا اور فریحہ بیگم حاشر کی بات پر اُسے ایک چیت رسید کرتے سارہ کی خوبیاں گنوانے لگیں۔۔۔۔۔اگلا ایک ہفتہ نور فریحہ بیگم کے کہنے پر یونیورسٹی نہیں گئی  اور آج حارث کی ڈانٹ پر وہ یونی آئی تو اُسکی نظریں بس سب کی آنکھوں پہ ٹکی تھیں وہ ہر چہرے میں اُس شخص کا چہرہ تلاش کر رہی تھی جس نے اُسے ایک ہفتے سے پریشان کیا ہوا تھا۔۔۔ ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی اُسے گھبراہٹ ہونے لگی کہ کوئی اُسے پہچان نہ لے یا اُس دن کہ واقعے کا ذکر کرتے اُس سے کوئی سوال نہ پوچھ لے اسی لیے وہ سرجھکائے جلدی سے اپنی کلاس کی جانب بڑھی پر اُس سے پہلے ہی میم فاطمہ نے اُسے آواز دی جس پر اُس کے قدموں کے ساتھ ساتھ دل بھی تھم سا گیا اُسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ ضرور اُس دن کے متعلق اُس سے کچھ پوچھیں گئیں۔۔۔”جی میم۔۔۔۔۔“ اُس نے حوصلہ کرتے رخ موڑا۔۔۔۔”نور آپ کا فارم ابھی تک جمع نہیں ہوا اور آج لاسٹ ڈیٹ ہے اس لیے آج ہر حال میں مجھے سبمیٹ کروا کہ جائیے گا۔۔۔۔“ اپنی بات کہتے وہ آگے بڑھ گئیں تو نور نے اپنی رکی ہوئی سانس بحال کی ۔۔۔۔”اللہ پلیز میری مدد کریں ،مجھے اس مصبیت سے نکال دیں ۔۔۔“ دل میں دعا کرتے اُس نے کلاس میں قدم رکھا اور اُس دن کا تمام منظر ایک بار پھر سے اُسکی نظروں کے سامنے گھوم گیا۔۔۔اپنی چیئرسنبھالتے اُس نے اپنی آنکھوں کو بھی آنسو بہانے سے روکا اور موبائل نکالتے بلاوجہ ہی اُس میں چیزیں دیکھنے لگی تب ہی ایک لڑکی جو اُس کہ قریب بیٹھی تھی اُس نے اُسے مخاطب کیا۔۔۔۔”جی۔۔۔۔۔۔“ نور نے سر اُٹھاتے اُسے دیکھا ۔۔۔”آپ کی کوئی فرینڈ نہیں ہے کیا۔۔۔۔؟“ اُس نے سوال پوچھتے نور کی نظروں میں سوال دیکھ کر ساتھ وضاحت بھی دی ۔۔۔”وہ ایکویچلی میں جب بھی دیکھتی ہوں آپ اکیلی ہی بیٹھی ہوتی ہیں اس لیے پوچھ رہی ہوں۔۔۔“ خدیجہ نے نرمی سے سوال کیا تو نور نے نفی میں سر ہلایا۔”نہیں ابھی تک تو کوئی نہیں بنائی۔۔۔“ موبائل بیگ میں رکھتے اُس نے جواب دیتے اُس لڑکی کا جائزہ بھی لیا جس کی ٹی شرٹ ، جینز کے ساتھ  کھلے بال اور میک اپ سے اٹا چہرہ نور کو کچھ خاص پسند نہیں آیا۔۔۔۔”توٹھیک ہے میری بھی کوئی فرینڈ نہیں،پلیز آپ میری دوست بن جائیں ویسے بھی مجھے آپ کا یہ حجاب اور معصوم سا چہرہ بہت پسند ہے۔۔۔۔“اُس لڑکی نے کہنے کے ساتھ ہی نور کا ہاتھ پکڑا تو اُسکے انداز وہ ایک دم سے بوکھلا گئی ۔۔۔۔۔”جی، جی ضرور۔۔۔۔“ زبردستی چہرے پر مسکراہٹ سجاتے نور نے اثبات میں سر ہلایا تو خدیجہ نے آنکھوں میں چمک لیے اُس کا ہاتھ چھوڑا۔۔۔۔“بس آج سے ہم دونوں بیسٹ فرینڈ ہیں۔۔۔“ نور کا جواب سنتے ہی خدیجہ نے خوشدلی سے کہا تو اُس کے حلیہ کے برعکس نور کو وہ اچھی لگی تب ہی وہ اُسکی باتوں کا جواب دیتے خود بھی اُس کے متعلق پوچھنے لگی۔ایک ہی دن میں وہ ایک دوسرے کے بارے میں کافی حد تک جان چکی تھیں اور اس میں بڑا ہاتھ خدیجہ کا تھا (جو تھی تو نور سے کچھ سال بڑی پر اپنے بات کرنے کے انداز اور سمجھ سوچ کی وجہ سے اُس نے بہت جلد نور کو اپنے آپ سے مانوس کر لیا تھا)۔۔۔۔سارا دن خدیجہ کہ ساتھ رہنے اور اُس کی باتوں کی وجہ سے نور کچھ وقت کے لیے اُس کالی آنکھوں والے کا خیال اپنے ذہن سے نکال چکی تھی ۔۔واپسی پر اُس نے حارث کو بھی اپنی دوست کے متعلق بتایا تو وہ بھی خوش تھا کہ نور کہ ساتھ یونی میں کسی کا ساتھ بن گیاپر نور کہ بار بار خدیجہ نام کی گردان پر وہ اب تنگ آنے کے ساتھ ساتھ کچھ پریشان بھی ہوا۔۔۔”اچھا نور بس کرو اب اور ایک ہی دن میں کسی پر اتنا اعتبار نہیں کرتے کچھ وقت لیتے ہیں کسی کو جاننے میں تاکہ یہ پتا چل سکے کہ وہ شخص اعتبار کے قابل ہے بھی یا نہیں۔۔۔۔“ حارث نے ہمیشہ کی طرح اُسے سمجھایا تو نور کی زبان کو بریک لگی۔۔۔۔”نہیں بھائی سچ میں وہ بہت اچھی ہے، تھوڑی ماڈرن ہے پر عادت اور اخلاق کی بہت اچھی ہے۔۔۔۔“ نور نے اُسے مطمئن کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔”تم خود معصوم ہو اس لیے تم جس سے بھی ملتی ہو تمہیں وہ شخص بھی اپنے جیسا معصوم اور اچھا ہی لگتاہے۔۔۔لیکن نور کسی پہ اتنی جلدی اعتبار نہ کیا کرو پہلے کچھ دیر اُسے جانجا کرو اُس کہ عادتوں ،باتوں اور طریقہ کار پر غور کیا کرو ،دنیا میں بہت سے لوگ اپنے چہروں پر اچھائی کا نقاب چڑھائے تم جیسوں کو بے وقوف بنا دیتے ہیں۔۔۔۔“آخری بات پر اُس نے ہلکی سی چیت نور کے سر پر رسید کی جو اب کسی سوچ میں گم تھی۔۔۔۔”سمجھ آئی کچھ یا اگلی بھی گئی؟“ گاڑی مارکیٹ کے باہر روکتے اُس نے پوچھا تو نور نے بولنے کی بجائے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔”ٹھیک ہے میں اب صبح سے اُس لڑکی سے بات نہیں کرو گی۔۔۔۔“ چہرے پر فکر لیے اُس نے جتنی عقل مندی سے کہا حارث کا دل اپنا سر پیٹنے کو کیا۔۔۔۔۔”نور کب بڑی ہو گی تم؟ حد ہے میں نے یہ نہیں کہا کہ اُسے چھوڑ دو بس یہ کہا ہے کہ سوچ سمجھ کر اعتبار کیا کرو اور یہ جو دماغ اللہ نے دیا ہے نا اسے کبھی استعمال بھی کر لیا کرو۔۔۔۔“اب کی بار صاف الفاظ میں کہتے وہ گاڑی سے اُتارا اور اُسے بھی اُترنے کا کہا۔۔۔۔فریحہ بیگم کے کہنے پر وہ نور کو مارکیٹ لے آیا تھا جہاں اُنہوں نے اُس کی اور سارہ کی شادی کی کچھ شاپنگ کی اور شام گئے جب وہ گھر لوٹیں تو سکندر صاحب اور حاشر ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے ۔۔سارہ نے آتے ہی اپنی تمام شاپنگ سکندر صاحب کو دیکھانی شروع کی( جیسے وہ بہت شوق اور پیار سے دیکھ رہے تھے ) نور خاموشی سے اپنی چیزیں اُٹھا کر کمرے میں آگئی۔۔۔اُس دن کے بعد سکندر صاحب اب اُسے کسی بات پر نہیں ڈانٹتے اور فریحہ بیگم بھی شائد اُسکی شادی کی وجہ سے اُسے کاموں کا نہیں کہتی یا پھر سارہ میں وہ اتنی مصروف تھیں کہ اُنہیں اب نور کی نہ کوئی غلطی نظر نہیں آتی جیسے بہانہ بنا کر وہ سکندر صاحب کو بھڑکا سکتیں۔۔۔کمرے میں آتے ہی ایک دم اُسکا دل بھر آیا تھا ،اُسے آج عالیہ بیگم کی کمی شدت سے محسوس ہوئی (جنہیں بس اُسنے تصویروں میں دیکھا اور حارث اور حاشر سے سُنا ہی تھا)۔۔۔۔امی کاش آپ زندہ ہوتیں تو میں آپ کو بتا سکتی کہ میں کتنی تکلیف میں ہوں۔۔۔“ دراز سے عالیہ بیگم کی تصویر نکال کر دیکھتے  وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تب ہی اُسکے موبائل کی سکرین بلنک ہوئی اور ساتھ ہی آرجے کے میسجز آنے لگے جو اپنی آفس کی کسی مصروفیت کی وجہ سے سارا دن اُس سے بات نہیں کر پایاتھا۔۔۔۔۔”کہاں ہو یار؟کیسی ہو؟ کیا کر رہی ہو؟کھانا کھایا؟دن کیسا گزارا؟مجھے مس تو نہیں کیاہو گا؟“ جیسے کئی میسجز اُس نے سینڈ کیے ہوۓ تھے ۔ نور نے موبائل اُٹھاتے میسج کا جواب دینے کی بجائے اُس کے نمبر پر کال کی جس پر زین کو  نہ صرف حیرت ہوئی بلکہ اُس نے کال ریسیو کرنے کی بجائے بے یقینی سے سکرین کو دیکھا کیونکہ ان چار سالوں میں پہلی بار نور نے اُسے کال کی تھی۔۔۔۔کیا ہوا؟کال کیوں کر رہی ہو؟“ اُسے لگا شائد کوئی اور کال کر رہا ہے اس لیے اُس نے کنفرم کرنا ضروری سمجھا۔۔۔۔”مجھے بات کرنی ہے۔۔۔“ نور جو آج خود کو بہت بے بس اور اکیلا محسوس کر رہی تھی پتا نہیں اُس میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی کہ اتنے سال بعد اُس نے خود سے زین سے یہ بات کہی۔۔۔۔اوکے میں کرتا ہوں۔۔۔۔“ میسج پڑھتے زین نے اُس کا نمبر ڈائل کیا اور موبائل کان سے لگائے دوسری طرف فون اُٹھانے کا انتطار کرنے لگا ۔۔۔”نور کیا ہوا۔۔۔۔؟“ کال ریسیو ہوتے ہی اُس نے رونے کی آواز سنی تو وہ ایک دم سے اُٹھ کر کھڑا ہوا۔۔۔”کیا ہوا ہے یار رو کیوں رہی ہو؟کسی نے کچھ کہا ہے؟“زین نے پھر سے سوال کیا تو نور نے اپنے آنکھیں صاف کرتے دروازہ لاک کیا اور بالکونی میں آگئی۔۔”کیا ہوا ہے؟رو کیوں رہی ہو؟طبعیت ٹھیک ہے۔۔۔؟“بے چینی سے اپنا سوال دوہراتے وہ دوسری طرف اُس کے بولنے کا منتظر تھا۔۔۔”آرجے۔۔۔۔“نور نے اُس کا نام لیا اور ساتھ ہی پھر سے رونے لگی ۔۔۔۔کیا ہوا ہے بولو نور دیکھو تم مجھے اب پریشان کر رہی ہو،مجھے بتاؤ کسی نے کچھ کہا ہے۔؟“ زین نے اُس کی آواز سنتے (جو اُس کی سوچ سے بھی زیادہ نرم  تھی) فکر مندی سے پوچھا ۔۔۔۔۔“کچ۔۔ھ ۔۔نہ۔۔یں کہا۔۔۔۔“ نور نے خود پہ ضبط کرنے کے باوجود بھی ٹوٹے الفاظ میں جواب دیا۔۔۔۔”اچھا رونا بند کرو تمہیں پتا ہے نا مجھے تمہارا رونا پریشان کر دیتا ہے تکلیف دیتا ہے مجھے ،پلیز چپ کرو اور بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔۔“زین نے اُسے بہلانے کی کوشش کرتے بولنے کے لیے اکسایا(وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ لڑکی کب اس کے لیے اتنی خاص ہو گئی کہ اُس کی چھوٹی سی تکلیف پر بھی اُسکا دل تڑپ اُٹھتا تھا)۔۔۔۔”آرجے وہ۔۔۔۔“نور نے اُسے کچھ بتانا چاہا مگر اُس سے پہلے ہی ایک دم سے گھر کی لائٹ چلی گئی۔۔۔ نور نے چاروں طرف گھروں میں جلتی لائٹس کو دیکھتے ایک نظر اپنے گھر کو دیکھا تو اُسے سمجھ آئی کہ بس اُن کے گھر کی لائٹ بند ہوئی ہے ،اندھیرے سے گھبراتے اُس نے زین کو جواب دینے کی بجائے کال کاٹی اور موبائل کی لائٹ آن کرتے بالکونی سے کمرے میں آئی تاکہ باہر جا سکے مگر اُس سے پہلے ہی کسی نے پیچھے سے آتے اُسے اپنے حصار میں قید کیا اور اُس کے چیخنے سے پہلے ہی اُسکے منہ پہ ہاتھ رکھتے اُسکی آواز کو باہر جانے سے روکا۔۔۔۔۔”کس سے بات کر رہی تھی۔۔؟“ اُسکے بال ہٹا کر اُس کے کان کہ قریب ہوتے اُس شخص نے سر گوشی کی تو نور کی آنکھیں پوری کھل گئیں اور موبائل اُس کہ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے قالین پر گرا۔۔۔”میں نے پوچھا کس سے بات کر رہی تھی۔۔۔؟“ اُس کا رخ اپنی طرف موڑتے زارون کے لہجے میں پہلے سے زیادہ سختی تھی ۔۔۔۔”و۔۔وہ۔۔۔۔۔۔“ نور نے اُسکے چہرے کو دیکھا جو آج بھی رومال سے ڈھکاہوا تھا۔۔۔۔”میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔۔۔۔“ اپنی انگلیاں اُس کی کمر میں دھنستے اُس نے الفاظ کو بھی اُتنی ہی سختی سے ادا کیا۔۔۔و۔۔۔وہ۔۔۔۔۔“ نور نے اُسکی سرخ آنکھوں میں دیکھتے کچھ بولنا چاہا مگر خوف کہ مارے اُس کے الفاظ اُسکا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔۔۔۔۔”کیا وہ؟ کون تھا جس سے بات کررہی تھی ؟ اور جب میں ایک بار کہہ چکا ہوں کہ تم صرف میری ہو تو سمجھ نہیں آتی کیا ۔۔۔؟“ اُس کی کمر پر دباؤ ڈالتے خود سے مزید قریب کرتے وہ جتنے غصے سے بولا نورکو اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔”وہ ۔۔می۔۔ں۔۔۔۔۔۔۔“”کیا۔۔۔میں؟کسی غیر محرم سے تو بڑی باتیں کر لیتی ہو اور بڑا رو رہی تھی اُس کے سامنے اور محرم کو دیکھتے ہی بولتی بند ہو گئی واہ ،کیا بات ہے نور العین آپکی۔۔۔۔“ تمسخرانہ انداز میں کہتے ،وہ اب اُس کو دیوار کہ ساتھ لگا چکا تھا۔۔۔۔”پلیز۔۔۔۔“نور نے اُسے خود سے قریب ہوتا دیکھ اپنے دوپٹے کو دونوں ہاتھوں میں دبوچے آنکھیں بند کیں،تو زارون نے اُسکے چہرے پر آتیں بالوں کی لٹوں کو پیچھے کیا۔۔۔۔۔”جان ہو تم میری اور جو انسان میرا ہو وہ بس میرا ہی ہوتا ہے میں کسی بھی طور شراکت برداشت نہیں کرتا اس لیے دوبارہ خیال رکھنا اور اپنے یہ آنسو صرف تم میرے لیے بہایا کرو ،کیونکہ یہ تمہیں مزید خوبصورت بنا دیتے ہیں۔۔۔“ہاتھ کی پوروں سے اُسکی رخسار پر بہاتے آنسو کو صاف کرتے اب اُس کے انداز میں نرمی آچکی تھی اُس نے آنسو صاف کرتے اُس کے سرخ  رخساروں کو چھوا تو نور کو  اُس سے خوف اور وحشت محسوس ہوئی۔۔۔”پل۔یز ۔۔۔۔۔۔“ اُسے اپنی اوپر جھکتا دیکھ نور نے مذاحمت کی مگر زارون نے اُس کی کوئی بھی بات سنے بغیر ایک بار پھر سے اپنے لمس سے واقف کروایا جس پر نور نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھتے اُسے پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر وہ کسی چٹان کی ماند کھڑا اُسکے نازک ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے چکا تھا۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی پیش رفت کرتا دروازے پر ہونے والی تیز دستک نے نور کہ ساتھ ساتھ اُسے بھی ہوش کی دنیا میں لاتے الگ ہونے پر مجبور کیا۔۔۔”لو یو بے بی۔۔۔۔بہت جلد میں تمہیں یہاں سے لے جاؤں گا بس دوبارہ کسی اور سے بات کرنے کی غلطی مت کرنا۔۔۔۔“ اپنا رومال ٹھیک کرتے وہ حارث کی آواز پر جلدی سے اپنی بات مکمل کرتےبالکونی کی طرف بڑھا تو نور نے حارث کی آواز اورتیز ہوتی دستک پرجلدی سے دروازے کی طرف قدم بڑھائے اور وہاں حارث کو ہاتھ میں ٹارچ پکڑے کھڑا دیکھ کر جلدی سے اُس کے ساتھ لگتے زور زور سے رونے لگی...جو اُسے جنریٹر خراب ہونے کا بتاتا لائٹ جلد آجانے کی تسلی دیتے نیچے لے آیا۔۔۔۔

 

 

قسط نمبر: 7

مل آئے اپنی بے بی ڈال سے ؟؟؟“ اُسے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتا دیکھ کر  عالیان نے اُس کے چہرے کی چمک دیکھ کے سوال کیا۔۔۔۔ ”مل آیا“ رومال ایک سائیڈ پر پھینکتے اُس نے تھکے ہوئے انداز میں صوفے سے ٹیک لگاتے جواب دیا۔۔۔۔۔”یار ویسے تم یہ سب ٹھیک نہیں کر رہے اورکیوں بد گمان کر رہے ہو اُسے خود سے؟“ عالیان نے ایک بار پھر سے نور کی سائیڈ لی تو زارون نے سیدھے ہو کر بیٹھتے اُسے گھورا۔۔۔۔”تم میرے دوست ہو اس لیے تمہارے منہ سے نور کا ذکر اور اُسکی سائیڈ لینا برداشت کر لیتا ہوں پر احتیاط کیا کرو کیونکہ تمہیں پتا ہے نا میری برداشت اپنی چیزوں کے معاملے میں بہت کم ہے“۔ اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اُس نے بڑی نرمی سے عالیان کو دھمکی دی جو موبائل پر مصروف ساتھ اُُس کی بات بھی سُن رہا تھا۔”ہونہہ مجھے دھمکیاں دینے کی ضرورت نہیں اور ہاں وہ لڑکی کوئی چیز نہیں بلکہ انسان ہے اور ایک بار تو تم اُس سے زبردستی کر چکے ہو پر بار بار اُسے ایسے ڈرا کہ تم اپنا ہی نقصان کر رہے ہو“۔عالیان جو پہلے ہی پریشان تھا اُس نے زارون کا ہاتھ ہٹاتے وران کیا۔۔۔۔”کیا نقصان کر رہا ہوں ؟؟“ زارون نے موبائل اُس کے ہاتھ سے لیتے (جس پر وہ بار بار کسی کو کال کر رہا تھا) سوال کیا۔۔۔۔”یار موبائل دو مجھے اور کتنی بار کہا ہے ایسے میرے موبائل کو چیک مت کیا کرو“ عالیان نے اُس کے ہاتھ سے موبائل جھپٹتے بے زاری سے کہا تو زارون کو اُس کی بات پر حیرت کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آیا۔۔۔”ٹھیک ہے میں دوبارہ ہاتھ نہیں لگاؤں گا تمہارے موبائل کو اور سوری مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ اب مجھ سے بھی زیادہ اہم ہو گئی ہے تمہارے لیے“ سر جھٹکتے اُس نے اپنی بات مکمل کی اور عالیان کی کوئی بات سُنے بغیر غصے سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔اُففف ایک تو میں پہلے ہی پریشان ہوں اور اوپر سے اس نواب کا بھی منہ بن گیا ہے۔ عالیان نے ایک بار پھر سے نمبر ڈائل کرتے خود کلامی کی (جو ابھی بھی بند تھا)۔۔۔۔پتا نہیں کہاں گم ہو گئی ہے۔ انسان بتا ہی دیتا ہے پر نہیں میڈم کو تو بس غائب ہونے کی جلدی ہوتی ہے۔ موبائل کی سکرین کو دیکھتے اُس نے سوچا اور اپنی کار کی چابی اُٹھاتے زارون کے کمرے کے بند دروازے کو ایک نظر دیکھتے اونچی آواز میں اُسے اپنے ریڈیو اسٹیشن جانے کے بارے میں بتایا اور کچھ دیر جواب کا انتظار کرتے دوسری طرف خاموشی پا کراُسے واپس آکر منانے کا سوچتے اپارٹمنٹ کی دوسری چابی لیتے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”کیا ہو گیا ہے نور؟؟کیوں ایسے بچوں کی طرح ڈر رہی ہو ،لائٹ ہی آف ہوئی ہے نا؟ آجائے گی کچھ دیر میں“۔  حارث نے اُسے مسلسل روتا دیکھ تنگ آکر ٹوکا۔۔۔ ”اس کی تو عادت ہی ہے اپنے ساتھ ساتھ سب کو پریشان کرنے کی“  (سارہ جو پہلے ہی حارث کی اس عادت سے عاجز تھی کہ وہ اُسکی بجائے نور کوہر بات اور کام میں فوقیت دیتا تھا) اُس نے حارث کی بات سنتے ہی جلدی سے کہا۔۔۔۔”تو اچھا ہے نا بہنیں بھائیوں کو ہی پریشان کرتیں ہیں نہ کہ تمہاری طرح اپنے ہونے والے شوہر کو پر ایک بات ہے تم حارث کو ہی پریشان کرو گی نا کیونکہ بھائی تو تمہارا ہے ہی نہیں“ حاشر جو فیوز ٹھیک کرتے اندر آرہا تھا اُس نے سارہ کا طنز سنتے جواب دیاجس پر اُس کہ ساتھ ساتھ فریحہ بیگم کو بھی آگ لگ چکی تھی۔”حاشر زرا سوچ سمجھ کر بولا کرو“ سارہ سے پہلے فریحہ بیگم نے اُسے باروار کروایا کہ وہ اپنی زبان کنٹرول میں رکھے۔۔۔ ”پھوپھو یہ بات آپ سارہ کو بھی سمجھا سکتی ہیں نا کیوں وہ نور سے ہر وقت ایسے بات کرتی ہے“ حاشر نے بھی فریحہ بیگم کے الفاظ میں ردوبدل کر کہ جواب دیا تو سکندر صاحب کی گھر پر موجودگی کی وجہ سے حارث کو درمیان میں بولنا پڑا (کیونکہ وہ جانتا تھا کہ بات جو بھی ہو ختم نور پر ہی ہوگی )”حاشر بدتمیزی مت کرو“ حارث نے اُسے گھورا اور نور نے بھی ماحول گرم ہوتا دیکھ جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کیں جو اندھیرے سے زیادہ اُس شخص کے خوف اور اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہی تھیں۔۔۔۔ ”بولنے دو اسے اور میری بیٹی تو ویسے بھی تم لوگوں کا کھاتی ہے تو باتیں بھی سُن لے گی“ فریحہ بیگم نے جان بوجھ کر اونچی آواز میں کہتے رونا شروع کیا تو سکندر صاحب جو آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں موجود تھے باہر ہونے والے شور پر لاونج میں آئے۔۔۔۔”کیا ہوا فریحہ تم رو کیوں رہی ہو؟؟؟“ انہوں نے آتے ہی فریحہ بیگم کو آنسو بہاتا دیکھ سوال کیا تو حاشر کے ساتھ ساتھ نور اور حارث کو بھی سانپ سونگ گیا۔۔۔۔”ہونا کیا ہے ،بس یہ دن دیکھنا باقی تھا ناک کو دوپٹے سے صاف کرتے وہ جتنی مہارت سے ڈرامہ کر رہی تھیں حارث کو اُن کے ساتھ ساتھ حاشر پر بھی غصہ آیاجو اب خاموشی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔۔۔۔”ہوا کیا ہے ؟؟؟“  سکندر صاحب نے ایک نظر سب کو دیکھتے سوال کیا۔۔۔۔ ”ہونا کیا ہے،بس مجھے یہ بتا دیں کہ اتنے سال میں نے آپ کی اور آپ کے بچوں کی خدمت اس لیے کی تھی کہ آج یہ لوگ اُٹھ کر مجھے اور میری بیٹی کو آپ کے در پر بیٹھنے کے طعنے ماریں“ فریحہ بیگم نے باقاعدہ آنسو کہ ساتھ اُنہیں دو چار باتیں خود سے اخذ کرتے بتائیں۔۔۔”کس نے طعنہ مارا تمہیں اور کس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ سارہ کو کچھ کہے“ سکندر صاحب کی گرج پر جہاں نور سہم کر حارث کو دیکھنے لگی وہیں حاشرکو بھی آج اپنی خیریت محسوس نہ ہوئی۔۔۔۔ ”کسی نے کچھ نہیں کہا بس آپ چھوڑیں“ فریحہ بیگم نے بات بدلنے کی کوشش کی تاکہ سکندر صاحب مزید اصرار کرتے اُن سے پوچھیں۔۔۔۔۔”سارہ تم بتاؤ کیا ہوا ہے ؟؟“ فریحہ بیگم کو چپ رہنے کا اشارہ کرتے سکندر صاحب نے سارہ سے سوال کیا جس نے بغیر دیر کیے حاشر کی بات اُنکے کانوں میں ڈالی۔۔۔۔۔”اپنا بھی بتاؤ نا تم نے پہلے نور کو کیا کہا تھا“ سارہ کو بولتا دیکھ حاشر نے اپنا دفع کرنے کی کوشش کی پر اُس سے پہلے ہی سکندرصاحب کا ہاتھ اُٹھا اور حاشر کی گال پر پڑتے نشان چھوڑ گیا۔۔۔۔ابو،حارث نے آگے بڑھتے مداخلت کی ۔۔۔”دوبارہ میری بہن کو یا بھانجی کو ایسی بات کہی تو منہ توڑ دوں گا میں تمہارا اور یہ گھر جتنا تم لوگوں کا ہے اتنا ہی سارہ کا بھی ہے اس لیے دوبارہ جو بھی بولنا سوچ سمجھ کر بولنا“ انگلی اُٹھاتے اُنہوں نے حاشر کو وران کیا جو اپنی تذلیل پر گال پر ہاتھ رکھے خاموش کھڑا بے یقینی سے سکندر صاحب کو دیکھ رہا تھا جنہوں نے آج تک اُسے اُفف تک نہیں کہا تھا۔۔۔۔ ”بھائی صاحب بس کریں ،کچھ نہیں بچہ ہے منہ سے نکل گیا اور سارہ تمہیں کیا ضرورت تھی بتانے کی“ سب کچھ کروانے کے بعد فریحہ بیگم نے آگے بڑھتے سکندر صاحب کو روکاتو حاشر نے ایک افسوس بھری نظر اُن پہ ڈالی اور لمبے ڈگ بھرتے گھر سے باہر نکل گیا۔۔”حاشر روکو“ حارث نے بھی اُسے آواز دیتے اس کے پیچھے ہی قدم بڑھائے تو نور نے سکندر صاحب کی طرف دیکھا جو اب فریحہ بیگم اور سارہ کو اپنے ساتھ لگائے حوصلہ دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم، امید ہے کہ آپ سب ٹھیک ہوں گے پر آج میرا موڈ تھوڑا خراب ہے۔ عالیان نے شو شروع کرتے اپنے چاہنے والوں کو مخاطب کیا۔۔۔۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میرا موڈ کیوں خراب ہے ؟؟؟ رات دس بجے کے قریب اُس کی آواز کئی سماعتوں کے ساتھ ساتھ زارون کے کانوں میں بھی گونج رہی تھی۔۔۔ تو اس کی وجہ میرا بدتمیز دوست ہے جو آج مجھ سے خفا ہے۔ سانگ کے ساتھ ساتھ اُس نے اپنے خراب موڈ کی وجہ بتائی تو زارون کے چہرے پر غصے کے باوجود بھی مسکراہٹ آگئی۔۔۔۔ ”میں ناراض ہی رہوں گا اور تمہاری اُس سہیلی کی تو میں ایسی خبر لوں گا جس نے کچھ ہی سالوں میں تمہیں مجھ سے دور کر دیا ہے“۔اُس کی بات سنتے ہی زارون نے دل ہی دل میں ارادہ کیا اور ایف ایم آف کرتے اُٹھ کر بالکونی میں آتے نور کے بارے میں سوچنے لگا جس کہ لمس کی خوشبو وہ ابھی تک اپنے آپ سے آتی محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔ بے بی ڈال،آنکھیں بند کرتے اُس نے نور کا چہرہ اپنے سامنے آتے ہی مسکراتے ہوئے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔ جان ہو تم میری نور ،زارون سانس لینا تو بھول سکتا ہے مگر تم سے الگ ہونا تمہیں کسی اور کا ہوتے دیکھنا یہ برداشت نہیں کرسکتا۔ مجھے پتا ہے میں نے جو کچھ کیا وہ غلط تھا پر پلیز تم مجھ سے کبھی بھی بدگمان مت ہونا،خود کلامی کرتے وہ اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوا جہاں ہتشام صاحب کی کال آرہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سکندر صاحب فریحہ بیگم اور سارہ کو لے کر اپنے کمرے میں چلے گئے تو نور نے بھی کچھ دیر حاشر اور حارث کا انتظار کرنے کے بعد اپنے کمرے کا رخ کیا جہاں داخل ہوتے ہی کچھ دیر پہلے ہونے والا واقعہ اُس کے دماغ میں گردش کرنے لگا۔۔۔اُس نے جلدی سے آگے بڑھتے ٹیرس کا دروازہ بند کرتے پردے آگے کیے اور پھر سارے کمرے کا جائزہ لیتے سکون کا سانس لیا کہ اب وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔۔اللہ پلیز میری مدد کر، پہلے میری زندگی میں کم مصیبتیں تھیں جو اب یہ شخص بھی میری زندگی برباد کرنے کے لیے آگیا ہے۔ بے بسی سے سر گھٹنوں پر رکھتے اُس نے سوچا اور دل ہی دل میں اللہ سے آنے والے وقت کے لیے دعائیں مانگنے لگی جس کا سوچتے ہی اُس کی روح کانپ جاتی تھی۔۔۔ میں حارث بھائی کو سب بتا دوں گی نور نے اپنی شادی میں ایک ہفتہ باقی رہنے کا سوچتے ہی دل میں ارادہ کیا کیونکہ وہ نکاح پہ نکاح کیسے کر سکتی تھی۔۔۔ نہیں میں نہیں بتاؤں گی ایک حارث بھائی ہی تو ہیں جو میرا خیال کرتے ہیں۔ اپنی ہی سوچ کو رد کرتے اُس نے ایک بار پھر سے بالکونی کی طرف دیکھا جہاں سے وہ شخص اندر آیا تھا۔۔۔۔۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ جیسے تم نے میری زندگی برباد کی ہے نا میں بھی تمہاری زندگی برباد کر دوں گی،نور نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے خود کلامی کی اور اپنے موبائل پر نظر پڑتے ہی اُس نے کچھ سوچتے ہی موبائل اُٹھایا جہاں آرجے کی بہت سی کالز کے ساتھ مسیجز بھی موجود تھے۔۔۔۔۔۔تمہیں چڑ ہے نا کہ میں کسی سے بات نہ کروں؟ کوئی مجھے نہ دیکھے؟ تو دیکھو اب میں تمہیں کیسی سزا دیتی ہوں۔ زارون کو مخاطب کرتے اُس نے اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کو ایک بار پھر سے صاف کیا اورمیسج ٹائپ کرتے آرجے کو سینڈ کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر: 08

و ختم کرنے کے بعد وہ دو بجے کے قریب واپس اپارٹمنٹ میں آیا تو زارون کے کمرے کا دروازہ ابھی بھی بند تھا۔۔۔۔۔”اُففف تھک گیا آج تو۔۔۔“ عالیان نے شوز اُتارے بغیر ہی صوفے پر گرنے والے انداز میں لیٹتے خودکلامی کی اور کچھ منٹ لیٹے رہنے کے بعد کچھ سوچتے ہوئے اُٹھ کر زارون کے کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا جو لاک نہ ہونے کی وجہ سے کھلتا چلا گیا۔۔۔۔ ”تم سوئے نہیں ابھی تک۔۔۔؟“ اُس کو لیپ ٹاپ پر مصروف دیکھ کر عالیان نے حیرت سے پوچھا کیونکہ زارون کی عادت تھی کہ وہ گیارہ بجے تک ہر حال میں سو جاتا تھا۔۔۔۔ ”نہیں۔۔۔۔۔اور کسی کے کمرے میں آنے سے پہلے دستک دیتے ہیں نہ کہ منہ اُٹھا کر اندر چلے آتے ہیں“۔  بات کرتے اُس کی انگلیاں جومسلسل کی بورڈ پر چل رہی تھیں کچھ سکنڈز کے لیے رکیں پر اُس نے عالیان کی طرف دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔۔۔۔ ”ہوننہ میں دستک دے کر کہ آتا تو تم نے اندر سے ہی دفع کر دینا تھا مجھے اور کیا یہ ناراض محبوبہ کی طرح منہ پھولائے بیٹھے ہو۔ اُٹھو مجھے بھوک لگی ہے کھانا کھائیں“عالیان نے اُس کی ناراضگی کی پروا کیے بغیر لیپ ٹاپ پر ہاتھ مارتے اُسے بند کیا۔۔۔۔”مجھے بھوک نہیں اور تمہاری محبوبہ یقینا مان گئی ہو گی جو تمہیں میری یاد آ گئی۔۔۔“ زارون نے اُس کی حرکت پر گھورتے ہوئے اُس کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر اندازہ لگایا۔۔۔۔”ہاں ،ناراض تو وہ کبھی مجھ سے ہو ہی نہیں سکتی ،پر جب کچھ بتائے بغیر غائب ہو جاتی ہے نا تو بس میں پریشان ہو جاتا ہوں کہ پتہ نہیں کیا ہوا؟“ عالیان نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے زارون کی بات کی تصدیق کی تو زارون نے اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔۔۔”ہممم اچھی بات ہے۔ ویسے مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی ؟“ زارون نے لیپ ٹاپ گود سے نکال کر بیڈ پر رکھتے پر سوچ انداز میں اُسکی طرف دیکھا۔۔۔ ”کس بات کی؟“ عالیان نے سنجیدگی سے اُس کے قریب بیٹھتے سوال کیا۔۔۔۔”یہی کہ نہ تم نے اُسے دیکھا نہ اُس نے تمہیں، تو! پھر یہ پیار ہو کیسے گیا؟اور کیا وہ لڑکی اندھی ہے؟ جو تم جیسے بندر کو دل دے دیا۔۔۔“ زارون نے جتنی نرمی سے اُس کی عزت افزائی کی عالیان بس اُس کے چہرے کی طرف دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔”پہلی بات کہ پیار نہیں بس ہم دوست ہیں اور دوسری بات بے شک میں تم جیسا ہیرو نہیں ہوں پر شکر ہے تم جیسا جلاد بھی نہیں ہوں جو کسی لڑکی سے زبردستی نکاح کرلوں اور بعد میں بھی اُسے بدروحوں کی طرح رات کو جا جا کر ڈراؤں کہ تم صرف میری ہو نور...۔۔“ عالیان نے موقع ملتے ہی بھر پور طریقے سے زارون کی ٹانگ کھنچی تو اُس نے پاس پڑا کشن اُٹھا کر اُسے رسید کیا جو اُس نے لگنے سے پہلے ہی کیچ کیا۔۔۔۔۔۔”ابھی اتنے بھی تم طاقت ور نہیں ہوئے کہ عالیان قیوم کو مار سکو۔۔۔۔“مسکراتے ہوئے اُس نے مغرورانہ اندار میں کہتے واپس کشن زارون کی طرف اچھلا جس سکنڈ میں کیچ کرتے زارون نے عالیان کو سنبھالنے کا موقع دیے بغیر واپس پھینکا جو سیدھا اُسکے منہ پر جا کر لگا۔۔۔۔”زارون شرم کرو ایک معصوم انسان کو مارتے تمہارے ہاتھ نہیں کانپتے“ عالیان نے مزید کوئی پیش رفت کرنے سے خود کو روکتے کُشن واپس بیڈ پر رکھا۔۔۔“ نہیں کانپتے جیسے معصوم انسان کا دل نہیں کانپتا میرے سامنے میری ہی بیوی کا نام اتنی دلیری سے نام لینے میں“ اپنے الفاظ کے ساتھ ساتھ اُس کی آنکھوں میں بھی اب سنجیدگی تھی۔۔۔۔۔”اچھا بھئی مجنوں معاف کر مجھے میں دوبارہ نور بھابھی کو  بہن کہہ کر بُلا لوں گا تاکہ تمہارے اندر جو سڑا ہوا دل ہے نا وہ وہ مطمئن رہے“ اُس کی بات سنتے عالیان نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا تو زارون کے چہرے پر نا چاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ آگئی۔ ( کیونکہ اُس کی زندگی میں دی جان کے علاوہ وہی ایک  شخص تھا جس سے وہ اپنے دل کی ہر بات کہہ دیتا تھا باقی اکلوتے ہونے کے ساتھ ساتھ ہتشام صاحب کی دوسری شادی اور کچھ دیر پہلے ہونے والے اپنے ماں کے انتقال نے اُسے اپنے باپ کہ ساتھ ساتھ ہر انسان اور چیز سے بدگمان کر دیا تھا)۔۔۔۔”امی آپ لوگوں کو کیا جلدی ہے میری شادی کی؟جب میں کہہ رہا ہوں کہ مجھے آپ کی معصوم خوبصورت بھانجی پسند نہیں تو کیوں آپ اور ابو میرے ساتھ مل کر زبردستی کر رہے ہیں۔۔۔۔۔“ جنید جو اس مہینے میں دس بار خالدہ بیگم کو یہ بات کہہ چکا تھا آج پھر اُن کو مارکیٹ جانے کے لیے تیار دیکھ کر اُس نے چڑ تے ہوئے اپنی بات کہی۔۔۔۔”تمہیں مسئلہ کیا ہے نور سے؟اچھی خاصی پیاری اور پڑھی لکھی ہے اور ساتھ باپ کی اتنی جائیداد کی مالک بھی جو حارث اور حاشر کے ساتھ ساتھ اُس کی بھی ہے“ خالدہ بیگم نے اُس کے قریب بیٹھتے پھر سے لالچ دیا۔۔۔۔”میں مانتا ہوں وہ پیاری ہے اور بہت زیادہ ہے پر مجھے وہ پسند نہیں،کیونکہ میں پہلے بھی آپکو بتا چکا ہوں کہ مجھے ملائکہ پسند ہے اور میں شادی بھی اُسی سے کروں گا“ جنید نے ہٹ دھرمی برقرار رکھتے دو ٹوک جواب دیا تو سلیم صاحب بھی کمرے میں داخل ہوئے (جو ابھی ابھی اپنی دکان بند کر کہ آئے تھے)۔۔۔۔”ٹھیک ہے اگر تمہیں اُس ملائکہ سے ہی شادی کرنی ہے تو پھر ہمیں ہمیشہ کے لیے بھول جانا۔۔“ خالدہ بیگم نے سلیم صاحب کی طرف دیکھتے اپنا فیصلہ سُنا یا تو جنید نے مدد طلب نظروں سے سلیم صاحب کی طرف دیکھا۔۔۔۔”ٹھیک کہہ رہی ہے تمہاری ماں اور ایسی کوئی بات تھی تو تمہیں پہلے بتانی چاہیے تھی اس وقت نہیں جب شادی میں بس چند ہی دن بچے ہیں“(سلیم صاحب جو خالدہ بیگم کی طرح لالچی تو نہیں تھے پر خود بھی بیٹی کے باپ ہونے کی حیثیت سے اُنہیں سکندر صاحب کی عزت کا خیال تھا) سلیم صاحب نے خالدہ بیگم کی نسبت سختی سے بات کی۔۔۔۔”ٹھیک ہے اگر آپ لوگ میرا ساتھ نہیں دیں گے تو میں خود ہی دیکھ لوں گا جو کرنا ہوا۔۔۔“  سلیم صاحب کو بھی خالدہ بیگم کی سائیڈ پر دیکھ کر جنید نے غصے سے کہا اور اُن دونوں کو ایک نظر دیکھ کر گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔”اس لڑکے کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے ہاتھ آئی دولت گنوانے کے چکر میں ہے اور وہ ملائکہ اُس کے باپ کے پاس ہے ہی کیا دینے کو “جنید کے جاتے ہی خالدہ بیگم نے اپنا سر پکڑا تو سلیم صاحب کو اُن کی سوچ پر افسوس ہوا جو خالہ ہونے کے باوجود بھی بس نور کو دولت کی خاطر ہی اپنانا چاہتی تھیں۔۔۔۔۔کل رات کے واقعہ کہ بعد گھر کے ماحول میں کافی کشیدگی آگئی تھی سب نے خاموشی سے ناشتہ کیا اور حاشر کی غیر موجودگی پر جہاں حارث کو دکھ ہوا وہاں فریحہ بیگم کافی مطمئن تھیں۔نور بھی یونی ورسٹی جانے کے لیے تیار ہو کر نیچے آئی تو سکندر صاحب ہمیشہ کی طرح اُس کے آتے ہی سارہ کو اپنی چائے کمرے میں لانے کا بولتے اُٹھ کر چلے گئے۔۔۔۔”حاشر بھائی کہاں ہیں؟اُن کا موڈ ابھی بھی خراب ہے کیا؟“ نور نے سارہ کے ساتھ فریحہ بیگم کو بھی کچن میں جاتا دیکھ حارث سے سوال کیا جو رات کچھ سمجھانے کے بعد حاشر کو گھر لے کر آیا تھا۔۔۔۔”ٹھیک ہے تم پریشان نہ ہو اور جلدی کرو دیر ہو جائے گی۔۔۔“ حارث نے اُسے تسلی دیتے ناشتہ کرنے کا اشارہ کیاتو نور بھی خاموشی اختیار کرتے ناشتہ کرنے لگی۔۔۔نور کے یونیورسٹی پہنچتے ہی اُسکا پہلا سامنا خدیجہ سے ہوا جو شائد اُسی کے انتظار میں تھی۔۔۔۔”یار اتنا لیٹ کیوں آئی ہو؟“ اُس نے نور کو دیکھتے ہی اُس کی طرف آتے سوال کیا۔۔۔۔۔”لیٹ تو نہیں ہوئی، میں تو کلاس کے ٹائم پہ ہی آتی ہوں“ حارث کی کل والی باتیں دماغ میں آتے ہی اُس نے اپنی گھڑی کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔۔”تو جلدی آیا کرو نا پہلے تو تمہاری کوئی دوست نہیں تھی پر اب تو میں ہوں۔۔۔۔“خدیجہ نے اُس کے لہجے کی سنجیدگی کو محسوس کیے بغیر مسکراتے ہوئے اُس کے قریب بیٹھتے کہا تو نور کو اپنا ایسے بات کرنا اچھا نہیں لگا۔۔۔۔”ٹھیک ہے کل سے میں جلدی آنے کی کوشش کرو گی“ موبائیل پر آرجے کے میسج کا جواب دیتے اُس نے خدیجہ کو تسلی دی اور سر دانش کے آتے ہی موبائل بند کرتے وہ سب سٹودنٹس کی طرح سیدھے ہوتے اُن کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون کی ناراضگی رات کو ہی ختم ہو گئی تھی اور اب وہ آفس کا کچھ کام ختم کرنے کہ بعد عالیان کو باقی تمام کام سنبھالنے کا بولتے حویلی کے لیے روانہ ہوا کیونکہ دی جان کتنے دنوں سے اُس کو گاؤں کا چکر لگانے کا بول رہی تھیں۔۔۔ دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ حویلی پہنچا جہاں اُس کا پہلا سامنا ہی شہناز بیگم سے ہوا۔۔۔۔”اُففف آتے ہی غلط انسان کو دیکھ لیا اب پورا وقت بُرا گزرے گا۔۔۔“ سلام کرنے کی بجائے اپنے سن گلاسز اُتارتے زارون نے اپنے لہجے کی مخصوص تلخی( جو شہناز بیگم کو دیکھتے ہی خود بخود آجاتی تھی )کو برقرار رکھتے خودکلامی کی مگر وہ اتنی اونچی تھی کہ شہناز بیگم کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ملازموں کو بھی آسانی سے سُنائی دے سکتی۔۔۔۔”تو آنکھوں پہ پٹی باندھ کے لینی تھی نا یا پھر یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی“ شہناز بیگم کہاں چپ رہنے والوں میں سے تھیں۔۔۔۔”مجھے کوئی ضرورت نہیں اپنی آنکھوں پہ پٹی باندھنے کی اور یہ تمہارا نہیں بلکہ میرے باپ کا گھر ہے اس لیے میرے سامنے زیادہ زبان چلانے کی ضرورت نہیں“ غصے کے باعث اپنے ہاتھ کی مٹھی کو بند کرتے اُس نے سرخ آنکھوں سے شہناز بیگم کو گھورا (جو عمر میں تو پینتس ،چھتس کے قریب تھیں مگر ہتشام کی دولت دیکھ کر اُنہوں نے اُن کی بیوی اور جوان بیٹے کی بھی پروا کیے بغیر بڑی چالاکی کے ساتھ اُنہیں اپنے جال میں پھنسایا اور ایک ہی سال کے اندر اُن سے شادی کر لی جس کی خبر کچھ مہینوں پہلے ہی زارون کے ساتھ ساتھ فاطمہ بیگم کو بھی ملی جیسے دل پر لیتے وہ ایک مہینے میں ہی انتقال کر گئیں۔ ہتشام صاحب جنہوں نے زندگی میں کبھی زارون کو کسی چیزکی کمی محسوس ہونے نہیں دی اور اب بھی شہناز بیگم کے کہنے کے باوجود بھی وہ زارون کی ہر ضرورت پوری کرتے پر یہ الگ بات تھی کہ اب زارون کا دل اُن کی کسی بھی مہربانی پر نرم نہیں پڑتا تھا)۔۔۔۔”تم شائد بھول رہے ہو کہ تمہارے باپ نے یہ حویلی میرے نام کر دی ہے اور اس کی مالک اب میں ہوں اور تم یہاں میری اجازت کے بغیر کھڑے ہو یہی بہت ہے ورنہ جیسے تم میرے ساتھ بات کر رہے ہو نا؟ میں ایک حکم دوں تو یہ ملازم تمہیں اُٹھا کر یہاں سے باہر پھینک دیں۔“ تکبر کے باعث گردن مزید اکڑاتے وہ زارون کے سامنے آکھڑی ہوئیں تو وہاں موجود ملازموں کے درمیان سرگوشیاں ہونے لگیں۔۔۔۔”ہممم گڈ ۔۔۔۔ ویسے شائد تم مجھے جانتی نہیں کہ مجھے یہ حویلی اپنے نام کروانے میں نا تو کسی وکیل کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی تمہاری اس لیے منہ سے الفاظ سوچ سمجھ کر نکالو ورنہ تم مجھے باہر پھینکوانے کی بات کر رہی ہو میں تمہیں یہاں زندہ دفن بھی کر دوں تو تمہارے شوہر تک کو خبر نہٖیں ہو گی“ دو قدم اُس کی طرف بڑھاتے زارون نے آنکھوں کے ساتھ ساتھ الفاظ میں بھی بلا کی سختی لیے شہناز بیگم کو خبردار کیا جو اُس کی آنکھوں کو دیکھتے ہی دو قدم پیچھے ہو گئیں ۔۔۔۔۔”کوشش کرنا جب تک میں یہاں ہوں میرے منہ نہ لگو“ اُسے وارن کرتے وہ جیسے ہی دی جان کے کمرے کی طرف بڑھا شہناز بیگم نے ہوش میں آتے تمام ملازموں کو گھورا جو اُن کی عزت افزائی پر مسکرا رہے تھے۔۔۔”دفع ہو جاؤ سب یہاں سے“ چلاتے ہوئے اُنہوں نے کہا تو سب ملازم وہاں سے غائب ہو گئے ۔۔۔۔”بات کرتی ہوں سائیں سے۔۔۔۔“،(اپنی بے عزتی پر اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ زارون کا گلا دبا دیتیں) خودکلامی کرتے وہ سڑھیاں چڑھتے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔

قسط نمبر:09

ساجدہ خاتون جو زارون کی دادی تھیں مگر وہ پیار سے اُن کو دی جان کہتا تھا۔ اُنہوں نے اپنی نرم طبیعت کی وجہ سے فاطمہ کے انتقال کے بعد بہت پیار سے زارون کو سنبھالنے کی کوشش کی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہیں اور زارون جو اب ہتشام صاحب سے تھوڑی بہت بات کر لیتا اُس میں بھی ساجدہ بیگم کا بڑا ہاتھ تھا۔۔۔۔۔”آگیا میرا لال۔۔۔۔“ اُس کے قدموں کی آواز سنتے ہی ساجدہ بیگم جو آنکھیں بند کیے تسبیح پڑھنے میں مصروف تھیں فورا آنکھیں کھولتے دروازے کی طرف دیکھا۔ جہاں زارون آج بھی آہستہ آہستہ قدم رکھتے اپنی اچانک آمد پر اُنہیں چونکانے کہ چکر میں تھا۔۔۔۔”اففف دی جان کیا ہے آپ کو؟میرا سارا سرپرائز خراب کر دیا۔۔۔۔“ زارون نے اُن کی ہمیشہ سے اُس کی خوشبو سے اُسے پہچان لینے کی عادت پر بدمزہ ہوتے کہا اور اُن کے مسکرانے پر خود بھی مسکراتے ہوئے اُن کی جانب بڑھا۔”کیسی ہیں آپ؟؟“ اُن کے پرنور اور شفاف چہرے کو دیکھتے( جو زارون کو ہمیشہ ہی سکون دیتا تھا)اُس نے سر اُن کی گود میں رکھا۔۔۔۔”ہاں اللہ کا بڑا احسان ہے کہ اُس نے اس عمر میں بھی چلنے پھرنے کے قابل رکھا ہوا ہے اور تم بتاؤ کہاں مصروف تھے اتنے دنوں سے کہہ رہی تھی کہ حویلی کا چکر لگا لو پر لگتا ہے کوئی بڑی مصروفیت تھی جو دی جان کے بلانے پر بھی میرے شہزادے نے کان نہیں دھرے۔۔۔۔“ اُس کے بالوں میں نرمی سے ہاتھ چلاتے وہ زارون کی آنکھوں میں چمک دیکھتے ہی سمجھ چکی تھیں کہ آج کوئی بہت خاص بات تھی۔۔۔۔”جی بس ایک کام میں پھنسا ہوا تھا۔ شکر ہے ہو گیا پر اب آپ دعا کریں کہ آگے بھی سب ٹھیک سے ہو جائے پھر میں اگلی بار اپنے ساتھ ساتھ آپکو ایک اور سرپرائز دوں گا جو باقیوں کا تو پتا نہیں پر آپکو بہت پسند آئے گا۔۔۔۔“ اُٹھ کر بیٹھتے زارون نے تجسس برقرار رکھتے ساجدہ بیگم سے کہا جو آج سات آٹھ مہینے بعد اُس کے چہرے پرمصنوعی مسکراہٹ کی بجائے حقیقی خوشی دیکھ کر اندر سے مطمئین ہوئیں۔۔۔”ٹھیک ہے میں انتظار کروں گی اور دعا بھی ،ہتشام سے ملے ۔۔؟“ اُسے واپس گود میں سر رکھتا دیکھ ساجدہ بیگم نے پوچھا تو زارون نے نفی میں سر ہلایا۔۔”کچھ دیر میں مل لوں گا ابھی تو بس سکون سے کچھ دیر آپ سے باتیں کرنا چاہتا ہوں۔۔۔“شہناز بیگم سے ہونے والی بحث کا بتانے کی بجائے زارون نے نرمی سے جواب دیا اور اُن سے گاؤں کے حالات واقعات کے بارے میں پوچھنے لگا۔۔۔۔۔---------یونیورسٹی سے گھر آتے ہی نور نے کچھ دیر آرام کرنے کے بعد حاشر کے کمرے کا رخ کیا تاکہ اُس سے کھانے کا پوچھ سکے کیونکہ صبح کی طرح وہ دوپہر کہ کھانے پربھی موجود نہیں تھا۔۔۔۔”آجائیں“ دروازے پر دستک سنتے حاشر جو اپنے سی ایس ایس کے پیپر کی وجہ سے پڑھنے میں مصروف تھا اُس نے سر اُٹھاتے آنے والے کو دیکھا۔”نور العین آؤ وہاں کیوں کھڑی ہو؟“ کتاب بند کرتے اُس نے نور کو دیکھتے ہی خوش دلی سے کہا۔”وہ آپ کھانے کے لیے ٹیبل پر نہیں آئے میں نے سوچا پوچھ لوں کہ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟“اُس نے بیڈ کے قریب آتے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔”وہ میں نے گیارہ بجے ناشتہ کیا تھا اس لیے بھوک نہیں تھی اورتم کس کہ ساتھ واپس آئی ہو ؟“حاشر نے حیرت سے سوال کیا کیونکہ حارث چھوڑنے آتا اُسے تو حاشر کو دیکھنے کمرے میں ضرور آتا۔۔۔۔۔”حارث بھائی کہ ساتھ اُن کی کوئی میٹنگ تھی اس لیے گیٹ پر چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔“ اس کی بات کا جواب دیتے وہ سامنے موجود سنگل صوفے پر بیٹھ چکی تھی۔۔۔۔۔”ہمم اچھا تم نے کھانا کھایا ؟“اُس کا جواب سنتے حاشر نے مطمئین ہوتے سوال کیا۔۔۔”جی کھا لیا اور آپ ناراض ہیں کیا ؟؟رات والی بات سے؟“ نور نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔۔۔”نہیں،میں کسی سے ناراض نہیں ہوں اور ویسے بھی رات گئی بات گئی۔۔۔“ اپنے انداز سے لاپروائی ظاہر کرتے حاشر نے جواب دیا تو نور اُس کے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھ چکی تھی۔۔۔”پھر بھی ابو کو پھوپھو کی بات کا یقین کرتے آپ کو ڈانٹا نہیں چاہیے تھا“”چھوڑو کچھ نہیں ہوتا۔ ویسے بھی غلطی میری تھی مجھے سارہ کے منہ نہیں لگنا چاہیے تھا نہ میں اُسے کچھ کہتا نہ بات بڑھتی اور تم کیا یہ میرادل جلانے والی باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو مجھے چھوڑو اور اپنا بتاؤ شاپنگ مکمل ہو گئی یا نہیں؟“حاشر نے سر جھٹکتے بات بدلی تو نور نے بھی مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا تب ہی وہ اُسے اپنی شاپنگ کے متعلق بتانے لگی۔۔۔۔۔۔زارون دی جان سے باتیں کرتے کرتے وہیں سو گیا اور شام سات بجے کے قریب اُس کی آنکھ موبائل پر ہونے والی مسلسل بیل سے کھلی۔”ہیلو۔۔۔۔۔“ اُس نے دیکھے بغیر ہی موبائیل اُٹھاتے کان سے لگایا۔۔۔۔”ہیلو کے بچے تم نے کہا تھا میں پانچ بجے تک آجاؤں گا اور اب ٹائم دیکھ لو کیا ہورہا ہے؟سات بج گئے ہیں اور یہ تم اس وقت سو رہے ہو کیا؟“ عالیان جو ایک ضروری میٹنگ جس میں زارون کا ہونا لازمی تھا اُس کا انتظار کر کر کے اکیلے ہی اٹینڈ کر کہ آیا تھا اور اب پچھلے آدھے گھنٹے سے کال کرتے اُس کے فون نہ اُٹھانے پر مزید برہم ہوا۔۔۔۔"ہاں،کیوں اس وقت سونے پہ کوئی پابندی ہے کیا؟“ زارون نے سیدھے ہو کر لیٹتے عالیان کی آواز پر آنکھیں کھولیں۔۔۔”نہیں پابندی کوئی نہیں اور تم پہ تو بالکل بھی کسی بات یا چیز کی پابندی نہیں اس لیے سکون سے نیند پوری کرو اور جب سب کاموں سے فارغ ہو جاؤ تو کال کر لینا بتا دوں گا کہ کس کام کے لیے تمہیں پچھلے آدھے گھنٹے سے فون کر رہا تھا۔۔۔“ عالیان نے زارون کی بات سنتے ہی بڑی نرمی سے باتیں سُنائی اور ٹھک سے کال کاٹ دی۔۔۔”اُففف کیا مصیبت ہے۔۔۔۔“ موبائل کان سے ہٹاتے اُس نے اسکرین کو گھورا اور کمرے میں ایک نظر دوڑاتے دی جان کو تلاش کیا جو شائد وہاں موجود نہیں تھیں تب ہی وہ فریش ہونے کے بعد اُن کی تلاش میں باہر آیا تو وہ اُسے سامنے ہی ہتشام کے ساتھ بیٹھی نظر آگئیں۔۔۔۔۔”السلام علیکم۔۔۔۔۔۔!!“ زارون نے اُن دونوں کے قریب آتے ہتشام صاحب کو سلام کیا جو اُسے دیکھتے اُٹھے اور اپنے سینے سے لگایا۔۔۔۔”کیسا ہے میرا شیر ؟“الگ ہوتے اُنہوں نے جتنی خوشدلی سے پوچھا زارون نے زبان سے جواب دینے کے بجائے اثبات میں سر ہلاتے اُتنی ہی بے رخی دیکھائی۔۔۔۔۔”دی جان آپ نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟“ زارون نے ہتشام صاحب کو نظر انداز کرتے ساجدہ بیگم کے قریب بیٹھتے سوال کیا۔۔۔۔۔”اس لیے کہ اپنی نیند پوری کر لو اتنے سکون سے سوئے تھے تم کہ مجھے مناسب نہیں لگاجگانا۔۔۔۔“ اُس کی کالی خوبصورت آنکھوں میں بے وقت نیند کی وجہ سے سرخ ڈورے دیکھ کر وہ مسکرائیں۔۔۔۔۔”میری ایک ضروری مینٹگ تھی آج، جہاں مجھے پانچ بجے پہنچنا تھا۔۔۔“زارون نے اکتاہٹ سے بتایا۔۔۔”تو کیا ہوا اپنی دی جان کے لیے ایک میٹنگ نہیں چھوڑ سکتے تم؟“ ساجدہ بیگم نے ہتشام صاحب کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے اپنے پوتے سے اعتراض کیا۔۔۔۔۔”آپ کے لیے تو میں دنیا کا ہر کام، ہر میٹنگ چھوڑدوں“ اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے زارون نے نرمی اور پیار سے کہا۔”تو اپنے باپ سے بھی ناراضگی چھوڑ دے ،اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے“(ساجدہ بیگم جو زارون کے لہجے کی وجہ سے ہتشام صاحب کا اُترا ہوا چہرہ دیکھ کر اندر سے افسردہ ہو چکی تھیں) اُنہوں نے زارون کا موڈ ٹھیک دیکھ کر سمجھایا۔۔۔۔”ہمم میری ان سے کوئی ناراضگی نہیں اور رہی بات غلطی کے احساس ہونے کی تو اب ان کی کوئی بھی تلافی میری ماں کو واپس نہیں لا سکتی۔ اس لیے پلیز دی جان دوبارہ مجھے اس بات کے لیے مت کہیے گا جو میں کبھی چاہ کر بھی پوری نہیں کرسکتا۔۔۔“زارون نے ہتشام صاحب کی طرف دیکھتے لہجے میں سختی سموئے جواب دیا تو اُنہوں نے ناامیدی سے ساجدہ بیگم کی طرف دیکھا جو زارون کی ضد کو اچھے سے جانتی تھیں۔۔۔۔”اچھا نہیں کروں گی دوبارہ یہ بات۔ اُٹھو رشیدہ نے کھانا لگا دیا ہے۔ کھانا کھاتے ہیں۔ مجھے تو بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔“آنکھوں ہی آنکھوں میں ہتشام صاحب کو تسلی دیتے اُنہوں نے بات بدلی تو زارون بھی کچھ کہے بغیر اُن کا ہاتھ پکڑے ٹیبل پر لے آیا جہاں آج ساجدہ بیگم نے اُس کی پسند کی تمام چیزیں بنائیں تھیں ۔۔۔۔دو دن بعد سارہ اور نور دونوں کو فریحہ بیگم کے کہنے پر مایوں بیٹھا دیا گیا۔ نور نے یونیورسٹی سے ایک ہفتے کی چھٹی لے لی اور خدیجہ کو بھی اپنی شادی کی بجائے کہیں جانے کا بتا دیا کیونکہ نور نہیں چاہتی تھی کہ وہ اُسے اپنی شادی پہ بُلائے اور اُس کے کپڑے ، میک اپ اور باتوں سے فریحہ بیگم کے ساتھ ساتھ کسی کو بھی بات کرنے کا موقع ملے۔۔۔حارث کے ساتھ ساتھ حاشر بھی صبح سے ہی کاموں میں مصروف تھا کیونکہ کل مہندی تھی اور سکندر صاحب نے گھر کہ تمام کام اُن دونوں کے ذمے لگاتے خود کھانے وغیرہ کا انتظام سنبھل لیا تھا۔۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا گھر مہمانوں سے بھر گیا تھا سکندر صاحب کے بھائیوں کے ساتھ ساتھ قریبی رشتے دار مہندی سے ایک دن پہلے ہی آچکے تھے۔ گھر میں ہر طرف شور شربا اور رونقیں لگی تھیں مگر نور کا دل اندر سے خوف اور آنے والے وقت کا سوچتے بیٹھا جا رہا تھا۔ اُ س نے کتنی ہی بار ہمت کی کہ وہ حارث کو سب بتا دے پر گھر میں ہونے والے ہنگامے اور سکندر صاحب کا سوچتے ہی اُس نے خود کو اللہ پاک کے رحم و کرم پر چھوڑتے خاموشی اختیار کی پر اب جو خبر سحر(اُس کہ ماموں کی بیٹی)کہ ذریعے اُس کے کانوں تک پہنچی اُس نے اُسے اندر تک خوف زدہ کردیا۔۔۔”پر کیوں آپی نکاح آج کیوں ہونا ہے اور ابھی تو مہندی بھی نہیں ہوئی ؟“ نور نے کانپتی ہوئی آواز میں سحر سے پوچھا جو یہ خبر نور کو بڑی خوشی خوشی سنا رہی تھی۔۔۔۔۔”یہ تو مجھے بھی نہیں پتا پر شائد مہندی کا فنکشن اکھٹا ہونے کی وجہ سے پھوپھا نے یہ فیصلہ کیا ہے۔۔“ سحر نے اندازہ لگاتے نور کو بتایا تو اُسے اپنی روح تک کانپتی محسوس ہوئی ۔۔۔۔”لیکن ابو ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟“ مطلب کل مہندی تھی نا کل کر دیتے نور نے سحر کے حیرت سے دیکھنے پر بات بدلی۔۔۔”ہمم تو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے نکاح ہی ہونا ہے نا ؟آج ہو یا کل ؟اور تم اتنا پریشان کیوں ہو رہی ہو ؟کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے ؟“سحر نے اتنی سردی کے باوجود بھی اُس کے چہرے پر پسینے کی ننھی بوندیں آتی دیکھ کر پوچھا۔”نہیں مجھے کیوں اعتراض ہونا ہے بھلا۔“ نظریں چُراتے اُسں نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے جواب دیا اور زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پہ سجائی تاکہ سحر کو شک نہ ہو۔۔۔”ہاں نا ویسے بھی تمہاری اور جنید کی بات تو کافی وقت سے طے ہے۔ بس اب تم یہ جوڑا پہنو اور میں تمہیں تیارکروں کیونکہ ایک گھنٹے تک پھو پھو لوگ آجائیں گے۔۔۔۔۔“ اس نے سفید خوبصورت سے جوڑے کی طرف اشارہ کرتے نور سے کہا جو اثبات میں سر ہلاتے جوڑے کے ساتھ ساتھ اپنا موبائل بھی سحر کی نظر سے بجا کر واش روم میں لے جا چکی تھی...

قسط نمبر:10

گاؤں سے واپس آنے کے بعد وہ کچھ دن اپنے ایک نئے پراجیکٹ کے سلسلہ میں کافی مصروف رہا اور کل بھی اُس کی ایک ضروری میٹنگ تھی جس کی وجہ سے اُسے اور عالیان کو کراچی جانا تھا۔ جہاں ان کا دو دن کا اسٹے تھا۔ اسی لحاظ سے وہ دونوں کل نکلنے کے لیے اپنی اپنی ضروری چیزوں کی پیکنک کر رہے تھے۔ عالیان کے موبائل پر کال آنے لگی جیسے دیکھتے ہی وہ زارون (جو اُسی کہ کمرے میں موجود تھا)کو دو منٹ رکنے کا بولتے مسکراتے ہوئے کال ریسیو کرتے اپنے کمرے میں بنی بالکونی میں چلا گیا۔۔۔۔”یہ تو گیا کام سے۔۔“ زارون نے اُس کی مسکراہٹ سے اندازہ لگا لیا تھا کہ کس کی کال ہے ؟ تب ہی اُس کی پشت کو دیکھتے اُس نے خود کلامی کی اور بیڈ پر پڑے کپڑوں اور چیزوں کو دیکھتے خود ہی اُٹھا کر بیگ میں رکھنے لگا تاکہ عالیان جیسے ہی فارغ ہو وہ لوگ کھانا کھا کر سو سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نور نے واش روم میں آتے ہی سب سے پہلے آر جے کو کال کی تاکہ اُسے سب بتا کر مدد کے لیے کہہ سکے پر پہلے تو آرجے نے کال لیٹ ریسیو کی اور دوسرا ابھی اُس نے بات شروع ہی کی تھی کہ سحر نے باہر سے دروزاہ کھٹکھٹاتے اُسے جلدی کرنے کا کہا تو گھبراہٹ کے مارے موبائل اُس کے  ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا۔۔۔۔”اللہ۔۔۔“اس نے دونوں ہاتھ منہ پہ رکھتے موبائل کی ٹوٹی ہوئی اسکرین کو دیکھا (جس پر اُ س نے حارث کے اتنی بار کہنے کے باوجود بھی پروٹیکڑ نہیں لگوایا تھا)۔۔۔”نور کیا ہوا اور یہ کیا گرا ہے؟تم ٹھیک ہو نا؟“سحر جو دروازے سے واپس پلٹنے لگی تھی اندر سے آنے والی آواز پر چونک کر پوچھنے لگی۔۔۔”جی آپی سب ٹھیک ہے وہ شیمپو کی بوتل گر گئی تھی۔۔“ خود کو سنبھالتے اُس نے جواب دیا اور موبائل اُٹھاتے آن کرنے کی کوشش کی پر آج قسمت اُس کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہ تھی۔۔۔۔ بار بار کوشش کرنے کے بعد بھی جب موبائل آن نہ ہوا تو اُس نے رونا شروع کر دیا اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اب کیا کرے اور اوپر سے سحر جو بار بار اُسے جلدی کرنے کا بول رہی تھی تب ہی اُس نے اُس شخص کو کبھی خوش نہ رہنے کی بددعا دیتے کانپتے ہاتھوں سے منہ ہاتھ دھوتے اپنی آنکھوں میں پانی کے چھینٹے مارے تاکہ اُس کی سرخی کم ہو سکے اور چینج کرتے باہر آگئی۔ جہاں سحر اب اُس کی جیولری اور چوڑیاں وغیرہ سیٹ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔”اتنا ٹائم لگا دیا تم نے؟اور یہ کیا تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا؟ٹھیک ہو نا تم؟“”جی آپی کچھ نہیں بس امی یاد آ رہی ہیں۔۔۔“ نور نے اپنے اندر کی بے بسی کو گھٹن میں بدلتا دیکھ کر کہا اور سحر کے ساتھ لگتے رونے لگی۔۔۔۔”نور پلیز صبر کرو اور یہ رونے کا وقت نہیں ہے بلکہ خوشی کا ہے اس لیے اس وقت رو کہ خود کو ہلکان کرنے سے بہتر ہے تم یہ سمجھو کہ پھوپھو تمہارے ساتھ ہیں اور وہ بھی تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہیں۔۔۔“سحر نے اُسے سمجھاتے ٹشو پیپر تھمایا تو نور نے اپنی آنکھیں صاف کرتے اُس سے موبائل لینے کا سوچا پر پھر اپنے خیال کو رد کرتے خاموشی سے آنے والے وقت کے ٹل جانے کی دعائیں کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”کر آئے بات ؟“ زارون جو اُس کی پیکنک کرنے کے بعد اپنے موبائل پر آنے والی کال ریسیو کرتے اُس کے کمرے سے باہر آگیا تھا اور اب ٹیبل پر برتن لگاتے اُسی کے انتظار میں بیٹھا تھا اُسے دیکھ کر  اُس کی جانب متوجہ ہوتے پوچھنے لگا جو اثبات میں سر ہلاتے چیئر پیچھے کرتے بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔”ہاں،بات کیا کرنی تھی؟ ہمیشہ کی طرح آج پھر غائب ہو گئی ہیں میڈم اور پچھلے آدھے گھنٹے سے بات کی بجائے اُس کی دوبارہ کال یا میسج کا انتظار کر رہا تھا کہ مجھے کچھ بتائے تو میں باہر آؤں پر لگتا ہے مجھے انتظار پہ لگا کر خود سو گئی۔۔۔“ اپنی پلیٹ میں چاول ڈالتے اُس نے زارون کو بتایا تو وہ عالیان کے خراب موڈ کی پروا کیے بناء قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔”ہوننہ ہنس لو بچے ابھی تمہارے ہنسنے کے دن ہیں۔ بہت جلد تمہیں بھی رولانے والی آنےو الی ہے۔۔۔“ عالیان نے اُسے اپنی حالت سے لطف اندوز ہوتا دیکھ کہا تو زارون نے سیریس ہونے کی کوشش کی مگر ناکام ہوتے پھر سے مسکرانے لگا۔۔۔۔۔”یہ تو وقت بتائے گا کہ کون کسے رلاتا ہے؟میں یا وہ“ اپنے چہرے پر مسکراہٹ برقرار رکھتے اُس نے عالیان کو چیلنج کرنے والے انداز میں کہا تو اُس نے تیوری چڑھائی۔۔۔”مطلب تم ابھی بھی اُس معصوم کو رلانے کا اراداہ رکھتے ہو؟“ چمچہ پلیٹ میں رکھتے اُس نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔۔”نہیں میرا ایسا کوئی ارداہ نہیں پر وہ خود ہی رونا چاہے تو اس میں میرا کیا قصور؟“ اپنی پلیٹ میں چاول ڈالتے اُس نے جتنے پرسکون انداز میں کہا عالیان کا دل اپنے سامنے بیٹھے اُس شخص کو (جیسے وہ اپنا دوست کہتا تھا)تھپٹر لگانے کا کیا۔۔۔۔۔”ایک بات کا جواب دینا پسند کریں گئے آپ؟مسٹر زارون علی؟“ ہاتھ باندھتے عالیان نے طنزیہ اُس کا نام اتنے احترام سے لیا۔۔۔۔”جی پوچھیں۔۔؟“ زارون نے ہاتھ روکتے اُسی کے انداز میں اجازت دی۔۔۔۔۔ا”آپ کی نور کے ساتھ ،میرا مطلب میری بہن کے ساتھ کوئی خاص دشمنی ہے یا آپ کو شوق ہے کسی کی بھی زندگی برباد کرنے کا۔۔۔؟“ نور کے نام پر زارون کے گھورنے پر عالیان نے بہن کا لفظ استعمال کیا۔۔۔۔”پہلی بات یہ کہ میں نے اُس کی زندگی برباد نہیں کی بلکہ اُس کے سو کالڈ کزن جنید سے بچایا ہے۔ جو نہ صرف ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہے بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ اُس کی امی حضور نور کے پیار میں نہیں بلکہ اُس کے ساتھ آنے والی دولت کے لیے یہ سب کر رہی ہیں،باقی رہی بات میرے طریقے کی تو وہ غلط تھا مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا پر اُس وقت میری سمجھ میں بس یہی بات آئی اور میں نے کر لی اور جو کام لر لیا اُس پہ اب کیا پچھتانا۔۔۔“ کندھے اچکاتے اُس نے عالیان کو تفصیل سے بتایا جس پر ناصرف اُسے حیرت ہوئی بلکہ نور کی کسی اور سے شادی کا سنتے  کچھ غیر معمولی سا احساس ہوا جیسے زارون کی نظر سے بچانے کے لیے اُس نے گلاس اُٹھا کر لبوں سے لگاتے پانی کا گھونٹ بھرا۔۔۔۔”کیا ہوا۔۔۔؟“ اُسے خاموش دیکھ کر زارون نے سوال کیا۔کچھ نہیں بس کھانا کھاؤ مجھے نیند آ رہی ہے ،عالیان نے کچھ سوچتے ہوئے زارون سے کہا تو اُس نے پروا کیے بغیر پھر سے کھانا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”امی یہ سب کیا ہے؟آپ لوگوں نے کیوں حامی بھری نکاح کی؟اور یہ خالو کو کیا جلدی پڑ گئی جو آج ہی نکاح کرنے کا کہہ دیا۔۔“ جنید نے نکاح کی خبر ملتے ہی پریشانی سے کمرے میں ٹہلتے سوال کیا ۔۔۔۔۔”یہ تو اب مجھے بھی نہیں پتا پر کہہ رہے تھے کہ کل مہندی کا فنکشن ساتھ ہے تو میں اپنی بیٹی کو ایسے جنید کے ساتھ نہیں بیٹھاؤں گا اس لیے آج نکاح کر دیتے ہیں تاکہ شرعی طور پر وہ ایک دوسرے کہ ساتھ بیٹھنے کا حق رکھ سکیں۔۔۔“ خالدہ بیگم جو سکندر صاحب کی بات پر نہ اُن کو منع کر سکتی اور نہ ہی جنید کی ضد کی وجہ سے اُسے کچھ بتا رہی تھیں بلاآخر گھر سے نکلنے سے دس منٹ پہلے اُنہوں نے سلیم صاحب کے زور دینے پر جنید کو بتایا جو اب تک یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ لوگ سارہ اور حارث کے نکاح میں جا رہے ہیں۔۔۔ ”تو نہ بٹھاٸیں اپنی بیٹی کو میرے ساتھ اور میں یہ نکاح کسی صورت نہیں کروں گا۔۔۔“ جنید نے صوفے پر بیٹھتے اپنا فیصلہ سُنایا۔۔۔۔”تو کیا کرو گے؟ہماری عزت اچھالو گے یا پھر اُس معصوم لڑکی کی زندگی تباہ کرو گے؟جو پچھلے دس سال سے تمہارے نام پہ بیٹھی ہے۔۔“ سلیم صاحب نے اُسے شرم دلانی چاہی جو تب سے خاموش تھے۔۔۔”تو ابو میں نے نہیں کہا تھا کہ اُس لڑکی کو میرے نام کر دیں یہ سب آپ لوگوں کا فیصلہ تھا اور میں نے تب بھی آپ لوگوں کو منع کیا تھا کہ ایسا نہ کریں کیونکہ حالات اور وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔۔۔“ جنید نے اپنا دفاع کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔۔۔۔”اب جو ہونا تھا ہو گیا فیصلہ جس کا بھی تھا پر اب تمہیں ہماری عزت رکھنی ہو گی اُس کے بعد بے شک تم نور کو ہمارے پاس چھوڑ کے دوسری شادی کر لینا۔۔۔۔“ خالدہ بیگم نے اُس کی بات سنتے دو ٹوک بات کی تو جنید کے ساتھ ساتھ سلیم صاحب نے بھی اُن کی طرف افسوس سے دیکھا جن کا نور کے ساتھ خونی رشتہ تھا پر دولت کے لالچ نے جیسے اُن کا خون ہی سفید کر دیا ہو۔۔۔”اُس وقت بھی تو میں آپ لوگوں کے پاس اُسے چھوڑ کر اُس کی زندگی تباہ کروں گا نا تو اب کیا مسئلہ ہے؟ آپ ابھی خالو کو سب بتا دیں تاکہ وہ نور کی کسی اور جگہ شادی کر دیں۔۔۔۔“جنید نے خالدہ بیگم کے ساتھ ساتھ سلیم صاحب کو بھی سمجھنا چاہا۔۔۔۔”ٹھیک ہے اگر تمہیں اپنی ہی مرضی کرنی ہے تو میں سکندر کو انکار کر دیتا ہوں۔۔۔“ سلیم صاحب کو جنید کی ضد اور خالدہ بیگم کی باتیں سُن کر یہی ٹھیک لگا۔۔۔”خبردار اگر آپ نے یا جنید نے انکار کیا تو آپ دونوں  میرا مرا ہوا منہ دیکھیں گے۔۔۔“ خالدہ بیگم نے کہنے کے ساتھ ساتھ عملی مظاہرے کے لیے دراز میں رکھی نیند کی گولیوں کی شیشی اُٹھائی اور ڈھکن کھولتے کھانے لگی کہ جنید نے آگے بڑھتے جلدی سے شیشی اُن کے ہاتھ سے پکڑی۔۔۔”امی کیا ہو گیا ہے آپ کو۔۔؟“ شیشی ایک طرف پھینکتے جنید زور سے چیخا۔۔۔۔”مر جانے دو مجھے اپنی بے عزتی اور ذلت سے تو یہی بہتر ہے کہ میں ابھی مر جاؤں۔۔۔“ اُس سے بھی اونچی آواز میں چیختے خالدہ بیگم اپنے دونوں ہاتھ چہرے پر رکھتے رونے لگیں تو جنید نے بے بسی سے سلیم صاحب کی طرف دیکھا جو اب خاموش کھڑے سارا تماشہ دیکھ رہے تھے۔۔۔”ٹھیک ہے میں نکاح کے لیے تیار ہوں پر نکاح کے بعد میرا نور سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔۔“ اُن دونوں کی طرف ایک نظر ڈالتے وہ ہتھیار ڈالتے کمرے سے باہر نکالا تو خالدہ بیگم نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے جو بس صرف ڈرامہ تھے۔۔۔”مجھے لگتا ہے تمہیں جنید کی بات مان لینی چاہیے ایسے کسی کی بچی کی زندگی تباہ کر کہ کیا ملے گا ہمیں۔۔۔“ سلیم صاحب( جن کی کبھی بھی اس گھر میں نہیں چلی تھی)نے ایک بار پھر سے خالدہ بیگم کو سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی۔۔۔”ہاں آپ تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ میں ساری زندگی آسائیشوں کو ترستے ہوئے گزار دوں،پہلے آپ کی ایک چھوٹی سے دوکان تھی سوچا بیٹا بڑا ہو گا تو شاید زندگی میں سکون آجائے پر بیٹے نے بھی بڑے ہوتے کوئی خاص میری امیدیں پوری نہیں کی اور اب آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں گھر آئی دولت ٹھکرا دوں وہ بھی اس نالائق کے پیچھے لگ کر؟اور آپ نکاح ہو لینے دیں نور گھر آجائے گی تو اس کا دماغ بھی خود ہی سیٹ ہو جائے گا۔۔۔“شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی آنکھیں صاف کرتے اُنہوں نے سلیم صاحب کو طعنہ دینے کے ساتھ ساتھ مطمئن کیا تو نسرین(ملازمہ ) کہ کمرے میں آتے ہی اُنہوں نے مزید بحث کی بجائے دل سے نور کے حق میں دعا کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سحر نے نور کا ہلکا سا میک اپ کرنے کے بعد جیولری اور چوڑیاں پہنائی اور اب بالوں کو باندھتے کچھ لٹیں باہر نکالتے ڈراک ریڈ کلر کا دوپٹہ اُسکے سر پر ٹکا دیا۔۔۔”بہت پیاری لگ رہی ہو ماشاءاللہ۔۔۔۔“ شیشے میں اُس کے عکس کو دیکھتے سحر نے اُس کے سوگورا چہرے کو دیکھتے (جو اُسے مزید خوبصورت بنا رہا تھا) نظر اُتاری تو نور نے نظراُٹھاکر اپنے آپکو دیکھا۔۔۔۔”اچھی لگ رہی ہو نا؟“ سحر نے اُسے نظر اُٹھتے خود میں گم صم دیکھ کر پوچھا۔۔۔”جی ۔۔۔“ نظریں جھکاتے اُس نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنی خوبصورتی کی طرح اپنی قسمت کے اچھے ہونے کی آرزو کی جو اُس کے پیدا ہونے سے لے کر اب تک خراب ہی تھی۔۔۔”جنید بھائی لوگ آگئے ہیں پھوپھا کہہ رہے ہیں جلدی سے نور آپی کو تیار کرکے باہر لے آئیں۔۔۔“ ثمرہ(سحر کی چھوٹی بہن)نے کمرے میں آتے ہی سکندر صاحب کا پیغام دیا تو نور کو اپنا دل نکل کر حلق تک آتا محسوس ہوا۔۔”ہاں بس آتے ہیں۔۔۔“سحر نے جواب دیتے ایک نظر دوبارہ سے نور کی طرف دیکھا اور ہر چیز پرفیکٹ ہونے پر دوپٹہ اُس کے سر سے چہرے پر ڈالا اور اُسے اُٹھنے کا کہا جو بس بے ہوش ہونے کے قریب تھی۔۔۔”کیا ہوا؟؟تم ٹھیک ہو نا؟“ سحر نے اُسے کھڑے ہونے کے ساتھ ہی لڑکھڑاتا دیکھ سوال کیا۔۔۔۔”جی بس سر چکرا رہا ہے۔۔۔“خود کو سنبھالتے جواب دیا۔ ”اچھا میں پانی دوں؟“ سحر نے اُسے واپس بیٹھاتے پوچھا۔۔”جی دے دیں۔۔“اثبات میں سر ہلاتے اُس نے لمبا سانس لیتے اپنی سانسوں کو بحال کرنے کی کوشش کی جو خوف کی وجہ سے بند ہونے کے قریب تھیں۔۔۔”دیتی ہوں۔۔۔“ اس کے ٹھنڈے ہاتھوں کو محسوس کرتے وہ خود بھی پریشان ہو گئی تھی تب ہی جلدی سے پانی لینے چلی گئی۔۔۔”پلیز اللہ پاک میری مدد کریں میں کیسے نکاح پہ نکاح کر سکتی ہوں؟پلیز کچھ ایسا کر دیں کہ سب ٹھیک ہو جائے۔۔۔“ سحر کے جاتے ہی نور نے اپنے ہاتھ اُٹھاتے دعا کی اور آنسوؤں کو باہر نکلنے سے روکا جو بند توڑنے کو بے تاب تھے۔۔”یہ لو ۔۔۔۔۔“ سحر نے آتے ہی گلاس اُس کی جانب بڑھایا تو نور نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے گلاس پکڑتے پانی کے دو گھونٹ بھرے جو بامشکل اُس کے حلق سے نیچے اُترے۔۔۔۔”ٹھیک ہو اب۔۔؟“ نور نے گلاس سحر کی طرف بڑھایا تو اُسنے فکر مندی سے پوچھا۔۔”جی ۔۔۔“ نور نے زبان کی بجائے سر ہلایا۔۔۔۔”اچھا تو چلو پھوپھا بُلا رہے ہیں۔۔۔۔“دوبارہ دوپٹہ اُس کے چہرے پر ڈالتے سحر نے کہا تو نور نے اُسے مزید کسی بات کا موقع دیے بغیر اُٹھ کر آہستہ قدم اُٹھاتے باہر کا رخ کیا جہاں قاری صاحب کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی موجود تھے۔

قسط نمبر:11

عالیان اُٹھو ہمیں فوراً جانا ہے“ زارون جو کھانا کھا کر راحیل کی کال آنے پر آواز ٹھیک سے نہ آنے کے باعث ٹیبل سے اُٹھ کر تھوڑا سائیڈ پر ہوا تھا اُس نے واپس آتے عالیان سے کہا جو ابھی تک کھانا کھانے میں مصروف تھا۔۔۔”پر کہاں؟“ عالیان نے چمچہ منہ میں ہی رکھے پوچھا تو زارون نے جواب دینے کی بجائے اُسے کھینچ کر کھڑا کیا۔۔۔ ”باتیں کر کے وقت ضائع مت کرو اور جلدی سے گاڑی نکالو میں دو منٹ میں آیا“ اُس نے چمچہ اُس کے منہ سے نکالتے غصے سے ٹیبل پر پٹخا تو عالیان کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہوا۔۔۔”اوکے میں گاڑی نکالتا ہوں۔ آجاؤ تم“ مزید کوئی سوال کرنے کی بجائے اُس نے چابی لیتے باہر کا رخ کیا اور زارون موبائل پر کسی کو کال ملاتے جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”یہاں لاؤ میرے پاس بٹھاؤ میری بیٹی کو“ خالدہ بیگم نے سحر کے ساتھ ساتھ نور کو بھی لاؤنج میں آتا دیکھ کر جنید کے قریب سے اُٹھ کر دوسری طرف صوفے پر بیٹھتے کہا تو سحر نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتے نور کو اُن کے ساتھ بیٹھا دیا جہاں سارہ پہلے سے بیٹھی تھی۔۔۔”قاری صاحب شروع کریں“ نور کے آتے ہی سکندر صاحب جو اُسی کے انتظار میں بیٹھے تھے اُنہوں نے قاری صاحب سے کہا جنہوں نے سکندر صاحب کے کہنے پر پہلے سارہ اور حارث کا نکاح پڑھانا شروع کیا۔۔۔۔”اللہ... کیا کروں اب میں؟؟“ پلیز مجھے یہ گناہ کرنے سے بچا لے۔ نور نے آنسو جو اب آنکھوں سے باہر آنے کو بے تاب تھے اُن کو روکنے کے لیے اپنی آنکھیں سختی سے بند کیں اور ایک بار پھر سے وہ منظر اُس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگا جب اُس نے اپنی زبان سے زارون کے لیے اقرار کیا تھا۔۔۔”یااللہ مجھے موت دے دے، پر پلیز کوئی ذلت مزید میری قسمت میں مت لکھنا“ قاری صاحب کے بول اُسے بہت کچھ یاد دلانے لگے تو اُس نے آنکھوں کو مزید سختی سے بند کرتے دعا کی۔۔۔۔ نکاح مکمل ہوتے ہی سب نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے اور حارث اور سارہ کے رشتے کی خیروبرکت کے لیے دعا کی۔۔۔۔”بہت بہت مبارک ہو“ سب سے پہلے سکندر صاحب نے حارث کو گلے لگاتے مبارک باد دی تو حاشر کے ساتھ ساتھ باقی سب نے بھی اُٹھ کر حارث کو مبارک باد دی اور جنید جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا اُس نے خالدہ بیگم کے گھورنے پر اُٹھ کر حارث کے گلے لگتے اُسے مبارک باد دی۔۔۔۔۔۔”منہ میٹھا کرواؤ بھئی سب کا“ خالدہ بیگم نے سحر کو کہا تو وہ مسکراتے ہوئے اُٹھی اور سب کا منہ میٹھا کروایا جس کے بعد سکندر صاحب نے قاری صاحب کو نور اور جنید کا نکاح شروع کرنے کا کہا تو وہ سر ہلاتے پہلے نور سے اُس کی مرضی پوچھنے لگے جو بالکل گم صم سی بیٹھی مسلسل اپنی موت کے دعا کر رہی تھی۔۔۔۔”بیٹا کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ؟؟؟“ قاری صاحب نے دوسری بار پوچھا تو خالدہ بیگم کے ہلانے پر اُسے ہوش آیا اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتی سب لوگ باہر سے آنے والے شور پر اُس کی بجائے دوسری جانب متوجہ ہوئے جہاں سب سے پہلے ایک نوجوان لاؤنج میں داخل ہوا۔۔۔۔”کون ہیں آپ ؟؟؟“حاشر جو اُس کے قریب تھا اُس نے سب سے پہلے اُٹھتے پوچھا تو زارون نے جواب دینے کی بجائے ابرو اچکاتےاُسے ایک نظر دیکھ کر قدم آگے بڑھائے۔۔۔۔۔”یہ سب کیا ہو رہا ہے یہاں ؟؟“ اُس کی بات کا جواب دینے کی بجائے اُس نے نور کے سامنے آتے سوال کیا جس کی سانس اُس شخص کی آواز اور چہرے پر اٹک سی گئی تھی۔۔۔”تم ہوتے کون ہو یہ سب پوچھنے والے اور تم اندر کیسے آئے؟؟“ حارث نے اُسے نور کے سر پر کھڑا دیکھ کچھ ناسمجھی سے اُٹھ کر اُس کے قریب آتے پوچھا تو باقی سب بھی اُس لڑکے کے پیچھے دس بارہ لوگوں کو لاؤنج میں داخل ہوتا دیکھ کر کوئی چور ڈاکو سمجھ کر اُٹھ کر کھڑے ہوئے۔۔۔۔”میں کون ہوں یہ جاننا زیادہ ضروری نہیں“ اُس نے کہتے ہوئے قدم حارث کی جانب بڑھائے اور اپنی بات کو جاری رکھا ”بلکہ یہ دیکھنا زیادہ ضروری ہے“ اپنے ہاتھ میں پکڑا کاغذ کھول کر اُس کے سامنے کرتے وہ خاموش ہوا۔۔۔۔”کیا ہے یہ سب ؟؟؟“ نکاح نامے پر نور کے نام کے ساتھ ساتھ اُس کے دستخط دیکھ کر حارث نے جھپٹ کر کاغذ اُس کے ہاتھ سے لیتے سوال کیا۔۔۔”ہمم لگتا ہے پڑھے لکھے نہیں ہو تب ہی نکاح نامے پر اپنی بہن کا نام دیکھ کر بھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا ہے؟“کاغذ اُس کے ہاتھ سے لیتے اُس نے حارث کی آنکھوں میں دیکھتے بے خوف ہو کر بتایا تو اُس کے ساتھ ساتھ لاؤنج میں موجود سب لوگوں نے بے یقینی سے سرخ دوپٹے میں گھونگھٹ نکالے بیٹھی نور کو دیکھا جو سب کے بر عکس ابھی تک بیٹھی تھی۔۔۔۔”کیا بکواس ہے یہ سب اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بہن کے بارے میں ایسی بات کرنے کی“حارث نے ہوش میں آتے ہی زارون کا گریبان پکڑا تو عالیان کے ساتھ ساتھ باقی چار لوگ بھی اُن دونوں کی جانب بڑھے پر اُس سے پہلے ہی زارون نے حارث کے ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹکے۔۔۔۔”اپنے ہاتھ کنٹرول میں رکھو ورنہ ان کو توڑنے میں بس مجھے ایک سیکنڈ لگے گا“ انگلی اُٹھاتے اُس نے سرخ آنکھوں سے حارث کو وارن کیا۔۔۔۔”کیا سمجھتے ہو تم ؟؟ہم تمہاری دہشت سے ڈر جائیں گے اور اس جعلی نکاح نامے پر یقین کر لیں گے؟؟“حارث کا دل ابھی بھی اس بات کا یقین کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔۔۔”ہاہاہاہا جعلی ؟؟؟“ قہقہہ لگاتے اُس نے نکاح نامہ قاری صاحب کی طرف بڑھایا۔۔۔”دیکھیں یہ جعلی ہے؟“ خود سے وضاحت دینے کی بجائے اُس نے قاری صاحب سے پوچھا جو پہلے ہی گھبرائے کھڑے تھے۔ اُنہوں نے خاموشی سے نکاح نامہ پکڑتے دیکھا تو سکندر صاحب نے ہاتھ اُٹھاتے اُنہیں منع کیا اور نور کی طرف قدم بڑھائے جو بالکل گم صم بیٹھی اپنا ہی تماشہ بنتے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔”یہ لڑکا سچ بول رہا ہے؟“ اُس کے سر پر کھڑے ہوئے سکندر صاحب نے آہستہ مگر سخت لہجے میں سوال کیا۔۔۔”ابو میں کہہ رہا ہوں نا یہ لڑکا جھوٹ بول رہا ہے۔ مجھے نور پر یقین ہے وہ ایسا نہیں کر سکتی“ حارث نے آگے بڑھتے اُس کی سائیڈ لی تو سکندر صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔۔ ”کوئی بھی اتنی بڑی بات یونہی ہی نہیں بول سکتا اور تم چپ رہو میں پوچھ رہا ہوں نا“ اُس کی بات سنتے ہی اُنہوں نے چپ رہنے کا کہا اور نور کا بازو پکڑتے اُسے اپنے سامنے کھڑا کیا جس کی وجہ سے اُس کا دوپٹہ سرک کر سر سے کندھے پر آگیا۔۔۔۔”کیا پوچھ رہا ہوں میں یہ لڑکا سچ کہہ رہا ہے یا نہیں؟“ اُس کے بازو کو دبوچتے اُنہوں نے گرجتے ہوئے پوچھا تو نور نے  رونا شروع کر دیا اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ انکار کرے یا اقرار۔۔۔۔ ”میں کچھ پوچھ رہا ہوں“ سکندر صاحب نے اُس کے رونے کی پروا کیے بناء ہی چلاتے ہوئے سوال کیا تو زارون جو خاموش کھڑا نور کے اقرار کا منتظر تھا آگے بڑھا۔۔۔”میں آپ کو بتا چکا ہوں نا اور ثبوت بھی دکھا چکا ہوں تو کیوں آپ چلا رہے ہیں اس پہ۔۔۔۔“ ”میں تم نے بات نہیں کر رہا اس لیے خاموش رہو“ اُس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی سکندر صاحب نے وارن کیا اور نور سے پھر سے سوال کیا۔ جس کا جواب اُس نے زبان کی بجائے ہاں میں سر ہلایا ”ابو۔۔۔ م۔۔یں ن۔۔ے خو۔۔۔د نہٖی۔۔ں کی۔۔ ا ۔۔۔س نے۔۔ زب۔۔ر۔۔د۔۔س۔۔۔۔۔۔“ ہمت کرتے اُس نے اقرار کی بجائے اپنی صفائی دینا چاہی مگر اُس سے پہلے ہی سکندر صاحب کا ہاتھ اُٹھا اور اُس کے گال پر نشان چھوڑتے اُس کے ہونٹ کو زخمی کر گیا۔۔۔ ”بے شرم بے حیا، پیدا ہوتے ہی تمہارا گلا دبا دیتا تو اچھا تھا“ کہنے کے ساتھ اُنہوں نے دونوں ہاتھ اُس کے گلے پر رکھتے دبایا تو زارون نے زور سے اُنہیں پیچھے دھکا دیا۔۔۔”میں بار بار آپ سے کہہ رہا ہوں پر کیا سمجھ نہٖیں آرہی آپ کو“ پسٹل نکالتے اُس نے غصے سے دھڑاتے ہوئے اُس کا رخ سکندر صاحب کی طرف کرتے سب کی بولتی بند کی۔۔۔”اب کسی نے کوئی اور بکواس کی تو میں شوٹ کر دوں گا“ نور کا ہاتھ پکڑتے اُس نے جتنی سختی سے کہا نور نے اتنی ہی بے رخی سے اُس کا ہاتھ جھٹکا۔۔۔۔”حارث بھائی پلیز..!! میری بات سنیں“  اس نے میرے ساتھ زبردستی،س۔۔ب۔۔۔ نور نے حارث کے سامنے ہاتھ جوڑے تو اس نے سکندر صاحب سے بھی زور دار تماچہ اُس کے گال پر مارا۔۔۔”زبردستی ؟؟زبردستی کوئی نکاح کر لیتا ہے کیا اور زبردستی کی تھی تو مر جاتیں پر یہاں واپس نہ آتیں“ ذلت اورغصے سے پاگل ہوتے حارث چلایا تو زارون کی برداشت جواب دے گئی اُس نے پسٹل حارث کی طرف کرتے فائر کیا جو عالیان کے بروقت ہاتھ مارنے پر دیوار میں جا لگا۔۔۔”یار کیا کر رہے ہو“عالیان نے زارون کے ہاتھ سے پسٹل پکڑا تو وہ حارث کو مارنے کے لیے آگے بڑھا پر اُس سے پہلے ہی عالیان نے اُسے سنبھالا۔۔۔۔”اسے کہو دفع ہو جائے۔ میری نظروں سے دور چلی جائے۔ اب میں اس کے غلیظ وجود کو مزید اس گھر میں برداشت نہیں کر سکتا“ سکندر صاحب نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھتے کہا تو نور نے حارث سے نظر ہٹا کر بے یقینی سے اُن کی طرف دیکھا جو اُس کے اپنے تھے۔۔۔۔۔”توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا پر شکر ہے میرا بیٹا بچ گیا میں تو ایسے ہی اُس کی پسند کی بجائے اسے معصوم سمجھ کر بہو بنا کر لے جا رہی تھی پر لاکھ لاکھ شکر ہے. وقت پر حقیقیت کھل گئی“ خالدہ بیگم نے کانوں کو ہاتھ لگاتے کہا تو نور نے اپنی آنکھوں کو صاف کرتے ایک نظر حارث کو دیکھاجو منہ موڑے کھڑاتھا...”۔۔۔بھا۔۔ئی ۔۔“ نور نے ہمت کرکے پھر سے کوشش پر اُس سے پہلے ہی اُس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا آیا اور وہیں حارث کے قدموں میں ہی زمین بوس ہو گئی۔۔۔۔۔”نور ؟؟؟“ زارون نے آگے بڑھتے اُسے اُٹھایا اور ہوش میں لانے کی کوشش کی تو فریحہ بیگم زارون کا دھیان نور کی طرف دیکھ کر سکندر صاحب کے قریب آئیں۔۔۔”بھائی صاحب اب جو ہونا تھا ہو گیا اور اس لڑکی نے پتا نہیں اور کیا کیا گل کھلائے ہونے ہیں۔ اس لیے میں کہتی ہوں اسے اس لڑکے کے ساتھ دفع کر دیں تاکہ مزید بدنامی نہ ہو“ اُن کے کان سے قریب ہوتے اُنہوں نے سرگوشی کی تاکہ زارون کو سُنائی نہ دے۔۔۔۔”میں اسے یہی دفن کر دوں گا پر اس لڑکے ساتھ کبھی نہیں بھجوں گا“سکندر صاحب کی بجائے حاشر جو کمرے سے سکندر صاحب کا پسٹل لے کر آیا تھا اُس نے اُسے زارون کی طرف کرتے کہا اور ساتھ ہی فائر کیا جو گارڈز کے پکڑنے کے باوجود زارون کے بازو میں لگا۔۔۔”میں تم سب کا خون پی جاؤں گا“ حاشر نے اُن سب کے ہاتھوں میں مچلتے ہوئے شور مچایا تو زارون نے اپنے بازو سے بہتے خون کی پروا کیے بناء نور کو نرمی سے اُٹھایا۔۔۔ عالیان نے آگے بڑھتے مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے پر زارون کے گھورنے پر سائیڈ پر ہوا تو اُس نے باہر جانے کی قدم حاشر کی جانب بڑھائے جو اب اُسے گالیاں دے رہا تھا۔۔۔۔”ہمم ،اُتنے ہی الفاظ منہ سے نکالو جن کا حساب بعد میں دے سکو اور تم جانتے نہیں کہ زارون علی کیا چیز ہے وہ  اس سب کا بدلہ تم لوگوں سے لے کر رہے گااور رہی بات نور کو یہاں سے نہ جانے دینے کی تو تم کیا تمہارا باپ بھی مجھے اسے لے جانے سے نہیں روک سکتا“  زارون نے اپنا غرور اور سختی اپنے الفاظ میں سموتے حاشر کو دھمکی دی اور تکلیف کے باوجود بھی وہ نور کو سنبھالتے آگے بڑھا پر پھر سے رک کر پلٹا۔۔۔۔”ویسے مجھے کافی افسوس ہوا، تم لوگوں کو نور کی بات سُن لینی چاہیے تھی کیونکہ وہ تم سب کو یہ بتانا چاہا رہی تھی کہ میں نے نکاح اُس کی مرضی کہ بغیر گن پوائنٹ پر کیا تھا اور اس میں نور کاکوئی قصور نہیں تھا اور نہ ہی وہ مجھے جانتی تھی یہ تو میری ضد تھی جو میں نے ہر حال میں پوری کی۔ میں اُس کا اپنا نہیں تھا پر تم لوگ تو اس کے اپنے تھے نا؟؟؟ تو کیوں نہیں سُنی اس کی بات؟؟؟کیا اپنی تربیت پر اتنی ہی بے اعتباری تھی یا غیرت نے آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی؟؟“ زارون نے سچ بتاتے نور کے کردار کو سب کی نظروں میں پاک کرنے کی کوشش کی اور مزید کوئی بات کیے بناء سب کو ساکت چھوڑے اُسے لے کر باہر نکل گیا تو عالیان نے گارڈز کو اشارہ کرتے سب کو سنبھالنے کا کہتے خود بھی اُس کے پیچھے ہی باہر کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔۔زارون نور کو لے کر پیچھے والی سیٹ پر بیٹھا تو عالیان نے آگے بیٹھتے جلدی سے گاڑی اسٹارٹ کی اور گیٹ سے باہر نکالتے ہسپتال کی طرف بڑھائی۔۔۔”تم ٹھیک ہو نا ؟؟؟“ گاڑی کی اسپیڈ بڑھاتے اُس نے زارون نے پوچھا جو سر پیچھے سیٹ کی بیک سے لگا چکا تھا۔۔۔۔”ٹھیک ہوں بس جلدی کرو نور کی طبیعت مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی“ اُس کی سانس اکھڑتی دیکھ کر زارون نے فکر مندی سے کہا تو عالیان نے اسپیڈ مزید بڑھائی اور گاڑی سنبھالتے ساتھ احمد(جو ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کا دوست بھی تھا) کو کال کر کے ساری بات بتاتے تمام انتظام کرنے کا کہہ دیا۔۔۔ اگلے دس منٹ میں وہ ہسپتال پہنچے تو احمد نے تمام انتظام مکمل کر لیے تھے اُن کے آتے ہی اُس نے نور کو ڈاکٹر عائشہ کے سپرد کرتے خود زارون کی جانب بڑھا جو اب مسلسل خون بہنے کی وجہ سے بے ہوش ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گولی نکالنے کے دو گھنٹے بعد زارون کو ہوش آیا تو اُس نے پہلا سوال نور کے متعلق کیا۔۔۔۔ ”وہ ٹھیک ہے۔ نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ہوش نہیں آیا“  ڈاکٹر کوشش کر رہے ہیں،ان شاءاللہ جلد ٹھیک ہو جائے گی“ عالیان جو پچھلے دو گھنٹے سے گھن چکر بنا کبھی نور کو دیکھتا کبھی زارون کو۔۔۔ اب زارون کے ہوش میں آتے اُس نے شکر ادا کیا کہ دونوں میں سے ایک تو ٹھیک ہے۔۔۔۔”مجھے نور کے پاس جانا ہے“ زارون نے ہاتھ میں لگی ڈرپ کھینچ کر اُتاری اور اُٹھ کر باہر کی طرف بڑھا تو عالیان نے اُپنا سر پکڑا۔۔۔”زارون رک جاؤ کیا ہو گیا ہے یار۔۔۔ ڈاکٹر نے تمہیں ریسٹ کرنے کا کہا ہے۔۔۔“ ”بھاڑ میں گیا ریسٹ مجھے نور کے پاس جانا ہے بس“ زارون نے چکر آنے کے باوجود دوسری جانب بڑھتے کہا تو عالیان نے اُس کے پیچھے آتے کمرے کی طرف اشارہ کیا جہاں نور کو رکھا گیا تھا۔۔۔۔۔”نور۔۔۔“ کمرے میں داخل ہوتے اُس نے بیڈ کے قریب جاتے اُسے پکارا جو ابھی تک ہوش خرد سے بیگانہ تھی۔۔۔”سر پلیز آپ پیشنٹ کو ڈسٹرب مت کریں۔ وہ پہلے ہی کافی اسٹریس میں ہیں“ عالیان کے ساتھ نرس نے اندر آتے زارون کو منع کیا۔۔۔”ڈاکٹر کہاں ہیں ؟؟؟“ زارون نے جواب دینے کی بجائے پوچھا تو اُس نے ساتھ والے کمرے کی طرف اشارہ کیا تو زارون عالیان کو وہاں رکنے کا کہتے خود ڈاکٹر کے کمرے کی جانب بڑھا تاکہ نور کی کنڈیشن کے متعلق پوچھ سکے۔

قسط نمبر:12

زارون کے نور کو لے جانے کہ کچھ دیر بعد اُس کے تمام گارڈز بھی چلے گئے تو فریحہ بیگم نے تمام لڑکیوں کو وہاں سے جانے کا کہا اور ساتھ قاری صاحب کا بھی شکریہ ادا کرتے اُنہیں فارغ کیا اور اب لاؤنج میں بس سب بڑے ہی بیٹھے تھے جو سب ہی اپنی اپنی جگہ خاموش تھے تب ہی  سب سے پہلے خالدہ بیگم نے جنید کے مسکرانے پر اُسے گھورا جو اس سب ڈرامے پر اور اپنی جان بخشی پر کافی خوش لگ رہا تھا ورنہ تو جیسے خالدہ بیگم نے اُسے قسمیں دیں تھی وہ آج نور سے نکاح کر ہی لیتا۔۔۔۔”بھائی صاحب ویسے نور نے اچھا نہیں کیا اگر کوئی اور پسند تھا تو بتا دیتی میں خالہ تھی ظاہر سی بات ہے اُس کی پسند کو ترجیح دیتی نہ کہ اپنے بیٹے کو۔۔۔“ خالدہ بیگم نے اچھے بننے کی بھرپور کوشش کی۔۔۔”میں معافی چاہتا ہوں آپ لوگوں سے اور ایک گزارش ہے کہ جتنے بھی لوگ یہاں موجود ہیں پلیز یہ بات یہاں سے باہر نہ نکلے۔۔۔“ سکندر صاحب نے ہاتھ جوڑے سب سے درخواست کی تو سلیم صاحب(جو نور کی جنید اور خالدہ بیگم سے جان بخشی پہ جہاں خوش تھے وہاں زارون کے اس طرح نور کو لے جانے اور نکاح کا بتا کر سب کی نظروں میں گرانے پر تھوڑے پریشان بھی ) نے آگے بڑھتے اُن کے ہاتھ پکڑے۔۔۔۔”ایسا مت کہو سکندر، نور اگر تمہاری بیٹی ہے تو ہماری بھی ہے اور تم نے سُنا نہیں اُس لڑکے نے کیا کہا تھا کہ اُس نے اپنی ضد کے لیے زبردستی نور سے یہ سب کروایا۔۔۔۔۔۔۔“ اُن کے قریب بیٹھتے اُنہوں نے یاد دہانی کروائی تو سکندر صاحب نے اپنے سینے پر ہاتھ پھیرا جہاں کافی دیر سے وہ درد محسوس کر رہے تھا ۔۔۔۔”بکواس کر رہا تھا وہ لڑکا سب کچھ کرنے کے بعد جاتے جاتے نور کو ہماری نظروں میں نیک سیرت بننا چاہتا تھا حالانکہ میں نے خود نور کو کتنی ہی بار رات دیر دیر تک کسی کو میسج کرتے اور بات کرتے دیکھا تھا جس کے بارے میں ،میں نے کتنی بار حارث کو بھی بتایا پر اس کی آنکھوں پر تو بہن پر اعتبار کی پٹی بندھی تھی اور بھائی صاحب میں بتا رہی ہوں یہ چکر اب سے نہیں بلکہ بہت دیر سے چل رہا تھا اور زبردستی کر رہا تو مر جاتی نا نکاح کے لیے حامی کیوں بھری اور اگر منہ کالا کروا ہی آئی تھی تو گھر میں تو کسی کو بتا دیتی تاکہ ہم پہلے ہی اُسے اُس لڑکے ساتھ دفع کر دیتے یوں ہمارا سارے خاندان سامنے تماشہ تو نہ بنتا۔۔“ فریحہ بیگم نے سلیم صاحب کی بات سنتے ہی سکندر صاحب کے نرم پڑنے کے ڈر سے جلدی جلدی سب کے سامنے نور کاراز فاش کرتے مزید جلتی پر تیل چھڑکا۔۔۔۔”اللہ توبہ توبہ کیا زمانہ آگیا اور فریحہ اگر تمہیں ایسی کسی بات کا پتا تھا تو تمہیں سکندر بھائی کو بتانا چاہیے تھا۔۔۔۔“ خالدہ بیگم نے کانوں کو ہاتھ لگاتے مشورہ دیا۔۔۔”میں بتانا چاہتی تھی پر وہ منحوس تو پیدا ہوتے ہی بھائی کے دل سے اُتر گئی تھی میں نے سوچا چلو حارث خود ہی دیکھ لے گا اسی لیے بھائی کو نہیں بتایا۔۔۔۔“ اپنے آپ کو ساری بات سے بری کرتے اُنہوں نے سارا الزام حارث کے سر تھوپا جو ابھی تک بے یقینی کی سی کیفیت میں تھا زارون کی بات بار بار اُس کے دماغ میں آرہی تھی کہ اُس نے زبردستی نور سے سب کروایا پر اُس وقت فریحہ بیگم کی پچھلے کچھ ہفتوں سے بتائی گئی نور کے متعلق فضول باتیں اور ایک دم سے نکاح کا سُن کر اُسے غصہ آگیا پر اب وہ غصہ دکھ اور پچھتاوے میں بدل چکا تھا تب ہی اُس نے کسی کی بھی بات کا جواب دیے بغیر اپنے کمرے کا رخ کیا۔۔”آپ کو حارث کی بجائے مجھے بتانا چاہیے تھا تاکہ میں اُسی وقت اُس کا گلا دبا دیتا۔۔۔“ حاشر جو ہمیشہ سے ہی جلد باز اور غصے کا تیز تھا اُس نے فریحہ بیگم کی بات پر مزید بھڑکتے ہوئے کہا تو سلیم صاحب نے سکندر صاحب کی طبیعت کے پیش نظر اُسے منع کیا جو اب اپنے دل پر ہاتھ رکھے آنکھیں بند کر چکے تھے۔۔۔”سکندر؟سکندر ہوش میں آؤ۔۔۔“ سلیم صاحب اُن کو بے جان ہوتا دیکھ کر چلائے تو حاشر نے بھی جلدی سے اُنہیں دیکھا اور اُن کے ٹھنڈے پڑتے جسم پر پریشان ہوتے اُس نے جلدی سے جنید کی مدد سے اُنہیں اُٹھاتے ہوئے گاڑی میں ڈالا تاکہ ہسپتال لے جا سکے۔۔۔۔زارون ابھی ڈاکٹر سے نور کی کنڈیشن کے بارے میں پوچھ ہی رہا تھا جب عالیان نے کمرے میں آکر نور کے ہوش میں آنے کا بتاتے ڈاکٹر کو آنے کا کہا تو زارون بھی شکر ادا کرتے ڈاکٹر کے ساتھ ہی اُٹھ کر کمرے کی جانب بڑھا۔ جہاں نور اب ہوش میں آنے کے باوجود بھی گم صم سی لیٹی چھٹ کو گھورتے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اُسے یہاں کون لایاںاور اُس کے بے ہوش ہونے کے بعد کیا ہوا؟۔۔۔”کیسا محسوس کر رہی ہیں اب آپ؟“ ڈاکٹر نے اُس کے قریب آتے پوچھا تو نور نے جواب دینے کی بجائے چھت سے نظریں ہٹا کر ڈاکٹر کو دیکھا پر زبان سے کچھ نہیں بولی تو زارون نے آگے بڑھنا چاہا پر عالیان نے ہاتھ پکڑتے نفی میں سر ہلایا۔۔۔”کیسا محسوس کر رہی ہیں اب آپ؟ کہیں درد یا کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتائیں۔۔“ ڈاکٹر نے نرمی سے ہلکی سے مسکراہٹ چہرے پر سجاتے سوال کیا تو نور نے سامنے کھڑے عالیان اور زارون کودیکھتے نفی میں سر ہلایا کیونکہ وہ سمجھ چکی تھی کہ یہاں اسے اس کے بھائی یا ابو نہیں بلکہ یہ شخص لایا جس نے کچھ ہی پل میں اُس کی زندگی بربار کر دی ۔۔۔۔”کہیں درد نہیں۔۔“ ضبط کے باوجود بھی جواب دیتے آنسو اُس کی بند آنکھوں سے نکلتے گالوں پر بہنے لگے تو ڈاکٹر جو پہلے ہی اُسکی حالت اور گالوں پر انگلیوں کے نشان اور ہونٹ پر زخم دیکھ کر معاملہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی اب نور کو روتا دیکھ اُس کا ضبط جواب دے گیا۔۔۔۔”یہ سب آپ نے اس کے ساتھ کیا ہے؟“ اب کی بار اُس نے نور کی بجائے زارون اور عالیان کی طرف دیکھتے سوال کیا۔۔۔۔”آپ اپنے کام سے کام رکھیں ۔۔۔“ زارون جو پہلے ہی نور کی حالت سے پریشان تھا ڈاکٹر کے سوال پر بھڑکا۔۔۔۔ “اپنے کام سے کام ہی رکھ رہی ہوں تب ہی پوچھ رہی ہوں کہ یہ سب آپ نے کیا ہے اس کے ساتھ؟“ عائشہ کو نور کی حالت دیکھ کر ہی اندازہ ہو چکا تھا کہ اُس کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے پر کیا؟ یہ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی اور نہ ہی ڈاکٹر احمد کی وجہ سے کچھ پوچھ رہی تھی پر اب نور کے لہجے کی لڑکھڑاہٹ اور آنکھوں میں بے بسی دیکھ کر اُس سے رکا نہیں گیا۔۔۔۔”لگتا ہے اس کا دماغ سیٹ نہیں جو مجھ سے سوال پوچھنے کی جرات کر رہی ہے۔۔۔“ زارون نے غصے سے کہا تو عالیان نے اُسے روکا۔۔۔”سنبھالو خود کو پاگل ہو گئے ہو کیا۔۔۔“ آنکھیں نکالتے اُس نے اُسے مزید کچھ کہنے سے روکا اور خود ڈاکٹر عائشہ کو نور کی طرف سے مطمئن کرنے لگا جو زارون کی بدتمیزی پر اب نرس کو اشارہ کرتے کمرے سے باہر نکل چکی تھیں۔عالیان نے بھی ایک نظر زارون کو دیکھتے اُن کے پیچھے ہی باہر کا رخ کیا تاکہ بات سنبھال سکے تو زارون نے کمرہ خالی دیکھ کر نور کی طرف قدم بڑھائے جو ابھی بھی آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔۔۔۔۔”میں نے کہا تھا کہ تم روتے ہوئے خوبصورت لگتی ہو پر یہ نہیں کہا تھا کہ بس ہر وقت روتی ہی رہنا۔۔۔“ اُس کے قریب آتے نیچے جھکتے اُس نے کہا اور ساتھ ہی اُسکی گالوں سے آنسو صاف کرتے اُس کے چہرے پر جھکا تو نور(جو گھر میں زارون کے آنے پر اُس کی آواز اور آنکھوں سے پہچان چکی تھی باقی شک اُس کا زارون کے نکاح نامہ دیکھنے نے نکال دیا) نے ہاتھ میں لگی ڈرپ کی پروا کیے بنا آنکھیں کھولتے پورے زور سے اُسکے سینے پر ہاتھ رکھتے پیچھے کیا۔۔۔”خبردار میرے قریب آئے تو میں تمہاری جان لے لوں گی ۔۔۔۔“ غصے،نفرت اور اپنی بے بسی پر چیختے ہوئے اُس نے زارون کو وارن کیا۔۔۔”اوکے نہیں آتا قریب بس اپنا خون مت جلاؤ ۔۔۔“ اُس کی طبیعت کا سوچتے زارون نے کوئی بحث ومباحثہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اوراُسے تسلی دیتے پیچھے ہٹا پر اُُس کے ہاتھ سے نکلتے خون پر اُس کا ہاتھ پکڑتے دیکھنے لگا۔۔۔”میں نے کہا نا مجھ سے دور رہو سمجھ نہیں آتی۔“ اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے کھنچتے اُس نے پھر سے اپنی بات دوہرائی اور ہاتھ میں لگی سوئی کو بے دردی سے نکال کر باہر پھینکا تو زارون نے اپنے غصے کو ضبط کرتے پاس پڑی روئی اُٹھا کر اُس کے ہاتھ پر نکلتے خون پر رکھی۔۔۔۔”بہت بدتمیزی کر لی تم نے اب اگر ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو اچھا نہیں ہو گا اورجو تم کہو گی میں وہی کروں گا بس دوبارہ خود کو کبھی بھی میرے لیے تکلیف مت دینا ۔۔۔“ آج پہلی بار زارون کی آنکھوں میں غصے کی جگہ بے بسی اور التجا تھی جیسے نور نے نظر انداز کرتے اُس کا ہاتھ جھٹک کر روئی کو غصے سے دور پھینکا جس پر زارون نے بس ایک نظر اُسے دیکھا اور اُٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔۔                                                                      ............آپ کے پیشنٹ کو ہارٹ اٹیک آیا ہے پر اتنا خطرناک نہیں تھا اس لیے کچھ دیر میں ہوش آجائے گا ۔۔۔“ ڈاکٹر نے سکندر صاحب کو چیکy کرنے کے بعد باہر آتے حاشر کو اپنے قریب آتا دیکھ کر بتایا۔۔۔”ابو ٹھیک ہے نا ؟“ ڈاکٹر کے بتانے کے باوجود اُس نے اپنی تسلی کے لیے پوچھا۔۔۔”جی جی میں نے بتایا نا کہ اب وہ ٹھیک ہیں پر آگے آپ کو احتیاط کرنی ہو گی کہ وہ کوئی پریشانی یا سٹریس نہ لیں ورنہ آگے کوئی بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے ۔۔“ حاشر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ڈاکٹر نے اُسے مطمئن کرتے آنے والے وقت کے لیے کچھ ہدایت کی اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔”کیا ہوا ابو کو ؟“حارث جو کمرے میں جاتے ہی دروازہ بند کر بیٹھ گیا تھا اب بار بار سارہ کہ آوازیں دینے اور سکندر صاحب کی طبیعت کا سُن کر اُس نے دروازہ کھولا تھا۔ سارہ نے اُسے سکندر صاحب کی طبیعت خرابی اور اُنہیں ہسپتال لے جانے کے بارے میں بتایا تو حارث جلدی سے گاڑی لے کر جنید سے ہسپتال کا نام پوچھتے (جو حاشر کے ساتھ گیا تھا)یہاں آیا تھا اور اب کاریڈور میں داخل ہوتے ہی اُس نے حاشر کو ڈاکٹر سے بات کرتے دیکھ لیا تھا تب ہی اُسکی طرف آتے اُس نے سوال کیا۔۔۔”ہاں ٹھیک ہیں اب۔ اٹیک آیا ہے پر اب خطرے سے باہر ہیں۔۔۔۔“ حارث کو بدحواس سا دیکھ کراُس نے تسلی دی اور وہاں موجود چیئر کی طرف اشارہ کرتے اُسے لے کر وہاں بیٹھ کر باقی تمام حالات کے متعلق بتانے لگا۔۔۔۔عالیان کے سمجھانے اور احمد کے بات کرنے پر عائشہ کچھ مطمئن ہوئی تو اُس نے نور کو کچھ ضروری میڈیسن کے ساتھ ریسٹ کرنے کی ہدایت دیتے ڈسچارج کر دیا پر احمد نے زارون کو بلڈ زیادہ بہنے اور کمزوری کی وجہ سے ابھی ڈسچارج کرنے سے منع کر دیا پر وہ ضد کر کے اُس سے کچھ پین کلر لکھوانے کے بعد نور کو لے کر اپارٹمنٹ میں آگیا۔ جہاں عالیان نے اُنہیں چھوڑنے کے بعد اپنے کمرے سے کچھ ضروری سامان اُٹھایا اور زارون کو دوسرے اپارٹمنٹ میں جانے کا بتاتے اُس کے منع کرنے کے باوجود بھی وہاں رکنے سے انکار کیا اور صبح ملنے کا کہ کر نور کا خیال رکھنے اور اُسے نرمی سے سمجھانے کی تاکید کرتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔”بیٹھ جاؤ یا ساری رات کھڑے رہنے کا ہی ارادہ ہے؟“ کمرے میں آتے اُس نے نور کو ابھی تک کھڑا دیکھ کر کہا تو اُس نے زارون کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا اور ایک بار پھر سےاپنے کپڑوں کودیکھا جن پرلگے خون کے داغ اُسے مسلسل پریشان کرتے اُن کے متعلق کئی سوال پیدا کر رہے تھے۔ جیسے وہ زارون سے پوچھنا چاہتی تھی پر اُس کے بازؤ پر بندھی پٹی پر نظر پڑتے کچھ سوچتے ہوئے صوفے پر جا بیٹھی۔۔۔۔”میں تمہارے لیے کھانا لے کر آتا ہوں جب تک تم یہ کپڑے چینج کر لو ۔۔۔“ اپنا ایک ٹروازر اور ٹی شرٹ الماری سے نکال کر بیڈ پر رکھتے،زارون نے اُس سے کہا جس کا دھیان ابھی بھی اُس کے بازؤ پر بندھی پٹی پر تھا۔۔۔۔”یہ خون کہاں سے لگا میرے کپڑوں پہ؟ اور میرے بے ہوش ہونے کے بعد کیا ہوا تھا؟ “نور(جیسے زارون کو گولی لگنے کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں پتا تھا اور نہ ہی یہ کہ اُس کے بے ہوش ہونے کے بعد وہاں کیا ہوا اور وہ زارون کے ساتھ کیسے آئی )نے سامنے پڑے ٹراوزر شرٹ کو ایک نظر دیکھ کر ناچاہتے ہوئے زارون سے پوچھا جو کمرے سے باہر جانے لگا تھا پراُس کی آواز پر رک گیا۔۔۔۔۔۔”میرے بازو سے لگا ہے وہ بھی تمہارے بھائی کی مہربانی سے۔۔۔۔“ لاپرواہی سے بتاتے وہ واپس آکر اُس کے قریب بیٹھا تو نور نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔۔۔۔”تمہارے چھوٹے بھائی نے غصے میں آکر گولی چلائی جو خوش قسمتی یا بد قسمتی سے میرے بازو میں لگی اور میں وہاں لڑنے نہیں گیا تھا بس سب کو نکاح کا بتانے گیا تھا تاکہ وہ تمہارا کسی اور سے نکاح نہ کریں پر لگتا تمہارے گھر والوں کو لڑنے کا کچھ زیادہ ہی شوق تھا۔۔۔۔“  اس کی نظروں میں سوال دیکھ کر اُس نے خود ہی بتایا تونور نے بے یقینی سے  نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔”تم جھوٹ بول رہے ہو میرے بھائی ایسے نہیں ہیں۔۔ جنگلی تو تم خود ہو۔ جو سب کو اپنا غلام سمجھ کر اُن پر اپنا حکم چلاتے ہو اور اگر کوئی انکار کر دے تو وحشی بن کر اُن پر ظلم وستم کر کے اپنی بات زبردستی منوالیتے ہو۔ مجھے پتا ہے تم مجھے میرے گھر سے بھی زبردستی ہی لائے ہوں گے اور بہت اچھا ہوتا اگر وہ گولی تمہارے اس دماغ میں لگ جاتی جس میں بس اپنی انا کا غرور بھرا ہے۔۔۔“ نور نے جتنی نفرت سے کہا زارون نے اُس کی بات سنتے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔۔۔۔”بہت اچھی سوچ ہے تمہاری اور تمہارے لیے تو میں یہاں کیا؟کہیں بھی گولی کھا سکتا ہوں۔۔۔“ زارون نے اپنے سر کی طرف اشارہ کرتے جتنے سکون سے کہا نور کا دل کیا کہ اُس کا منہ توڑ دے جو اُس کی زندگی تباہ کرنے کے بعد بھی اتنا پرسکون تھا۔۔۔۔”تم مجھے میرے گھر سے زبردستی لائے ہو نا؟“ اس کی باتوں کو دفع کرتے،نور نے اپنے مطلب کی بات پوچھی کیونکہ اُسے ابھی بھی یقین تھا کہ زارون اُسے زبردستی لایا ہو گا اور اُس کے گھر والوں نے ضرور روکا ہوگا۔۔۔”نہیں،تمہارے ابو نے خود کہا تھا اور میں تمہیں اب وہاں اُن بے حس لوگوں کے بیچ چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔“ زارون نے صاف الفاظ میں اُس کے بے ہوش ہونے کے بعد ہونے والی تمام باتیں بتائی تو نور کی آخری امید بھی ٹوٹ گئی اُس نے تمام بات سننے کے بعد کچھ کہے بغیر اپنے آنسو چھپانے کے لیے رخ پھیرا تو زارون کو اُس نازک سی لڑکی کی تکلیف پر دکھ ہوا جس میں کچھ ہاتھ اُس کا اپنا بھی تھا۔۔۔۔”میں کھانا لے کر آتا ہوں تب تک یہ کپڑے بدل لو۔۔۔۔“ اسے روتا دیکھ زارون نے منع کرنے کی بجائے اُسے اکیلا چھوڑا تاکہ اپنے اندر کا غبار نکال سکے اور خود اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا تو اُس کے جاتے ہی  نورنے اپنا چہرہ گھٹنوں میں چھپاکر پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا اُسے کسی کے رویہ سے اتنا دکھ نہیں ہوا تھا جتنا حارث کے تھپٹر اور اُس کی بے رخی پر ہوا۔۔۔۔۔”بھائی آپ پلیز میری بات سُن لیتے پھر بے شک مجھے گھر سے نکال دیتے۔ میں کبھی بھی آپ سے شکوہ نہ کرتی۔ ابو اورحاشر بھائی پر تو پہلے بھی  مجھے کبھی بھی مان نہیں تھا اور نہ کوئی امید پر آپ تو میرے اپنے تھے نا؟ تو کیوں آپ نے اپنی بہن کو صفائی کا موقع نہیں دیا ؟؟ کیوں آپ نے اپنی گڑیا کو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی سزا سُنا دی؟ کیا آپ کو لگتا تھا کہ میں ایسا کر سکتی ہوں؟“ نور نے حارث کو سوچتے شکوہ کیا اور ساتھ ہی کئی آنسو اُس کی آنکھوں سے ٹپکے جیسے اپنے ہاتھ کی پشت سے بے دردی سے رگڑتے اُس نے خود کو مزید رونے سے روکا۔۔۔۔”میں تمہاری زندگی جہنم بنا دوں گی مسڑ زارون علی جیسے تم نے مجھے برباد کیا ذلیل کیا مجھے اپنے ہی باپ اور بھائیوں کی نظروں میں ۔۔۔“ باہر اوپن کچن میں زارون کو ایک ہاتھ سے کھانا گرم کرتا دیکھ نور نے خود کلامی کی اور کمرے میں پڑی تمام چیزوں کو ایک نظر دیکھ کر اُس نے اپنے دماغ میں چلتے  ارادے کی تکمیل کے لیے ، زارون پر نظر رکھتے( جس کی پشت اب اُسکی طرف تھی)اُٹھ کر آہستگی سے کمرے کا دروازہ لاک کیا۔

قسط نمبر: 13

زارون نے اوون میں چاول گرم کرنے کے لیے رکھے اور پلیٹں نکال کر تمام چیزیں ٹرے میں رکھ کر جیسے ہی مڑا تو سامنے اپنے کمرے کا دروازہ بند دیکھ کر اُس کے چہرے کا رنگ فق ہوا۔۔  ”نور؟“ ٹرے واپس کاؤنٹر پر رکھتے وہ جلدی سے کمرے کی جانب بڑھا پر یہ سوچ کے کہ شاید کپڑے تبدیل کر رہی ہو اُس نے خود کو دروازے پر دستک دینے سے روکا پر کچھ سیکنڈز انتظار کرنے اور اندر کی خاموشی پر اُسے کچھ غیر معمولی سا احساس ہوا جس کے تحت اُس نے ناب پر ہاتھ رکھتے گھومایا تو وہ اندر سے لاک تھا۔۔”نور کیا کر رہی ہو؟دروازہ کھولو۔۔“ دروازے پرہاتھ مارتے اُس نے آواز لگائی پر دوسری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اُس نے مزید انتظار کرنے کی بجائے جلدی سے کمرے کی چابی ڈھونڈی جو بدقسمتی سے اپنی جگہ موجود نہیں تھی۔۔۔۔”نور میں کہہ رہا ہوں دروازہ کھولو ورنہ اچھا نہیں ہوگا“ زارون نے آواز لگاتے مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے دروازے کو دھکا مارا تاکہ وہ ڈرکر دروازہ کھول دے پر ابھی بھی اُس کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اُس کو بے چینی ہوئی اور اندر کسی چیز کے گرنے کی آواز پر اُ س نے اپنے زخم کی پروا کیے بناء دروازے کو مزید دھکے مارے اور اندر داخل ہوتے ہی سامنے کا منظر دیکھ کر اُس کے حواس صیح معنوں میں اُڑے۔۔۔”نور۔۔۔؟“ اُس نے جلدی سے آگے بڑھتے اُسے سنبھالا جو خود کوپنکھے سے لٹکا چکی تھی۔۔۔ ”یہ کیا کیا تم نے؟“اس کو یوں پنکھے سے لٹکے دیکھ کر زارون کو اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہوئی پھر بھی خود کو سنبھالتے ہوۓ اُس نے ہاتھ اوپر کر اس کو نیچے اتار کر دوپٹہ اُس کے گلے سے نکالا اور اُسے بیڈ پر لٹاتے خود جلدی سے پانی لینے چلا گیا۔۔۔۔ ”پانی پیو۔۔۔“ اُس کے سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر تھوڑا اوپر کرتے زارون نے گلاس اُس کے لبوں سے لگایا تو نور نے بامشکل دو گھونٹ گلے سے اُتارے اور اپنے اکڑتے سانس کو بحال کرنے کے لیے زور زور سے سانس لینے لگی۔ زارون نے اُسے واپس لٹاتے اپنی سانس دینے کے لیے اپنے ہونٹ اُس کے ہونٹوں پر رکھے، نور چاہتے ہوئے بھی اُسے خود سے الگ نہیں کر پائی۔۔۔۔۔ ”اب ٹھیک ہو؟“ کچھ سیکنڈز بعد چہرہ اوپر کرتے زارون نے اُس کی سرخ آنکھوں میں دیکھا جن میں گلا دبنے کی وجہ سے خون اُتر آیا تھا۔۔۔۔”ہمممممم۔۔“  نور جس کی سانس اب کچھ بہتر ہو چکی تھی پر گلے میں دوپٹہ پھیرنے سے ہونے والے زخم اور سانس کی نالیوں میں آنے والی تنگی سے ہونے والی  تکلیف کو برداشت کرتے اُس نے زارون کی کالی آنکھوں کو آج پہلی بار نم دیکھا۔۔۔۔۔”ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں؟“ ناچاہتے ہوئے بھی اُس کے لہجے اور الفاظ میں لڑکھڑاہٹ  آچکی تھی۔۔۔”نہیں،ٹھیک ہوں میں اب“ اُس سے نظریں ملائے بغیر جواب دیتے نور نے ایک بار پنکھے کی طرف دیکھا جہاں اُس کا دوپٹہ ابھی تک لٹک رہا تھا۔۔۔۔”دوبارہ خود کو تکلیف مت دینا اور اگر پھر بھی دل کرے تو مجھے دے دینا کیونکہ تمہارا مجرم میں ہوں“ اُس کے اوپر جھکے ہی ایک آنسو آہستگی سے اُس کی آنکھ سے نکلا تو نور نے اپنی تکلیف کو بھولتے حیرت سے اُس شخص کو دیکھا جو اُس کی تکلیف پر رورہا تھا۔۔۔۔”میں ڈاکٹر کو بُلاتا ہوں“ نور کو اپنی طرف دیکھتا پا کر اُس نے نظریں پھیریں اور کہتے ہوئے اپنا موبائل اُٹھا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔” تم جتنے مرضی اچھے بن جاؤ پر میں تمہیں کبھی بھی معاف نہیں کروں گی مسٹر زارون علی اور ہمیشہ خود کو ایسے ہی تکلیف دوں گی کیونکہ میں جانتی ہوں تمہیں سب سے زیادہ درد مجھے تکلیف میں دیکھ کر ہوتا ہے“ اپنے گلے پر پڑے زخم پر ہاتھ پھیرتے نور نے اپنے دل میں آنے والے نرم جذبات کوکچلتے خودکلامی کی۔۔۔حاشر اور حارث کچھ گھنٹوں بعد سکندر صاحب کو گھر لے آئے تھے جو اب سکون آوار دوائیوں کے زیر اثر سو چکے تھے۔۔۔”کیا کہا ڈاکٹر نے کیا ہوا تھا بھائی صاحب کو؟“ فریحہ بیگم نے اُن کے کمرے سے باہر آتے حارث سے پوچھا جو کپڑے تبدیل کرنے کے لیے اپنے کمرے کی طرف جانے لگا تھا۔۔۔۔”ہارٹ اٹیک آیا تھا۔۔۔۔“مختصر سا جواب دیتے وہ پھر سے مڑا۔۔۔۔”ہارٹ اٹیک؟ اللہ اگر میرے بھائی کو کچھ ہوجاتا تو میں نور کا گلا دبا دیتی جس کی وجہ سے آج۔۔۔۔ “”پھو پھو پلیز آپ پہلے ہی سب کے سامنے نور کے بارے میں بہت کچھ بول چکی ہیں ۔لیکن اب میں مزید اپنی بہن کے خلاف ایک بات بھی برداشت نہیں کروں گا۔۔۔“ حارث نے اُنہیں مزید کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتا دیکھ کر سختی سے ٹوکا تو فریحہ بیگم نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔۔۔”مطلب تم ابھی بھی اُس بدکردار کی طرف داری کر رہے ہو؟ جس کی وجہ سے ہماری پورے خاندان میں بدنامی ہوئی“حارث کا نور کے لیے بولنا فریحہ بیگم کو ہضم نہ ہوا۔۔۔”میری بہن بدکردار نہیں ہے اس لیے دوبارہ یہ لفظ منہ سے نکالنے سے پہلے ہزار بار سوچ لیجیے گا کہ آپ کی بیٹی کا نام اب میرے نام کے ساتھ جڑ چکا ہے جو آپ کی ایک غلطی کی وجہ سے میں اپنے نام سے الگ بھی کر سکتا ہوں۔۔۔۔۔“ انگلی اُٹھا کر اُنہیں دھمکی دیتے وہ فریحہ بیگم کو ہکابکا کھڑا چھوڑ کر لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔احمد زارون کے فون کرنے کے دس منٹ بعد ہی اُس کے اپارٹمنٹ پہنچ چکا تھا اور اب نور کو چیک کرتے اُس نے کچھ دوائیاں لکھ کر دیں۔۔۔۔”یہ ٹیوب بھی میں نے لکھ دی ہے گلے کے زخم پہ لگاؤ گے تو جلد بہتر ہو جائے گا۔“ زارون کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھ کر احمد نے نور کی حالت دیکھنے کے بعد بھی اُسے کوئی بات کہنا مناسب نہیں سمجھی۔۔”ٹھیک ہے میں منگوا لوں گا اور بیٹھو تم میں چائے بنا کر لاتا ہوں ۔۔“ باہر لاونج میں آتے اُس نے احمد سے کہا جس کا دھیان اب اُس کے بازؤ پر لگے خون پر تھا۔۔۔۔”یہ کیا کیا تم نے؟مجھے لگ رہا ہے سٹیچز سے خون نکل رہا ہے۔۔۔۔۔۔“ اُس کی بات کا جواب دینے کی بجائے احمد نے اُس کا بازؤ پکڑتے کہا ۔۔۔۔۔”خیر ہے میری۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوتا تم بتاؤ چائے پیو گئے یا جوس ؟“ اُس کا ہاتھ ہٹاتے زارون نے لاپرواہی سے کہا تو احمد نے تیوری چڑھاتے اُس کا ہاتھ پکڑتے صوفے پر بیٹھایا۔۔۔۔”خود ٹھیک ہو گے تو اُسے سنبھالو گے نا اور اب سکون سے بیٹھے رہو مجھے دیکھنے دو کیا ہوا ہے۔۔۔۔“ احمد نے پٹی کھولتے سختی سے کہا تو زارون جو اپنا بازؤ پیچھے کرنے لگا تھا رک گیا۔۔۔”دیکھا نا اسٹیچز سے خون نکل رہا ہے میں نہ دیکھتا تو زخم خراب ہو جانا تھا۔“ ڈبے سے روئی نکال کر خون صاف کرتے اُس نے نرمی سے زارون کو سمجھانا شروع کیا جو سر جھکائے بیٹھا کوئی جواب دینے کی بجائے بس اُس کی نصیحتیں سُن رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد کے جانے کے بعد زارون کمرے میں آیا تو نور ابھی بھی ویسے ہی بیٹھی تھی۔۔۔۔ ”کھانا کھا لو۔۔“ ٹرے اُس کے قریب رکھتے زارون نے کہا تو اُس نے نظر اُٹھا کر پہلے زارون اور پھر ٹرے میں رکھے کھانے کو دیکھا۔۔ ”مجھے نہیں کھانا اس سے اچھا ہے تم مجھے زہر لا دو“ ٹرے کو زور سے ہاتھ مارتے وہ چلائی تو زارون نے اُس کی حرکت پر غصے کو کنٹرول کرتے ایک نظر فرش پر پڑے کھانے اور برتنوں کو دیکھا۔۔۔۔”لا دوں گا زہر بھی،فکر نہ کرو اور دوبارہ میرے سامنے ایسی حرکت مت کرنا ورنہ میں سب لحاظ بھول کر تمہیں تمہاری اوقات یاد دلانے میں دیر نہیں کروں گا۔“ اُس کے جبڑوں کوسختی سے اپنے ہاتھ میں دبوچے زارون نے دھمکی دی تو نور نے رونے کی بجائے بےخوف ہو کر اُس کی آنکھوں میں دیکھا۔۔۔۔”میں ڈرتی نہیں۔۔۔نا تم سے نہ ہی تمہاری ان دھمکیوں سے۔۔۔“ اُس کا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتے نور نے غصے سے کہا تو زارون نے اُس کی بہادری پر قہقہہ لگایا۔۔۔۔”اچھی بات ہے زارون علی کی بیوی ہو کر تم پر ڈرنا ورنا زیب نہیں دیتا  اور نہ ہی بزدل ہونا اس لیے دوبارہ خود کو پنکھے سے لٹکانے کی بجائے مجھ سے مقابلہ کرنا اور میری ان دھمکیوں کو اتنا ہلکا مت لو میں اگر تم سے نکاح کر کے یہاں لا سکتا ہوں نا تو میرے لیے  کچھ کرنا بھی زیادہ مشکل نہیں۔۔۔“ ذومعنی الفاظ میں اپنی بات سمجھاتے وہ اُسے سنبھلنے کا موقع دیے بغیر ہی نرمی سے اُس کے ہونٹوں کو چھوتے اُٹھ کر چینج کرنے چلا گیا تو نور نے ہوش میں آتے جلدی سے بیڈ سے اُٹھ کر صوفے کا رخ کیا کیونکہ اس بدتمیز انسان سے کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی تھی۔۔۔۔اگلے دن حارث نے سب رشتے داروں کو سکندر صاحب کی طبیعت خرابی کی وجہ سے  شادی کینسل ہونے کا بتایا۔۔۔۔”کتنے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں انسان کو ایک سچ چھپانے کے لیے۔۔۔“ خالدہ بیگم جو صبح ہی سکندر صاحب کا پوچھنے آئی تھیں اُنہوں نے حارث کو پچھلے ایک گھنٹے سے فون پر لگے دیکھ کر افسوس سے کہا۔۔۔۔”بس کیا کریں اپنی عزت بچانے کے لیے یہ سب کرنا پڑتا ہے پر جس کے ہاتھوں یہ سب ہوا ہو اُسے پروا ہی نہیں ہوتی“ فریحہ بیگم جو سکندر صاحب کے لیے سوپ بنا کر لائیں تھیں اُنہوں نے حارث کو وہاں نہ پا کر جلتی پر تیل کا کام کیا۔۔۔۔”ہاں بس کیا کریں ،ہم بھی کل سے رشتے داروں کو جواب دے دے تھک چکے ہیں پر لوگ ہیں کہ بار بار پوچھ پوچھ کر دماغ خراب کر رہے ہیں کوئی کہتا ہے کہ لڑکے نے انکار کیا ہے ورنہ لڑکی تو اتنی اچھی تھی۔۔۔ پر میں نے تو چپ کا تالا لگا لیا ہے منہ پہ کہ کیا بتاؤں کہ لڑکی کتنی اچھی تھی“ سر جھٹکتے خالدہ بیگم نے طنزیہ انداز میں بات کی تو سکندر صاحب نے سر جھکا لیا۔۔۔۔”خالہ پلیز ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ اُن کے سامنے ایسی باتیں کرنے سے گریز کریں“ حاشر جو ابھی ابھی کمرے میں آیا تھا اُس نے خالدہ بیگم کی آخری بات سنتے منع کیا۔۔۔۔”ہاں بیٹا میں کہاں ایسی باتیں کرنا چاہتی ہوں بھلاہ تو بس نور کی حرکت پر دل ہی اتنا دکھا ہے کہ خود بخود منہ سے نکل جاتی ہیں“ حاشر کی بات سنتے ہی اُنہوں نے جلدی سے اپنی صفائی پیش کی۔۔۔ ”پھر بھی کوشش کریں کہ ابو کے سامنے اس بارے میں کوئی بات نہ کریں۔۔۔“ ”کیوں نہ کریں؟جب اپنے خون نے عزت کی پروا نہیں کی تو یہ سب بھی کیوں کریں اور ان کا بولنے کا حق ہے بولنے دو “ خالدہ بیگم کی بجائے سکندر صاحب جو کب سے خالدہ بیگم کے طنز سن رہے تھے اُنہوں نے فریحہ بیگم کا ہاتھ روکتے (جو اُنہیں سوپ پلا رہی تھیں) کہا۔۔۔۔۔”نہیں،بھائی صاحب کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ؟ ہم بھلا کیوں باتیں کریں گے اللہ معاف کرے ہم بھی بیٹی والے ہیں۔۔“سکندر صاحب کی بات سنتے خالدہ بیگم نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔۔۔”کیونکہ آپ کا حق ہے۔ ہماری وجہ سے آپ کی بدنامی ہوئی ہے ۔۔“ سکندر صاحب نے وضاحت دی۔۔۔”یہ بات تو ٹھیک ہے آپ کی پر ہم سے زیادہ جنید نے صدمہ لیا ہے وہ تو کل سے خاموش ہے نہ کچھ کھا رہا ہے نہ کسی سے بات کر رہا ہے بس ایک ہی بات دوہرائے جا رہا ہے کہ مجھ میں کیا کمی تھی جو نور نے ایسا کیا؟میرا بیٹا تو قصور وار نہ ہو کر بھی سب کو یہی کہہ رہا ہے کہ میں نے خود شادی سے انکار کیا ہے۔ سارا الزام اپنے آپ پہ لے لیا میرے لال نے۔۔۔“ خالدہ بیگم نے جنید کی جھوٹی تعریفوں کے پل باندھتے آنکھوں کو مصنوعی آنسوؤں کو اپنے دوپٹہ سے رگڑا۔۔۔۔”کسی کو اپنے آپ پہ کوئی الزام لینے کی ضرورت نہیں اور خالہ آپ نے کونسی شادی کینسل کی ہے مجھے ذرہ بتانا پسند کریں گی؟“ حارث جو کمرے میں آتے اُن کی  بات سن چکا تھا اُس نے ماتھے پر بل ڈالتے سوال کیا۔۔۔۔ ”مطلب ؟“ خالدہ بیگم نے کچھ ناسمجھی سے حارث کی جانب دیکھا۔۔۔”مطلب یہ کہ آپ نے تو راتوں رات جنید کے لیے لڑکی تلاش کر بھی لی ہے اور کل اُس کی شادی ہے۔۔“ حارث جسے عمران (ماموں کے بیٹے )سے یہ بات پتا چلی اُس نے دو ٹوک خالدہ بیگم سے پوچھا تو سکندر صاحب کے ساتھ ساتھ فریحہ بیگم اور حاشر نے بھی حیرت سے خالدہ بیگم کو دیکھا جو حارث کی بات سنتے ہی کچھ گڑبڑا گئی تھیں۔۔۔۔۔”میں تو جواب دے رہی تھی پر سلیم نے مجھے منع کر دیا اُن کے دوست کی بیٹی ہے ملائکہ۔۔“ خالدہ بیگم نے بات کا آغاز کیا کیونکہ اب چھپانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔۔”وہ لوگ  کافی دیر سے رشتہ دیکھ رہے تھے پر کوئی پسند نہٖیں آرہا تھا اور کل یہاں سے جا کر سلیم نے اُن سے بات کی تو اُنہوں نے خود اپنی بیٹی کی بات کر دی تو سلیم انکار نہٖیں کر پائے اور دوسرا جنید کو اس طرح دیکھ کر مجھے خود پریشانی ہو رہی تب ہی میں نے بھی یہی بہتر سمجھا ویسے بھی آج نہیں تو کل ہم نے جنید کی شادی کرنی ہی تھی“خالدہ بیگم نے طریقے کے ساتھ تمام بات سلیم صاحب پر ڈال دی۔۔۔۔۔”ہمم بہت اچھا فیصلہ کیا آپ نے۔۔“ حارث کو بولنے سے روکتے سکندر صاحب نے خالدہ بیگم سے کہا جو اب اپنی صفائی میں کچھ بولنے کے لیے الفاظ ڈھونڈ رہی تھیں۔۔۔۔دوپہر بارہ بجے کے قریب زارون کی آنکھ موبائل کی بیپ سے کھلی ۔۔۔۔”اُففف اتناٹائم ہو گیا۔۔۔“ موبائل پر عالیان کی اتنی ساری کالز دیکھ کر اُ سنے خود کلامی کی اوراُٹھ کر بیٹھا تاکہ عالیان کو کال کرسکے پرسامنے صوفے پر نظر پڑتے ہی اُسکا ہاتھ ایک دم  رُکا۔۔۔۔”نور؟“ کمبل سائیڈ پر کرتے وہ موبائل ہاتھ میں پکڑے ہی کمرے سے باہر آیاجہاں لاونج میں ہی وہ اُسے صوفے پہ لیٹی نظر آگئی۔۔۔”ایک تو یہ لڑکی کسی دن میرا ہارٹ فیل کروا دے گی“ اُسکے قریب جاتے اُسے سکون سے سویا دیکھ  زارون نے سوچا اور اندر سے کمبل لا کر اُسکے اوپر دیا،”دیکھنے میں جتنی معصوم لگتی ہو اُتنی ہو نہیں ۔۔“ اسکے چہرے سے بال ہٹاتے زارون نے آہستگی سے اُسکی پیشانی کو ہونٹوں سے چھوا (جو بخار سے تپ رہی تھی)تو نور نے آنکھیں کھول دیں اور اُسے اپنے اس قدر قریب دیکھ کر ناگواری سے اپنا چہرہ سائیڈ پہ کیا۔۔۔۔”اندر جا کر بیڈ پہ لیٹ جاؤ میں کچھ کھانا کے لیے بناتا ہوں کھا کر میڈیسن لے لینا۔۔۔“ اُسکی ناگواری کو محسوس کرتے ہی وہ پیچھے ہوتے بولا۔۔۔”مجھے تمہاری کسی بھی ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں ہے میں اپنا خیال خود رکھ سکتی ہوں ۔۔۔“ زارون کی بات سنتے ہی وہ کمبل ایک سائیڈ پر کرتےتیز بخار کی وجہ سے بامشکل اُٹھ کر بیٹھی۔۔۔۔”ہاں جانتا ہوں کہ تم کل سے بہت بہادر ہو گئی ہو پر اتنی ہی بہادری دیکھاٶ جتنا برداشت کر سکو۔۔۔“ اسکے اکڑ ےہوئے روایے پر زارون نے بھی اُسی کے انداز میں جواب دیا۔۔”مجھے دھمکانے کی ضرورت نہیں۔۔ یہ مت سمجھنا کہ میں رات کو تم سے ڈر کر صوفے پر سوئی تھی۔۔۔“نور نے اُسکے سامنے کھڑے ہوتے آنکھوں میں بے خوفی لیے کہا تو زارون کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ۔۔۔۔“اچھا مطلب تم ڈری نہیں تھی؟“ زارون نے آنکھوں میں تجسس لیے پوچھا تو نور نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔”میں کسی سے نہیں ڈرتی تم سے تو بالکل بھی نہیں۔۔ اس لیے کسی بھول میں مت رہنا۔۔“آنکھوں میں حقارت لیے اُس نے حتی الامکان اپنے الفاظ کو سختی سے ادا کیا۔۔۔۔”ہمممم اوکے۔ تم بھی کسی بھول میں مت رہنا۔“ اُسکی دھمکی پر زارون نے دیر کیے بناء اُسے اُٹھایا اور اُسکے چیخنے کی پروا کیے بغیر اُسے سٹور میں بند کرتے باہر سوئچ بورڈ پہ ہاتھ مارتے لائٹ اف کر دی ۔۔۔”اب دیکھتا ہوں کیسے نہیں ڈرتی تم۔۔۔“اپنا موبائل ہاتھ میں لیے آرام سے صوفے پر بیٹھتے اس نے عالیان کا نمبر ڈائل کیا اور نور کے دروازہ کھٹکھٹانے کی پروا کیے بناء بات کرنے لگا۔...

قسط نمبر: 14

(سرپرائز ایپیسوڈ)”دروازہ کھولو بدتمیز انسان ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔۔“ نور نے درازے پر ہاتھ مارتے آواز لگائی تو عالیان نے شور کی آوازیں سنتے زارون سے پوچھا۔۔”یہ پیچھے شور کیسا ہے؟کون سا شور؟“”مجھے تو کچھ سنائی نہیں دے رہا۔۔“ مسکراتے ہوئے اُس نے ایک نظر سٹور کے بند دروازے کو دیکھا جہاں نور مسلسل ہاتھ مارتے اُسے دروازہ کھولنے کا کہہ رہی تھی۔۔۔”زیادہ بننے کی ضرورت نہیں مجھے کب سے آوازیں آرہی ہیں جیسے کوئی دروازے پر دستک دے رہا ہو۔“؟ عالیان نے اندازہ لگاتے زارون سے تصدیق چاہی تو وہ ٹالتے ہوئے اُس سے کراچی جانے کا پوچھنے لگا۔۔”ہاں بس کچھ دیر میں نکلوں گا تم بتاؤ تم ساتھ جا رہے ہو یا نہیں؟“”نہیں تم سب سنبھال لینا میرا جانا مشکل ہے، کیوں؟یہ تم جانتے ہو۔۔۔“زارون نے  اُس کے سوال سے پہلے ہی جواب دے دیا۔۔۔“ہاں جانتا ہوں بس یار پلیز مزید کوئی الٹا سیدھا کام مت کرنا اور کوشش کرنا کہ بھابھی کو نرمی سے سمجھاؤ“ عالیان نے اُس کی بات سنتے ہی نصیحت کی ۔۔ہمم ”ٹھیک ہے۔۔۔۔۔زیادہ بھابھی کا چمچہ بننے کی ضرورت نہیں اور پریزنٹیشن کا بتاؤ کیسی تیاری ہے۔۔؟“ زارون کو اُس کا بار بار نور کے بارے میں بات کرنا اچھا نہیں لگا تب ہی اُس نے ٹوکتے عالیان کا دھیان اصل بات کی طرف دلایا جس کے لیے اُس نے کال کی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ”کیاکر رہے ہو تم؟ پلیز کھولو۔۔“بنورکا مسلسل چیخنے سے گلا بیٹھ چکا تھا تب ہی اُس نے گھٹی ہوئی آواز میں اُسے پکارا جو بے فکری سے بیٹھا عالیان کو تمام ضروری پوائنٹس سمجھا رہا تھا۔۔۔”یا اللہ پلیز میری مدد کر۔۔ میں دوبارہ اس جنگلی کے منہ نہیں لگوں گی۔۔۔“ نور نے دوسری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر تھک ہار کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھتے سٹور میں پھیلے اندھیرے سے خوف کھاتے جھرجھری لی اور اپنے دل کو تسلی دیتے زارون کو کوسنے لگی جس نے کل سے اُس کی زندگی عذاب بنا رکھی تھی ۔۔۔۔”حارث بھائی پلیز آجائیں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔“ اپنے پاؤں سیمٹ کر بیٹھتے اُس نے سر گھٹنوں پر رکھتے حارث کو پکارا اور کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپاتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کہ تب ہی اُسے اپنے پاؤں پر کسی چیز کے رینگنے کا احساس ہوا جس پر چیختے ہوئے وہ کھڑی ہوئی اور زمین پر پاؤں مارتے اُس چیز کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگی جو مسلسل اُس کے پاؤں پر رینگتے اوپر کی جانب آرہی تھی۔۔۔۔”زارون۔۔؟پلیز دروازہ کھولو میں دوبارہ تمہاری ہر بات مانوں گی۔۔۔“ نور نے خوف کے مارے چلاتے ہوئے دروازے پر تیز تیز ہاتھ مارا تو زارون نے اُسے مزید سبق سیکھانے کا ارادہ ترک کرتے عالیان کو پھر بات کرنے کا کہتے فون بند کیا اور اُٹھ کر دروازہ کھولا۔۔۔۔”پلیز مجھے بچا لو یہ مجھے کاٹ لے گا۔۔۔“ دروازہ کھلتے ہی وہ کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر زارون کا بازؤ پکڑتے اپنے پاؤں کی طرف اشارہ کرنے لگی تو اُس  نے ناسمجھی سے اُس کے پاؤں کی طرف دیکھا جہاں ایک کاکروچ موجود تھا۔۔۔۔”یہ اتنا سا کاکروچ تم جیسی چڑیل کو کاٹے گا؟“ زارون نے اُسے پکڑ کر نور کی آنکھوں کے سامنے کرتے پوچھا تو وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔۔۔۔”پلیز اسے مجھ سے دور رکھو۔۔۔۔۔۔۔“ نور نے چلاتے ہوئے زارون سے کہا جو بار بار کاکروچ کو اُس کی طرف اچھال رہا تھا۔۔”تم تو کسی چیز سے نہیں ڈرتی نا تو اب اس ننھے سے معصوم کاکروچ سے کیوں ڈر رہی ہو۔۔۔؟“ قدم اُس کی جانب بڑھاتے زارون نے یاد دہانی کروائی تو نور نے پیچھے ہوتے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔۔”پلیزایسا مت کرو۔۔۔“دیوار کے ساتھ لگتے پیچھے فرار کی کوئی جگہ نہ پا کر اُس نے زارون کے آگے ہاتھ جوڑے جو کاکروچ ہاتھ میں پکڑے اب بالکل اُس کے قریب آچکا تھا۔۔۔۔۔”ہمہم اوکے۔۔لیکن میری ایک شرط ہے۔۔۔“ایک ہاتھ دیوار پر رکھ کر اُس کی طرف جھکتے زارون نے کاکروچ اُس کے بازؤ کے قریب کیا تو نور نے خوف سے پوری آنکھیں کھولتے نفی میں سر ہلایا۔۔۔”مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے۔۔لیکن پلیز اسے دور کرو۔۔۔“ اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اُس کی نظریں ابھی بھی کاکروچ پر تھیں۔۔۔۔”اوکے تو پھر وعدہ کرو کہ دوبارہ کبھی بھی تم خود کو میرے لیے یا کسی اور کے لیے کوئی نقصان نہیں پہنچاؤ گی اور نہ ہی میری کسی بات سے انکار کرو گی۔۔۔۔؟“ کاکروچ بالکل اُس کے چہرے کے پاس کرتے اُس نے اپنی شرط بتائی تو نور نے جلدی سے اُس کے کندھے میں سر چھپاتے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔”ہاں ہاں میں مانوں گی۔۔۔“ خوف کے مارے وہ بے ہوش ہونے کے قریب تھی تب ہی زارون نے اپنا مقصد پورا ہوتے ہی کاکروچ کو نیچے رکھتے پاؤں سے مسلا۔۔۔۔۔”گڈگرل بس اب اس بات پر قائم رہنا ورنہ میں اگلی بار تمہیں سٹور میں بند کرنے کہ ساتھ ساتھ بہت سارے کاکروچ اور چھپکلیاں تمہارے اوپر چھوڑ دوں گا۔۔۔۔“ زارون نے ایک آنکھ دباتے اُسے دھمکایا تو نور کو دل کیا کہ وہ اُس شخص کا منہ توڑ دے پر ابھی بھی کاکروچ کو اُس کے پاؤں میں پڑا دیکھ اُس نے خاموشی سے سر ہلایا۔۔۔۔۔ ”گڈ اب اندرجاؤ فریش ہو کر کپڑے چینج کرو جب تک میں ناشتہ بناتا ہوں۔۔۔۔“ اُسے حکم دیتے وہ کچن کی جانب بڑھا تو نورنے اُس کی پشت کو خونخوار نظروں سے گھورا اور جو اُسے زچ کرتے اپنی تمام باتیں منواچکا تھا۔۔۔”جانور،جنگلی ،بندر ،جلاد کہیں کا۔۔۔۔“دل میں اُسے بُرا بھلا کہتے وہ پیر پٹختے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”بھائی صاحب دیکھا آپ نے کیسے خالدہ نے ایک ہی رات میں رنگ بدلا ہے۔۔۔“ خالدہ بیگم کے جاتے ہی فریحہ بیگم نے سکندر صاحب سے کہا جو کسی سوچ میں گم تھے۔۔۔۔”ہمم اس میں رنگ بدلنے کی کیا بات ہے اُن کو جو ٹھیک لگا اُنہوں نے کیا اور آپ کیوں اتنی بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہیں حالانکہ میں نے آپ کو بتایا بھی ہے کہ ابو کے سامنے ایسی کوئی بھی بات نہیں کرنی۔۔“ سکندر صاحب کی بجائے حارث نے سخت الفاظ میں فریحہ بیگم کو تنبیہ کی تو اُن کی زبان کو بریک لگی۔۔۔۔”یہ تم کس لہجے میں اپنی پھوپھو سے بات کر رہے ہو؟؟“ سکندر صاحب نے  حارث کی بات سنتے ہی ٹوکا۔۔۔۔”میں کسی لہجے میں بات نہیں کر رہا بس ان کو اپنا لہجہ ٹھیک کرنے کی ہدایت دے رہا ہوں تاکہ اس گھر میں مزید کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو۔۔“آہستہ مگر وارنگ دینے والے انداز میں کہتے اُس نے مزید وہاں رکنا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔۔”دیکھ لیا آپ نے؟کیسے دماغ خراب ہوا ہے اس کا، کل سے ہی مجھے ایسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے جیسے نور کو یہ سب کرنے کے لیے میں نے اکسایا ہو یا کل رات جو بھی ہوا اس کی ذمہ دار میں ہوں ،کیا اس لیے میں نے اپنی ساری زندگی ان کے لیے وقف کر دی کہ یہ لوگ اس عمر میں مجھے باتیں سُنائیں؟ بھائی صاحب آپ بس مجھے کسی اولڈ ہاوس بھیج دیں تاکہ یہ ذلت مجھے روز روز برادشت نہ کرنی پڑے۔۔۔۔“فریحہ بیگم نے حارث کے جاتے ہی رونا شروع کردیا۔۔۔۔”تم کیوں رو رہی ہو اور کیوں جاؤ گی تم اولڈ ہاوس؟جب تک میں زندہ ہوں تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں اور ویسے بھی میں یہ گھر تمہارے نام کر دوں گا تاکہ میرے مرنے کے بعد کوئی تمہیں یہاں سے نہ نکال سکے۔۔۔۔“ سکندر صاحب نے اُنہیں حوصلہ دیتے کہا تو فریحہ بیگم نے رونا دھونا بھولتے اُن کی طرف دیکھا۔۔۔”اللہ آپ کو لمبی عمر دے میری زندگی بھی آپ کو لگ جائے اور بھائی صاحب مجھے اس گھر کی ضرورت نہیں ہے بس آپ کی ہے۔۔۔۔“فریحہ بیگم کے اُن کی بات سنتے ہی ہاتھ پکڑتے آنکھوں میں نمی لاتے کہا تو سکندر صاحب نے اُن کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔”یہ سب میں اپنی خوشی سے کر رہاہوں تاکہ تم اور سارہ محفوظ رہو ورنہ ان لڑکوں کا کیا ہے؟کبھی بھی آنکھیں پھیر جائیں“سکندر صاحب نے نرمی سے سمجھایا تو فریحہ بیگم کچھ پس وپیش کے بعد مان گئیں۔” ٹھیک ہے بھائی صاحب جیسے آپ کی مرضی میں نے پہلے کبھی آپ کی کسی بات سے انکار کیا ہے جو اب کروں۔۔۔۔“ پلو سے آنسو صاف کرتے وہ اپنے مقصد میں کسی محنت کے بغیر ہی کامیاب ہونے پر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فریش ہو کر چینج کرنے کے بعد وہ باہر آئی تو زارون ٹیبل پر ناشتہ لگا چکا تھا۔۔۔۔۔”اچھی لگ رہی ہو۔۔۔۔۔“اُسے اپنے ٹراؤزر شرٹ میں چھپا دیکھ کر زارون نے مسکراہٹ چھپاتے تعریف کی تو نور نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے اُسے گھورا۔۔۔۔”میں یہ بے ہودہ کپڑے دوبارہ نہیں پہنوں گی۔۔۔۔“چیئر پر بیٹھتے ہی اُس نے کہا تو زارون بھی اُس کے ساتھ والی چیئر پر بیٹھ گیا ۔۔۔”ٹھیک ہے ناشتہ ختم کرو پھر مارکیٹ چلتے ہیں جو جو چاہیے ہو لے لینا۔۔۔۔۔“بریڈ پر جیم لگاتے وہ دوستانہ انداز میں بات  کرتے کچھ دیر پہلے ہونے والی تمام باتوں کو فراموش کر چکا تھا۔۔۔”مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ اور یہ کپڑے پہن کے تو کبھی بھی نہیں۔۔۔۔“ اُس کی بات سنتے ہی نور نے انکار کیاتو زارون نے ایک نظر اُس کے چہرے کو دیکھا جس پر کسی قسم کی ناراضگی کا اب کوئی تاثر نہیں تھا۔۔۔”اچھا ٹھیک ہے میں خود آج جا کر ایک دو سوٹ لا دوں گا پھر تم کل میرے ساتھ چل کر اپنی مرضی سے سب لے لینا۔۔۔۔“ اُسے اُن کپڑوں کی وجہ سے باہر جانے کے لیے رضامند ہوتا نہ دیکھ کر زارون کو دل میں خوشی ہوئی پر چہرے سے کچھ بھی ظاہر کیے بغیر اُس نے بریڈ اُس کی پلیٹ میں رکھتے خود جوس کا گلاس اُٹھایا اور پینے لگا تو نور نے اُس کے جانے کا سنتے ہی کچھ دیرپہلے والی حرکت کا بدلہ لینے اور زارون کو سبق سیکھانے کے لیے اپنے دماغ میں آنے والے وقت کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا شروع کیا...

قسط نمبر:15

سارہ کہاں ہو تم ؟“ فریحہ بیگم نے اُس کے کمرے میں آتے ہی آواز لگائی۔ وہ جو ڈراسنگ روم میں موجود اپنے کپڑے سیٹ کرنے میں مصروف تھی باہر آئی۔۔۔۔”کیا ہوا؟؟ماموں ٹھیک ہیں؟“فریحہ بیگم  کے اس طرح آوازیں دینے پر اُس نے پریشانی سے سوال کیا۔۔۔”ہاں ،ٹھیک ہیں اور تم یہاں بیٹھو میرے پاس تمہیں کچھ بتانا ہے۔۔۔“ خوشی سے چہکتی ہوئی آواز میں کہتے اُنہوں نے اپنے ساتھ سارہ کو بھی بیڈ پر بیٹھایا۔۔”کیا ہوا سب خیریت ہے نا؟اور یہ آپ اتنی خوش کیوں ہیں؟“ فریحہ بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر سارہ نے ناسمجھی سے سوال کیا۔۔۔ ”بات ہی خوشی کی ہے اور کل سے مجھے حارث کی باتوں پر غصہ آرہا تھا پر آج تو میری دل تھا کہ وہ دو چار باتیں اور مجھے سناتا تاکہ بھائی اس گھر کہ ساتھ اپنے کاروبارہ کا کچھ حصہ بھی میرے نام کردیتے ۔۔“”مطلب ماموں نے یہ گھر آپ کے نام کر دیا؟“فریحہ بیگم کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی سارہ سے پوچھا۔۔۔”کیا نہیں پر جلد کر دیں گے۔۔۔“ آنکھوں میں تکبر لیے اُنہوں نے سارہ کو بتایا تو اُس نے بے یقینی سے اُنہیں دیکھا۔۔۔۔۔”سچ کہہ رہی ہیں آپ؟اور آپ نے خود ماموں سے بات کی تھی کیا؟“اُس نے بے تابی سے پوچھا۔۔۔۔”نہیں،بھلا تمہیں میں پاگل لگتی ہوں جو اپنے منہ سے یہ بات کر کہ بھائی صاحب کی نظروں میں بُری بنتی۔“”تو پھر؟“ سارہ نے اُن کی پہلیوں میں کی جانے والی باتوں سے تنگ آتے تیوری چڑھائی۔۔۔”بھائی صاحب نےخود کہا ہے کہ وہ یہ گھر میرے نام کر دیں گے اور وہ بھی بہت جلد۔۔۔“ فریحہ بیگم نے اُسے بتانے کے ساتھ ساتھ تمام تفصیل سے آگاہ کیاتو سارہ نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اب اُس کی اور فریحہ بیگم کی حثیت اس گھر میں اور مضبوط ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نور  نے ناشتہ ختم کیا تو زارون نے اُسے میڈیسن دی جو اُس نے نخرے کیے بغیر کھا لی اور اب وہ خاموشی سے بیٹھی زارون کو گھر کی صفائی کرتے دیکھ رہی تھی جو بڑی تیزی کے ساتھ ہاتھ چلاتے کمرے کی صفائی کرنے کے بعد اب لاونج میں ویکیوم کلیئنر پھیر رہا تھا۔۔۔۔”ایسا لگ رہا ہے جیسے پچھلے جنم میں کسی ہوٹل کا سویپر رہا ہو۔۔۔“ اُسے مہارت سے ہر کام کرتا دیکھ نور نے سوچا۔۔۔۔”دیکھتی ہی رہو گی یا اُٹھ کر میری کوئی ہلیپ بھی کرو گی؟“مسلسل اُس کی نظریں خود پر محسوس کرتے زارون نے ہاتھ روکے سوال کیا۔۔۔”ہونہہ میں تمہاری نوکر نہیں جو تمہارے گھر کی صفائی کروں اور ویسے یہ کام تم پہ زیادہ اچھا لگ رہا ہے اس لیے تم ہی کرو۔۔۔۔“طنزیہ انداز اپناتے اُس نے کہا اور اُٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔”ہمم توبہ ہے کتنی زبان چلتی ہے اس کی۔۔۔“ زارون نے اُس کے جاتے ہی سر جھٹکا اور جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگا تاکہ کام ختم کر کے مارکیٹ جا سکے۔۔۔۔۔پندرہ بیس منٹ میں سارا کام ختم کرنے کے بعد وہ کمرے میں آیا تو نور آنکھوں پہ بازؤ رکھے لیٹی تھی۔۔۔”سو گئی ہو؟“زارون نے اپنے کپڑے نکالتے پوچھا تو نور نے بازؤ ہٹاتے اُسے دیکھا۔۔۔۔”نہیں۔۔۔اور تم نے یہ کونسی میڈیسن مجھے دی ہیں؟“ نور جو میڈیسن کھانے کے بعد مسلسل غنودگی سی محسوس کر رہی تھی اُس نے اپنے بھاری ہوتے سر کو تھوڑا اوپر اُٹھاتے اُسے مشکوک انداز میں دیکھا۔۔۔”مطلب کونسی میڈیسن دی ہیں؟“کپڑے صوفے پر رکھتے وہ اُس کے قریب آتے ناسمجھی سے بولا۔۔۔”مطلب تم اچھے سے سمجھتے ہو اور تم نے مجھے نیند کی گولی دی ہے نا میڈیسن کے ساتھ؟“ نور نے بامشکل اپنی آنکھوں کو کھولتے اُسے گھورا جو اتنے بڑے الزام پر حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا جیسے اس میں اُس کا کوئی قصور نہ ہو۔۔۔۔”یہ تم اب مجھ پہ الزام لگا رہی ہو میں نے تمہیں کوئی ایسی گولی نہیں دی وہ سب ڈاکٹر نے لکھی تھی کل رات تمہارے سامنے۔۔۔“ زارون نے اُسے یاد دہانی کروائی تو نور نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔”وہ ڈاکٹر نے لکھی تھی پر جو تم نے مجھے ایک اضافی گولی کھلائی یہ کہہ کہ وہ بخار کی ہے وہ کیا تھا؟“سوال کرتے ساتھ اُس نے اپنے آپ کو بھی ملامت کیا کہ اُس نے زارون کی بات کا  یقین کیوں کیا۔۔۔۔۔۔”یار میں نے۔۔۔۔“”خبردار مجھے یہ یار وار کہنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔“ اُس کی بات سننے سے پہلے ہی نور نے ٹوکا تو زارون نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھے ایک خاموش نظر اُس کے چہرے پہ ڈالی جس پر حقارت کے ساتھ ساتھ نفرت اور ناپسندیدگی بالکل واضح تھی۔۔۔”میں نے تمہیں کوئی غلط میڈیسن نہیں دی اور جو دیں تھیں وہ ڈاکٹر نے ہی لکھی تھی اس لیے دوبارہ مجھ سے ایسے بات مت کرنا ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔۔۔“ سخت الفاظ میں اُسے تنبیہ کرتے وہ مزید اُس کی کوئی بات سنے بغیر اپنے کپڑے اُٹھائے واش روم میں گھس گیا۔۔۔۔”جلاد کہیں کا پتا نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے کھڑوس بدتمیز انسان۔۔۔۔“نور نے اُس کے زور سے دروازہ بند کرنے پر کوسا اور تمام باتوں کو دفعہ کرتے اپنے گھومتے ہوئے سر کی وجہ سے آنکھیں بند کیے لیٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”میں تم لوگوں سے کہہ رہی تھی نا کچھ دن صبر کر لو پھر شادی رکھ لیں گے پر نہیں میری بات تو کسی کو یہاں سمجھ ہی نہیں آتی۔۔۔“خالدہ بیگم ،سکندر صاحب کی طرف سے آتے ہی سلیم صاحب پر برہم ہونے لگیں جو کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔۔۔۔”میں آپ سے کچھ دیر میں بات کرتا ہوں۔۔۔۔“خالدہ بیگم کا پارہ ہائی دیکھ کر سلیم صاحب نے دوسری طرف  کہتے  فون بند کیا۔۔۔۔”اب کیا ہوا گیا ؟اوریہ شادی تمہاری مرضی سے ہی رکھی تھی نا ہم نے؟“ اُن کے قریب بیٹھتے سلیم صاحب نے یادہانی کروائی تو خالدہ بیگم نے اُنہیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔۔۔”ہونا کیا تھا؟ حارث کو خاندان میں سے کسی نے بتا دیا کہ ہم نے شادی کینسل نہیں کی بلکہ راتوں رات لڑکی تلاش کر کے کل ہی اُس نے جنید کی شادی کریں گے بس نہ پوچھیں مجھ سے تو بات سنبھالنی مشکل ہو گئی پر  پھر بھی میں نے سکندر بھائی کو مطمئن کر لیا۔۔۔۔۔“ خالدہ بیگم نے اُنہیں تمام تفصیل بتائی۔”تو اس میں چھپانے والی تو کوئی بات ہی نہیں تھی اور تمہیں چاہیے تھا کہ تم خود سکندر بھائی کو سب بتا دیتی۔۔۔۔“ سلیم صاحب نے نرمی سے کہا۔۔۔”ہاں تاکہ وہ مجھ سے بدگمان ہو کر ملنا جلنا چھوڑ دیتے سلیم صاحب کچھ ہوش کے ناخن لیں اور خدارا اب کسی کے سامنے یہ مت کہہ دیجئے گا کہ جنید کی اپنی پسند کی شادی ہے۔۔۔۔“ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے خالدہ بیگم نے نصحیت کی۔۔۔۔”اچھا ٹھیک ہے کہہ دوں گا اُس کی ماں کی پسند کی ہے۔۔۔“ سلیم صاحب نے اُن کی بات پر مسکراتے ہوئے کہا تو خالدہ بیگم نے اُنہیں گھورا۔۔۔۔۔”ماں کی پسند؟ میری اس شادی میں کوئی مرضی شامل نہیں یہ تو آپ کا اور آپ کے بیٹے کا دباؤ تھا کہ میں نے حامی بھر دی ورنہ میں اُس لڑکی کو بہو کہ روپ میں کبھی بھی قبول نہ کرتی جو منہ اُٹھا کر خالی ہاتھ ہی سسرال آجائے۔۔۔۔۔“ ماتھے پہ بل ڈالتے اُنہوں نے جواب دیا تو سلیم صاحب کو اُن کی سوچ پر افسوس ہوا۔۔۔۔”تم نے اپنی بیٹی کو جہیز میں کون سے محل دے دیے تھے جو دوسروں سے اس چیز کی تو قع کر رہی ہو؟ اور بہو کہ جہیز یا دولت پر نظر رکھنے یا اُسے حاصل کرنے کی بجائے یہ دعا کرو کہ اللہ پاک تمہارے بیٹے کو اتنی ترقی دے کہ تمہیں زندگی کی سب آسائشیں دے سکے“ سلیم صاحب نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔”پہلی بات یہ کہ وہ میری نہیں بلکہ تمہاری بھی بیٹی ہے مجھ سے زیادہ فرض تمہارا تھا کہ تم اُسے ضرورت کی ہر چیز دیتے پر اُس کی دفعہ بھی تمہاری یہ غربت اور بیچارگی نے مجھے کچھ کرنے نہیں دیا اوربھلا ہو عمر کا جس نے خود بھی کچھ بھی لینے سے منع کر دیا اور تمہاری موجیں لگ گئیں پر میں بتا رہی ہوں اس بار میں تمہاری کوئی مرضی چلنے نہیں دوں گی، شادی کا فیصلہ تو تم لوگوں نے اپنی مرضی سے کر لیا پر اب میں اپنے تمام مطالبات منوا کر ہی کل بارات لے کر جاؤں گی۔۔۔۔۔“خالدہ بیگم نے بڑے تحمل سے اپنا فیصلہ سنایا۔۔۔۔”کون سے مطالبات کی بات کر رہی ہو؟وہی جو تم سکندر بھائی سے آج تک کرتی آئی ہو؟ اور پہلے بھی تم اپنی مرضی کر کہ نور کی زندگی برباد کر چکی ہو اب میں کسی صورت بھی تمہاری کوئی مرضی نہیں چلنے دوں گا۔۔۔۔“ سلیم صاحب نے اس بار اپنے لہجے میں سختی سموتے خالدہ بیگم کو تنبیہ کی۔۔۔”میں نے زندگی برباد کی ہے اُس کی؟ یا اُس نے خود اپنا منہ کالا کروایا؟ اور میں تو اُس کے بھلے کے لیے سب کر رہی تھی کہ میری ایک ہی بھانجی ہے چلو میرے گھر آجائے گی تو خوش رہے گئی پر نہ جی نہ آج کل تو بھلائی کا زمانہ ہی نہیں اور مجھے پتا ہوتا تھا نا کی اُس منحوس بدکردار کے چل چلن ایسے ہیں تو میں کبھی بھی سکندر بھائی سے اُس کا ہاتھ نہ مانگتی۔۔۔“ اُن کی بات پر آگ بگولہ ہوتے خالدہ بیگم نے کوئی بھی لحاظ کیے بغیر سلیم صاحب کو کھری کھری سنائی تو اُنہوں نے ایک دکھ بھری نظر خالدہ بیگم پہ ڈالی جو نورکی خالہ ہونے کے باوجود بھی اتنی سنگ دلی سے اُس کے لیے ایسے الفاظ استعمال کررہی تھیں۔۔۔۔”پر پھر بھی خدا کا شکر ہے وقت پر اُس کی اصلیت سامنے آگئی اور میرے بیٹے کی جان چھوٹی ویسے بھی بعد میں بھی ہمارے ہی پلے پڑنا تھا اُس نے اللہ کا لاکھ شکر ہے اُس نے پہلے ہی جان چھڑوا دی اور مجھے وہ تمام چیزیں بھی مل گئیں جس کی  مجھے خواہش تھی۔۔۔۔“خالدہ بیگم نے سلیم صاحب کو خاموش بیٹھا دیکھ للچاتے ہوئے کہا۔۔۔۔”مطلب کونسی چیزیں؟ سلیم صاحب نے اس بار کچھ ناسمجھی سے سوال کیا۔۔۔۔”نور کے جہیز کی چیزٖیں جو کل بھیجی تھیں سکندر بھائی نے ۔۔ میں تو بھئی صاف صاف بول آئی ہوں کہ میں اُس میں سے ایک چیز بھی واپس نہیں کروں گی۔“”اوہ تو تم صبح صبح اس مقصد کے لیے وہاں گئی تھی “ سلیم صاحب کو اب اُن کے جانے کی وجہ سمجھ آئی۔۔۔۔”تو اور کیا میں نے کہہ دیا کہ وہ سب چیزیں اب آپ ملائکہ کو اپنی بیٹی سمجھ کر دے دیں۔۔۔“خالدہ بیگم نے چہرے پر کوئی بھی شرمندگی کہ آثارلائے بغیر سلیم صاحب کو اپنا کارنامہ بتایا جیسے سنتے ہی اُن کا سر جھک گیا۔۔۔۔”بہت افسوس کی بات ہے بہت زیادہ۔ خالدہ بیگم ڈرو اللہ کے عذاب سے اور یہ جو تم دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ کر رہی ہونا خدا نہ کرے کل کو تمہاری کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔۔“ اُنہیں احساس دلانے کے لیے وہ غصے سے بولتے مزید کچھ سنے یا کہے بغیر کمرے سے چلے گئے۔۔۔”یہ آدمی کبھی بھی مجھے سکون نہیں لینے دے گا نہ خود کبھی مجھے زندگی کی کوئی آسائش دی اور نہ ہی کبھی کسی دوسرے سے لینے دے گا۔۔۔“ اُن کی بات کا کوئی بھی اثر لیے بغیر وہ تفکر سے سر جھٹکاتے اُٹھ کر شام کے لیے اپنے کپڑے نکالنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون واش روم سے باہر آیا تو کمرے میں بالکل خاموشی تھی ،اُس نے ٹاول سے اپنے بال رگڑتے ایک نظر نورکو دیکھا جو سو چکی تھی۔۔۔۔۔”شکر ہے سو گئی۔۔۔“ٹاول صوفے پر رکھتے اُس نے خودکلامی کی اور  سردی کی وجہ سے کمفرٹر کھول کر اُس کے اوپر دیا۔۔۔”سوری میری جان ، میں نے جھوٹ بولا پر میں نے نیند کی گولی اس لیے تمہیں دی کہ تم میرے جانے کے بعد خود کو کوئی نقصان نہ پہنچاؤ اور سکون سے کچھ دیر اپنی نیند پوری کرسکو۔۔۔“اُس کے چہرے سے بال ہٹاتے وہ اُس کے خوابیدہ چہرے کو دیکھنے لگا جہاں اب دنیا کی کوئی فکر موجود نہ تھی۔۔۔۔”بہت تنگ کیا ہے کل سے تم نے مجھے ،دل تو ہے کہ سارے بدلے لے لوں پر ابھی نہیں وقت آنے پہ لوں گا۔۔“ مسکراتے ہوئے اُس نے نرمی سے اُس کی پیشانی کو چھوا اور کمفرٹر ٹھیک کرتے اُٹھ کر بالوں میں برش کرنے لگا تاکہ تیار ہو کر مارکیٹ جا سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں وہ مارکیٹ کے لیے نکل چکا تھا پر وہاں جا کر اتنے سارے مختلف سائز کے کپڑے دیکھ کر اُس کا سر چکرا گیا۔۔۔”کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔۔“پیشانی پر بل ڈالتے اُس نے لیڈیز کپڑوں سے بھری اُس بوتیک کو دیکھا جہاں ہر قسم کا ڈایزئن وجود تھا۔۔۔۔”یس سر ،آپکو کوئی مدد چاہیے؟“وہاں شاپ پہ موجود ایک لڑ کی نے اُسے پریشان کھڑا دیکھ کر پوچھا۔۔۔”جی وہ مجھے کچھ سپمل لیڈیزسوٹ چاہیے۔۔“،زارون نے وہاں کام سے بھرے سوٹوں کو گھبراہٹ سے دیکھ کر اُسے اپنا مسئلہ بتایا۔۔۔۔”ٹھیک ہے آپ اس طرف آئیں۔۔۔“،اُس نے بوتیک کی دوسری جانب اشارہ کیا اور خود بھی ساتھ چلنے لگی۔۔۔۔”کس سائز کے ڈریس چاہئے آپ کو؟“ اُس نے وہاں رکتے سوال کیا تو زارون نے پیشانی پر انگلی پھیرتے اُسے جواب دینے کی بجائے خود ہی ایک دو سوٹ اُتار کر اندازہ لگایا کہ وہ نور کو فٹ ہوں گے یا نہیں۔۔۔”یہ ٹھیک ہے اس سائز کے دے دیں۔۔۔“ ایک شرٹ اُتار کر اُس کی جانب کرتے زارون نے کہا تو اُس لڑکی نے اُس خود ہی کچھ ڈایزئن اور کلر نکال کر زارون کو دیکھائے جس میں سے اُس نے پانچ سوٹ پسند کرتے اُنہوں پیک کروانے کا کہا تو اُس لڑکی نے اثبات میں سر ہلاتے وہ کپڑے کاؤنٹر پر پہنچا دیے۔۔۔۔”تھینک یوسر۔۔۔۔“  زارون نے بل پے کیا تو وہاں موجود لڑکی نے اُس کا شکریہ ادا کرتے شاپر اُس کے حوالے کیے۔۔۔۔”توبہ یہ دن بھی دیکھنا تھا میں نے اپنی زندگی میں۔۔“ ہاتھ میں شاپر پکڑے وہ اب دوسری شاپ کی جانب بڑھا جہاں مزید نور کے لیے کچھ ضرورت کی چیزیں خریدتے وہ اچھا خاصہ بوکھلاچکا تھا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاپنگ مکمل کرنے کے بعد اُس نے کھانا پیک کروایا اور گھر کے لیے نکلا تو شام ہو چکی تھی۔۔۔۔اُففف بہت ٹائم ہو گیا ہے موسم کے خراب تیور دیکھ کر اُسے نور کا خیال آیا تو اُس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تاکہ جلد گھر پہنچ سکے پر تیز بارش اور ٹریفک جام کی وجہ سے اُسے گھر پہنچتے پہنچتے آٹھ بج چکے تھے۔۔۔۔اس لفٹ کو بھی آج ہی موت پڑنی تھی۔ شاپروں کی ڈھیر کو سنبھالتے اُس نے بامشکل لفٹ کا بٹن دبایا تو گارڈ نے اُسے لفٹ خراب ہونے کا بتایا۔۔۔۔”اس کو اس بار اچھے سے ٹھیک کروا لینا ورنہ تم لوگوں کی خیر نہیں“ اُسے دھمکی دیتے زارون نے سڑھیوں کا رخ کیا اور تیزی سے تیسری منزل کی جانب بڑھا۔۔۔ اپارٹمنٹ کے سامنے آتے اُس نے شاپرز نیچے رکھے اور چابی نکالتے دروازہ کھولا تو اندر کا منظر دیکھتے ہی اُس کا دماغ گھوم گیا۔۔۔”یہ کیا کیا تم نے؟؟“ لاؤنج میں موجود کسی بھی چیز کو اپنی جگہ نہ پاکر،زارون نے دروازہ بند کرتے ایک نظر لاؤنج کی حالت کو اور پھر بے فکری سے صوفے پر بیٹھی نور کو دیکھا جو اُس کے آنے یا بولنے کا کوئی بھی نوٹس لیے بغیر  چائے کے ساتھ بسکٹ کھانے میں مصروف تھی۔۔۔ ”میں تم سے بات کر رہا ہوں“ زمین پر پڑے کانچ کے ٹکڑوں سے بجتے اُس نے شاپرز صوفے پر رکھے اور غصے سے چائے کا کپ پکڑ کر ٹیبل پر رکھتے اُسے بازؤ سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑاکیا۔۔۔ ”کیاپوچھ رہے ہو؟؟؟“ اُس کا ہاتھ اپنے بازؤ سے ہٹاتے نور نے  معصوم بنتے سوال کیا تو زارون نے خونخوار نظروں سے اُسے گھورا اور کچھ کہنے کی بجائے کمرے کی جانب بڑھا جس کی حالت بھی لاؤنج سے مختلف نہ تھی۔۔۔۔ ”اُٹھو،مجھے آدھے گھنٹے میں اپارٹمنٹ بالکل صاف چاہیے نہیں تو میں تمہاری طبیعت صاف کرنے میں دیر نہیں لگاؤں گا“ ویکیوم کلینئر اور جھاڑو اُس کے پاس پھینکتے زارون نے غصے سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ دھمکی دی تو نور نے کوئی پروا کیے بناء کمرے کا رخ کیا۔۔۔”میں کہہ رہا ہوں مجھے آدھے گھنٹے کے اندر یہ سب صاف چاہیے تمہیں اثر نہیں ہوا“ اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سامنے کرتے زارون نے اپنے غصے کو ضبط کرتے اپنے لفظوں پر زور دیا۔۔۔”میں تمہاری نوکر نہیں ہوں اور کس نے کہا تھا مجھے یہاں بند کر کے جاؤ“ نور نے اپنا ہاتھ چھڑواتے اُس سے بھی زیادہ غصے سے کہا تو زارون کی برداشت جواب دے گئی۔۔۔۔”تم اس طرح نہیں سُدھرو گی“ اُس کی اکڑ اور ہٹ دھرمی دیکھتے زارون نے نفی میں سر ہلایا اور ہاتھ پکڑتے اپنے ساتھ گھسٹتے ہوئے ٹیرس میں کھڑا کر دیا جہاں اس وقت بادل پوری شدت سے برس رہے تھے۔۔۔۔”جب تک میں سب صاف نہیں کر لیتا تم یہی رہو گی“ اندر سے رسی لا کر اُس کے ہاتھ پاؤں بندھ کر اُس کے چیخنے کی وجہ سے  منہ پر ٹیپ لگاتے زارون نے اُسے وارن کیا جو باہر گرجتے ہوئے بادلوں کی وجہ سے بار بار نفی میں سر ہلا رہی

قسط نمبر: 16

اپنے غصے کی وجہ سے زارون اُسے بارش میں چھوڑ تو آیا پر پچھلے دس منٹ سے خود بھی بے سکونی سے لاؤنج میں ٹہل رہا تھا۔۔۔ پتا نہیں کیوں غصہ دلاتی ہے مجھے۔ بادلوں کے گرجنے کی آواز پر اُس نے خود کلامی کرتے جلدی سے ٹیرس کا رخ کیا۔۔۔”ٹھیک ہو تم؟؟“ٹیپ اُس کے منہ سے اُتارتے زارون نے بارش میں آتی تیزی کو دیکھتے جلدی سے اُس کے ہاتھ کھولے جو بادلوں کے گرجنے کے شور اور بارش سے گھبرا کر بالکل چپ اور سہمی سی بیٹھی تھی۔۔۔ ”اندر چلو“ پاؤں کھولتے اُس نے نور سے کہا جو ابھی بھی خود میں سیمٹی بیٹھی تھی۔۔ ”اندر چلو،بارش تیز ہو رہی ہے“ اُسے ٹس سے مس نہ ہوتا دیکھ کر زارون نے ہاتھ پکڑتے کہا تو نور نے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا اور نفرت سے اُس کا ہاتھ جھٹکتے اٹھی۔۔۔”کیا سمجھتے ہو تم خود کو؟؟“ایک زور دار تھپٹر اُس کے گال پر جڑتے نور نے چلاتے ہوئے کہا تو زارون نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بند کیں۔۔۔”کیا لگتا ہے تمہیں میں کوئی تمہاری زر خرید غلام ہوں جیسے تم اس طرح سزائیں دو گے تو وہ برداشت کرتی رہے گی“روتے ہوئے اُس نے بادلوں کی گرج سے بھی زیادہ زور سے چیختے زارون کہ کندھے پر ہاتھ رکھے اُسے پیچھے کرنے کی کوشش کی جو چٹان کی مانند آنکھوں میں بے انتہاء سختی لیے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔”مجھے جانے دو“،اُس کی آنکھوں میں خون اُتارتا دیکھ نور نے اپنی حرکت پر خود کو ملامت کرتے مزاحمت کی تو زارون نے دونوں ہاتھ گرل پر رکھتے اُسے اپنے حصار میں قید کیا۔۔۔”تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پہ ہاتھ اُٹھانے کی“ غصے کے مارے اپنے جبڑوں کو بھنچتے زارون نے اُس کے اوپر جھکتے اُسے نیچے کی جانب جھکنے پر مجبور کیا۔۔۔”سوری ۔وہ۔۔غلطی سے ۔۔نور نے گرل سے نیچے دیکھتے زارون کو اپنے اوپر مزید جھکتا دیکھ فرار کا کوئی راستہ نہ پا کر وضاحت دی۔۔۔”غلطی ؟؟یہ غلطی نہیں بلکہ اپنے لیے مصیبت کا ایک اور گڑھا کھود لیا ہے تم نے اور تم کیا سمجھتی ہو ؟؟جو تمہارے اپنے تھے جن کے لیے کل سے تم نے مجھے ایک سیکنڈ بھی سکون نہیں لینے دیا وہ اب تک تمہارے لیے رو رہے ہوں گے؟؟ پریشان ہوں گے؟؟؟؟تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے کسی کو بھی وہاں نہ پہلے تمہاری فکر تھی نہ اب ہے اور فکر ہوتی تو وہ تمہاری بات سنتے مجھ پہ نہیں تم پہ یقین کرتے“ ،زارون نے اُسے پوری طرح سے ٹیرس پر جھکائے اپنی بات کو جاری رکھا تو نور نے گرنے کے ڈر سے آنکھیں بند کرتے اُس کی شرٹ کو مٹھی میں دبوچا۔۔۔”میرے اپنے میرے ہی ہیں اور وہ یقین کیسے کر لیتے تمہارے سامنے تمہاری بیٹی سے کوئی نکاح کی بات کرے تو کیا تم بیٹی کو وضاحت کا موقع دو گے؟؟؟“ نور نے اُس کی شرٹ پر گرفت مضبوط کرتے بند آنکھوں سے ڈر سے کانپتے ہوئے سوال کیا تو زارون نے اُس کی کمر پر ہاتھ رکھتے اوپر کیاجو بالکل گرل میں پیوست ہو چکی تھی۔۔۔”میں کبھی ایسا موقع آنے ہی نہیں دوں گا کہ میری بیٹی کو مجھے صفائی دینا پڑے اور تم اب سے اپنی حد میں رہنا ورنہ میں بھول جاؤں گا کہ مجھے تم سے محبت ہے“ الفاظ کے ساتھ ساتھ اُس نے انگلی اُٹھاتے اُسے وارن کیا اور لمبے ڈگ بھرتے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔”کاش کے ایسا ہو تا کہ تمہیں پتا چلے کہ تکلیف کیا ہوتی ہے“ بارش میں کھڑے اُس نے آج بلاخوف خطرہ دل سے دعا کی اور چند سیکنڈ وہاں مزید رکنے کے بعد کمرے میں آگئی جہاں اب زارون موجود نہیں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھیگے ہوئے کپڑوں کے ساتھ صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھا وہ کب سے آنکھیں موندے اپنے غصے کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا پر نور کی حرکت نے آج اُسے مایوسی کے ساتھ ساتھ دکھ اور تکلیف بھی دی تھی وہ چاہ کہ بھی یہ بات دماغ سے نکال نہیں پا رہا تھا کہ زندگی میں پہلی بار کسی نے اُس پر ہاتھ اُٹھایا وہ بھی اُس نے جس سے زندگی میں اُس نے ہر انسان سے زیادہ محبت کی تھی۔۔۔۔”مجھے سردی لگ رہی ہے“ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی جب وہ کمرے میں نہ آیا تو نور نے ہمت کر کہ اپنے بھیگے کپڑوں کی وجہ سے مسلسل آتی چھینکوں سے پریشان ہوتے، لاونج میں اُس کے قریب آتے کہا۔۔۔۔۔”شاپرز میں کپڑے ہیں چینج کر لو اور کھانا کچن میں رکھا ہے کھا لینا“اُس کی آواز پر آنکھیں کھولتے زارون نے سامنے صوفے پر پڑے شاپرز کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔”تم نہیں کھاؤ گے؟؟“ نور نے اُس کی آنکھوں میں سرخی دیکھتے ناچاہتے ہوئے بھی سوال کیا۔۔۔۔”مجھے بھوک نہیں“جواب دیتے وہ اُس کی طرف دیکھے بغیر ہی اُٹھا اور کمرے میں جا کر اپنے کپڑے نکال کر نور کو کچھ بولنے کا موقع دیے بغیر ہی عالیان کے کمرے میں آگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون ابھی کپڑے تبدیل کر کے واش روم سے باہر آیا تھا کہ ڈور بیل کی آواز پر اُس نے کلاک کی طرف دیکھتے باہر کا رخ کیا۔۔۔”کون ؟؟؟“ نور کو لاؤنج میں نہ پا کر اُس نے دروازے کے پاس جاتے پوچھا۔۔”شہزاد“ زارون کی آواز سنتے دوسری طرف سے جواب آیا تو اُس نے دروازہ کھولنے کی بجائے کمرے کا رخ کیا جہاں نور شاپرز میں سے اپنے لیے کوئی مناسب سا سوٹ پہننے کے لیے نکال چکی تھی۔۔۔”میرا دوست آیا ہے باہر مت آنا اور کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا“ آگے بڑھ کر ٹیرس کا دروازہ لاک کرتے اُس نے چابی نکالی اور نور کو وارن کرتے کمرے سے باہر آیا۔۔۔”ہوننہ دوست آیا ہے تو میں کون سا باہر آنے لگی تھی اور تم سے بُرا کوئی ہے بھی نہیں“ اُس کے جاتے ہی نور نے آگے بڑھتے دروازہ بند کیا اور کپڑے اُٹھاتے واش روم میں چلی گئی۔۔۔۔۔ زارون نے دروازہ کھولا تو سامنے شہزاد ہاتھ میں اُس کی پرنسس کو لیے کھڑا تھا جو پچھلے چند مہینوں سے اُس کی مصروفیت کی وجہ سے بیمار ہو گئی تھی تب ہی اُس نے اُسے شہزاد کے حوالے کردیا تھا تاکہ وہ اپنے جانوروں کے ساتھ اُسکا بھی خیال رکھ سکے۔۔۔۔اوو مائی پرنسس،شہزاد کے سلام کا جواب دیتے ہی اُس نے سفید بڑے بالوں والی اُس روئی کی ماند نرم بلی کو گود میں لیاجو زارون سے ناراضگی کے اظہار کے طور پر اُس کی گود سے نکل کر صوفے پہ جا بیٹھی۔۔۔”اتنی دیر کیوں لگائی؟؟؟“ شہزاد نے ایک نظر لاؤنج میں بکھری چیزوں کو دیکھتے پوچھا۔۔۔۔”لاک کیا تھا دروازہ اور چابی نہیں مل رہی تھی،اس لیے دیر ہو گئی“ صوفے کی جانب بڑھتے اُس نے پرنسس کو دوبارہ اپنی گود میں بیٹھایا۔۔۔ ”کیسی ہو تم اور سو سو ری میری جان میں بہت مصروف تھا تب ہی تمہیں لینے نہیں آسکا“ شہزاد کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے وہ اُس  کی نیلی آنکھوں میں اپنے لیے خفگی دیکھ کر وضاحت دیتے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تو وہ فٹ سے اُس کی گود سے نکل کر شہزاد کے پاس چلی گئی۔۔۔”لگتا ہے زیادہ ہی موڈ خراب ہے“ ،زارون نے اُس کی حرکت پر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔”ہاں کافی دن میرے پاس رہی نا شائد اس لیے اور یہ یہاں کوئی لڑائی ہوئی ہے کیا؟؟؟“ فرش پر پڑے کانچ کو دیکھتے  شہزاد نے سوال کیا تو زارون نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔”نہیں، بس مجھے غصہ تھا اس لیے چیزوں پہ نکال دیا“ زارون نے لاپروائی سے جھوٹ بولا۔۔۔”شرم کر لو یار اور کیوں کرتے ہو اتنا غصہ ؟؟؟“شہزاد نے اُسکی بات سنتے ٹوکا۔۔۔”کرتا نہیں ہوں،بس خود بخود ہی  آجاتا ہے اور تم بتاؤ پرنسس نے زیادہ تنگ تو نہیں کیا؟؟؟“زارون نے اُسکا دھیان بٹانے کے لیے پوچھا ۔۔۔۔”نہٖیں تنگ کیا کرنا تھا اسکی تو سینڈی کے ساتھ کافی اچھی دوستی ہو گئی تھی پر مجھے کچھ وقت کے لیے لندن جانا ہے اس لیے سوچا پرنسس کو خود ہی جا کر اُسکے گھر چھوڑ آؤں۔۔۔”لندن ؟؟خیریت سے جا رہے ہو؟؟“ایک نظر اُس کے قریب  بیٹھی پرنسس پرڈالتے اُس نے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا اور کچن میں آگیا۔۔۔”ہاں، بس کچھ بزنس کا کام ہے اور ایک نیو پراجیکٹ کے سلسلہ میں وہاں ایک جگہ بھی دیکھنی ہے“،شہزاد بتاتے ہوئے پرنس کو وہیں بیٹھا کربخود بھی اُٹھ کر کچن میں آگیا۔۔۔”اچھا واپسی کب تک ہے؟؟“ زارون نے اُسبکے لیے چائے بناتے سوال کیا۔۔۔”شاید ایک دو مہینے لگ جائیں اور یہ عالیان نظر نہیں آرہا ہے؟؟“ شہزاد نے جواب دیتے ایک نظر اُسںکے کمرے کہ بند دروازے پہ ڈالی۔۔۔”کراچی گیا ہے میٹنگ تھی“ زارون نے جلدی جلدی ہاتھ چلاتے اُسے جواب دیا۔۔۔ ”یہ آواز کیسی ہے ؟؟کیا تمہارے علاوہ اور بھی کوئی گھر ہے؟“ اُس کی بات سنے بغیر شہزاد نے کمرے سے آتی آواز پر سوال کیا۔۔۔۔”کونسی آواز؟؟؟مجھے تو کوئی آواز نہیں آرہی“ کندھے اچکاتے اُس نے لاعلمی ظاہر کی تو شہزاد نے بھی اپنا وہم سمجھتے سر جھٹکا اور اُس سے اپنے لندن شروع ہونے والے پراجیکٹ کے بارے میں بات کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد شہزاد واپس گیا تو زارون نے کھانا گرم کر کہ ٹیبل پر لگاتے کمرے کے  دروازہ پر دستک دی  اور ناب کوگھومایا۔۔۔”کھانا کھا لو“؛دروازہ کھولتے اُس نے نور سے کہا جو سر تک کمبل تانے لیٹی تھی.۔۔”مجھے بھوک نہیں ہے“ کمبل کے اندر سے اُس نے آواز لگائی تو زارون نے آگے بڑھتے کمبل اُسکے چہرے سے ہٹایا۔۔۔”بھوک نہیں بھی ہے تو اُٹھ کر کھاؤ کیونکہ پھر میڈیسن کھانی ہے“ اُسکی سرخ ناک اور گالوں کو دیکھتے زارون نے نظر چُرائی۔۔۔۔”میرے سر میں بہت درد ہے مجھے نہیں کھانا کچھ بھی“،کمبل پھر سے چہرے پہ لیتے اُس نے دوسری طرف کروٹ لی تو زارون نے مزید کچھ کہنے کی بجائے باہر کا رخ کیا اور تھوڑی دیر بعد گرم دودھ کے ساتھ بسکٹ اور کیک  پلیٹ میں رکھتے اندر آیا۔۔۔”اُٹھو دودھ پیو“ ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے اُسے خود بھی اپنے بازو میں اب شدید دردمحسو س رہا تھا۔۔۔”مجھے نہیں پینا“ چھینکتے ہوئے اُس نے اُٹھ کر سائیڈ ٹیبل سے ڈبے میں سے ٹشو نکال کر اپنی ناک صاف کی تو زارون نے اُس کے قریب بیٹھتے کپ اُسکے سامنے کیا۔۔۔”مجھے نہیں پینا“نور نے اپنی بہتی ہوئی ناک کو ایک بار پھر سے ٹشو سے صاف کرتے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔”تم چاہتی ہو کہ میں خود تمہیں اپنے ہاتھوں سے پلاؤں تو ٹھیک ہے“اُسے کسی صورت بھی بات مانتا نہ دیکھ زارون نے اُسکے قریب ہوتے کہا تو نور نے جلدی سے کپ اُسکے ہاتھ سے پکڑا۔۔۔۔”تمہارے ہاتھ سے تو میں کبھی زہر بھی نہ کھاؤں تم دودھ کی بات کرتے ہو“ تھپٹر مارنے کے بعد نور کا غصے کسی حد تک کم ہو چکا تھا پر لہجے کی کرواہٹ ابھی بھی ویسی ہی تھی۔۔۔”یہ کیا ہے؟؟“ زارون کا جواب سنے بغیر ہی اُس نے کمرے میں داخل ہوتی سی بلی کو دیکھتے کپ واپس رکھتے اُسے بیڈ پر چڑھتا دیکھ جلدی سے کمبل سائیڈ پہ کرتے نیچے چھلانگ لگائی ۔۔۔۔”بلی ہے نظر نہٖیں آتا“ ،اُسے اس طرح اچھلتا دیکھ وہ سمجھ چکا تھا کہ وہ بلیوں سے بھی ڈرتی ہے۔۔۔۔”بلی ہے تو باہر نکالو یہ یہاں کیا کر رہی ہے“ دیوار کے ساتھ کھڑے زارون سے بات کرتے بھی اُس کی ایک نظر پرنسس پہ تھی جو آرام سے بیڈ پر بیٹھ چکی تھی۔۔۔۔”میری بلی ہے یہ،پرنسس نام ہے اس کا اور میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں اس لیے دوبارہ اسکو یہاں سے نکالنے کی بات مت کرنا“ اُسے اُٹھا کر اپنی گود میں بیٹھتے زارون نے کہا تو نور نے پوری آنکھیں کھولے اُس کی بات پر غور کیا۔۔۔”مطلب یہ یہاں رہے گی؟؟؟“ہکلاتے ہوئے اُس نے اپنی بات مکمل کی۔۔۔”ہاں ،یہ پچھلے دو سال سے میرے ساتھ ہے اور یہ یہاں ہی رہے گی“ زارون نے پرنسس کو گود میں اُٹھائے ہی نور کی طرف آتے بتایا جس کے سنتے ہی اوسان خطا ہو چکے تھے۔۔۔”دور رہو مجھ سے اور اس کو بھی دور رکھو “ اُسے اپنے قریب آتا دیکھ نور نے ایک کوفت بھری نظر پرنسس کی نیلی آنکھوں پہ ڈالی اور جلدی سے زارون کی دوسری طرف سے نکل کر بیڈ پہ بیٹھ گئی۔۔۔۔۔”تم اسے دوسرے کمرے میں لے جاؤ مجھے ڈر لگتاہے بلیوں سے۔۔۔“  ”تو؟؟یہ میرا مسئلہ نہیں اور یہ جتنا میرا کمرہ ہے اُتنا ہی پرنسس کا بھی ہے یہ میرے ساتھ ہی سوئے گی“ تھپٹر کا بدلہ لینے کے لیے زارون نے کہنے کے ساتھ ہی اُسے نیچے چھوڑا تو نور نے چیخ مارتے اپنے پاؤں اوپر کیا۔۔۔۔”دودھ پی لو ورنہ ساری رات میں اسے تمہارے ساتھ سلاؤں گا“ اُسے ڈرا سا دیکھ کر زارون نے مزید ڈرایا تو نور نے اُس پاگل آدمی سے کسی بھی چیز کی توقع رکھتے جلدی سے دودھ کا کپ ختم کیا۔۔۔۔”گڈ گرل اب یہ میڈیسن لو اور سو جاؤ“ دراز سے میڈیسن نکال کر دیتے اُس نے کہا تو نور نے کوئی بھی نخرہ کیے بغیر چپ چاپ میڈیسن کھائی۔۔۔”سو جاؤ میں لاؤنج میں جا رہا ہوں اور پرنسس بھی میرے ساتھ ہی وہیں سوئے گی“ اُسے لیٹتا دیکھ کر زارون نے کمبل ٹھیک کر کے اُس کے اوپر دیا اور اُس کے چہرے کے قریب ہوتے ٹھہر گیا۔۔۔۔”گڈنائٹ بے بی ڈال“ اُس کے گال پر نرمی سے بوسہ دیتے اُس نے کہا تو نور نے پرنسس کے ڈر سے اُس کے لمس پہ بھی کوئی مزاحمت نہیں کی۔۔۔”سو جاؤسکون سے“ پردے ٹھیک کرتے وہ پرنسس کو اُٹھائے لاؤنج میں چلا گیا تو نور نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔پتا نہیں کیسا انسان ہے؟؟انسانوں سے جانوروں والا سلوک کرتا ہے اور جانوروں سے اتنی محبت۔۔؟؟اُففففف لاؤنج میں اُسے پرنسس سے مسلسل باتیں کرتا سنتے ہوئے  نور نے سوچا اور آنکھیں بند کرتے سونے کی کوشش کرنے لگی۔

 

قسط نمبر: 17اگلے تین دن نور نے بخار کی وجہ سے بیڈ پہ ہی گزارے اور زارون نے اُس کی نفرت ،حقارت اور تمام باتوں کو درگزر کرتے ایک سیکنڈ بھی اُسے اکیلا نہیں چھوڑا۔ بار بار اُس کا سر دبانا،پٹیاں کرنا ساری رات جاگ کر اُس کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا حتیٰ کہ ان دنوں میں نہ تو اُس نے اپنے کھانے کی پروا کی نہ سونے کی اور نہ ہی درد کی جو زخم خراب ہونے کی وجہ سے اُسے مسلسل محسوس ہو رہا تھا بس اُسے فکر تھی تو نور کی جس کی طبیعت  اب کافی حد تک بہتر ہو چکی تھی، تب ہی اُس نے اللہ کا شکر ادا کرتے ایک ضروری میٹنگ کی وجہ سے آفس جانے کا ارادہ کرتے کپڑے وغیرہ چینج کیے۔۔۔۔۔۔۔”کہیں جا رہے ہو؟“ نور نے اُسے شیشے کے سامنے کھڑے کہیں جانے کے لیے تیار ہوتا دیکھ سوال کیا۔۔۔”ہاں ایک ضروری میٹنگ ہے عالیان بھی نہیں ہے اس لیے میرا جانا ضروری ہے،۔۔۔“ ٹائی اُٹھا کر لگاتے اُس نے تفصیل سے جواب دیا۔۔۔۔”کب تک آؤ گے؟“ اُس کا جواب سنتے ہی نور نے ایک اور سوال کیا جس پر زارون کے ٹائی بندھاتے ہاتھ رکے۔۔۔”تم کہتی ہو تو جاتا ہی نہیں۔۔۔“اُس کے قریب آکر بیٹھتے زارون نے  ایک جذبے سے کہا تو نور نے اُس کی بات پر تیوری چڑھائی۔۔۔”زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں اور مجھے تمہارے جانے یا آنے کی کوئی فکر نہیں ہے میری طرف سے ساری زندگی ہی باہر رہو میں توبس اس نیلی آنکھوں والی چڑیل کی وجہ سے پوچھ رہی تھی پتا نہیں کیوں سارا وقت مجھے ہی گھورتی رہتی ہے۔۔۔۔“ فوراً ہی اپنی بات کی وضاحت کرتے اُس نے سامنے صوفے پر بیٹھی پرنسس کی طرف اشارہ کیا جو اُن دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔”ہمم اوکے۔۔۔ مجھے لگا شاید میرے لیے پوچھ رہی ہو۔۔“ سر جھٹکتے وہ اُٹھ کر واپس شیشے کے سامنے جا کر اپنی ٹائی بندھنے لگا۔۔۔”غلط فہمی ہے تمہاری ،تم تو بے شک کبھی بھی گھر نہ آؤ میں تب بھی تمہارا نہ پوچھوں۔۔۔“نفرت سے کہتے اُس نے ایک نظر اُس کے شیشے میں نظر آنے والے عکس کو دیکھا۔۔۔”اوکے یہ خواہش بھی جلد ہی پوری کر دوں گا تمہاری اور میں نے ناشتہ بنا دیا ہے۔۔لا دوں یا خود ہی کر لو گی؟“ اُس کی بات سے زارون کے اندر کچھ بکھرا تھا پر چہرے پر کسی قسم کا کوئی بھی تاثر لائے بغیر اُس نے اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔”میں خود کر لوں گی ہاتھ پاؤں سلامت ہیں میرے اور یہ چڑیل میرے پاس ہی رہے گی کیا“ اُسے شوز پہنتا دیکھ نور کو پھر سے فکر ہوئی۔۔۔”ہاں گھر ہی رہے گی اب میں اسے آفس تولے جانے سے رہا۔۔۔“”لے جاؤ آفس پر میں اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتی،یہ میرے ساتھ رہی تو اسے دیکھ دیکھ تمہارے آنے سے پہلے ہی میں نے پوری ہو جانا ہے۔۔۔“ دوپٹہ لیتے وہ اُٹھ کر زارون کے سامنے آکر بولی۔۔۔۔”نہیں ہوتی پوری اور یہ تمہارے پاس ہو گی تو مجھے بھی تسلی رہے گی۔۔۔“ ایک نظر اُس کے چہرے کو دیکھتے جو بخار کی وجہ سے بالکل اُتر سا گیا تھا اُس نے اپنا لیپ ٹاپ اُٹھایا۔۔۔”یہ کوئی انسان نہیں ہے جو میرے پاس ہو گی تو تمہیں تسلی رہے گی اور میں تمہیں بتا رہی ہوں اس کا کوئی انتظام کر کہ جاؤ میں اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتی۔۔۔۔“ اُسے مصروف دیکھ کر نور نے کہا تو زارون نے لمبی سانس لیتے لیپ ٹاپ بیگ میں رکھا اور اُس کی جانب پلٹا۔۔۔۔”بعض دفعہ جس انسان کی انسانوں سے نہیں بنتی نا؟ اُس کی ان بے زبان جانوروں سے بن جاتی ہے اور تم اسے پیار کر کہ دیکھو یہ مجھ سے بھی زیادہ تمہارا خیال کرے گی۔۔۔۔“ اُس کے گال کو نرمی سے چھوتے زارون نے سمجھانے والے انداز میں اپنی بات مکمل کی اوراپنا موبائل ،والٹ اور چابی اُٹھاتے کمرے سے نکل گیا۔۔۔”مطلب؟میں تمہیں جانور لگتی ہوں؟“ جلدی سے اُس کے پیچھے آتے نور نے اُس کا ہاتھ پکڑتے روکا تو زارون نے پہلے اپنے ہاتھ کو اور پھر اُسے دیکھا جو چہرے پر غصے لیے اُس کے جواب کی منتظر تھی۔۔۔”میں نے پرنسس کو جانور کہا اور تمہیں بس اتنا کہ اُس سے دوستی کر لو،اپنا خیال رکھنا اور ٹائم سے ناشتہ کر کہ میڈیسن کھا لینا،باقی میں دروازہ باہر سے لاک کر کہ جاؤں گا پریشان مت ہونا بس کچھ دیر میں واپس آجاؤں گا۔۔۔۔۔“ اُس کے قریب آتے اُس نے نرمی سے اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا تو نورنے اُس کے لہجے میں ہلکی سی نمی محسوس کرتے کوئی مزاحمت کرنے کی بجائے خاموشی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔”گڈگرل ۔۔۔۔“ اُس کی تابعداری پر مسکراتے زارون نے باہر کا رخ کیا تو نور نے اپنی رکی ہوئی سانس بحال کی۔۔۔۔”پتا نہیں کیا مسئلہ ہے اس کے ساتھ۔۔۔۔“سوچتے ہوئے اُس نے ایک نظر گھر کی حالت کو دیکھا جو تین دن صفائی نہ کرنے کی وجہ سے کافی گندہ سا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون کے جاتے ہی نور کو بھوک محسوس ہوئی تب ہی اُس نے پرنسس کو اندر صوفے پہ سویا دیکھ کر تسلی ہوتے کچن کا رخ کیا تاکہ کچھ کھاسکے پر وہاں برتنوں کا ڈھیر دیکھ کر اُس کا سر گھوما۔۔۔۔”اُفف کتنے برتن جمع کیے ہوئے ہیں۔۔۔“ ایک نظر سینک کو دیکھنے کے بعد اُس نے کچھ سوچتے  ہوئے نل کھولا اور ناشتہ کرنے کی بجائے برتن دھونے لگی (کیونکہ اُسے خود بھی کچن کی حالت دیکھ کر کوفت محسوس ہو رہی تھی )اور ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اُسے اپنے پاؤں پر کسی نرم سی چیز کا وزن محسوس ہوا جس پروہ ہاتھ میں پکڑی پلیٹ برتنوں میں پھینکتے بدک کر پیچھے ہٹی۔۔۔۔”اُففف ڈرا دیا مجھے۔۔۔“پرنسس کو اپنے پاؤں کے قریب بیٹھا دیکھ اُس نے اپنا سانس بحال کرتے شکرا دا کیا کہ اب کاکروچ نہیں تھا۔۔۔”کیا مسئلہ ہے؟“ اُسے بار بار بولتا دیکھ نور نے ڈرنے کے باوجود بھی اُس کے چہرے پر معصومیت دیکھ کر پوچھا تو وہ مزید اُس کے قریب آتے اپنا مسئلہ بتانے کی کوشش کرنے لگی جو نور کو بالکل بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔”بھوک لگی ہے؟“ اُس کی حرکات سے اندازہ لگاتے نور نے پوچھا تو وہ بولتے ہوئے ایک کیبن کی جانب بڑھی اور ہاتھ سے اُسے کھولنے کی کوشش کرنے لگی تو نور نے ناچاہتے ہوئے بھی اُس بے زبان کو بے چین دیکھ کر اپنا ڈر ایک سائیڈ پہ رکھتے اُس کے قریب آتے کیبن کھولا جس میں پرنسس کے کھانے پینے کی چیزیں موجود تھیں۔۔۔”یہ کھاتی ہو تم؟“ ایک پیکٹ اُٹھا کر اُس کے سامنے کرتے نور نے پوچھا تو پرنسس نے اپنی دم ہلانے کے ساتھ خوشی سے بھاگتے ہوئے لاؤنج کا رخ کیا اور ایک سیکنڈ میں اپنا کھانے والا باؤل منہ میں اُٹھائے واپس نور کے پاس کچن میں آئی جیسے اب اُس سے بالکل بھی خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔“توبہ کتنی تیز ہے۔۔۔“پیکٹ میں سے کچھ خوراک اُس کے باؤل میں ڈالتے اُس کے کاموں پر حیران ہوتے ( جس نے اُسے ساری بات اتنی آسانی سے سمجھا دی تھی) نور نے خود کلامی کی اور اُسے کھانے میں مصروف دیکھ کر ہاتھ دھوتے پھر سے سینک کی جانب آئی تاکہ برتن دھو سکے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔برتنوں سے فارغ ہوتے اُس نے کچن صاف کیا اور پھر کمرے اور لاؤنج کی صفائی کرتے پہلے نہا کہ کپڑے تبدیل کیے اور اب  ناشتہ گرم کر کہ ٹیبل پہ لے آئی جہاں پہلے سے ہی پرنسس موجود تھی جسے دیکھتے ہی نور کا دل بھر آیا اور پچھلے دنوں کی کچھ یادیں خود بخود اُس کے دل و دماغ کا احاطہ کر نے لگیں جب ایک بار حاشر بڑے شوق سے بلی لے کر آیا تھا پر حارث نے نور کو روتا دیکھ  نہ صرف اُسے ڈانٹا بلکہ حاشر کی ضد کے باوجود وہ بلی اُسی وقت واپس کردی۔۔۔۔”حارث بھائی۔۔۔“اُس کا نام پکارتے ہی نور نے رونا شروع کر دیاتو پرنسس فکر مندی سے اُس کے قریب آئی اور ٹیبل پر اُس کے سامنے بیٹھتے آنکھوں میں اداسی لیے اُسے دیکھنے لگی جو اپنے دکھ میں یہ تک بھول چکی تھی کہ پرنسس اُس کے اتنے قریب بیٹھی ہے۔۔۔۔”تمہیں پتا ہے؟حارث بھائی بہت اچھے ہیں اُنہوں نے کبھی بھی مجھے نہیں ڈانٹا  پر اس انسان کی وجہ سے اُنہوں نے مجھے تھپٹر مارا میری بات تک نہیں سنی اور ابو؟وہ تو پہلے ہی مجھ سے نفرت کرتے تھے اور اب تو وہ ساری زندگی میری شکل نہیں دیکھیں گے۔۔۔“،روتے ہوئے اُس نے بغیر ڈرے اُسے اُٹھا کر اپنی گود میں بیٹھایا جو پوری طرح اُس کی بات سمجھتے اب خود بھی آہستگی سے بولتے اُس کی باتوں میں اُس کا ساتھ دے رہی تھی۔۔۔۔”اس شخص نے مجھے میرے اپنوں سے دور کیا ہے وہ جیسے بھی تھے بے شک مجھ سے نفرت ہی کرتے تھے پر تھے تو میرے اپنے اور وہ گھر میرا تھا جہاں میری امی کی یادیں تھیں اُن کی خوشبو تھی۔۔۔“ اب کی بار اُس نے پھوٹ پھوٹ کر روتے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں چھپایا تو پرنسس نے اُس کی گود سے نکل کر ٹیبل پر پڑے ٹشو کا ڈبہ اُٹھایا اور واپس اُس کے پاس آئی جو ابھی بھی رو رہی تھی ۔۔۔۔کچھ دیر بعد پرنسس کی آواز نہ آنے پر اُس نے چہرے سے ہاتھ ہٹائے تو وہ سامنے ہی ٹیبل پر ٹشو کا ڈبہ منہ میں لیے بیٹھی معصومیت سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ ”تم بہت اچھی ہو ۔۔“ اس کی حرکت پر نم آنکھوں سے مسکراتے اُس نے ٹشو نکال کر اپنا چہرہ صاف کیا تو پرنسس نے اپنی تعریف پرشرماتے اپنا ہاتھ اُٹھاکر چہرے پر پھیراتو نور نے اُس کی  حرکتوں پر رونا دھونا بھولتے ڈبہ واپس ٹیبل پر رکھتے اُس سے باتیں کرنے لگی جو کبھی آنکھیں بند کرتے تو کبھی اپنی مخصوص زبان میں بولتے اُس کی باتوں کا جواب دیتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سکندر صاحب کی طبیعت اب کافی بہتر تھی تب ہی وہ آج کافی دنوں بعد ایک کام کے سلسلہ میں باہر گئے اور اب گھر واپس آتے ہی اُنہوں نے سب لوگوں کو اپنے کمرے میں آنے کا کہا ۔۔۔۔”بھائی صاحب خیریت ہے۔؟“فریحہ بیگم نے کمرے میں آتے ہی حارث حاشر کے ساتھ سارہ کو بھی خاموش بیٹھا دیکھ کر پوچھا۔۔۔”ہاں خیریت ہی ہے ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو یہاں ۔۔۔“ اُن کے آتے ہی اُنہوں نے اپنے ساتھ پڑی فائل کو اُٹھا کر فریحہ بیگم کے لیے جگہ بنائی تو وہ آگے بڑھتے اُن کے ساتھ بیٹھ گئیں ۔۔۔۔”میں نے آپ چاروں کو ایک اہم بات کرنے کے لیے یہاں بُلایا ہے ۔۔۔“ فریحہ بیگم کے بیٹھتے ہی سکندر صاحب نے اپنی بات کا آغاز کیا تو سارہ کے ساتھ ساتھ حارث اور حاشر نے بھی سوالیہ نظروں سے اُن کی جانب دیکھا۔۔۔”میری زندگی کا اب کوئی بھروسہ نہیں اس لیے میں چاہتا ہوں جو کچھ بھی میرے پاس ہے میں اُسے اپنی زندگی میں ہی تم سب میں برابر تقسیم کردوں تاکہ میرے بعد ان سب کے لیے تم سب کے درمیان کو اختلاف نہ ہو۔“ اپنی بات مکمل کرتے اُنہوں نے ایک نظر سب کے چہروں کی طرف دیکھا۔۔۔”اللہ نہ کرے بھائی صاحب آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں،اللہ آپ کو لمبی زندگی دے اور آپ کا سایہ ہم سب کہ سرںپر سدا سلامت رہے۔“دل میں خوشی سے لڈو پھوٹنے کے باوجود بھی فریحہ بیگم نے چہرے پر تکلیف کے آثار لاتے کہا۔۔۔۔”ہاں زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے پر جو ذلت میری اولاد سے مجھے مل چکی ہے اُس کے بعد مجھے نہیں لگتا میں زیادہ دیر لوگوں کی حقارت بھری نظروں کا سامنا کر پاؤں گا اس لیے میں چاہتا ہوں کہ یہ سب جو میرے پاس ہے میں اپنے بیٹوں کے نام کر دوں تاکہ ان کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس ہو۔۔۔۔“ حارث اور حاشر کو دیکھتے اُنہوں نے کہا تو فریحہ بیگم نے ایک پریشان نظر سکندر صاحب کے چہرے پہ ڈالی کہ شاید وہ اُس سے کیا ہوا وعدہ بھول چکے ہیں۔۔۔۔”جی جی بھائی صاحب سب کچھ حارث اور حاشر کا ہی ہے اور مجھے پتا ہے یہ اپنی ذمہ داری بہت اچھے سے نبھائے گیں۔۔۔“ان دونوں کے کچھ بولنے سے پہلے ہی فریحہ بیگم نے مٹھاس بھرے لہجے میں کہا۔”ہاں ،بس میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی یہ دونوں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں۔۔“تھکے ہوئے انداز میں کہتے اُنہوں نے فائل اُٹھا کر کھولی۔۔۔”پر ابو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟یہ سب آپ کے نام ہوتے بھی ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں ۔۔۔“ حاشر نے مداخلت کی اور حارث نے فریحہ بیگم کی طرف دیکھا جن کی نظریں سکندر صاحب کے ہاتھ میں موجود پیپرز پر تھیں۔۔۔”ضرورت ہے اور اب میری بوڑھی ہڈیوں میں اتنی طاقت نہیں کہ اتنے بڑے کاروبار کو دیکھ سکوں اس لیے سب تم دونوں کے نام کر دوں گا تاکہ اس سب کو اب تم لوگ سنبھال لو۔۔۔۔“کاغذات کو ایک نظر دیکھتے اُنہوں نے حاشر کو جواب دیا اور اُن میں سے سب کاغذات کو الگ کرنے لگے ۔۔”میں نے سارا کاروبار تم دونوں بھائیوں میں آدھا آدھا تقسیم کرکہ اُس کے پیپرز بناوا لیے اور یہ گھرمیں نے فریحہ کے نام کردیا ہے باقی میری ملتان والی پراپرٹی جو کہ میں نے سارہ کے نام کر دی ہے۔۔۔“ انہوں نے گھر کے کاغذات فریحہ بیگم کی طرف بڑھاتے حارث کے ساتھ ساتھ حاشر کو بھی شاک کیا۔۔۔”لیکن ابو آپ کو سارہ کی بجائے وہ پراپرٹی نور کے نام کرنی چاہیے تھی کیونکہ جو کچھ مجھے مل گیا تھا وہ ہمارے لیے کافی تھا۔۔۔“ حارث نے اُن کی بات سنتے پہلا اعتراض اُٹھایا تو فریحہ بیگم نے سارہ کی طرف دیکھا جو خود بھی حارث کی بات سُن کے حیران ہوئی۔۔۔”اُس لڑکی کا نہ تو میرے گھر میں کوئی حصہ ہے اور نہ ہی کاروبار میں اور جو بھی اُس کی طرف داری کرے گا میرا اُس کے ساتھ بھی کوئی رشتہ نہیں رہے گا اس لیے دوبارہ اُس کی حمایت کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا۔۔“ صاف لفظوں میں حارث کو تنبیہ کرتے اُنہوں نے مزید کوئی بات سنے یا کہے بغیر اُن سب کو جانے کا کہاتو حارث نے نور کی حق تلفی پر خاموش رہنے کی بجائے احتجاج کیا۔۔۔۔۔”ابو پلیز آپ بے شک نور سے کوئی رشتہ نہ رکھیں پر اُسے اُس کا حق ضرور دیں کیونکہ اس بات کے جوابدہ آخرت میں آپ ہوں گے اور اگر آپ اُس کا حق نہیں دیں گے تو میں سارا حصہ نور کے نام کر دوں گا جو نہ تو آپ چاہیں گے اور نہ ہی سارہ اور پھوپھو۔۔۔۔“ ایک نظر اُن دونوں کے خوشی سے چمکتے چہروں پہ ڈالتے وہ اپنا فیصلہ سُنا کر سکندر صاحب کے ساتھ ساتھ فریحہ بیگم اور سارہ کو بھی ساکت چھوڑ کر لمبے ڈگ بھرتے کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون میٹنگ کے بعد مارکیٹ چلا گیا تو اُسے وہاں کافی ٹائم لگ گیا اور اب تقریباںتین گھنٹے بعد وہ گھر واپس آیا تو نور اور پرنسس کو ایک ساتھ بیڈ پہ سویا دیکھ اُسے جھٹکا لگا۔۔۔”لگتا ہے کافی دوستی ہو گئی ہے۔۔“ خود کلامی کرتے اُس نے ایک نظر نور کے پرسکون چہرے پر ڈالی اور پانی پینے کچن میں آگیا جہاں ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہونے کے ساتھ ساتھ برتنوں کا ڈھیر بھی سینک میں نہ پاکر زارون کو مزید حیرت ہوئی۔۔۔۔۔”لگتا ہے میڈم کا دماغ کچھ ٹھنڈا ہو گیا ہے جو مجھ پر اتنی مہربانیاں ہو رہی ہیں۔۔“ ،گلاس میں پانی ڈالتے اُس نے خود کلامی کی اور باہر چیئر پر بیٹھتے پینے لگا۔۔۔”تم کب آئے۔۔۔؟“کچن میں شور کی آواز پر نور کی آنکھ کھلی تو اُس نے باہر آتے زارون کو چیئر پر بیٹھا دیکھ پوچھا۔۔۔”ابھی آیا ہوں ،تمہاری طبیعت کیسی ہے ؟؟اور یہ کام کرنے کی کیا ضرورت تھی میں خود ہی آکے کر لیتا۔۔۔“ جواب دیتے زارون نے اُس کے کھلے بالوں کو دیکھا جو کمر تک آرہے تھے۔۔۔”کوئی احسان نہیں کیا بس جو تم میرے لیے کرتے ہو یہ اُن سب کا بدلہ ہے۔۔۔“ نور نے تلخی سے کہتے اُس کی ساری خوشی کو خاک میں ملایا۔۔۔”ہمم اوک میں تمہارے لیے موبائل لایا تھا۔۔۔“ اُس کے رویے اور بات کو نظرانداز کرتے زارون نے گلاس ٹیبل پر رکھتے اپنے بیگ سے موبائیل نکال کر اُس کے سامنے رکھا۔۔۔”اس کی کیا ضرورت تھی۔۔۔“نور نے ایک نظر موبائل کو دیکھ کر دوسری نظرزارون پر ڈالی جو اب چینج کرنے کے لیے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔”ضرورت تھی۔۔۔ کیونکہ میں اب ہر وقت تمہارے ساتھ یہاں گھر پہ نہیں رہ سکتا سو کام ہوتے ہیں مجھے اور تم اب کل سے یونیورسٹی جاؤ گی تو مجھ سے رابطہ کے لیے تمہیں اس کی ضرورت ہو گی۔۔۔مطلب تم مجھے یونیورسٹی جانے دوگے؟“ اُس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی نور نے حیرت سے کھڑے ہوتے تصدیق چاہی۔۔۔”ہاں تو میں کون سا تمہیں یہاں باندھ کے رکھوں گا تم جہاں جانا چاہو جا سکتی ہو پر میرے ساتھ اور دوسری بات مجھے تمہارے پڑھنے سے کوئی مسئلہ نہیں اپنی ڈگری مکمل کرو تاکہ بچوں کہ سامنے شرمندگی نہ ہو۔“ اپنی بات کے اختتام پر زارون نے آنکھوں میں شرارت لیے بڑی سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کی ۔۔”کونسے بچے؟“ ناسمجھی سے اُس کی جانب دیکھتے نور نے سوال کیا تو زارون نے جواب دینے کی بجائے پہلے اپنے اور اُس کے بیچ حائل چند قدم کا فاصلہ سیمٹا۔۔۔”ہمارے بچے ،تمہارے اور میرے۔۔۔“ اُس کے کندھے سے بال ہٹاتے اُس نے اُس کے کان کے قریب جھکتے سرگوشی کی تو نور نے اُس کی بات سنتے ہی غصے سے لال ہوتے اُس کے سینے پہ ہاتھ رکھتے پیچھے دھکا دیا۔۔۔۔۔۔”بھاڑ میں جاؤ تم اور دوبارہ مجھ سے ایسی کوئی بے ہودہ بات کی تو منہ توڑ دوں گی تمہارا۔۔۔“ اپنے سوال پوچھنے پر خود کو ملامت کرتے اُس نے زارون کو خبردار کیا جو اُسکے بدلتے رنگوں کو دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا۔۔

قسط نمبر: 18

بارات ہال میں پہنچی تو سلیم صاحب نے نکاح خواں کو نکاح شروع کرنے کا کہا۔۔۔۔”اتنی جلدی بھی کیا ہے کچھ دیر رک جائیں۔۔۔۔“ خالدہ بیگم نے ایک نظر تمام مہمانوں کو اور پھر جنید کے ساتھ بیٹھی ملائکہ کو دیکھ کر سلیم صاحب سے کہا جو اُن کے انتظار کروانے کی وجہ اچھے سے سمجھتے تھے۔۔۔۔”قاری صاحب آپ شروع کریں۔۔۔۔“ اُن کی کسی بھی بات کو اہمیت دیے بغیر سلیم صاحب نے قاری صاحب سے کہا جو اثبات میں سر ہلاتے اپنا رجسٹر کھول چکے تھے۔۔۔۔”میں نے کہا نا یہ نکاح ابھی شروع نہیں ہو گا۔۔۔“ سلیم صاحب پر اپنی بات کا کوئی اثر ہوتا نہ دیکھ خالدہ بیگم نے سب کے سامنےکھڑے ہوتے غصے سے چلاتے ہوئے کہاتو قاری صاحب کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی حیرت اور ناسمجھی  سے اُن کے چہرے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔”خالدہ کیا بدتمیزی ہے یہ۔۔؟“ ”خاموشی سے بیٹھ جاؤ۔۔۔“ سلیم صاحب نے لفظوں کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں بھی سختی سموتے اُنہیں تماشہ کرنے سے روکا۔۔۔۔۔”کیوں رہوں میں خاموش؟ پہلے بھی آپ دونوں نے اپنی مرضی سے اس شادی کا فیصلہ کیا اور میری ایک نہ سُنی اور اب بھی آپ مجھے خاموش کروا رہے ہیں؟ جبکہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ جب تک یہ لوگ میری ساری باتیں مان نہیں لیتے یہ نکاح نہیں ہو گا۔۔۔“ خالدہ بیگم نے سلیم صاحب کا ہاتھ جھٹکتے غصے سے چیختے ہوئے کہا تو ملائکہ نے ایک نظر  جنید کی جانب دیکھا جو خود بھی خالدہ بیگم کے ایک دم سے بدلنے والے رویے پر حیران تھا۔۔۔۔”بہن آپ مہربانی کر کے بیٹھیں اور بتائیں آپ کی جو بھی ڈیمانڈ ہوئی ہم لوگ پوری کرنے کے لیے تیار ہیں۔۔“ محمود صاحب(ملائکہ کے والد) نے سب مہمانوں کے سامنے اپنا تماشہ بنتا دیکھ کر بات سنبھالنے کی کوشش کی۔۔۔۔”ہماری کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے آپ بیٹھیں اور قاری صاحب آپ شروع کریں۔۔۔“ خالدہ بیگم کے بجائے سلیم صاحب نے جواب دیتے محمود صاحب کو مطمئن کرتے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔”ٹھیک ہے پھر میں بھی دیکھتی ہوں یہ نکاح کیسے ہوتا ہے جنید اُٹھو گھر چلو۔۔۔۔“ سلیم صاحب کی ہٹ دھرمی دیکھتے اُنہوں نے کہنے کے ساتھ ہی جنید کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے ساتھ کھینچا۔۔۔۔”امی پلیز میں ملائکہ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا اور اگر آپ کو اتنا ہی مسئلہ ہے نا تو آپ یہاں سے جا سکتی ہیں۔“اُن کا ہاتھ جھٹکتے اُنہیں اس قدر حقارت اور تکبر سے بات کرتا دیکھ جنید نے واپس ملائکہ کے ساتھ بیٹھتے اپنا فیصلہ سنایا تو خالدہ بیگم نے ایک افسوس بھری نظر جنید پر ڈالی۔۔۔۔”ہوننہہ شادی سے پہلے ہی بیوی کے غلام بن گئے اور میں دیکھتی ہوں اب کے تم میری مرضی کہ بغیر اس کم ذات لڑکی کو میرے گھر میں کیسے لے کر آتے ہو۔۔۔“ جنید کی حرکت پر غصے سے پاگل ہوتے اُنہوں نے اونچی آواز میں کسی کی پروا کیے بغیرکہا اور دعا (خالدہ کی بیٹی) کے روکنے اور سمجھنے کے باوجود بھی وہاں سے نکل گئیں۔۔۔۔”قاری صاحب آپ شروع کریں۔۔۔“ خالدہ بیگم کے رویے پر شرمندگی سے سب سے معذرت کرتے اُنہوں نے کہا تو محمود صاحب  جو پہلے ہی پانچ بیٹیوں کے ساتھ غربت کے بوجھ میں دبے تھے اُنہوں نے بیٹی کی زندگی برباد ہونے کے ڈر سے کسی قسم کی کوئی مزاحمت کیے بغیر ملائکہ کہ سر پر ہاتھ رکھا جو ماں باپ کی مجبوری کی وجہ سے خالدہ بیگم کی اتنی کڑوی باتوں کے بعد صرف جنید کے ساتھ دینے پر اقرار میں سر ہلا چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”بے ہودہ انسان پتا نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے۔۔۔“ زارون کو لاؤنج میں چھوڑے وہ کمرے میں آچکی تھی اور اب پچھلے ایک گھنٹے سے ادھر اُدھر ٹہلتے اُسے بُرا بھلا کہہ رہی تھی جو اُس کا پارہ ہائی دیکھ کر کسی بد مزگی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے لے کر عالیان کے کمرے میں جا چکا تھا۔۔۔”دل کر رہا ہے منہ توڑ دوں اس کا۔۔۔“ تھک ہار کر بیڈ پر بیٹھتے اُس نے ایک بار پھر سے زارون کی بات یاد آنے پر اُسے کوسا اور سائیڈ ٹیبل پر پڑے موبائل پر نظر پڑتے اُسے اُٹھا کر دیکھنے لگی جس میں سم کے ساتھ ساتھ نیٹ بھی چل رہا تھاتب ہی نور نے کچھ سوچتے ہوئے ایک نظر لاؤنج میں دیکھا اور پھر پاس ورڈ سیٹ کرتے ایف بی آن کی کیونکہ آج صبح سے ہی اُسے زین کی فکر ہو رہی تھی جس کو وہ ان سارے معاملات میں بالکل ہی بھول چکی تھی۔۔۔”آر جے؟“ میسنجر میں جاتے ہی وہاں اتنے دنوں میں اُس کا ایک بھی میسج نہ دیکھ کر پہلے تو نور کو حیرانگی ہوئی اور پھر اُسے اتنے دنوں سے آن لائن نہ دیکھ کر نور کے حواس صحیح معنوں میں اُڑے تب ہی اُس نے جلدی سے میسج ٹائپ کرتے اُسے سینڈ کیا جس کا جواب پندرہ منٹ گزرنے کے بعد بھی نہیں آیا۔۔۔“آر جے کہاں ہیں آپ۔۔۔؟“ ایک بار پھر سے میسج ٹائپ کرتے اُس نے سینڈ کیا پر ابھی بھی دوسری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اُسے مزید پریشانی ہوئی۔۔۔”اللہ آر جے ٹھیک ہو۔۔۔“ دل سے دعا کرتے اُس نے کچھ اور میسجز ٹائپ کر کء اُسے سینڈ کیے مگر دو گھنٹے  مسلسل انتطار کے بعد دوسری طرف خاموشی پر نور کے دل میں ایک خوف سا بیٹھ گیا کہ ”کہیں زارون نے آرجے کو کچھ کر نہ دیا ہو ؟“ کیونکہ اُس رات جب وہ زین سے بات کر رہی تھی تو زارون اُس کے کمرے میں آتے اُسے دھمکی دے کر گیا تھا جس پر نور نے اب غور کیا۔۔۔۔۔”اللہ پاک پلیز اب میری وجہ سے کسی کو تکلیف مت دیجیے گا بس ایک بار آرجے مجھے اپنی خیریت کا بتا دیں میں دوبارہ کبھی اُن سے بات نہیں کروں گی۔۔۔“ آنکھوں میں نمی لیے اُس نے دعا کی اور پھر سے میسج ٹائپ کرتے اُسے سینڈ کیا۔۔۔۔”کھانا نہیں کھانا آج؟“ وہ اپنے موبائل میں مگن تھی جب زارون نے کمرے میں آتے پوچھا۔۔۔”ن۔۔نہی۔۔ں۔۔“ اس کی آواز پر ایک دم سے موبائل اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر کمبل میں گر گیا۔”کیا ہوا؟ڈر کیوں رہی ہو؟“ اُس کی ہربڑاہٹ پر زارون نے جانچتی ہو ئی نظروں سے اُسے دیکھا جس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں ۔۔۔۔”ک۔۔چھ نہیں اور مجھے بھوک نہیں ہے۔۔۔“ جلدی سے اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے صاف کرتے اُس نے جواب دیا تو زارون نے واپس جانے کی بجائے قدم اُس کی طرف بڑھائے جس کی نظر اب اپنے موبائل پر تھی۔۔۔۔”کیا ہواہے؟رو کیوں رہی ہو؟“ اُس کے قریب بیٹھتے زارون نے نرمی سے پوچھا تو نور نے اُس کا اپنے چہرے کی طرف بڑھتا ہاتھ جھٹکا۔۔۔”میں روؤں یا ہنسوؤں یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے اس لیے دوبارہ کسی بھی بہانے سے مجھے چھونے کی یا میرے پاس آنے کی کوشش مت کرنا۔۔۔۔“ نظروں میں غصے اور لہجے میں سختی لیے اُس نے زارون کو ایک بار پھر سے بھڑکایا۔۔۔”مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تمہیں چھونے کا اور میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ تم ۔۔۔“ اُس کی بات پر زارون نے اپنی سبکی چھپانے کے لیے غصے سے کہا اور اُٹھ کر کمرے سے چلا گیا تو نور نے ایف بی لاگ آؤٹ کرتے اللہ کا شکر ادا کیا کہ زارون کی نظر موبائل پر نہیں پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”یہ دونوں تو آج گھر آ جائیں۔۔ایسی طبیعت صاف کروں گی ان باپ بیٹے کی کہ ساری زندگی یاد رکھیں گے۔۔۔“ اپنی بے عزتی پر تلملاتے اُنہوں نے پرس اُٹھا کر زور سے بیڈ پر پھینکا۔۔۔۔”میں دیکھتی ہوں کیسے وہ لڑکی میرے گھر میں قدم رکھتی ہے اور سلیم ؟بہت پر نکل آئے ہیں نا اُس کے پر وہ یہ نہیں جانتا کہ خالدہ بیگم ایسے پر کاٹنا اچھے سے جانتی ہے۔۔۔“ جوتے اُتار کر ایک طرف فرش پر پھینکتے اُنہوں نے سوچا اور اُٹھ کر جنید کے کمرے کی جانب بڑھیں جیسے اُس نے کچھ گھنٹوں پہلے بہت پیار سے ملائکہ کے لیے سجایا تھا۔۔۔”جس چیز میں میری مرضی شامل نہ ہو میں وہ ہر چیز  برباد کر دوں گی ، بے شک وہ کسی کا کمرہ ہو یا زندگی۔۔۔۔“ دروازہ کھول کر آگے بڑھتے اُنہوں نے بیڈ پر لگی سرخ پھولوں کی لڑیوں کو ہاتھ میں پکڑ کر زور سے کھینچا تو وہ ایک سیکنڈ میں زمین بوس ہو گئیں پر پھر بھی اُن کا غصہ کم نہیں ہوا تب ہی اُنہوں نے کمرے میں پڑی سجاوٹ کی چیزوں کو باری باری اُٹھا کر فرش پر پھینکااور کچھ ہی سیکنڈ میں کمرے کا نقشہ بگاڑ کے اُن کے دل کو تھوڑا سکون ملا۔۔۔۔۔”ملائکہ بی بی تم ایک بار میری دسترس میں آؤ دیکھنا میں تمہارا کیا حال کرتی ہوں۔۔۔۔“،تصور میں ملائکہ کے چہرے کو لاتے خالدہ بیگم نے ٹیبل پر پڑے آخری بوکے کو ہاتھ مارتے خود کلامی کی اور اپنی تیز ہوتی سانس کو بحال کرتے وہاں سے نکل کر اپنے کمرے میں آگئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون کے جاتے ہی نور نے جلدی سے موبائل اُٹھاتے دیکھا جہاں ابھی بھی زین کا کچھ اتا پتا نہیں تھا۔۔۔۔”پتا نہٖیں کہاں ہیں۔۔“ خودکلامی کرتے اُس نے ایف بی کو لاگ آؤٹ کیا اور اُٹھ کر باہر آگئ تاکہ زارون کو شک نہ ہو۔۔۔۔”کیا بنا رہے ہو؟“ کچن میں اُسے مصروف دیکھ کر نور نے اپنے قدم اُس کی جانب بڑھائے۔۔۔۔”زہر بنا رہا ہوں، کھاؤ گی؟“زارون جو پہلے ہی اپنے بازؤ میں ہونے والی درد سے بے زار تھا  اور اب کچھ منٹ پہلے نور کے رویے اور بھوک کی وجہ سے مزید  اکتاہٹ سے بولا۔۔۔”نہیں یہ تم ہی کھاؤ میں اپنے لیے خود ہی بنا لوں گی۔“ اُس نے باول میں موجود انڈوں کو دیکھتے اپنی ناک پکڑی۔۔۔”تو میرے لیے بھی بنا دو پلیز۔۔۔ میرے باز ؤ میں درد ہے اور بھوک بھی بہت لگی ہے،۔۔“ زارون نے اُس کی بات سنتے ہی اپنے لہجے میں نرمی لاتے اپنا مسئلہ بتایا۔۔۔۔”میں نوکر نہیں تمہاری جو تمہارے لیے بھی بنا دوں۔۔“ اُس کے چہرے پر تکلیف کے آثار دیکھنے کے باوجود بھی نور نے نرمی کی کوئی بھی گنجائش رکھے بغیر تڑخ کر جواب دیا اور فریج سے آٹا نکال کر شیلف پر رکھا(جو اُس نے دوپہر میں گوندھا تھا) تو زارون نے کوئی بھی جواب دینے کی بجائے خاموشی سے ایک ہاتھ سے انڈوں کو فرائی پین میں انڈیلا ( جو پہلے سے ہی وہ  آئل گرم کرنے کے لیے چولہے پر رکھ چکا تھا) اور ایک ہاتھ سے چمچہ سے اُسے ہلاتے اُس کی نظریں نور پر تھیں جو روٹی بیل کر توے پر ڈال چکی تھی۔۔۔اچھی بنی ہے۔۔۔“ انڈوں کو پلیٹ میں نکالتے زارون نے تعریف کی تو نور نے منہ بسورتے آٹے کو واپس فریج میں رکھا۔۔۔۔”میں ہر چیز ہی اچھی بناتی ہوں اس لیے اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ مجھے مکھن لگا کر تم اپنے لیے بھی روٹی بنوا لو گے تو یہ تمہاری غلط  فہمی۔۔“ ،مہارت سے روٹی کو آگ پر سیکتے اُس نے زارون کے ارمانوں پر پانی پھیرا جو یہ سمجھ رہا تھا کہ اُسے خاموش دیکھ کر نور کے دل میں رحم آجائے گا۔۔۔۔”میں نے بس تعریف کی ہے اس کے علاوہ مجھے گھر کی بنی روٹی ویسے بھی پسند نہٖیں۔۔۔“ فریج سے بریڈ نکال کر ٹوسٹر میں گرم کرنے کے لیے رکھتے زارون نے کندھے اچکاتے جواب دیا اور پرنسس کے لیے دودھ نکال کر اُس کے باؤل میں ڈالا جو ابھی ابھی اُٹھ کر کچن میں آئی تھی۔۔۔۔”تو تمہیں بنا کر کون دے گا؟تمہاری ماں؟جس کا ابھی تک مجھے کیا شاید دنیا میں کسی کو بھی علم نہ ہو۔۔“ سالن نکال کر گرم کرتے نور کو احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ کتنی غلط بات کر چکی ہے۔۔۔”کیا بکواس کی ہے  تم نے؟“اُس کی بات سنتے ہی زارون نے اُس کا بازؤ کھنچتے اپنی طرف کیاجو اوون میں سالن رکھ رہی تھی۔۔۔”کیا؟“ اُس کے غصے کی پروا کیے بناء نور نے ناسمجھی سے اُسے دیکھا۔۔۔۔”کیا کہا ہے ابھی تم نے میری ماں کے بارے میں۔“ اس کے جبڑوں کو اپنے ہاتھ میں دبوچے اُس نے آنکھوں میں سختی لیے سوال کیا تو نور نے اُس کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی۔۔۔”میں نے کچھ نہیں کہا اور میں پہلے بھی تم سے کہہ چکی ہوں کہ مجھ سے دور رہو۔۔۔“ اپنی غلطی ماننے کی بجائے اُس نے ہٹ دھرمی دیکھاتے جواب دیا تو زارون نے غصے نکالنے کے لیے پاس پڑا گلاس اُٹھا کر زور سے زمین پر مارا تو نور نے  اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے خود کو چیخنے سے روکا۔۔۔۔۔۔”کیا سمجھتی ہو تم خود کو ؟کہ میں تمہیں کچھ کہتا نہیں تمہاری ہر بات پر خاموش ہو جاتا ہوں تو تم جو چاہو کہہ سکتی ہو؟جو چاہو کر سکتی ہو؟ تو مس نور یہ بات اپنے دماغ میں بیٹھا لو کہ زارون علی اگر خاموش ہونا جانتا ہےتو خاموش کروانا بھی اُسے اچھے سے آتا ہے اس لیے دوبارہ کوئی بھی بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا خاص کر میری ماں کے بارے میں۔۔۔“ آنکھوں میں انتہاء کی سختی اور غصہ لیے اُس نے آخری بار نور کو وارن کیا جو اُس کی آنکھوں میں پھیلی دہشت اور سرخی دیکھ کر کوئی جواب دینے کی بجائے خاموشی سے اُسے دیکھنے لگی جواب لمبے ڈگ بھرتے عالیان کے کمرے میں جاتے دروازہ زور سے بند کر چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملائکہ کو لے کر وہ سب لوگ گھر پہنچے تو خالدہ بیگم کے  کمرے  کا دروازہ بند دیکھ کر جنید نے اُس جانب قدم بڑھائے۔۔۔۔”تم مہمانوں کو دیکھو اور دعا تم بھابھی کو لے کر کمرے میں جاؤ میں تمہاری ماں کو دیکھ کر آتا ہوں“ جنید کو روکتے اُنہوں نے خود کمرے کی جانب قدم بڑھائے اور کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا جو اندر سے لاک تھا۔۔”خالدہ دروازہ کھولو“ اُنہوں نے مہمانوں کی وجہ سے آہستگی سے دستک دی پر دوسری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اُنہوں نے بعد میں اُنہیں دیکھنے کا سوچتے اپنا رخ لاؤنج کی جانب کیا کہ جنید کے ساتھ مہمانوں کو دیکھ سکیں۔”آجائیں بھابھی“ دعا نے دروازہ کھولتے اندر دیکھے بغیر ملائکہ سے کہا جو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اندر داخل ہوئی تو کمرے کا حشر دیکھ کر مسکراہٹ کے ساتھ اُس کے قدم بھی رُکے۔۔۔”یہ کمرے کو کیا ہوا؟؟“ دعا نے بھی اُس کے پیچھے ہی اندر داخل ہوتے وہاں موجود تمام چیزوں کو بکھرا دیکھ کر حیرانگی سے کہا اور خالدہ بیگم کا سوچتے ہی خاموش ہو گئی۔۔۔ ”آپ ساتھ والے کمرے میں آجائیں میں جب تک یہ چیزٖیں وغیرہ اُٹھا لیتی ہوں“ ملائکہ کے چہرے کے پھیکے پڑتے رنگ دیکھ کر دعا نے بات سنبھالنے کی کوشش کی اور اُسے ساتھ لیے دوسرے کمرے میں آگئی جہاں کچھ اور مہمان بھی بیٹھے

قسط نمبر: 19

زارون کے جاتے ہی نور نے ایک نظر فرش پہ بکھرے کانچ کو دیکھا اور پھر پرنسس کو جو دودھ پینے کے بعد لاؤنج سے کچن میں آچکی تھی۔۔۔”نو۔۔ پرنسس اندر نہیں آنا باہر جاؤ۔۔۔“ اس سے پہلے کے پرنسس اپنا پاؤں کانچ پہ رکھتی نور نے جلدی سے آگے بڑھتے اُسے اُٹھایا۔۔۔”ابھی لگ جاتا نا تمہیں تو تمہارے اُس جلاد مالک کو پھر سے مجھے باتیں سنانے کا موقع مل جانا تھا۔۔“اُسے اُٹھا کر اپنے کمرے میں لاتے نور نے زارون کے غصے سے خائف ہوتے پرنسس سے کہا اور اُسے بیڈ پہ بیٹھتے وہی بیٹھنے کا کہتے خود واپس کچن میں آئی تاکہ کانچ اُٹھا سکے۔۔۔”پتا نہیں کیا سمجھتاہے خود کو کھڑوس کہیں کا۔۔“ کانچ اُٹھاتے وہ مسلسل زارون کو بُرا بھلا کہہ رہی تھی جو تب سے خود کو کمرے میں بند کیے بیٹھا تھا۔۔۔ ”اُففف اب تو میرا بھی کچھ  کھانے کو دل نہیں کر رہا“ کانچ اُٹھانے کے بعد اُس نے باقی چیزوں کو  اپنی اپنی جگہ رکھ کر ہاتھ دھوئے اور شلیف پر زارون کے بنائے ہوئے انڈوں کو دیکھتے سوچا۔۔۔”ویسے میں نے بھی غلط بات کی مجھے ایسے اُس کی امی کے بارے میں نہیں کہنا چاہیے تھا۔۔۔“ کمرے کے بند دروازے کو دیکھ کر نور نے خودکلامی کی اور اپنی غلطی سدھارنے کے لیے اُس نے زارون کے بازؤ میں درد کا یاد آتے ہی،فریج سے آٹا نکال کر دو روٹیاں بنائی اور سالن گرم کرتے تمام چیزیں ٹرے میں رکھ کر کمرے میں لے آئی جہاں زارون کے آنے کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔۔۔۔۔۔”کیا کرنے آئی ہو اب؟“ ایک نظر اُس کی طرف دیکھ کر زارون نے ماتھے پر تیوری ڈالی۔۔۔”وہ تمہیں بھوک لگی تھی اس لیے میں کھانا لے کر آئی ہوں“ ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے نور نے حتی الامکان خود کو غصہ کرنے سے روکا۔۔”مجھے بھوک نہیں ہے اور پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دو مجھے تم سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کرنی۔۔“ ایک نظر ٹرے میں پڑی چیزوں کو دیکھ کر زارون نے اپنی ناراضگی برقرار رکھتے کہا اور دوبارہ سے اپنے موبائل کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔”لیکن پہلے تو تمہیں بہت بھوک لگی تھی اور اب میں کھانا لے آئی ہوں تو تم نخرے کر رہے ہو۔۔“اُس کے سامنے صوفے پر بیٹھتے نور نے نا چاہتے ہوئے بھی نرمی کا مظاہرہ کیا تو زارون کو اُس کی اتنی مہربانی ہضم نہیں ہوئی۔۔۔”پہلے تھی بھوک اب نہیں ہے اور تمہیں میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، مجھے جب بھوک لگی میں خود بنا کر کھا لوں گا۔۔۔“ نور سے بات کرتے وہ اپنے لہجے کی تلخی کو چاہتے ہوئے بھی کم نہیں کر پایا۔۔۔”اوکے مجھے بھی کوئی شوق نہیں چڑھا تمہارے لیا کھانے بنانے کا یا تمہاری منتیں کرنے کا، میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری بھوک۔۔۔“ زارون کے غصے سے بات کرنے پر نور نے بھی تڑخ کر کہا اور ٹرے وہیں چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”میرا ہی دماغ خراب تھا جو اُس کھڑوس اور بد دماغ انسان کے لیے کھانا لے کر چلی گئی۔۔“ زارون کے انکار پر نور نے کمرے میں آتے ہی اپنی مہربانی پر خود کو کوسااور ایک نظر پرنسس پہ ڈالتے جو سکون سے سو رہی تھی اُس نے کمرے کا دروازہ بند کیا اور موبائل اُٹھا کر ایف بی آن کی جہاں ابھی بھی آرجے کا کچھ اتاپتا نہیں تھا۔۔۔”آرجے کہاں ہیں آپ؟“ نور نے پھر سے میسج ٹائپ کرتے سینڈ کیا اور ایف بی آن چھوڑے ہی وضو کرنے واش روم کی جانب بڑھی تاکہ عشاء کی نماز پڑھ سکے۔۔۔۔ وضو کر کہ وہ باہر آئی تو موبائل کی بار بار ہوتی ٹون پر متوجہ ہوتے اُس نے جلدی سے قدم سائیڈ ٹیبل کی جانب بڑھائے اور موبائل اُٹھا کر دیکھا جہاں آرجے کے دس بارہ میسجز موجود تھے جیسے دیکھتے ہی نور کی جان میں جان آئی کہ وہ ٹھیک ہے۔”کہاں تھے آپ؟میں کب سے میسجز کر رہی تھی؟“ زین کے تمام میسجز پڑھنے کے بعد (جس میں اُس نے نور کی شادی کی وجہ سے میسج نہ کرنے کا بتاتے ،اُسے مبارکباد دی تھی) نور نے غصے اور ناراضگی والے ایموجی لگاتے میسج سینڈ کیا۔۔۔۔۔۔۔”ناراض مجھے ہونا چاہیے نہ کہ تمہیں،خود تم اپنی شادی میں اتنی مصروف تھی کہ مجھے بھول گئی اور ایک میسج تک نہیں کیا میں تو بیچارا انتظار کرتا ہی رہ گیا کہ کب تم میسج کرو اور کب میں تم سے بات کر وں۔۔۔“ معصومیت بھرے ایموجی لگا کر زین نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تو نور کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں پر وہ چاہ کر بھی زین کو زارون کے بارے میں نہ بتا سکی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اُس کی وجہ سے زین کسی مصبیت میں پھنسے۔۔””کیا ہوا؟کہاں گئی اب؟“ کچھ دیر اُس کے جواب کا انتظار کرنے کے بعد زین نے پوچھا تو نور نے اپنی آنکھیں صاف کی۔۔۔”یہی ہوں بس آپ کو اتنا کہنا تھا کہ میں اب دوبارہ آپ سے بات نہیں کروں گی۔۔“ اُس کا میسج پڑھتے ہی نور نے فیصلہ کرنے میں ایک سکنڈلگایا۔۔۔”کیوں ؟کیا تمہارے شوہر نے منع کیا ہے؟“”نہیں ایسی کوئی بات نہیں پر پہلے بات اور تھی پہلے میں کسی کے نکاح میں نہیں تھی اس لیے آپ سے بات کر لیتی تھی پرباب جب کہ میں کسی کے نکاح میں ہوں تو میں اُسے دھوکا نہیں دے سکتی بے شک ہمارے بیچ ایسا ویسا کچھ نہیں ہے پھر بھی اب میرا آپ سے بات کرنا ٹھیک نہیں۔۔۔“نور نے میسج ٹائپ کرتے سینڈ کیا اور دوسری طرف سے جواب کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔”ٹھیک ہے اور بہت اچھا فیصلہ کیا ہے تم نے بس میں تو یہ چاہتا ہوں کہ تم اپنی زندگی میں ہمیشہ خوش رہو پر پھر بھی اگر کبھی بھی تمہیں میری ضرورت ہو تو تم مجھے میسج کر سکتی ہو۔۔“ زین نے مسکراہٹ والے کچھ ایموجی لگا کر نور کو میسج سینڈ کیا تو اُس کے اپنے اندر بھی ایک سکون کی لہر پھیل گئی جیسے وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔”ٹھیک ہے آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا۔۔۔“ ایک آخری رشتے کو ختم کرتے نور کی ہر امید ختم ہو چکی تھی تب ہی اُس نے زین کی طرف سے کسی جواب کا انتظار کیے بغیر ہی ہی ایف بی ہمیشہ کے لیے لاگ آؤٹ کی اور خاموشی سے اپنی آنکھوں کو بند کیے کچھ دیر سکون سے اپنے فیصلہ کے بارے میں سوچنے لگی جو آج پہلی بار اُس نے زارون کے لیے کیا تھا۔۔۔۔”میں چاہتی تو تم سے بدلہ لینے کے لیے زین سے بات کر سکتی تھی پر میں نے آج تمہاری خاطر اُسے چھوڑا کیونکہ اب  تم جو بھی ہو جیسے بھی ہو میرے شوہر ہو، بے شک نام کے ہی صیح پر جو پاک رشتہ میرا تمہارے ساتھ ہے اسے اللہ نے میرے لیے چنا ہے اس لیے میں اس میں کبھی بھی بد دیانتی نہیں کروں گی، چاہے میں ابھی تمہیں خود پہ کوئی حق نہ دوں چاہے، میں جنتا مرضی تم سے لڑوں پر زندگی میں کبھی بھی میں کسی اور کے ساتھ کوئی رشتہ رکھ کر نہ تو میں اپنی ذات کو گندہ کروں گی اور نہ ہی اس آڑ میں تم سے کوئی بدلہ لوں گی ،میں نے آج تمام فیصلہ اپنے رب پر چھوڑ دیے ہیں پر جو تم نے کیا؟؟ میں چاہ کہ بھی  تمہیں معاف نہیں کر سکتی۔۔۔“ زارون کو تصور میں لائے اُس نے کہا اور ایک لمبی سانس لیتے اپنے آپ کو پرسکون کرنے کی کوشش کی اور کلاک پر گیارہ بجتے دیکھ اُٹھ کر نماز پڑھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دعا نے کمرہ صاف کرنے کے بعد ملائکہ کو وہاں لا کر بیٹھایا اور خود عمر کے بُلانے پر اُس کی بات سننے چلی گئی تو ملائکہ نے اُس کے جاتے ہی کمرے کا جائزہ لیا جس میں کچھ دیر پہلے سب کچھ بکھرا ہوا تھا۔۔۔۔”پتا نہیں کیا سمجھتی ہے خود کویہ عورت، لیکن میرا نام بھی ملائکہ ہے ناک سے لکیریں نہ نکلوا دی تو میرا نام بدل دینا۔۔۔۔“ خود کلامی کرتے اُس نے اپنی اور اپنے ماں باپ کی بے عزتی کا بدلا لینے کا ارادہ کیا اور دروازہ کھلنے کی آواز پر جلدی سے سر جھکاتے بیٹھ گئی۔۔۔”تمہیں کیا لگتا ہے؟کہ تم اس گھر میں بیاہ کر آگئی ہو تو خالدہ بیگم سے جیت جاؤ گی؟“جنید کی بجائے زنانہ آواز پر اُس نے سر اُٹھا کر دیکھا تو سامنے خالدہ بیگم اپنے پورے جلال کے ساتھ کھڑی اُسے گھور رہی تھیں۔۔۔۔”تو آپ کو کیا لگتا ہے ملائکہ ہارنے کے لیے پیدا ہوئی ہے؟“ جواب کی بجائے اُس نے نڈر ہو کر اُن کے سامنے کھڑے ہوتے سوال کیا تو خالدہ بیگم اُس معصوم نظر آنے والی لڑکی کی ڈیڑھ گز کی زبان دیکھ کر تھوڑا بوکھلائی پر جلدی ہی خود پر قابو پاتے پھر سے گویا ہوئیں۔۔۔۔”اووہ مطلب کم ذات ہونے کے ساتھ ساتھ تم کافی بد زبان بھی ہو۔۔۔۔“ایک نظر اُس کے ماتھے پر پڑتے بل دیکھ کر خالدہ بیگم نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھتے طنز کیا۔۔۔”جی بالکل لیکن میری بد زبانی کا لیول آپ سے تھوڑا نیچے ہی ہے ساسو ماں میں کوشش کروں گی کہ آپ کے ساتھ رہ کہ یہ لیول آپ کے مطابق کرسکوں۔۔“ ملائکہ نے چہرے پر معصومیت سجاۓ جتنے آرام سے خالدہ بیگم کو آگ لگائی وہ اُتنی ہی تیزی سے اُس کے اوپر جھپٹی۔۔۔”میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی مجھ سے زبان چلاتی ہے۔“اپنے دونوں ہاتھ اُس کے گلے کی جانب بڑھاتے اُنہوں نے چیختے ہوئے کہا تو ملائکہ نے اپنے بچاؤ کے لیے اُنہیں پیچھے کی جانب دھکا دیا۔۔۔”خبردار اگر دوبارہ مجھ پر ہاتھ اُٹھایا یا مجھے پر یوں چلائی تو میں سارے لحاظ بھول کر آپ کو میں آپ کی اوقات یاد دلانے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاؤں گی۔“ انگلی اُٹھاتے خالدہ بیگم کو سختی سے وارن کرتے وہ جلدی سے آنکھوں میں آنسو لیے جنید کی جانب بڑھی جو ابھی ابھی شور کی آواز پر کمرے میں آیا تھا۔۔۔۔”جنید دیکھو آنٹی مجھے مارنے کی کوشش کر رہی ہیں۔۔“ ملائکہ نے باقاعدہ روتے ہوئے بتایا تو جنید نے حیرت سے خالدہ بیگم کی طرف دیکھا جو اُس کی لڑکی کی ہوشیاری پر خود بھی حیران تھیں۔۔۔۔”امی کیا ہو گیا ہے آپ کو؟کیوں آپ ملائکہ کو مار رہی تھیں۔“ جنید نے اُسے خود سے الگ کرتے خالدہ بیگم کے قریب آتے پوچھا تو اُنہوں نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔”میں ۔۔نے اسے کچھ ۔۔نہیں کہا بلکہ یہ خود۔۔۔“ خالدہ بیگم نے وضاحت دینی چاہی مگر اُس سے پہلے ہی جنید نے ہاتھ اُٹھاتے اُنہیں روکا۔۔۔۔”پلیز امی اب مزید کوئی بات کر کہ خود کو میری نظروں میں اور مت گرائیے گا اور اگر آپ کو ملائکہ پسند نہیں تو مہربانی ہو گی اس سے دور رہیں۔“ہاتھ جوڑتے ہوۓ اُس نے خالدہ بیگم سے کہا جن کی نظریں پیچھے کھڑی ملائکہ پر تھیں جو جنید کی  باتوں پر مسکراتے ہوئے افسوس میں سر ہلاتے اُن کو مزید تیش دلا چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جنید کی بات سنتے اور ملائکہ کے سامنے اپنی ایک نہ چلتی دیکھ خالدہ بیگم کچھ کہے بغیر ہی غصے میں بھری اپنے کمرے میں آگئیں جہاں سلیم صاحب کپڑے تبدیل کرنے کے بعد اب کچھ دیر آرام کی غرض سے لیٹے تھے ۔۔۔”کہاں تھی تم ؟“ اُن کے دھڑم سے دروازہ بند کرنے پر اُنہوں نے آنکھیں کھولتے سوال کیا۔۔۔۔”جہنم میں گئی تھی۔۔“غصے سے تلملاتے اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ہر چیز کو آگ لگا دیتی ۔۔۔”تو پھر واپس کیوں آئی ہو ونہی رک جانا تھا۔۔۔“ سلیم صاحب نے اُن کے غصے کی پروا کیے بغیر بات کو مذاق کا رنگ دیا تو خالدہ بیگم نے کھا جانے والی نظروں سے اُنہیں دیکھا۔۔۔۔”بہت باتیں آگئی ہیں آپکو اور میں نے کہا تھا نا جو فیصلہ کرنا ہے سوچ سمجھ کر کرئیے گا پر نہیں آپکو تو بس بیٹے کی خواہش پوری کرنے کی پڑی تھی اور بڑا کہہ رہے تھے آپ کہ بہت اچھی ہے ملائکہ بہت معصوم اُسکے منہ میں تو زبان ہی نہیں اب میں اگر آپکو آپکی پیاری بہو کی کرتوت بتا دوں تو اپنے بیٹے کی طرح آپ بھی میری بات کا یقین نہیں کریں گئے۔۔“ مسلسل کمرے میں چکر لگاتے اُنہوں نے اپنے نصیب کو کوسا ۔۔۔”اچھا بس کرو اور اتنا غصہ تمہاری صحت کے لیے اچھا نہیں اس لیے سکون سے بیٹھ جاؤ جو ہونا تھا وہ تو اب ہو گیا۔“سلیم صاحب نے اُنہیں سمجھنے کی کوشش کی پراُن کی بات سنتے ہی خالدہ بیگم کو پتنگے لگ گئے ۔۔۔۔”میں کبھی بھی سکون سے نہیں بیٹھوں گی اور جب تک یہ لڑکی میرے گھر میں ہے میں اُسے بھی سکون نہیں لینے دوں گی۔۔۔“،غصے سے چیختے اُنہوں نے سلیم صاحب کا ہاتھ جھٹکا اور اُٹھ کر باہر صحن میں چلی گئیں ۔۔۔۔”اُففف یہ عورت کبھی نہیں سدھرے گی۔“ اُن کے جاتے ہی سلیم صاحب نے سوچا اور تھکاوٹ کی وجہ سے مزید کسی بحث میں پڑنے کی بجائے سکون سے کمبل اوڑھے سو نے کی کوشش کرنے لگے ۔۔۔۔۔.........صبح نور کی آنکھ پرنسس کے بولنے سے کھلی جو اُسکے قریب بیٹھی اُسے جاگنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔” کیا مسئلہ ہے تمہیں ۔۔“ اُسکا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹاتے نور نے کروٹ بد لی اور کلاک پر نظر پڑتے ہی وہاں بارہ بجتے دیکھ وہ فورا سے اُٹھ کر بیٹھی ۔۔۔۔اللہ اتنا ٹائم ہو گیا۔۔۔“ اپنے بال سیمٹتے اُس نے پرنسس کو دیکھا جو شائد بھوک کی وجہ سے اُسے جاگا رہی تھی ۔۔۔۔”بھوک لگی ہے؟ “اُسے اُٹھا کر اپنی گود میں بیٹھتے نور نے پوچھا تو وہ اپنی مخصوص زبان میں بولتے اُسکی گود سے نکل کر باہر چلی گئی ۔۔۔۔”لگتا ہے جلاد ابھی تک سو رہا ہے۔۔“کمبل سائیڈ پر کرتے وہ باہر آئی اور زارون کے کمرے کا دروازہ بند دیکھ کر خودکلامی کرتے کچن کی جانب بڑھی جہاں ابھی ابھی  پرنسس اپنا باول منہ میں اُٹھایا گئی تھی ۔۔۔۔”دودھ پینا ہے؟“ نور نے اُسے فریج کے پاس بیٹھا دیکھ کر سوال کیا جو اب اُسکی بات سننے کے بعد اپنا باول نیچے رکھتے گول گول چکر کاٹ رہی تھی ۔۔۔۔”یہ کیاہے ؟“ فریج کے قریب آتے ہی اُسکے دروازے پر ایک چیٹ لگی دیکھ نور نے اُسے اُتارا اور پرنسس کو بے چین دیکھ کر اُسے کھولنے کی بجائے پہلے دودھ نکال کر اُسکے باول میں ڈالا اور پھراُس چیٹ کو کھولتے باہر چیئر پر آبیٹھی ۔۔۔۔۔”میں نے ناشتہ بنا کر رکھ دیا ہے ٹائم سے کر کہ میڈیسن کھا لینا اور میں شام پانچ بجے تک آجاؤں گا تم تیار رہنا میں واپس آکر تمہیں مارکیٹ لے کر جاؤں گا  تاکہ تم  کل یونیورسٹی جانے کے لیے اپنی کتابیں اور باقی سامان لے سکو۔۔۔“،کاغذ پر لکھے الفاظ پڑھتے اُس کو زارون کی حرکت پر ہنسی آئی جو صرف اپنی ناراضگی کے اظہار کے لیے اُسے جاگنے کی بجائے یہ چیٹ فریج پر لگا کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔”توبہ کتنی گندی لکھائی ہے شکل سے ہی ان پڑھ لگتا ہے اور عقل کہ خانے میں بھی لگتا ہے بھوسہ بھرا ہے جو سیل پہ میسج کر نے کی بجائے اپنی خوبصورت لکھائی میں پیغام لکھ کر فریج پہ لگا گیا۔۔۔۔“دو تین بار پڑھنے کہ بعد بھی جب نور کو آخری دو الفاظ کی سمجھ نہ آئی تو اُس نے بے زاری سے کہتے چیٹ ٹیبل پر رکھی اور اُٹھ کر کمرے میں چلی گئی تاکہ فریش ہو کر ناشتہ کر سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون اپنا کام وغیرہ ختم کرنے کے بعد عالیان کے پاس آگیا.... جو آج صبح ہی کراچی سے واپس آیا تھا۔۔۔۔تو پھر کسی گزر رہی ہے زندگی ؟؟؟چائے کا کپ اُس کے سامنے رکھتے عالیان نے چیئر پیچھے کر کہ اُسکے قریب بیٹھتے پوچھا تو زارون نے جواب دینے کی بجائے کپ اُٹھا کر چائے کا سیپ لیا۔۔۔۔کیا ہوا اتنے خاموش کیوں ہو؟؟سب ٹھیک ہے نا اور بھابھی ؟؟؟اُسے سنجیدگی سے چائے پیتا دیکھ عالیان کو فکر ہوئی ۔۔۔۔بھاڑ میں گئی تمہاری بھابھی قسم سے اتنی بدتمیز اور بددماغ لڑکی ہے کہ اُسے میری کوئی بھی بات سمجھ نہیں آتی ،کپ زور سے ٹیبل پر پٹختے اُس نے نور کا ذکر سنتے ہی غصے سے کہا۔۔۔ہاہاہا تو یہ بات تھی ویسے شکل سے تو وہ کافی معصوم لگتی ہیں ،عالیان نے زارون کی طرف دیکھے بغیر تبصرہ کیا۔۔۔شکل سے ہی معصوم ہے بس ویسے تو پوری چڑیل ہے ایسے رکھ رکھ مجھے طعنے مارتی ہے کہ نہ پوچھو اور یہ تم نے کب اُسے اتنے غور سے دیکھا جو تمہیں پتہ کہ وہ معصوم لگتی ہے ؟؟زارون نے جواب دینے کے ساتھ ہی اُسکی بات پر غور کرتے آبرو اچکاتے پوچھا۔۔۔۔بس کرو یار میں نے کیوں غور کرنا ہے ویسے ہی اندازہ لگایا کہ معصوم ہیں تب ہی تمہارے جال میں پھنس گئیں چالاک ہوتی تو کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیتی ،عالیان نے آسانی سے اپنی بات مکمل کی یہ سوچے بغیر کہ زارون کو اُسکی بات کتنی بُری لگی ہے ۔۔۔۔۔میں نے کوئی جال میں نہیں پھنسایا پسند تھی مجھے تو سیدھا سیدھا نکاح کیا بے شک زبردستی ہی پر تمہاری طرح کسی کو جھوٹی امیدوں اور دلاسوں میں نہیں رکھا،زارون نے اُسکی طبیعت صاف کرنے میں ایک سکنڈ لگایا اور اپنا موبائیل اور چاپی اُٹھاتے اُسکی مزید کوئی نصیحت یا بکواس سننے سے پہلے ہی اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔اب کیا ہوا ؟؟کہاں جا رہے ہو؟؟اُسے اُٹھتا دیکھ عالیان نے بھی کھڑے ہوتے پوچھا۔۔۔۔جہنم میں جا رہا ہوں اور میں یہاں کچھ دیر سکون کے لیے آیا تھا تاکہ تم سے بات کر کہ اپنے دماغ کا کچھ ،بوجھ ہلکا  کر سکوں پر تمہاری فضول بکواس نے میرا مزید دماغ خراب کر دیا ہے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اپنے راستے سے ہٹاتے وہ اُسکے روکنے پر بھی نہیں

قسط نمبر:20

حارث کی اُس دن کی دھمکی کہ بعد فریحہ بیگم کا پارہ کافی چڑھا ہوا تھا جسے سارہ نے سمجھا بوجھا کر تھوڑا نیچے کیا پر آج ناشتہ کے وقت حارث کی بدکلامی پر اُنہیں سکندر صاحب سے بات کرنا پڑی جو طبیعت کی نا سازی کی وجہ سے آج گھر میں ہی تھے۔۔۔۔ ”بھائی صاحب مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی“،فریحہ بیگم نے کمرے میں آتے اُنہیں اخبار پڑھتا دیکھ کر اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔”ہاں بولو“،اخبار بند کربکے سائیڈ ٹیبل پر رکھتے اُنہوں نے فریحہ بیگم سے کہا جواُن کے قریب بیٹھ چکی تھیں۔۔۔ ”میں نے آپ سے حارث کے متعلق بات کرنی تھی“،فریحہ بیگم نے بات کے آغاز کے لیے تمہید باندھی۔۔۔”کیوں کیا ہوا حارث کو ؟؟؟“ اپنی عینک اُتارتے اُنہوں نے کچھ ناسمجھی سے سوال کیا۔۔۔۔”اُسے کچھ نہیں ہوا، بس کچھ دنوں سے پتا نہیں کیوں وہ مجھ سے کھنچا کھنچا سا ہے۔ نہ ٹھیک سے بات کرتا ہے بس ہر وقت لڑنے کو دوڑاتا ہے“ فریحہ بیگم نے دو چار باتوں کا اضافہ خود سے کر کہ سکندر صاحب کو بتایا جو خود بھی کچھ دنوں سے حارث کے رویے میں آتی تبدیلی کو محسوس کر چکے تھے۔۔۔”ہمم تم پریشان نہ ہو مجھے پتا ہے وہ یہ سب کیوں کر رہا ہے“،فریحہ بیگم کے سر پر ہاتھ رکھتے سکندر صاحب نے اُنہیں تسلی دی۔۔۔”مطلب کیوں کر رہا ہے وہ یہ سب؟“آنکھوں میں آنے والے مصنوعی آنسوؤں کو صاف کرتے اُنہوں نے سوالیہ نظروں سے سکندر صاحب کی طرف دیکھا۔۔۔”اس لیے تاکہ ہم اُس کی دھمکی سے ڈر کر نور کو اُس کا حصہ دے دیں پر میں ایسا کبھی نہیں کروں گا اُس بدکردار لڑکی کی نہ میرے دل میں کوئی جگہ ہے اور نہ ہی اس گھر میں۔۔۔“ ”پر بھائی صاحب اگر حارث نے اپنے حصہ کی تمام جائیداد اُس کے نام کر دی تو؟؟؟“ سکندر صاحب کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی فریحہ بیگم نے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔۔۔۔۔ ”میرے جیتے جی تو ایسا کبھی نہیں ہو گا اور ابھی بھی پاور آف اٹارنی میرے پاس ہی ہے اور میرے دستخط کے بغیر کوئی بھی میری جائیداد کو نہ تو بیچ سکتا ہے اور نہ ہی کسی اور کہ نام کر سکتا ہے۔ اس لیے تم فکر مت کرو اور سارہ کی رخصتی کی تیاری شروع کرو تاکہ اب ہم جلد ازجلد اس فرض سے بھی سکبدوش ہو جائیں“،سکندر صاحب نے تمام بات تفصیل سے بتانے کے بعد، فریحہ بیگم سے کہا جو اُن کی پاور آف اٹارنی کی بات سُن کر سکتے میں چلی گئیں۔۔۔ ”کیا ہوا؟؟؟طبیعت ٹھیک ہے تمہاری ؟؟؟“ اُن کی طرف سے کوئی جواب نہ پا کر سکندر صاحب نے فکر مندی سے پوچھا ”۔۔۔ج۔۔۔ج۔۔جی بھائی صاحب میں ٹھیک ہوں اور آپ نے بہت اچھا کیا جوسب کچھ ابھی بھی اپنے ہاتھ میں رکھا ورنہ ان بچوں کا کیا اعتبار کب اور کس وقت بدل جائیں“،ماتھے پہ آنے والے پسینے کو صاف کرتے اُنہوں نے خود کو سنبھالتے زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے دل میں سکندر صاحب کو کوسا، جن کا اس عمر میں پہنچ کر بھی اتنا دماغ چلتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عالیان کے اپیارٹمنٹ سے نکلتے وہ گھر آنے کی بجائے بے مقصد ہی گاڑی کو سڑکوں پر دوڑاتا رہا اور اب دو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد تھک ہار کر اُس نے گاڑی گھر کے راستے پر ڈالی اور کچھ دیر میں اپارٹمنٹ پہنچتے اُس نے اپنے پاس موجود چابی سے لاک کھولا اور اندر داخل ہوتے ہی کھانے کی خوشگوار سی مہک نے اُس کا استقبال کیا۔۔۔”لگتا ہے آج میڈم پھر سے مجھ سے بدلہ لینے کے چکر میں ہے“،کوٹ صوفے پر رکھتے وہ کچن کی جانب بڑھا تو وہاں کسی کو نہ پا کر اُس نے ایک نظر کمرے کے کھلے دروازے کو دیکھتے آگے بڑھتے کڑھائی کا ڈھکن اُٹھایا جس میں ایک خوش شکل سی بھاپ اُٹھتی بریانی موجود تھی۔۔۔۔”اُففف اب تو میں انکار بھی نہیں کر پاؤں گا“،ڈھکن واپس اوپر رکھتے زارون نے خود کلامی کی اور نور کی تلاش میں کمرے کی جانب آیا جہاں وہ اور پرنسس بیڈ پر مزے سے سو رہی تھیں۔۔۔۔”شوہر رات سے خفا ہے اور بیوی کو پروا ہی نہیں“،باہر جانے کی بجائے اُس نے قدم بیڈ کی جانب بڑھائے اور اُس کے قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔”لگتا ہے آج میرے دل میں جگہ بنانے کے ساتھ ساتھ تم نے میرے ہوش اُڑانے کا بھی سارا انتظام کر رکھا ہے“،اُس کے نم بالوں کو چہرے سے ہٹاتے زارون نے ایک بھر پور نظر اُس پر ڈالی جو بلیک کلر کی فراک اور ٹروازر کے ساتھ اُسی رنگ کا دوپٹہ (جو اُس کی بے خبری کی وجہ سے آدھا اُس کے اور آدھا پرنسس کے اوپر تھا) لیے دُھلے ہوئے شفاف چہرے کے ساتھ سکون کی نیند سو رہی تھی۔۔۔۔۔”اُففف مجھے یہ تو پتا تھا کہ تم پیاری ہو پر اتنی زیادہ ہو آج پتہ چلا“ ،اُس کے بالوں کو کندھے سے ہٹاتے زارون کو اپنا آپ بے بس سا لگنے لگا تب ہی اُس نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اُسے آہستگی سے سیدھا کیا اور اُس کی نیند کی پروا کیے بغیر بے خود سا ہو کر اُس کی گردن پر جھکا تو نور جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی کاموں سے فارغ ہو کر نہا کر سوئی تھی اُس نے کسی احساس کے تحت آنکھیں کھولیں اورپوری طرح بیدار ہوتے زارون کو اپنے اوپر جھکا دیکھ اُس کے لمس پر گھبراتے جلدی سے اُسے خود سے الگ کرنے کی کوشش کی جو شائد اُس کی سننے کے موڈ میں نہیں تھا تب ہی اُس کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیتے وہ اپنے کام میں مصروف رہا تھا۔۔۔۔۔۔”کیا بے ہودگی ہے یہ“،ہمت کر کہ اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اُس کے سینے پر رکھتے زور سے پیچھے کی جانب دھکا دیااور جلدی سے اپنا دوپٹہ پرنسس کے اوپر سے کھنچتے اُٹھ کر بیٹھی۔۔۔۔۔”کون سی سی بے ہودگی؟؟“ ”بیوی ہو تم میری اور یہ سب میرا حق ہے“،اُس کے چیخنے پر زارون نے ہوش میں آتے اپنی سبکی چھپانے کے لیے لاپروائی سے کہا ۔۔۔۔”کونسا حق؟؟؟میں صرف نام کی بیوی ہوں تمہاری اور جس حق کی تم بات کر رہے ہونا؟؟ وہ حق تم اُسی دن کھو چکے ہو جب تم نے مجھے سب کے سامنے ذلیل کیا میرے اپنوں کو مجھ سے دور کر دیا اور اگر تم نے نکاح ہی کرنا تھا تو میرے گھر والوں کو مناتے اُن کی مرضی سے کرتے تو آج شاید میں تمہیں کسی بات سے نہ روکتی اور نہ ہی یوں بار بار تمہیں اذیت دیتی اور نہ ہی خود کو پر یہ اذیت تمہاری اپنی خریدی ہوئی ہے۔ اس لیے دوبارہ میرے قریب آئے تو میں خود کو آگ لگا لوں گی“، اپنی تیز ہوتی سانسوں کو بحال کرتے وہ اُٹھنے لگی جب زارون نے اُس کا ہاتھ پکڑتے اُسے روکا۔۔۔۔۔۔۔”کیا تم اس بات کو بھول نہیں سکتی؟؟“ غصے کی بجائے زارون نے اُس کے طعنوں اور تلخ رویے کو نظرانداز کرتے ضبط سے پوچھا۔۔۔”کبھی نہیں،میں مرتے دم تک نہ یہ بات خود بھولوں گی اور نہ ہی تمہیں بھولنے دوں گی“، نظروں میں نفرت لیے اُس نے زارون کا ہاتھ جھٹکا اور اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔”ہمم تو میں بھی تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تم نہ صرف اس بات کو ہمیشہ کے لیے بھول جاؤگی بلکہ مجھ سے مجھ سے بھی زیادہ محبت کرنے لگو گی اور ایک دن ایسے ہی میرے لیے بے چین ہو گی جیسے آج میں بے چین ہوں“، اُس کے جاتے ہی زارون نے سوچا اور اُس کے پیچھے جانے کی بجائے وہیں بیٹھ کر پرنسس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا جو نور کے دوپٹہ کھنچنے سے اُٹھ گئی تھی اور اب اُس کے غصے سے ڈر کر زارون کے قریب بیٹھ چکی تھی۔۔۔    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقت تیزی کے ساتھ گزار رہا تھا، نور نے دوبارہ سے یونیورسٹی جانا شروع کر دیا جہاں خدیجہ کی شکل میں ایک مخلص دوست کے ساتھ نے اُسے کافی حد تک حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت دی پر ایک مہینہ گزرنے کے بعد بھی اُس کا رویہ زارون کے ساتھ تبدیل نہیں ہوا حالانکہ اس تمام وقت میں زارون نے اُسے ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کی۔ وہ ہر کام اُس کی مرضی کے مطابق کرتا اُس کی ہر ضرورت ہر خواہش کو اُس کے کہنے سے پہلے ہی پورا کر دیتا مگر نور کا دل تھا کہ کسی صورت بھی اُس کی طرف مائل ہونے کو تیار نہ تھا۔ وہ ہر کام اپنی مرضی سے کرنے کہ باوجود بھی زارون سے لڑنے کا یہ اُسے طعنے دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔۔۔۔ آج بھی صبح زارون نے اُسے ناشتہ بنانے کا کہا تو اُس نے لاپروائی سے اُس کی بات کو ان سنی کردی۔۔۔۔”نور ناشتہ بنا دو مجھے دیر ہو رہی ہے“ ،زارون نے دوسری بار آواز لگائی تو اُس نے غصے سے کتاب بند کی اور کچن میں جانے کی بجائے ساتھ والے کمرے میں آگئی جہاں زارون پچھلے ایک مہینے سے رہ رہا تھا۔۔۔۔”تم خود نہیں بنا سکتے کیا اور میرا پیپر ہے کل میں تمہاری فرمائشیں پوری کرنے کے لیے فارغ نہیں بیٹھی“،اُسے ٹائی لگاتا دیکھ کر نور نے اپنی بات مکمل کی اور واپس اپنے کمرے میں آگئی۔۔۔”سوری مجھے نہیں پتا تھا کہ تمہارا کل پیپر ہے ورنہ میں تمہیں کبھی بھی تنگ نہیں کرتا“،اُس کے پیچھے ہی کمرے میں آتے زارون نے معذرت کی تو نور نے کتاب سے نظر اُٹھا کر اُسے گھورا۔۔۔ ”تو اب پتا چل گیا ہے نا تو پلیز میرا سر مت کھاؤ اور جاؤ یہاں سے مجھے پڑھنا ہے“، اُس کی بات سنتے ہی نور نے بدتمیزی سے اُس کے آگے ہاتھ جوڑے تو زارون نے ایک افسو س بھری نظر اُس پر ڈالتے باہر کا رخ کیا اور اپنی باقی تیاری مکمل کرتے ناشتہ کیے بغیر ہی آفس کے لیے نکل گیا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زارون کے جانے کے کچھ دیر بعد ہی ماسی نے دروازے پر دستک دی تو نور کا پارہ پھر سے ہائی ہوگیا۔۔۔”اس گھر میں میری جان کو کہیں بھی  سکون نہیں ہے خود تو نواب آرام سے آفس چلا جاتا ہے اور میں سارا دن کبھی ماسی سے کام کرواؤں کبھی کھانا بناؤں“، خدیجہ ٹھیک کہتی ہے میں نے بہت زیادہ سر پہ چڑھا لیا ہے زارون کو،نور نے کمرے سے نکل کر باہر کے دروازے تک آتے منہ میں بڑابڑہٹ جا ری رکھی۔۔۔۔”سلام بی بی جی“،ریحانہ نے آتے ہی سر پر ہاتھ رکھتے خوشدلی سے اُسے سلام کیا جو سلام کا جواب دیتے ہی اُسے جلدی جلدی تمام کام سمجھتے واپس اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔۔۔ ”لگتا ہے بی بی جی کا دماغ آج پھر سے  گرم ہے“،نور کے غصے سے اندازہ لگاتے ریحانہ نے اپنی شامت آنے سے پہلے ہی کام شروع کردیا۔۔۔۔ ”اُففف ایک تو یہ اکنامکس میرا دماغ خراب کر دے گی آج، کمرے میں آتے ہی نور نے ایک نظر بیڈ پر بکھرے نوٹس کی طرف دیکھا اور کچھ سوچتے ہوئے موبائل اُٹھا کر خدیجہ کو کال ملائی تاکہ اُس سے کچھ مدد لے سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک گھنٹہ اُس سے باتیں کرنے کے بعد اُس نے ریحانہ کو کمرے میں آتا دیکھ کر خدیجہ سے پھر بات کرنے کا کہتے کال کاٹ دی۔۔۔۔”وہ بی بی جی میں نے سارا کام کر دیا ہے بس آپ کے کمرے کی صفائی رہتی ہے آپ بتا دیں کر دوں یا کل کرنی ہے؟“ ریحانہ نے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔۔۔۔”کر دو اور پرنسس کہاں ہے؟“،اپنے تمام نوٹس اور کتابیں اکٹھی کر کے ایک سائیڈ پربرکھتے اُس نے پرنسس کے متعلق پوچھا جو آج صبح سے ہی اُسے نظر نہیں آئی تھی۔۔۔۔”جی وہ صاحب جی کے کمرے میں بیٹھی ہے ،مجھے لگ رہا ہے اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں“ ،ریحانہ نے نور کے قریب ہی نیچے بیٹھتے جواب دیا۔۔۔۔”اچھا تم صفائی کرو میں دیکھتی ہوں“،اپنے موبائل پر خدٖیجہ کے فون کے درمیان زارون کے آنے والی دس مسڈ کالز کو دیکھتے اُس نے ریحانہ سے کہا اور موبائل اُٹھاتے دوسرے کمرے میں آگئی جہاں پرنسس سامنے صوفے پر اداس سی بیٹھی تھی۔۔۔۔”کیا ہوا ؟؟ایسے کیوں بیٹھی ہو؟؟؟“ موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر پرنسس کو اپنی گود میں بٹھاتے نور نے نرمی سے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے پوچھا تو وہ اُس کے ساتھ اپنا سر لگاتے بولنے لگی۔۔۔۔”تمہیں تو بخار ہے“ ،نور نے اُس کے سر کو ہاتھ لگایا جو ضرورت سے زیادہ گرم تھا اور فکر مندی سے اُس کی سرخ آنکھوں کو دیکھنے لگی کہ اتنی دیر میں پھر سے اُس کا موبائل بج اُٹھا۔۔۔”ایک تو اس انسان کو کہیں سکون نہیں“،زارون کا نمبر دیکھتے ہی اُس نے تیوری چڑھائی اور کال ریسیو کرتے موبائل کان سے لگایا۔۔۔۔”کہاں تھی تم؟میں کب سے کال کر رہا ہوں“،سلام دعا کے بغیر ہی زارون نے مصروف سے انداز میں پوچھا۔۔۔۔”گھر ہی ہوں، میرے رشتے دار تو ہیں نہیں جن کی طرف جانا تھا؟؟“ کندھے اچکاتے اُس نے زارون کے بے تکے سے سوال پر سر جھٹکتے جواب دیا۔۔۔”کس کے ساتھ بات کر رہی تھیں؟؟اور جب میں بار بار کال کر رہا تو تم پہلے میرا فون سن لیتی۔۔“”کیوں سُن لیتی اور میں جس سے بھی بات کروں تم سے مطلب“ ،نور نے اُس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ٹوکا۔۔۔۔۔”اُففف ایک تو تم ہر وقت لڑنے کے لیے تیار رہا کرو بس“،زارون نے اشارہ سے ڈرائیور کو گاڑی نکالنے کا بولتے تیزی سے باہر کی جانب جاتے نور سے کہا۔۔۔۔”مطلب کی بات کرو میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ مجھ سے زیادہ فری ہونے کی کوشش مت کیا کرو“،تڑخ کر کہتے اُس نے موبائل دوسرے کان کے ساتھ لگایا۔۔۔”میں حوالی جا رہا ہوں دی جان مطلب میری دادی کی طبیعت خراب ہے اس لیے تم ماسی کے جانے کے بعد دروازہ اچھے سے لاک کر لینا اور پلیز کوئی لاپروائی مت کرنا“، زارون نے گاڑی میں بیٹھتے اُسے سمجھایا جو دل ہی دل میں اپنی آزادی پر خوش تھی۔۔۔”اوکے میں کوئی بچی نہیں ہوں جو مجھے ایسے لیکچر دے رہے ہو اور تم سکون سے جاؤ میں اپنا خیال رکھ سکتی ہوں“،کہتے ہوئے اُس نے اُسے پرنسس کے بخار کے متعلق بتایا تو زارون اُسے میڈیسن کے متعلق بتانے لگا جو پرنسس کو دینی تھی۔۔۔۔)پیش

قسط نمبر: 21

ریحانہ کے جاتے ہی نور نے زارون کی ہدایت پر عمل کرتے دروازے کو اچھے سے لاک کیا اور پرنسس(جس کا بخار دواٸی سے کافی حد تک کم ہو گیا تھا ) کو ٹی وی پہ ہاتھ مارتا دیکھ کر اُ سے ٹی وی آن کر کے کارٹون لگا کر دیا اور ریموٹ واپس صوفے پر رکھ دیا جسے جلدی سے پرنسس نے اپنا ہاتھ اوپر رکھ کر اپنے قبضہ میں لے لیا۔”توبہ کتنی چالاک ہے۔“ نور نے اُس کی حرکت پر مسکراتے سر جھٹکا اور اُسے ٹی وی میں مصروف دیکھ کر خود بھوک محسوس ہونے پر کچن میں چلی گئی تاکہ اپنے لیے کچھ کھانے کو بناسکے۔”ویسے کتنا سکون سا ہے آج نہ کوئی شور ہے نہ کوئی لڑائی۔“ چائے کا پانی چولہے پر رکھتے اُس نے زارون کی غیر موجودگی پر شکر ادا کیا کہ کچھ گھنٹوں کے لیے ہی سہی پر اُس جلاد سے اُس کی جان چھٹی۔”آج میں اپنی مرضی سے سب کروں گی ایسا کرتی ہوں خدیجہ کو بُلا لیتی ہوں۔“،نور نے سوچتے ہوئے اپنے خیال پر خود کو داد دی اور کمرے سے موبائل لینے چلی گئی تاکہ خدیجہ کو کال کر کے بُلا سکے پر دو تین بار ڈاٸل کرنے بعد بھی دوسری طرف اُس کا نمبر بند دیکھ کر نور کو حیرت کے ساتھ پریشانی بھی ہوئی۔”اس کا نمبر تو کبھی بند نہیں ہوا تو آج کیوں ہے؟“ خود سے سوال کرتے اُس نے واپس نمبر ملایا جو ابھی بھی بند تھا۔”چلو کچھ دیر میں ٹرائی کرتی ہوں ہو سکتا ہے کہیں مصروف ہو یا موبائل کی بیٹری لو ہو۔۔“ خود سے ہی اندازہ لگاتے اُس نے چائے کو اُبلتا دیکھ کر جلدی سے چولہا بند کیا اور موبائل شلیف پر رکھتے اپنے لیے بسکٹ اور کیک نکال  کر پلیٹ میں رکھتے باہر لاؤنج میں پرنسس کے پاس آبیٹھی جو کیک دیکھتے ہی ریموٹ چھوڑے اُس کے پاس آچکی تھی۔”بہت بھوکی ہو۔“ اُسے کیک کو دیکھ کر بولتا دیکھ کر نور نے منہ بسورا اور کیک کے دو حصے کرتے ایک اُس کے سامنے رکھا اور دوسرا خود کھانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چائے ختم کرنے کے بعد وہ کچھ دیر پرنسس کے ساتھ بیٹھی ٹی وی دیکھتی رہی اور پھر پیپر کا یاد آتے ہی ٹی وی بند کرتے اُسے بھی اپنے ساتھ اُٹھا کر کمرے میں لے آئی جو بار بار باہر کی جانب جاتے اُسے دوبارہ سے ٹی وی آن کرنے کا کہہ رہی تھی۔”اُفف ایک تو یہ بچوں سے بھی چار ہاتھ آگے ہے۔“ ،نور نے اُس کے بولنے سے تنگ آکر کتاب بند کی اور اپنے موباٸل پر ٹوم اینڈ جیری لگا کر اُس کے سامنے کیا تو وہ جلدی سے بیڈ پر بیٹھتے خاموشی سے سکرین کی طرف دیکھنے لگی۔”اب اس پہ ناخن مت مارنا ورنہ تھپٹر کھاؤ گی مجھ سے۔“،اُسے بار بار سکرین پر ہاتھ مارتا دیکھ کر نور نے غصے سے کہا تو پرنسس نے ایک بار اُس کی طرف دیکھ کر اپنا ہاتھ ایک طرف رکھ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پڑھنے میں مصروف اُسے وقت گزرنے کا اندازہ ہی نہیں ہوا اور مغرب کی اذان ہونے پر ہوش آیا تو اُس نے گھڑی کی طرف دیکھا جہاں شام کے چھ بج رہے تھے۔”اللہ اتنا ٹائم ہوگیا۔۔“،ایک نظر سوئی ہوئی پرنسس پر ڈال کر اُس نے پردے ہٹاتے موسم کا جائزہ لیا جو دوپہر سے ہی خراب تھا۔۔۔”لگتا ہے آج بارش ہو گی۔“ ،پردے پھر سے برابر کرتے اُس نے سوچا اور زارون کا خیال آتے ہی اپنا موبائل اُٹھاتے اُس کا نمبر ملایا جو مصروف تھا۔”ہونہہ پتا نہیں کس سہیلی کے ساتھ مصروف ہے اتنا بھی نہیں پتا کہ رات ہو رہی ہے اور میں گھر پہ اکیلی ہوں۔“ موبائل کان سے ہٹاتے اُسے اب بادلوں کے گرجنے سے خوف آنے لگا تب ہی اُس نے کچھ بھی سوچے بغیر زارون کو دوبارہ سے کال کی۔”کہاں ہو تم ؟ابھی تک آئے کیوں نہیں؟“دوسری طرف اُس کی آواز آتے ہی نور نے سلام دعا کے بغیر ہی سوال کیا۔”بس آرہا ہوں اور میرے موبائل کی بیٹری لو ہے کسی بھی وقت بند ہو جائے گا اس لیے پریشان مت ہونا میں ایک گھنٹے میں پہنچ جاؤں گا۔“ زارون جو بارش کی وجہ سے گاؤں کے کچے پکے راستوں میں ڈرائیو کرتا خود بھی الجھا سا تھا نور کے غصے پر مزید بے زار ہوا۔ ”سہیلوں سے باتیں کم کر لینی تھی نا تاکہ موبائل کی بیٹری مجھ سے رابطہ رکھنے کے لیے بچ جاتی۔“ کہتے ساتھ ہی اُس نے ٹک سے فون بند کیا تو زارون کو اُس لڑکی پر انتہاء کا غصہ آیا جس کے لیے وہ اتنی بارش میں ذلیل و خوار ہو کر واپس جا رہا تھا۔”بہت دماغ خراب ہو گیا ہے اس کا اور یہ سب میری نرمی کی وجہ سے۔“ موبائل ڈیش بورڈ پر پھینکتے زارون نے غصے سے اسٹیئرنگ پر ہاتھ مارا اور گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھا دی تاکہ جلدی گھر پہنچ سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون سے بات کرنے کے بعد نور کو تھوڑی تسلی ہوئی کہ وہ گھر آرہا ہے اور اُسے رات اکیلے نہیں رہنا پڑے گا پر پھر بھی ایک گھنٹہ کا سنتے اُسے بے چینی ہوئی کیونکہ جب سے وہ آئی تھی زارون شام پانچ بجے تک گھر آجاتا اور اُس کے آنے سے وہ بے فکر ہو جاتی پر آج سات بج چکے تھے اوپر سے موسم بھی کافی خراب تھا جس کی وجہ سے اُسے ڈر کے ساتھ ساتھ گھبراہٹ بھی ہورہی تھی۔۔۔۔”اللہ پلیز زارون جلدی آجائے۔۔۔“ نور نے دعا مانگی اور کھانے بنانے کا سوچتے کتابیں اور نوٹس ایک سائیڈ پر کر کہ اُٹھی پر اس سے پہلے کہ وہ اپنی سوچ کو تکمیل دینے کچن میں جاتی لائٹ آف ہو گئی۔۔۔”اُففف یہ لائٹ کو کیا ہوا پہلے تو کبھی بند نہیں ہوئی۔۔ “ نور نے ڈرنے کی بجائے ہمت سے کام لیتے اندھیرے میں ڈوبے کمرے کو دیکھا اور ہاتھ مار کر بیڈ سے اپنا موبائل اُٹھا کر اُس کی لائٹ آن کی اور باہر دروازہ کھولنے کی آواز پر کمرے سے نکلی۔۔۔”تم نے تو کہا تھا کہ ایک گھنٹے میں آؤ گئے تو پھر اتنی جلدی کیسے آگئے۔۔“ زارون کو دروازہ لاک کرتا دیکھ کر نور نے حیرت سے اُس کی پشت کوگھورتے ہوئے سوال کیا اور لائٹ لیے اُس کے قریب آئی جس کے پلٹتے ہی اُس کے قدموں کے ساتھ ساتھ زبان کو بھی بریک لگی۔۔۔”کو۔۔۔کو۔۔ن ۔۔ہو ۔ت۔۔م۔۔“ زارون کی جگہ کسی نقاب پوش کو دیکھ کر نور نے آگے بڑھنے کی بجائے وہیں کھڑے سوال کیا تو اُس شخص نے جواب دینے کی بجائے قدم اُس کی جانب بڑھائے۔۔۔”کون ہو تم؟اور تم اندر کیسے آئے؟“ اُسے اپنے قریب آتا دیکھ کر گھبراہٹ کے مارے موبائل اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرا تو اُس شخص نے اُس کی حالت سے محظوظ ہوتے کوئی بھی جواب دینے کی بجائے اپنی پیش رفت جاری رکھی۔۔۔۔۔”زارون ؟“ اُس کے نقاب میں چھپے چہرے کو دیکھ کر نور کو ایک سیکنڈ کے لیے احساس ہوا کہ وہ زارون ہے جو اُسے ڈرانے کے لیے یہ سب کر رہا ہے۔۔۔”لگتا ہے کچھ زیادہ ہی محبت ہو گئی ہے تمہیں اُس سے جو میرے چہرے میں بھی تمہیں وہی نظر آرہا ہے۔۔“ زارون کا نام سنتے ہی اُس شخص نے ایک نوک دار چیز نور کے گلے پر رکھتے کہا تو لائٹ آنے پر نور نے اُس کی آنکھوں کو باغور دیکھا جو زارون سے بالکل مختلف تھیں اور اب رہی سہی کسر اُس کی آواز نے نکال دی۔۔۔”کو۔۔ن ۔۔ہو۔۔تم اور پلیز ۔۔تمہیں جو چاہیے لے لو پر میرے قریب مت آنا۔۔۔“ نور نے تیز دار چاقو اپنی گردن پر دیکھ پوری آنکھیں کھول کر اُسے دیکھا۔۔۔۔”اووو نور میری جان مجھے یہاں سے بھلا کیا چاہیے میں تو صرف تم سے ملنے تمہیں دیکھنے آیا ہوں۔۔۔“ایک ہاتھ دیوار پر رکھتے اُس نے اُس کا نام پکارا تو نور نے حیرت اور خوف کے ملے جلے تاثرات لیے اُس کی جانب دیکھا جو ہلکا سا جھکتے اُس کے چہرے کے بالکل قریب آچکا تھا۔۔۔۔”مجھ سے دور رہو اور کون ہو تم؟“ چاقو کی پروا کیے بغیر اُس نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھتے پیچھے کی جانب دھکا دیا۔۔۔”نہ میری جان ایسے تو نہیں چلے گا۔ ایسے تم مجھے دھکے دو گی تو مجبورا مجھے تمہارے ساتھ زبردستی کرنا پڑے گی جو میں بالکل بھی نہیں چاہتا۔۔۔“،نور کی مزاحمت پر اُس نے قہقہہ لگایا اور دوبارہ سے اُس کے قریب آتے چاقو کی نوک اُس کے بازؤ میں پیوست کرتے غصے سے کہا۔۔”پلیز میں نے کہا نا تمہیں جو چاہیے یہاں سے لے سکتے ہو پر مجھ سے دور رہو۔۔“ اپنی عزت اور جان دونوں خطرے میں دیکھ کر نور نے خود کو مزید مزاحمت کرنے سے روکا۔۔۔۔”ہاہاہا میں نے پہلے بھی کہا کہ مجھے صرف تم چاہیے ہو کیونکہ اب مجھ سے مزید برادشت نہیں ہوتا کہ تم اُس زارون کے لیے مجھے چھوڑ کر میری چار سال کی محنت کو یوں برباد کرو۔۔۔“آنکھوں میں سرخی لیے اُس نے لفظوں کو سختی سے ادا کیا اور اُس کا بازؤ پکڑ کر کمرے کی جانب دھکا دیا تو زمین پر گرنے کے ساتھ ہی اُس کی چیخ نکلی۔۔۔”کیا سمجھتی ہو تم خود کو کہ اتنی آسانی سے مجھے دودھ میں سے مکھی کی طرح الگ کر کہ تم سکون سے اپنی زندگی اُس زارون کے ساتھ گزار لو گی جس سے زندگی میں میں نے سب سے زیادہ نفرت کی۔۔۔“،اُسے سیدھا کرتے اُس شخص نے نور کے جبڑوں کو اپنے ہاتھ سے دبایا۔۔۔۔۔۔ ”کون ہو تم؟“ نور نے اُس کا ہاتھ ہٹاتے اُس کے منہ سے بار بار زارون کا اور اپنا نام سن کر خوف سے کانپتے ہوئے پوچھا تو اُس شخص نے نفی میں سر ہلاتے چاقو کی نوک اُس کے گال پر پھیری جس پر نور نے بالکل ساکت ہو کر اُس کی جانب دیکھا جس کی آنکھوں میں خون اُتار آیا تھا۔۔۔”بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم مجھے بھول گئی اپنے چار سال پرانے دوست کو۔۔۔“ چاقوکی نوک کو اُس کی آنکھ کے قریب لا کر روکتے اُس نے کہا تو نور نے پھٹی ہوئی آنکھوں سے اُس کی بات پر غور کیا۔۔۔”آرجے۔۔؟“ اپنے دماغ میں آنے والے نام کی تصدیق کے لیے اُس نے ڈرتے ہوئے اندازہ لگایا۔۔۔۔”مجھے پتا تھا تم مجھے پہچان لو گی۔۔۔“ ایک نظر پرنسس کو دیکھا جو اُس کے ہاتھ میں چاقو دیکھ کر ڈر کر بیڈ کے نیچے جا چھپی۔۔۔“نہٖیں تم آرجے نہیں ہو، تم کیسے ہو سکتے ہو۔۔۔؟“ نور نے اُس کی تصدیق پر بھی بے یقینی سے آنکھوں میں خوف اور زبان میں لڑکھڑاہٹ لے کر نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔”کیوں؟ میں آرجے کیوں نہیں ہو سکتا اور میری جان مجھ سے ڈر کیوں رہی ہو۔۔۔“ اُسے کھسک کے تھوڑا پیچھے ہوتا دیکھ کر اُس نے کہا تو نور نے اپنے دونوں ہاتھ اُس کے آگے جوڑے۔۔۔”پلیز مجھے معاف کر دو اور تمہیں جو چاہیے یہاں سے لے جاؤ میں نے آخر کیا بگاڑا ہے تمہارا۔۔۔“ اُس کی بے باک نظروں کو اپنے اوپر دیکھتے نور نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کرتے اُٹھنے کی کوشش کی پر اُس سے پہلے ہی زین نے اُس کے قریب آتے اُس کی کوشش کو نا کام بنا دیا۔۔۔۔۔”تم نے ہی تو بگاڑا ہے سب میرا اور تم تو جنید سے شادی کرنے والی تھی نا اور اُس دن یونیورسٹی میں زارون کے لیے ہاں کیوں کہا۔۔۔“ اُس کے بالوں کو سختی سے مٹھی میں دبوچے زین نے اُس کے چہرے کو اپنے چہرے کے پاس لاتے پوچھا۔۔۔۔”وہ۔۔میں ۔۔پلیز مجھے معاف کر دو۔۔“ نور نے اُس کی سخت ہوتی گرفت پر آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں کو روکتے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے جو اب چاقو کی نوک کو اُس کی شہ رگ پر پھیرتے اُس کے الفاظ کا گلا گھونٹ چکا تھا۔۔۔۔”ایک شرط پہ معاف کروں گا۔۔۔“ خوف سے اُس کی پھیلتی آنکھوں کو دیکھ کر زین نے ایک سیکنڈ کے لیے چاقو اُس کی گردن پر روکتے اُس کی آنکھوں سے نکلتے آنسوؤں کو دیکھا۔۔۔”ک۔۔یا ۔۔ش۔۔ر۔۔ط؟“ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اُس نے شدت سے اللہ کو یاد کیا اور اپنی مدد کے لیے کسی فرشتے کو بھیجنے کی دعا کی۔۔۔۔”کچھ زیادہ نہیں بس کچھ حسین لمحے میں تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں وہ بھی آج ہی ۔۔۔“ چاقو کو پھر سے روا کرتے اُس نے اپنی شرط بتائی تو نور نے بالوں میں تکلیف کے باوجود بے یقینی سے اُسے دیکھا جو اب چاقو کی نوک سے اُس کی قیمض کندھے سے پھاڑ چکا تھا۔۔۔”میں تمہارا خون پی جاؤں گی اگر تم نے میرے قریب آنے کی کوشش کی۔۔۔“ اُس کی حرکت پر آگ بگولہ ہوتے نور نے اپنے اندر جتنی طاقت تھی اُسے جمع کرتے اُسے پیچھے کی جانب دھکا دیا اور اُٹھ کر باہر کی جانب بھاگی پر اُس سے پہلے ہی زین نے ہوشیاری دیکھاتے اُس کا پاؤں پکڑا تو وہ منہ کے بل زمین پر گرگئی۔۔۔”میں نے کہا تھا نا زیادہ ہوشیاری دکھانے کی کوشش مت کرنا ورنہ۔۔۔“ اُس کے پاؤں پر چاقو کی نوک سے کراس کا نشان بناتے وہ ہنسابتو درد کے مارے نور کی چیخ فضا میں بلند ہوئی اور ساتھ ہی اُس کے پاؤں سے خون نکل کر فرش کو سرخ کرنے لگا۔۔۔۔”بہت ضدی ہو تم۔۔۔ میں نے کہا تھا آرام سے میری بات مان لو پر نہیں تمہیں تو ہوشیاری دکھانی تھی۔۔۔“ ،درد سے نڈھال ہوتے نور نے سر زمین پر رکھا تو زین نے ایک مکرو ہنسی ہنستے اُس کے قریب آتے ہوئے کہا جس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چاہ رہا تھا۔۔۔۔بہت شوق ہے نا زارون کو تمہیں ہر کسی کی نظر سے چھپا کر رکھنے کا؟ تمہیں صرف اپنی دسترس میں رکھنے کا؟“ دوپٹہ اُس کے گلے سے نکال کر دور پھینکتے وہ مسلسل زہر اگلتے اُس کا باغور جائزہ لے رہا تھا...جو درد کی وجہ سے بے ہوش ہونے کے قریب تھی۔۔۔”تم دیکھنا میں اُسے ایسی سزا دوں گا کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے گا۔۔۔۔“ کہنے کے ساتھ ہی اُس نے اُس کے چیخننے چلانے کی پروا کیے بنا ہی چاقو کی نوک سے اُس کے بازو پر ایک اور کراس کا نشان بنایا تو نور کے منہ سے ایک کربناک چیخ نکلی جس کے ساتھ ہی وہ اپنے حواس کھوتے بالکل ساکت ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر:22

بارش کے باوجود بھی وہ ایک گھنٹے سے دس منٹ پہلے ہی گھر پہنچ چکا تھا اور اب اپنے پاس موجود اپارٹمنٹ کی چابی نکالتے اُس نے دروازہ کھولا اور اندر قدم رکھتے ہی سامنے نور کے کمرے کے کھلے دروازے سے کسی کو ٹیرس کا دروازہ کھولکر بھاگتا دیکھ کر اُس نے جلدی سے بیگ وہیں پھینک کر کمرے کی جانب دوڑ لگائی تاکہ اُسے پکڑ سکے پر نور پر نظر پڑتے ہی وہ ٹیرس پر جانے کی بجائے اُس کی جانب بڑھا جو خون میں لت پت زمین پر پڑی تھی۔”نور۔۔۔؟ نور آنکھیں کھولو میری جان،دیکھو میں آگیا ہوں“ اُس کی پھٹی قیمض اور بازؤ سے نکلتے خون پر  زارون کی اپنی حالت غیر ہونے لگی پر پھر بھی ہمت کرتے اُس نے صوفے پر پڑا تولیہ اُٹھا کر جلدی سے اُس کے بازؤ پر رکھا اور الماری سے چادر نکال کر اُس کے اوپر دی اور مزید کچھ سوچے بغیر اُسے اُٹھا کر باہر کی جانب بھاگا تاکہ جلد از جلد ہسپتال پہنچ سکے۔ نور کو لیٹاتے اُس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے گاڑی سٹارٹ کی اور سڑک پر ڈالتے ہی اُس نے احمد کو کال کرتے نور کی حالت کا بتا کے سب انتظام کرنے کا کہہ دیا تاکہ کوئی بھی تاخیر نہ ہو۔ تیز ڈرائیو کرنے کے باوجود بھی اُسے ہسپتال پہنچتے پہنچتے سات منٹ لگ گئے۔”کس نے کیا یہ سب۔۔؟ “ احمد جو پہلے ہی سب انتظام کر چکا تھا اُس نے نور کی حالت دیکھتے ہی پولیس کیس کی وجہ سے زارون سے پوچھا۔”پتا نہیں بس پلیز تم نور کو دیکھو باقی سب میں سنبھال لوں گا۔“ زارون نے کہنے کے ساتھ ہی اپنا موبائل نکالا اور سب سے پہلے عالیان کو کال کر کے ہسپتال آنے کا کہا جو ابھی تک آفس کے کاموں میں مصروف تھا۔”کیا ہوا؟تم ٹھیک ہو نا؟“زارون کا فون سنتے ہی وہ دس منٹ میں ہسپتال پہنچا تو وہاں اُس کی خون سے بھری شرٹ اور پریشان کن حالت دیکھ کر عالیان کو لگا شاید اُس سے کسی کا ایکسڈینٹ ہو گیا ہے۔”کچھ ٹھیک نہیں ہے عالیان نور کو کچھ ہو گیا تو میں مر جاؤں گا،پلیز تم احمد سے کہو اُسے بچا لے۔“ زارون نے اُسے دیکھتے ہی اُس کے گلے لگتے کہا تو اُس کے منہ سے نور کا نام سُن کر عالیان کو خود حیرت ہوئی۔”کیا ہوا بھابھی کو؟ تم نے کچھ کیا ہے کیا ۔۔ لیکن تم تو حویلی گئے تھے نا تو یہ سب؟“ اپنے ذہن میں آنے والوں سوالوں کو اُس نے گھبراہٹ کے مارے ایک ساتھ ہی پوچھ ڈالا۔”پتا نہیں میں گھر آیا تو نور ۔۔۔۔، “ زارون نے ایک ہی سانس میں تمام بات تفصیل سے بتائی جسے سنتے عالیان کو خود بھی حیرت ہوئی کے بلڈنگ میں اتنی سیکیورٹی کے باوجود بھی کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے۔ ”اچھا بس تم حوصلہ رکھو سب ٹھیک ہو جائے گا“ اُس کے منہ سے نور کی حالت کے متعلق سنتے وہ خود بھی کافی فکر مند ہو چکا تھاپر پھر بھی اُس نے زارون کو حوصلہ دیتے وہاں کرسی پر بٹھایا اور وہیں اُس کے ساتھ بیٹھتے آپریشن ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”احمد نور ٹھیک ہے نا؟“ زارون نے اُسے آئی سی یو سے باہر آتا دیکھ کر جلدی سے اُس کی جانب  بڑھتے سوال کیا تو اُس نے نفی میں سر ہلاتے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔”ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر چکے ہیں پر زخم کافی بڑے اور گہرے تھے کچھ وینز بھی کٹ چکی  تھیں۔ جس کی وجہ سے خون روکنے میں ہمیں کافی وقت لگا اور اب حالات یہ ہیں کہ اسٹچز دینے کے بعد بھی خون زخموں سے بہہ رہا ہے جو اگر نہ رُکا تو بھابھی کی جان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، اس لیے بس ہمت رکھو اور دعا کرو۔۔۔“ احمد نے زارون سے کچھ بھی چھپانا مناسب نہیں سمجھا اور کھل کر اُسے سب بتایا تاکہ وہ اپنے دل ودماغ کو ہر خبر کے لیے تیار رکھے۔ ”پلیز احمد کچھ بھی کرو پر نور کو بچا لو  اگر اُسے کچھ ہو گیا تو میں اپنے آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گا۔۔“ اُس کی بات سنتے ضبط کے باوجود بھی آنسو بند توڑ کر  زارون کی گال پر بہہ نکلے۔”کیا ہوگیا ہے یار ؟ ہمت رکھو اور نا امید مت ہو، ان شاءاللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔“آج زندگی میں پہلی بار اُسے ہمت ہارتا اور روتا ہوا دیکھ کر احمد کو خود بھی تکلیف ہوئی تب ہی اُس نے آگے بڑھتے زارون کو اپنے ساتھ لگاتے دلاسہ دیا۔”میں ٹھیک ہوں تم میری فکر مت کرو بس تم سے جو ہوتا ہے کرو جتنا پیسہ لگتا ہے لگاؤ ،جس چیز یا ڈاکٹر کی ضرورت ہے مجھے بتاؤ میں سب کچھ تمہیں یہاں ارینج کر کے دوں گا پر میری نور کو بچا لو اگر اُسے کچھ ہوا تو میں اس ہسپتال سمیت سب چیزوں کو آگ لگا دوں گا۔۔“ ہاتھ کی پشت سے آنکھوں کو رگڑتے زارون اُس سے الگ ہوا تو احمد نے اُس کی زرد رنگت دیکھ کر تسلی دیتے سامنے موجود کرسی پر بیٹھایا۔”میں نے کہا نا کہ تم پریشان مت ہو اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا ویسے بھی ہم لوگ تو بس وسیلہ ہیں اصل کام تو اُسی کا ہی ہے اس لیے دعا کرو۔۔۔“ اُس کے قریب بیٹھتے احمد نے تسلی دی تو زارون نے غصے سے اُس کا ہاتھ جھٹکا۔”مجھے سمجھانے کی ضرورت نہیں اور اگر تم لوگوں سے کچھ نہیں ہو رہا تو مجھے بتا دو میں نور کو کہیں اور لے جاؤں گا پر احمد اگر نور کو کچھ ہوا تو یہاں کسی کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔“ غصے اور تکلیف کے ملے جلے تاثرات لیے زارون نے اپنے لہجے کو سخت بناتے  اُسے تنبیہ کی جو عالیان کو آتا دیکھ زارون کو چھوڑے اُٹھ کر اُس کے قریب آیا۔”کہاں تھے تم؟ اور میں نے کہا تھا نا کہ اس کو اکیلا مت چھوڑنا۔۔“ احمد نے اُس کے سامنے آتے کہا جو پچھلے دو گھنٹے سے زارون کے ساتھ ہی ہسپتال میں موجود تھا۔۔۔۔”یار میں تو ابھی دو منٹ پہلے باہر گیا تھا وہ بھی ایک ضروری کام کے لیے، اور کیا ہوا؟ سب خیریت ہے نا؟ بھابھی ٹھیک ہیں؟“عالیان نے اُس کی خفگی پر پریشانی سےپوچھا۔”ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا، بس دعا کرو اور اسے کوئی جوس وغیرہ پلاؤ نور سے زیادہ تو مجھے اس کی حالت دیکھ کر خوف آرہا ہے۔۔“ احمد نے زارون کی طرف اشارہ کرتے کہا جو خون سے لتھڑی شرٹ پہنے بے جان سے وجود کے ساتھ اُن دونوں کی طرف خالی نظروں سے دیکھ رہاتھا۔ ”پچھلے دو گھنٹے سے اسے ہی سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہوں پر۔۔“ ایک نظر زارون کے چہرے کی طرف دیکھتے عالیان نے افسردگی سے کندھے اچکائے ۔”پھر بھی یار کوشش کرو اسے کچھ کھلاؤ پلاؤ تاکہ آگے آنے والے وقت کا سامنا ہمت سے کر سکے۔“ احمد نے اشارے سے نور کی طرف سے نا امیدی ظاہر کرتے، ڈاکٹر کے بُلانے پر فورا سے واپس آئی سی یو کارخ کیا اور عالیان نے بھی قدم زارون کی جانب بڑھائے جو اب دیوار کے ساتھ سر لگائے چھت کو گھور رہا تھا۔”زارون پلیز خود کوسنبھالو، دیکھو کچھ ہی گھنٹوں میں تم نے اپنی کیا حالت بنا لی ہے۔“ اُس کے قریب بیٹھتے عالیان نے اُس کی آنکھوں میں سرخی دیکھ دلاسہ دیا تو اُس نے چھت سے نظریں ہٹا کر اُسے دیکھا جو خود بھی اُس کی حالت پر کافی پریشان تھا۔”میری حالت اُس انسان کی حالت بگاڑ کر  ٹھیک ہو گی جس نے میری  نور کو ہاتھ لگانے کی جرات کی۔۔ جس نے میری زندگی میرے دل پر وار کیا بس مجھے وہ شخص ہر حال میں چاہیے جس نے زارون علی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی جراءت کی اور جب تک میں اُس کے جسم کا ایک ایک حصہ الگ نہیں کر لیتا مجھے سکون نہیں آئے گا۔ اس لیے جاؤ اور اُسے ڈھونڈو اور مجھے وہ نور کے ہوش میں آنے سے پہلے چاہیے ورنہ تمہارے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔“ آنکھوں میں غصہ لیے اُس نے اپنے جبڑوں کو مضبوطی سے بھینچا تو عالیان نے اُس کی بات سنتے کچھ کہنے کی بجائے اثبات میں سر ہلایا اور کچھ ہی دیر میں اُس شخص کے مل جانے کا یقین دلاتے اُٹھ کر کوریڈو سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عالیان نے  ہسپتال سے نکلتے ہی زارون کے گارڈز کو بھی کال کر دی کہ وہ اُس کے اپارٹمنٹ میں پہنچ جائیں تاکہ وہ سب مل کرتمام چیزوں کا اچھے سے جائزہ لینے کے بعد پولیس کو مطلع کر کے اُن کی مدد لے سکیں پر وہاں پہنچتے ہی اُسے اندازہ ہوا کہ وہ شخص نہ صرف پوری تیاری سے وہاں آیا تھا بلکہ اُسے بلڈنگ میں لگے کیمروں کے بارے میں بھی بہت اچھے سے علم تھا تب ہی نہ تو وہ اُسے کسی کیمرے کی ریکاڈنگ میں ڈھونڈ سکے اور نہ ہی اپارٹمنٹ کی کسی چیز سے اُس کا کوئی ثبوت ملا۔ ”سر میں نے  ساتھ والے اپارٹمنٹ میں سب لوگوں سے پوچھ لیا ہے پر کسی نے بھی زارون سر کے اپارٹمنٹ میں نہ توکسی مشکوک شخص کو آتے دیکھا نہ ہی جاتے“ ،اکرم نے بھی ساری معلومات حاصل کرنے کے بعد عالیان کو مطلع کیا تو وہ اُن سب کو وہیں رکنے اور تمام لوگوں پر نظر رکھنے کا کہتے خود واپس ہسپتال آگیا جہاں ابھی تک ڈاکٹرز نے نور کے بارے میں کوئی امید ظاہر نہیں کی تھی۔”کیا بنا کچھ پتا چلا؟“ عالیان کے چہرے کی مایوسی کو دیکھتے ہی زارون کو اُس کے جواب کا اندازہ ہو چکا تھا پر پھر بھی اُس نے اپنی تسلی کے لیے پوچھا۔ ”نہیں ابھی تو نہ کوئی ثبوت ملا ہے اور نہ ہی سراغ لیکن اکرم لوگ سب کوشش کر رہے ہیں تم فکر نہ کرو جلد ہی ہم اُس شخص تک پہنچ جائیں گے“، اُس کے قریب بیٹھتے عالیان نے پوری تفصیل زارون کو بتائی جیسے سُن کر اُسے مزید غصہ آیا۔۔۔۔ ”مجھے تمہاری کسی قسم کی کوئی بات نہیں سننی، میں نے کہا تھا نا جب تک وہ شخص مل نہیں جاتا یہاں مت آنا تو کیوں آئے ہو پھر یہاں،اپنی مٹھیوں کو مضبوطی سے بند کرتے وہ پوری شدت سے عالیان پہ چلایا تو پاس سےگزرتے لوگوں نے رک کر اُن دونوں کی طرف دیکھا“۔”پلیز یار کچھ تو خیال کرو یہ ہاسپٹل ہے اور میں کوشش کر رہا ہوں نا جلد ہی کچھ پتا چل جائے گا“ اُن سب کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر عالیان نے نرمی سے سمجھایا پر زارون نے بنا کسی کی پروا کیے اُسے گریبان سے پکڑا۔ ”میں نے تمہیں کوشش کرنے بھیجا تھا کیا وہاں؟ جو تم پورے پانچ گھنٹے بعد آکر مجھے بتا رہے ہو کہ ابھی تک کچھ پتا نہیں چلا“ ،کسی بھی چیز کا لحاظ کیے بغیر اُس نے آنکھوں میں غصہ لیے چیختے ہوئے کہا تو احمد جو اُسے نور کا بتانے آیا تھا پر اُس کے ہاتھ میں عالیان کا گریبان دیکھ کر جلدی سے اُن کی جانب بڑھا۔”زارون کیا کر رہے ہو؟پاگل ہو گئے ہو کیا“،اُس کا ہاتھ ہٹاتے،احمد نے عالیان کی طرف دیکھا جو اپنی اتنی بے عزتی پر شرم سے لال ہوتے سر جھکا چکا تھا۔”ہاں پاگل ہو گیا ہوں میں ،میں نے اسے کہا تھا کہ وہ شخص مجھے ہر حال میں چاہیے ہے پر یہ اتنے آرام سے آکر مجھے بتا رہا کہ ابھی تک اُسکا کچھ پتا نہیں چلا“ ،احمد کی طرف دیکھتے ہی وہ اُس کا ہاتھ جھٹکتے غصے اور تکلیف کے ملے جلے تاثرات لیے بولا۔ ”یہ جگہ لڑنے کی نہیں ہے اس لیے ہم دونوں پہ اپنا رعب جمانے کی بجائے اپنی بیوی کے لیے دعا کرو جو اندر زندگی اور موت کی کشمکش میں پڑی ہے“ ،احمد نے بھی کوئی بھی لحاظ کیے بغیر غصے سے کہا اورعالیان کو ہاتھ میں پکڑا پیپر پکڑتے کچھ دواٸیاں لانے کا کہتے زارون کو خاموش چھوڑ کر واپس چلا گیا۔

قسط نمبر: 23

رات سے صبح ہو چکی تھی لیکن ڈاکٹرز نے ابھی تک نور کی طرف سے کوئی اُمید ظاہر نہیں کی تب ہی زارون نے احمد سے اُسے دوسرے ہسپتال لے جانے کی بات کی۔”یار میں تمہیں اتنی بار بتا چکا ہوں کہ دوسرے اسپتال والے بھی یہی ٹرٹمنٹ دیں گے جو ہم لوگ دے رہے ہیں اس لیے تم پریشان مت ہو اور اللّٰہ پہ یقین رکھو اُس نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا“،زارون کی حالت دیکھ کر احمد کی ناراضگی زیادہ دیر برقرار نہیں رہی۔”تو پھر ابھی تک نور کو ہوش کیوں نہیں آیا؟ ساری رات گزر چکی ہے“، ایک بار پھر سے زارون نے اپنے خدشہ کا اظہار کیا تو احمد نے جواب دینے کی بجائے عالیان(جو زارون کے غصہ کے باوجود بھی رات سے اُس کے ساتھ تھا) کی طرف دیکھا جو ہاتھ میں چائے کے کپ پکڑے اُن دونوں کے قریب آچکا تھا۔”کیا ہوا سب خیریت ہے نا؟“اُن کے پاس رک کر عالیان نے سوالیہ نظروں سے احمد کی جانب دیکھا۔ ”ہاں سب خیریت ہے تم بس اس کو کچھ کھلاؤ تاکہ اس کا دماغ کچھ سیٹ ہو اور یہ چائے مجھے دو۔ رات سے مسلسل جاگ کر میرا تو سر پھٹ رہا ہے“ ایک کپ عالیان کے ہاتھ سے لیتے احمد نے ایک گھونٹ بھرا تو عالیان نے دوسرا کپ زارون کی جانب بڑھایا۔”میرا دل نہیں ہے تم پی لو“، نفی میں سر ہلاتے وہ واپس جا کر کرسی پر بیٹھ گیا تو عالیان نے احمد کی طرف دیکھا جو خود بھی اگلا گھونٹ بھرتے بھرتے رک گیا۔”یہ اپنے ساتھ ساتھ ہمارا بھی دماغ خراب کر دے گا اس لیے دعا کرو نور کو جلدی ہوش آجائے“ ،عالیان کی نظروں کا مفہوم سمجھتے احمد نے اپنی آواز آہستہ رکھتے کہا اور کپ واپس اُسے پکڑاتے نرس کے بُلانے پر اندر کی جانب بڑھا جو اُسے نور کے ہوش میں آنے کا بتا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔اُس کا ذہن بیدار ہوا تو آنکھیں کھولتے خود کو ایک نئی جگہ پر دیکھ کر وہ کچھ پریشان ہوئی اور ایک خیال آیا کہ شاید آرجے اُسے یہاں لے کر آیا ہے اُسے خوف زدہ کر گیا تب ہی اُس نے کسی کی آواز پر نظر اُٹھا کر دیکھا۔”کیسا محسوس کر رہی ہیں اب آپ ؟؟“ احمد نے اُس کے قریب آکر نرمی سے پوچھا تو نور نے ذہن پر زور ڈالتے اُسے پہچاننے کی کوشش کی جسے وہ پہلے بھی دیکھ چکی تھی۔ ”مجھے یہاں کون لایا ہے؟“ اُس کی بات کا جواب دینے کی بجائے اُس نے ایک نظر پاس کھڑی نرس کو دیکھتے ہوئے سوال کیا تو احمد نے اُس کی آنکھوں میں خوف کی لہر دیکھ کر زارون کا بتا کے مطمئن کیا تاکہ وہ پرسکون ہو جائے کہ اُسے وہ شخص یہاں نہیں لایا۔”زارون کو بُلا دیں اور مجھے ہاتھ مت لگائیے گا“،احمد نے اپریٹس لگانے کے لیے جیسے ہی ہاتھ آگے بڑھائے نور نے جلدی سے اپنا بازؤ پیچھے کرتے چیختے ہوئے کہا۔”ٹھیک ہے نہیں لگاتا بس آپ پریشان مت ہوں“ ،اُس کی حالت دیکھ کر احمد نے تسلی دی اور نرس کو باہر سے زارون کو بُلانے کا کہتے خود بیڈ سے کچھ فاصلہ پہ جا کھڑا ہوا۔”سر آپ کو ڈاکٹر صاحب اندر بُلا رہے ہیں“ ،نرس نے زارون کے قریب آتے کہا تو وہ جلدی سے اُس کے ساتھ اندر کی جانب بڑھا (کیونکہ عالیان اُسے پہلے ہی نور کے ہوش میں آنے کا بتا چکا تھا جسے سُن کر اب اُس کی آدھی پریشانی کم ہو چکی تھی) ”کیا ہوا ؟نور ٹھیک ہے؟“ اندر قدم رکھتے ہی اُس نے احمد کو دروازے کے پاس کھڑا دیکھ کر پریشانی سے پوچھا۔”ہاں ٹھیک ہے پر شاید ابھی تک اُس حادثے کو لے کر خوف زدہ ہے۔ مجھے چیک بھی نہیں کرنے دیا“،احمد نے بتانے کے ساتھ ہی نرس کو اپنے ساتھ آنے کا کہا تاکہ زارون سکون سے بات کر سکے۔”نور۔۔۔؟“ احمد کے جاتے ہی وہ اُس کے قریب آیا جو آنکھیں بند کیے لمبی سانس لیتے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔”زارون پلیز مجھے بچا لو وہ مجھے مار دے گا“، نور نے اُس کی آواز پر فٹ سے آنکھیں کھولتے کسی اپنے کو قریب دیکھ کر آنکھوں میں خوف کے ساتھ آنسو لیے کہا اور اُٹھنے کی کوشش کی پر زارون نے آگے بڑھتے اُسے سنبھالا۔”کوئی کچھ نہیں کہے گا تمہیں اس لیے پریشان مت ہو اور سکون سے لیٹی رہو میں ہوں یہاں تمہارے پاس“ ،اُس کی حالت دیکھ کر زارون کو ایک نئے سرے سے اُس شخص پر غصہ آیا جس کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔”وہ مجھے مار دے گا وہ مجھے مارنے ہی آیا تھا“،نور نے  آنکھوں میں خوف لیے اُس کے بازؤ کو پکڑا تو زارون نے اُسے اپنے ساتھ لگاتے دلاسہ دیا جو بار بار ایک ہی بات کو دہراتے چیخ رہی تھی۔”پلیز نور خود کو سنبھالو، کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا“ ،اُس کی طبیعت کے پیش نظر زارون نے اُسے خود سے الگ کرتے سمجھانے کی کوشش کی تھی تو اُس نے روتے ہوئے غصے سے اُس کا ہاتھ جھٹکا۔”یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ تم کیوں مجھے اکیلا چھوڑ کر گئے  تھے؟اور کیوں تم نے آنے میں اتنی دیر لگائی؟مجھے پتا ہے تم چاہتے ہی یہ تھے کہ وہ مجھے ماردے،نہیں بلکہ یہ سب کروایا ہی تم نے ہو گا تاکہ مجھ سے تمہاری جان چھوٹ جائے یا میں ڈر جاؤں اور تم جو چاہو مجھ سے کروا سکو پر میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گی“، غصے سے پاگل ہوتے اُسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ زارون کو کیا کچھ بول رہی ہے اور ان باتوں کا اُس پہ کیا اثر ہو گا جو کل سے کسی ہارے ہوئے انسان کی طرح  پوری دنیا سے صرف اُس کے لیے لڑرہا تھاجو اتنی آسانی سے اتنا بڑا الزام اُس کے سر لگا چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دس دن مسلسل وہ ہسپتال میں نور کے پاس رہا، اس دوران اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی اُسے کسی اور کے سہارے پر نہیں چھوڑا حالانکہ احمد اور عالیان کتنی ہی بار اُسے اپنے وہاں ہونے کا یقین دلاتے گھر جا کر آرام کرنے کا کہہ چکے تھے پر اب نہ تو اُسے نور کے معاملے میں کسی پر اعتبار تھا اور نہ ہی وہ پھر سے اُسے اکیلا چھوڑ کر اُس شخص(جس کا اتنی کوشش کرنے کے بعد بھی ابھی تک کوئی سراغ نہیں ملا تھا)کو دوبارہ سے کسی ایسی ویسی حرکت کا موقع دینا چاہتا تھا جس سے نور کو تکلیف ہوتی۔”بس کچھ دیرمیں ہم بھابھی کو ڈسچارج کر دیں گے اس لیے تم اُس وقت تک ساری چیزیں وغیرہ سیمٹ لو اور پلیز گھر جاتے ہی اپنا یہ مجنوں والا حلیہ ٹھیک بھی کر لینا نہیں تو بھابھی نے تمہیں کوئی بھکاری سمجھ کر گھر سے  نکال دینا ہے“،احمد نے نور کو چیک کرنے کے بعد (جس کے ٹانکے کچھ دیر پہلے ہی کھلے تھے )زارون سے کہا جس کی شیو کافی بڑھ چکی تھی۔”زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں اس حالت میں بھی تم سے زیادہ ہنڈسم لگتا ہوں اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے اُس نے احمد کو دانت نکالتا دیکھ کر گھورا“۔”بس کر یار قسم سے تمہاری حالت دیکھ کر تو میں نے کانوں کو ہاتھ لگا لیے ہیں کہ زندگی میں سب کچھ کرنا ہے پر عشق نہیں کرنا“، احمد نے اُسے آج صبح سے ہی کچھ ڈھیلا سا دیکھ کر چھیڑا تاکہ وہ کچھ فریش ہو جائے۔”اچھا فیصلہ ہے اور ویسے بھی عشق کرنا مجھ جیسے شیروں کا کام ہے تم جیسے گیدڑوں گا نہیں“،زارون نے اُس کی بات سنتے تیوری چڑھاتے جواب دیا تو احمد نے گیدڑ کا نام سنتے ہی ہونقوں کی طرح منہ کھولے اُسے دیکھا جو اُس کے چہرے کے بدلتے زاویے دیکھ کر اب خود بھی مسکرانے لگاتھا۔”ہوننہہ ،جتنے تم شیر ہو نا میں ان دس دنوں میں دیکھ چکا ہوں اس لیے میرے سامنے زیادہ پھیلنے کی ضرورت نہیں اور یہ کیا تم میرے سٹاف کو ہر وقت گھورتے رہتے ہو؟ تمہاری دہشت کی وجہ سے بیچاروں کا آدھا خون خشک ہو گیا ہے“ احمد نے اُسے سوئیپر کو اشارہ کرتے نور کے کمرے سے جانے سے روکتا دیکھ کر ٹوکا۔”میں جو کر رہا ہوں نا بالکل ٹھیک کر رہا ہوں اس لیے مجھے زیادہ سبق دینے کی ضرورت نہیں“،احمد کو سُناتے وہ سوئیپر کی خبر لینے کے لیے اُس کی جانب بڑھا تو اس نے دور سے اُسے اپنے طرف آتا دیکھ کر جھاڑو وہیں پھینک کر دوسری جانب دوڑ لگا دی تو زارون بھی اُس کی خبر لینے اُس کے پیچھے بھاگا۔”حد ہے یہ انسان کبھی نہیں سدھرے گا“، احمد نے سوئیپر کی حرکت پر مسکراتے شکر ادا کیا کہ آج اُس کی اور اُس کے ہسپتال کی زارون نامی جلاد سے جان چھوٹ جائے گی کیونکہ جس دن سے وہ یہاں تھا اُس نے احمد سیمت تمام سٹاف کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں وہ نور کو  لے کر گھر پہنچا جس کی طبیعت اب بہتر تھی اور زخم بھی کافی حد تک ٹھیک ہو چکے تھے پر ابھی بھی پاؤں کے زخم کی وجہ سے ڈاکٹر نے اُسے زیادہ چلنے سے منع کیا تھا تب ہی زارون اُسے سہارا دے کر بیڈ روم تک لایا جہاں پرنسس(جسے اُس دن سے اکرم ہی سنبھال رہا تھا) اُن دونوں کو دیکھتے ہی خوشی سے گول گول چکر کاٹنے لگی۔۔۔۔”درد تو نہیں ہے؟؟؟“اُسے بیڈ پر بٹھاتے زارون نے پوچھا تو نور نے نفی میں سر ہلاتے پرنسس کو آواز لگائی جو جلدی سے بیڈ پر چڑھتے اُس کی گود میں آبیٹھی۔۔۔”میں جوس لے کر آتا ہوں“ ان دونوں کو مصروف دیکھ زارون نے کہا اور باہر آگیا جہاں اکرم ابھی تک دروازے کے پاس اُسی کے انتظار میں کھڑا تھا۔۔۔۔”تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟؟نیچے جاؤ اور اپنے کام پہ لگ جاؤ کیونکہ اب میں زیادہ انتظار نہیں کر سکتا“ ،زارون نے اُسے سر جھکائے کھڑا دیکھ کر حکم دیا۔۔”جی سر بس اب وہ شخص جلد ہی آپ کو مل جائے گا“ ،اکرم نے اُس کی بات سنتے یقین دہانی کروائی اور ویسے ہی نظریں جھکائے باہر نکل گیا تو زارون نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کیا۔ واپس کچن میں آتے فریج سے جوس نکالا اور گلاس میں ڈال کر اندر لے آیا جہاں نور ابھی تک پرنسس کو لاڈ کرنے میں مصروف تھی۔۔۔۔”جوس پی لو“،گلاس اُس کے پاس ٹیبل پر رکھتے زارون نے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا تو نور نے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا جو اتنے دنوں سے کسی سایہ کی طرح اُس کے ساتھ تھا۔ اُسے کب پیا س لگی ہے کب بھوک ،کب اُس نے سونا ہے کب اُٹھنا،کب اُسے کس چیز کی ضرورت ہے، کب نہیں زارون کو سب اُس کے بتائے بغیر ہی پتا ہوتا جو نور کے لیے کافی حیران کن تھا۔۔۔”کیا ہوا؟؟؟“ اُسے اپنی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتا پا کر زارون نے کچھ حیرت سے پوچھا۔۔۔”نہیں ،کچھ نہیں ہوا“ ،بس ابھی میرا دل نہیں ہے کچھ دیر میں پی لوں گی۔ اپنی چوری پکڑے جانے پر جلدی سے نظریں اُس کے چہرے سے ہٹاتے( جس کی حالت دیکھ کر نور کو اپنے پچھلے کچھ دنوں کے رویے اور الفاظ پر شرمندگی ہوئی)اُس نے پھر سے پرنسس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا جو پہلے کی نسبت کافی کمزور ہو چکی تھی۔۔”ٹھیک ہے جب دل ہو پی لینا اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو مجھے آواز دے دینا میں باہر لاونج میں بیٹھا ہوں“، ٹرے نیچے سے نکال کر گلاس کے اوپر رکھ کر زارون نے کہا اور پلٹ کر جانے لگا کہ نور نے اُس کا ہاتھ تھامتے روکا۔۔۔۔ ”سوری،وہ مجھے کچھ کہنا تھا“،زارون کے دیکھنے پر شرمندہ ہوتے ہوئے اُس نے جلدی سے اُس کا ہاتھ چھوڑتے وضاحت دی۔۔۔۔”ہاں کہو؟؟اُس کی ہچکچاہٹ اور غیر معمولی سے حرکت پر اپنی حیرت چھپاتے زارون نے اجازت دی تو نور نے اپنے الفاظ کو ترتیب دیتے ہوئے بات کا آغاز کیا۔۔۔”وہ اُس دن میں نے جو بھی کہا،مطلب میں نے تمہیں مجرم ٹھہریا کہ تم نے وہ سب کروایا بس اُسی کے لیے سوری بولنا تھا“،اُس سے نظریں ملائے بغیر نور نے اپنی بات کہی تو زارون کی حیرت میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ وہ نور سے اس بات کی بالکل بھی توقع نہیں رکھتا تھا کہ وہ اُس بات کے لیے اُسے سوری بولے گی۔۔۔۔۔”ہمم خیر ہے مجھے کوئی غصہ نہیں اور تم بھی وہ سب بھول جاؤ“ ،اُسے سر جھکائے بیٹھا دیکھ کر زارون نے نرمی سے کہتے اُسے شرمندگی سے نکالنے کی کوشش کی کیونکہ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ سب وقتی ہے اور نور صرف اُس کے خیال کرنے کو احسان سمجھ کر یہ سب بول رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمرے میں ٹہلتے سگریٹ کے کش پہ کش لیتے وہ مسلسل بے چین تھا کیونکہ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اُسے خبر ملی تھی کہ زارون نور کو ہسپتال سے گھر لے آیا ہے۔۔”اس بار تو تم زارون کی وجہ سے بچ گئیں پر اگلی بار نہیں بچو گی اس لیے جتنا خوش ہونا ہے ہو لو کیونکہ اگر زارون تمہیں بچانا جانتا ہے تو میں بھی یہ بات باخوبی جانتا ہوں کہ اُسے کس طرح اور کون کون سے طریقے سے اذیت دینی ہے“ ،آنکھوں میں سرخ انگارے لیے وہ سگریٹ کا دوسرا پیکٹ بھی ختم کرچکا تھا پر اُس کا غصہ تھا کہ ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھتا ہی جا رہا تھا تب ہی اُس نے اپنا موبائل اُٹھاتے کسی کا نمبر ملایا جو دوسری بیل پہ اُٹھا لیا گیا۔۔۔۔”جی سر کیا حکم ہے؟؟“ دوسری طرف کسی لڑکی کی آواز اُبھری تو زین نے سگریٹ کا آخری کش لیتے اُسے زمین پر رکھتے جوتے سے مسلا۔۔۔۔۔۔”جو کام میں نے کہا تھا ہو گیا ہے یا نہیں؟؟؟“ ٹیبل پر پڑے پیکٹ سے ایک اور سگریٹ نکال کر اُسے سلگاتے اُس نے ٹیرس کی جانب جاتے سوال کیا۔۔۔۔۔۔”جی سر میں نے آپ کا کام کر دیا ہے بس اب نور کے یونیورسٹی آنے کا انتظار ہے“ اُس لڑکی نے بتانے کے ساتھ ہی اُسے تمام تفصیل سے آگاہ کیا تو زین کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔۔۔”بہت خوب بس اب دھیان رکھنا کہ کسی کو تم پر شک نہ ہو“،اُس کی تمام بات سننے کے بعد زین نے اُسے مزید کچھ ہدایات دیتے فون بند کیا اور فضا میں دھواں چھوڑتے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔۔۔۔”اب میں دیکھوں گا کہ زارون اپنی نور کو کیسے میرے قہر سے بچاتا ہے۔ دانتوں کو سختی سے پیستے اُس نے سگریٹ کے مزید دو کش لیتے اُسے ختم کیا اور ایک نظر رات کی پھیلتی تاریکی کو دیکھتے واپس کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حارث کافی دونوں سے گھر لیٹ آرہا تھا تا کہ اُس کا کسی سے سامنا نہ ہو پر آج وہ تقریبا دس بجے کے قریب ہی گھر آگیا کیونکہ چند دنوں سے اُس کا دل نور کی طرف سے بہت پریشان تھا جیسے وہ کسی مصیبت میں ہو۔۔۔”پتا نہیں مجھے اُس وقت کیا ہو گیا تھا؟؟کیوں میں نے تمہارا اعتبار نہیں کیا؟؟کیوں میں نے تمہیں اُس شخص کے ساتھ جانے دیا؟؟“گھر آتے ہی وہ سیدھا اُس کے کمرے میں گیا (جو اُس دن سے بند تھا )اور وہاں پڑی چیزوں کو دیکھتے ایک بار پھر سے اُس کا دل بھر آیا جو ناچاہتے ہوئے بھی اُس کی آنکھوں کو نم کر گیا۔۔۔ ”نور میری گڑیا؟؟میری چھوٹی سے گڑیا،اپنے حارث بھائی کو معاف کر دینا۔ جب تمہیں سب سے زیادہ میری ضرورت تھی میں نے تمہارا ساتھ نہیں دیا میں نے بھی باقی سب کی طرح تمہیں مجرم ٹھہرایا پر تم نے بھی تو اپنے حارث بھائی پر اعتبار نہیں کیا۔ کیوں تم نے مجھ سے وہ سب چھپایا جو تمہیں نہیں چھپانا چاہیے تھا کیوں تم نے خاموش رہ کر خود کو سب کی نظروں میں گرا لیا؟؟ کیوں تم نے مجھے اپنی زندگی کے اتنے بڑے راز سے بے خبر رکھا کاش کہ تم مجھے بتا دیتی تو وہ سب نہ ہوتا جو اُس دن ہوا“،ٹیبل پر پڑی اُس کی چیزوں کو اُٹھاتے وہ آج ہر بات اُس کے تصور سے کہہ دینا چاہتا تھا جس نے اُسے اُس دن سے لے کر اب تک بے سکون کیے ہوئے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”تم آج بھی دوسرے کمرے میں سوؤ گے ؟؟؟نور نے اُسے دودھ اپنے پاس رکھ کر کمرے سے باہر جاتا دیکھ کر چہرے پر فکر مندی کے آثار لاتے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔”ہاں ،کیوں؟ تمہیں کوئی کام تھا؟؟“ پلٹ کر اس کی جانب دیکھتے زارون نے پوچھا تو نور نے گڑبڑاتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔”نہیں کام کوئی نہیں تھا پر وہ۔۔ میں ۔۔۔کہہ رہی۔۔ تھی کہ۔۔۔“ ایک نظر ٹیرس کے بند دروازے کو دیکھتے اپنی بات مکمل کرنے کے لیے اُس نے ہمت جمع کی۔۔”کیا کہہ رہی تھیں؟اور جو بھی بات ہے کھل کے بتاؤ ایسے ڈر کیوں رہی ہو“،اُس کی ہچکچاہٹ کو محسوس کرتے زارون نے نرمی سے اُسے اپنی بات مکمل کرنے پر اکسایا۔۔۔۔”وہ تم یہاں سو جاؤ،میرا مطلب ہے اس کمرے میں ،کیونکہ ابھی مجھ سے چلا نہیں جاتا اور ہو سکتا ہے مجھے کسی چیز کی ضرورت ہو اور تم تک میری آواز نہ پہنچی تو میں کیا کروں گی“ ،نور نے اپنی بات سنبھالنے کے لیے وضاحت دی تو زارون کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی جسے اس کے دیکھتے ہی سکیڑ گیا۔۔۔” تمہاری آواز مجھے آجائے گی اس لیے تم پریشان نہ ہو اور سکون سے سو جاؤ“،جان بوجھ کرانکار کرتے وہ لائٹ آف کرتے کمرے سے نکلنے لگا تو نور نے جلدی سے اُسے پکارا۔۔۔۔ ”پلیز مت جاؤ مجھے یہاں اکیلے ڈر لگے گا“،اصل بات پر آتے اُس نے چہرے پر معصومیت طاری کرتے ہوئے کہا تو زارون کو اُس کی حالت دیکھ کر ہنسی آئی جسے کنٹرول کرتے  کوئی بھی جواب دیے بغیر وہ کمرے سے  نکل گیا۔۔۔”ہوننہہ کھڑوس بدتمیز کہیں کا ،پتا نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے“ ،اُس کے جاتے ہی نور کو اپنے آپ پر غصہ آیا کہ اُس نے کیوں زارون کو یہاں سونے کا کہا۔۔”پتا نہیں کون سی موت پڑنے لگی تھی مجھے یہاں اکیلے سونے میں جو میں نے اُس جلاد کی منت کی“ ،کمبل ٹھیک کر کہ لیتے وہ مسلسل اپنے آپ کو برا بھلا کہہ رہی تھی تب ہی زارون پرنسس کو اُٹھائے واپس کمرے میں آیا تو اُسے واپس آتا دیکھ کر اُس کا غصہ حیرت میں بدل گیا۔۔۔۔”کیا ہوا؟؟ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟؟؟“پرنسس کو صوفے پر بٹھاتے جو نیند میں تھی خود وہ بیڈ پر اُس کے قریب آکر لیٹا۔۔۔۔”کچھ نہیں“،نظریں اُس کے چہرے سے ہٹاتے نور نے نفی میں سر ہلایا اورکروٹ دوسری طرف لے کر لیٹتے اُس نے زارون کے آجانے پر اللہ کا شکر ادا کیا اور آنکھیں بند کرتے سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔

قسط نمبر: 24

زارون کی آنکھ لگے ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اُس کے کانوں میں نور کے بڑابڑانے کی آواز پڑی تب ہی اُس نے سر اُٹھاتے اُسے دیکھا جو شاید نیند میں ڈر جانے کی وجہ سے مسلسل بول رہی تھی۔ ”نور، میری طرف کروٹ لے لو“،اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے زارون نے ہلکا سا ہلایا تو اُس نے ڈرسے چیختے ہوئے آنکھیں کھولیں۔”کیاہوا؟“سردی کے باوجود بھی اُس کے چہرے پر پسینہ دیکھ کر زارون نے نرمی سے پوچھا تو نور نے اُسے جواب دینے کی بجائے اپنے اور اُس کے درمیان موجود تھوڑا سا فاصلہ ختم کرنے میں ایک سیکنڈ لگایا اور کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر اُس کے سینے سے جا لگی۔”زارون وہ مجھے مار دے گا پلیز تم مجھے چھوڑ کر مت جانا“،زین کو خواب میں دیکھ کر وہ ایک بار پھر سے ڈر گئی تب ہی تحفظ کے لیے وہ اپنے ساتھ لیٹے اُس شخص کا سہارا چاہتی تھی جس کی زندگی میں اُس نے زہر گھولنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔”کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا، میں پاس ہوں تمہارے اس لیے ڈرو مت اور سکون سے سو جاؤ“،اُسے ایک دم سے اپنے اتنے قریب دیکھ کر زارون بالکل بوکھلا سا گیا تھا پر جلد ہی اپنے آپ پر قابو پاتے اُس نے نور کو تسلی دی جو اب خوف سے رونے لگی تھی۔”نہیں،وہ مجھے مار دے گا۔ وہ ہم دونوں سے بدلہ لینا چاہتا ہے اور وہ مجھے بھی میری غلطی کی سزا دے گا“،کچھ کہتے کہتے اُس نے اپنی زبان کو بریک لگائی تو زارون نے اُسے خود سے الگ کرتے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔”کس غلطی کی سزا اور ہم سے کون بدلہ لینا چاہتا ہے؟کون تھا وہ؟ تم نے اُسے دیکھا تھا کیا اور اُ س نے تم سے یہ سب کہا؟ پلیز نور مجھے سب سچ بتانا“،پہلے تو زارون کو لگا تھا کہ ابھی نور سے یہ سب پوچھنا اُسے دوبارہ سے وہ سب یاد دلانے اور تکلیف دینے کے مترداف ہو گا تب ہی وہ اُس دن سے خاموشی اختیار کیے اُس کے سنبھلنے کا انتظار کر رہا تھا پر اب نور کے منہ سے یہ سب سُن کر اُسے پوچھنا پڑا۔۔”پ۔۔تا۔۔ن۔۔نہیں۔۔مجھے ۔۔کہ ۔۔وہ ۔۔کو۔۔ن تھا“،خود کو زین کا نام لینے سے روکتے نور نے پھر سے سر اُس کے سینے پر رکھا تو زارون نے اُس کی ہچکچاہٹ کو اُس کا خوف سمجھ کر مزید کچھ پوچھنے کی بجائے اپنے حصار میں قیدکیا۔”سو جاؤ، میں پاس ہوں“، اُس کی پیشانی پر بوسہ دیتے زارون نے کہا تو نور نے آنکھیں موندیں خود کو کوسا کہ کیوں اُس نے زین کے ڈر کو اپنے سر پر اتنا سوار کیا کہ اُسے زارون کے سامنے وہ سب بولنا پڑا جس کی وجہ سے اُس کی آگے آنے والے زندگی مزید خراب ہو سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نور کے سونے کے بعد زارون کافی دیر تک اُس کی بات کے بارے میں سوچتا رہا پر پھر اتنے دنوں کی تھکاوٹ اور مسلسل اسپتال میں جاگنے کی وجہ سے اُس کی آنکھ لگ گئی جو صبح اپنے موبائیل کی بیپ پر کھلی۔”اُففف کس کو مصیبت پڑ گئی صبح صبح“ ،الجھن سے بڑبڑاتے  اُس نے  بند آنکھوں سے ہی سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارا اور موبائل کے نیچے گرنے کی آواز پر آنکھیں کھول کر اُٹھنے کی کوشش کی پر اپنے سینے پر وزن محسوس کرتے اُس نے حیرت سے سر اُٹھاتے دیکھا تو نور سکون سے اُس کے سینے پر سر رکھے سو رہی تھی۔”اُففف یہ لڑکی کل سے میرے ہوش اُڑانے میں لگی ہے اور اب اگر میں نے ذرا سی بھی پیش رفت کی تو اس کا منہ بن جانا ہے کہ میرے قریب مت آنا۔ خبردار مجھے چھوا تو“،نور کی نقل اُتارتے اُس نے سر واپس تکیہ پر رکھا اور ساتھ ہی شکر ادا کیا کہ موبائل نیچے گرنے سے خود ہی بند ہو گیا۔ ”ہوننہہ رات سے ایسے میرے ساتھ چمٹ رہی ہے جیسے میں شہد ہوں اور یہ شہد کی مکھی،ویسے ہے تو مکھی ہی وہ بھی زہریلی، جو اب ساری زندگی مجھے ہی ڈنگ مارے گی“ ،اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے زارون نے سوچا اور اپنی سوچ پرمسکراتے آہستگی سے اُسے سیدھا کیا جو کسمکاتے ہوئے پھر سے سو گئی۔”جتنی تم پیاری ہونا کاش اتنی اچھی بھی ہوتیں“ اپنے کندھے پر اُس کا سر رکھتے زارون نے اُس کی طرف کروٹ لی اور اُس کے چہرے سے بالوں کو ہٹا کے نا چاہتے ہوئے بھی اپنے ہونٹ اُس کے رخسار پر لگائے جو ایک طرف لیٹے رہنے کی وجہ سے سرخ ہو چکا تھا۔”جان ہو تم میری، بس تھوڑی سی بدتمیز اور نک چڑھی ہو“،ہونٹ اُس کی بند آنکھوں پہ لگاتے، زارون نے آہستہ سے کہا تو نور نے اُس کے لمس کو محسوس کرتے نیند میں ہی ماتھے پر بل ڈالے جس پر مسکراتے  زارون نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگایا اور کچھ لمحے اُس کے سرخ ہونٹوں کو دیکھتے وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُس کے ہونٹوں پر جھکا تو نور نے اپنا سانس بند ہوتا محسوس کرتے ہوئے آنکھیں کھولیں۔ زارون کو اپنے اوپر جھکا دیکھ کر پوری آنکھیں کھولتے اُسے دیکھا جو سکون سے اپنے کام میں مصروف اُس کے دونوں ہاتھ اپنے سینے سے ہٹا کر اپنوں ہاتھوں میں قید کر چکا تھا۔ کچھ لمحات کی خاموشی کے بعد زارون نے اُس کے ہونٹ آزاد کیے تو نور نے تیزی سے سانس لیتے اُسے بحال کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اُس کی آنکھوں میں بھی آنسو آچکے تھے۔”پلیز میرا سانس بند ہو جائے گا“،اُسے واپس اپنے اوپر جھکتا دیکھ کر نور نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا تو اُس کی معصومیت پر مسکراتے زارون نے تھوڑا اوپر ہوتے اُس کی پیشانی پر ایک آخری بوسہ دیا جو شرم سے لال ہو چکی تھی۔”اُٹھ جاؤ بہت ٹائم ہو گیا ہے“،اپنے منہ زور ہوتے جذبات پر قابو پاتے زارون نے کہا اور پرنسس کو بولتا دیکھ بیڈ سے اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ نور نے اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں کو بحال کیا جو آج پہلی بار زارون کے قریب آنے سے منتشر ہو رہی تھیں۔”اُففف یہ جلاد کسی دن میری جان لے گا“ ،اپنا دوپٹہ ٹھیک کر کے جلدی سے اُٹھ کر بیٹھتے اُس نے سوچا اور زارون کے آنے سے پہلے ہی بیڈ کا سہارا لے کر اُٹھتے جا کر صوفے پر بیٹھ گئی تاکہ پھر سے اُسے کسی ایسی حرکت کا موقع نہ ملے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون کی شادی کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پوری حویلی میں پھیلی تو ساجدہ بیگم نے بے یقینی کی سی کیفیت میں تصدیق کے لیے احتشام صاحب کو اپنے کمرے میں بلایا جن کے کسی خاص بندے نے اُنہیں یہ خبر دی تھی۔ ”یہ میں کیا سُن رہی ہوں کہ زارون نے شادی کرلی ہے؟“ شہناز بیگم کو بھی اُن کے ساتھ کمرے میں آتا دیکھ ساجدہ بیگم نے پروا کیے بنا احتشام صاحب کو سامنے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے سوال کیا۔”جی،ٹھیک سُنا ہے آپ نے، آج صبح ہی مجھے اطلاع ملی تھی جسے میں نے کچھ دیر پہلے ہی اکرم سے فون کر کہ کنفرم کیا ہے“ ،احتشام صاحب نے ساجدہ بیگم کو ساری تفصیل بتائی جسے سُن کر شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی  پر پھر بھی اُنہیں یقین نہیں آیا۔ ”پر ابھی کچھ دن پہلے ہی تو زارون حویلی آیا تھا مگر اُس نے تو مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی اور ہو سکتا ہے اکرم کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو“،ساجدہ بیگم نے احتشام صاحب کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی تسلی دی کہ زارون اُن کو بتائے بغیر ایسا کوئی کام نہیں کرسکتا۔”مجھے بھی یہی لگا تھا پر یہ بات مجھے دو دن پہلے اسلم (زارون کا ڈرائیور ) نے بھی بتائی تھی اور اُسی کے بعد میں نے خود شہر جا کر تصدیق کی“”ہمم پر میرا دل نہیں مان رہا اس لیے تم اچھے سے پتا کروا لو۔ ہو سکتا ہے یہ سب جھوٹ ہو اور کسی نے ہماری بدنامی کے لیے یہ بات پھیلائی ہو“،ساجدہ بیگم نے اپنے دل کے خدشے کو احتشام صاحب کے سامنے بیان کیا تو اُنہوں نے اُن کی بات سنتے اثبات میں سر ہلایا پر شہناز بیگم جن کی زبان پر کب سے کھجلی ہو رہی تھی وہ اُن کے خاموش ہوتے ہی بولیں۔”اماں حضور کوئی بھی اتنی بڑی بات ایسے ہی نہیں کر دیتا، ضرور آپ کے پوتے نے کوئی گل کھلایا ہوگا جولوگ ایسی بات کر رہے ہیں اور آپ۔۔۔آپ سے میں نے اتنی بار کہا تھا کہ جوان اولاد کو یوں اکیلا نہ چھوڑیں پر آپ کو تو میری کسی بات کا اثر ہی نہیں ہوتا“،اپنے طعنوں تشنوں کا رخ ساجدہ بیگم سے احتشام صاحب کی طرف کرتے اُنہوں نے سنائی جسے سُن کر احتشام صاحب کا سر مزید جھک گیا۔ ”زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں اور میرے پوتے کے بارے میں کوئی بھی بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا“،اُسے زارون کے خلاف آگ اگلتا دیکھ کر ساجدہ بیگم نے سختی  سے ٹوکا تو شہناز بیگم کو مزید پتنگے لگ گئے۔”آپ میرا منہ تو بند کر وادیں گی پر خاندان والوں کو کیا جواب دیں گی؟ جب سب یہ پوچھیں گے کہ ایسا کیا ہوگیا تھا  کہ آپ کے اکلوتے پوتے نے آپ کو بتائے بغیر اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ اکیلے ہی کر لیا وہ بھی چوری چھپے“ ،ساجدہ بیگم کی بات پر بھڑکتے ہوئے شہناز بیگم نے اُنہیں آئینہ دکھایا اور مزید کچھ بولے یا سنے بغیر ایک تیز نظر خاموشی سے بیٹھے احتشام صاحب پر ڈالتے،پیر پٹختے کمرے سے چلی گئیں۔”اسے کس نے بتا یا ہے یہ سب اور تمہارے پیٹ میں کوئی بات نہیں ٹھہرتی کیا جو تم ہر بات اسے بتا دیتے ہو“ ،شہناز بیگم کے جاتے ہی ساجدہ بیگم نے احتشام صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ”میں نے کچھ نہیں بتایا اس نے مجھے فون پہ اکرم سے بات کرتے سُن لیا تھا“،ساجدہ بیگم کے غصے کی وجہ سے احتشام صاحب نے ہچکچاتے ہوئے بتایا۔”ٹھیک ہے اب جو ہونا تھا ہو گیا تم جاؤ اپنی بیوی کا منہ بند کرو اور اگر یہ بات اس حویلی سے باہر نکلی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہو گا اور زارون سے میں خود ہی بات کر لوں گی“،اپنے غصے کو ضبط کرتے اُنہوں نے کہا تو احتشام صاحب سر ہلاتے اُنہیں یہ بات باہر نہ نکلنے کی تسلی دی اور کمرے سے چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملائکہ کے گھر میں آنے پر جہاں جنید کی زندگی پرسکون ہوگئی تھی وہیں خالدہ بیگم کی زندگی میں ایک نہ ختم ہونے والا عذاب آچکا تھا جو دن بدن کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا تھا۔ وہ جتنی کوشش اور شدت سے ملائکہ کو جنید کے دل سے نکالنے کی کوشش کرتیں وہ اتنی ہی چالاکی سے اُنہیں شکست دیتے جنید کے دل میں جگہ بنا تی جا رہی تھی جس کی وجہ سےخالدہ بیگم کی برداشت جواب دے چکی تھی تب ہی اُنہوں نے ملائکہ جیسی تیز مچھلی کو پکڑنے کے لیے ایک بڑا جال بچھایا تاکہ کسی کو بھی شک دلائے بغیر اُس کا پتہ آسانی سے صاف کر سکیں۔ ”اب دیکھتی ہوں تم میرے شر سے کیسے بچتی ہو“،گیس کے سلنڈر کا پائپ کھول کر سائیڈ پر کرتے اُنہوں نے اُسے فل سپیڈ میں کھولا تاکہ ملائکہ جیسے ہی ماچس چلائے تو آگ پوری طرح سے پھیل جائے۔کہتے ہیں اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کر لینی چاہیے ،اپنے چہرے پر مکارانہ مسکراہٹ سجاتے اُنہوں نے ملائکہ کو کمرے سے نکلتا دیکھ کر جلدی سے باورچی خانہ سے نکلتے اپنے کمرے کا رخ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔”اُففف آج تو بہت دیر ہو گئی ہے پتا نہیں میں اتنی دیر تک کیسے سوئے رہی“ ،ملائکہ نے اپنے بالوں کو فولڈ کرتے  جوڑے کی شکل دے کر کیچر میں قید کیا اور کچن میں جانے کی بجائے سلیم صاحب کی آواز سنتے اُن کی بات سننے کے لیے لاؤنج میں آگئی۔”جی ابو آپ نے بلایا تھا؟“سر پر دوپٹہ اوڑھے اُس نے پوچھا تو سلیم صاحب نے ٹی وی کی آواز ہلکی کی. ”میں تو خالدہ کو بُلا رہا تھا ،کہاں ہے وہ؟“”پتا نہیں میں تو ابھی باہر آئی ہوں اور آپ کو کوئی کام تھا تو مجھے بتا دیں“ ،سلیم صاحب کے نرم رویے کی وجہ سے ملائکہ اُن کا کافی خیال کرنے لگی تھی۔”ہاں بیٹا چائے کا کہنا تھا بس کافی دیر سے دل کر رہا ہے پر خالدہ بیگم کولڑائی جھگڑے سے فرصت ملے تو میرا کوئی کام کریں“ نظریں ٹی وی پر جمائے اُنہوں نے سر جھٹکا تو ملائکہ نے اُن کی بات پر مسکراتے ہوئے پانچ منٹ میں چائے بنا کر لانے کا کہتے باورچی خانے کا رخ کیا جہاں داخل ہوتے ہی اُس کے نتھنوں میں گیس کی بو محسوس ہوئی۔”اُففف ایک تو یہ سلنڈر کو پتا نہیں کیا ہے دوسرے ہی دن لیک ہونے لگ جاتا ہے“ ،قدم آگے بڑھاتے اُس نے خود کلامی کی اور پہلے بھی کچن سے اس طرح کی بو آتی رہنے پر کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر شیلف پر پڑی ماچس چلائی تو ایک دھماکہ کے ساتھ پورے باورچی خانے میں آگ پھیل گئی جس سے آتی ملائکہ کی دلخراش چیخیں پورے گھر کو ہلا گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احتشام صاحب کے جاتے ہی ساجدہ بیگم نے رشیدہ کو بُلا کر اپنا سامان پیک کرنے کا کہا کیونکہ وہ اب زارون کو بُلانے کی بجائے خود شہر جاکر دیکھنا چاہتی تھی کہ احتشام صاحب کی بات میں کتنی صداقت ہے۔۔۔”بی بی جی میں نے سب چیزیں رکھ دی ہیں آپ کی دوائیاں بھی اور کچھ رکھنا ہے کیا؟؟“،رشیدہ جو ساجدہ بیگم کی پرانی اور خاص ملازمہ تھی اُس نے تمام کام کرنے کے بعد موبادنہ انداز میں پوچھا۔۔۔۔”نہیں بس تم مراد کو گاڑی تیار کرنے کا کہو اور اپنا سامان بھی رکھ لو تم بھی میرے ساتھ جاؤ گی“ اُسے ہدایت دیتے ساجدہ بیگم نے جلدی کرنے کا کہا تو رشیدہ نےاُن کا حکم سنتے ہی اثبات میں سر ہلایا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔”میں چاہتی ہوں کہ جو احتشام نے بتایا وہ سب جھوٹ ہو کیونکہ اگر وہ سچ ہوا تو مجھے بہت دکھ ہو گا کہ تم نے اپنی زندگی کے اتنے اہم فیصلہ میں مجھے شامل کرنا تو دور کی بات مجھ سے اجازت لینا بھی گوارہ نہیں کیا“،سائیڈ ٹیبل پر پڑی زارون کی تصویر اُٹھا کر اُس سے کہتے ساجدہ بیگم نے یہ سب جھوٹ ہونے کی دل سے دعا کی اور اپنی چھڑی اُٹھاتے کپڑے r

قسط نمبر: 25

دو گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے بعد مراد نے احتشام صاحب کی بتائی ہوئی بلڈنگ کے سامنے گاڑی روکی تو رشیدہ نے ساجدہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اُتارا اور مراد کی رہنمائی میں لے کر زارون کے اپارٹمنٹ تک پہنچی جہاں پہنچتے ہی اُنہوں نے مراد کو واپس جانے کا کہا اور رشیدہ کو بیل بجانے کا اشارہ کیاجس کہ ایک منٹ بعد ہی اندر سے زارون کی آواز اُبھری اور ساتھ ہی دروازہ کھولا جس کے بعد دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔۔۔”دی جان؟آپ؟یہاں؟“زارون نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ خاموشی کو توڑا اورساتھ ہی آگے بڑھتے اُن کا ہاتھ تھاما۔۔۔”ہاں میں یہاں، کیا میں یہاں نہیں آسکتی۔۔۔۔؟“ اُس کے ہاتھ تھامتے ہی اُنہوں نے رشیدہ کا ہاتھ چھوڑا اور زارون کے سہارے اندر آتے اپارٹمنٹ میں چاروں طرف نظر دوڑائی۔۔۔”آسکتی ہیں آپ کا اپنا گھر ہے پر مجھے بتا دیتیں میں خود آپ کو حویلی سے لے آتا ایسے اکیلے آنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔“ خفگی کا اظہار کرتے وہ اُنہوں لاؤنج میں موجود صوفوں میں سے ایک پر بیٹھا چکا تھا۔۔۔۔۔”کبھی کبھی جوان اولاد کے پیچھے ماں باپ کو اچانک بھی چلے جانا چاہیے تاکہ خبر رہے کہ اُن کی اولاد کوئی ایسا کام تو نہیں کر بیٹھی جس سے اُن کی اور اُن کے خاندان کی بدنامی ہو۔۔۔“ رشیدہ کو سامان لیے کھڑا دیکھ کر ساجدہ بیگم نے آہستگی سے اپنی بات مکمل کی جو زارون کی چھٹی حس کو فورا ہی سرخ سگنل دے چکی تھی۔۔۔”ہاہاہا۔۔۔۔تو مطلب اس بار آپ میری جاسوسی کرنے آئی ہیں اور وہ بھی اچانک تاکہ مجھے کچھ چھپانے کا یا بھاگنے کا موقع نہ ملے۔۔۔۔“ رشیدہ کو سامان سامنے کمرے میں لے جانے کا کہتے زارون نے نیچے زمین پر بیٹھ کر سر اُن کی گود میں رکھا جن کی نظریں کمرے سے نکلتی لڑکی پر جم سی گئیں تھیں۔۔۔”یہ کون ہے۔۔۔؟“زارون کی بات کا جواب دینے کی بجائے اُنہوں نے نور کی طرف اشارہ کیا تو زارون نے سر اُٹھاتے اپنے پیچھے دیکھا جہاں نور بھی ساجدہ بیگم کو دیکھ کر کچھ گھبرا گئی تھی ۔۔۔۔”بیوی ہے میری ۔۔۔“،اُن کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیتے زارون نے نظریں جھکاتے بتایا تو ساجدہ بیگم نے غصے سے اُس کا ہاتھ جھٹکا۔۔۔۔”مطلب جو اطلاع مجھے ملی تھی وہ بالکل ٹھیک تھی اورمیں ایسے ہی تم پر اعتبار کرتے سب سے لڑاتی رہی کہ نہیں میرا پوتا مجھے بتائے بغیر ایسا کوئی کام نہیں کرسکتا پر میں بھول گئی تھی کہ تم اب بڑے ہو گئے ہو تمہیں اب اپنی زندگی کے فیصلوں کے لیے نہ تو اپنے باپ کی ضرورت ہے اور نہ ہی میری۔۔۔۔“ غصے اور دکھ کی ملی جلی کیفیت میں اپنی بات مکمل کرتے اُنہوں نے ایک نظر خاموش کھڑی نور پر ڈالی جو خود تمام معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے حیرت سے ساجدہ بیگم کی طرف دیکھ رہی تھی جو زارون کے روکنے کے باوجود بھی اُس کی کوئی بھی وضاحت سنے بغیر سامنے موجود کمرے میں چلی گئیں جہاں زارون نے کچھ دیر پہلے رشیدہ کو بھیجا تھا۔۔۔۔”یہ کون ہیں۔۔۔؟“ساجدہ بیگم کے کمرے میں جاتے ہی زارون کو صوفے پر سر پکڑے بیٹھتا دیکھ نور نے قریب آتے پوچھا۔۔۔۔”دادی ہیں میری اور اب تمہاری بھی پر ابھی غصے میں ہیں اس لیے تم اپنے کمرے میں جاؤ اور جب تک میں نہ بلاؤں باہر مت آنا۔۔۔۔“ سنجیدگی سے کہتے زارون نے خود ساجدہ بیگم کو منانے کے لیے اُن کے کمرے کا رخ کیا اور نور بھی اُس کی بات سنتے کندھے اچکاتے خاموشی سے واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملائکہ کی چیخوں اور دھماکہ کی آواز پر جہاں سلیم صاحب ریموٹ پھینکتے جلدی سے کچن کی طرف بڑھے وہیں آفس سے گھر میں داخل ہوتے جنید نے بھی کچن سے آگ اور دھواں نکلتا دیکھ جلدی سے اپنے قدم اُس جانب بڑھائے جہاں اب ملائکہ کی چیخ پکار کی آوازیں آہستہ آہستہ تھم چکی تھی۔۔۔۔”یہ کیا ہوا؟یہ میرے خدا ؟“ ملائکہ ،سلیم صاحب نے کچن کے قریب آتے ہی جنید کو سنبھالا جو ملائکہ کی آواز پر اندر کودنے والا تھا اور خالدہ بیگم کو آواز لگائیں جب تک محلہ کے کچھ لوگ بھی اُن کے گھر سے چیخ پکار سُن کر وہاں آگئے اور جلدی سے جنید اور سلیم صاحب کے ساتھ مل کر پانی ڈالتے آگ بُجثانے کی کوشش کی جس کے تھمتے ہی جنید جلدی سے اندر داخل ہوا جہاں ملائکہ کی حالت دیکھ کر اُس نے کسی کے بھی آنے سے پہلے خالدہ بیگم کو اندر آتا دیکھ اُنہیں چادر لانے کا کہا اور دروازے کی سامنے کھڑے ہوتے کسی کو بھی اندر آنے سے روکا۔۔”پلیز ابو آپ جلدی سے ایمولینس بُلائیں۔۔۔“ ملائکہ کی حالت دیکھ کر جنید کے حواس بالکل اُڑ چکے تھے پر یہ وقت ہمت ہارنے کا نہیں تھا اس لیے اُس نے خالدہ بیگم کے آتے ہی اُن سے چادر لے کر ملائکہ کے اوپر دی جس کے جسم کے ساتھ ساتھ اُس کی سانسیں بھی کہیں آگ میں ہی جھلس چکی تھیں پر پھر بھی امید کا دامن تھامتے جنید نے اُسے اچھے سے چادر میں لیپٹ کر وہاں سے باہر نکلا اور ایمولنس کے آتے سلیم صاحب اور خالدہ بیگم سیمت (جو بس بیٹے اور دنیا کے دکھلاوے کے لیے جھوٹے آنسو بہاتے  بار بار ملائکہ کی زندگی کےیے دعا کر رہی تھیں) اُسے لے کر ہسپتال پہنچے جہاں جاتے ہی ڈاکٹر نے چیک اپ کرنے کے بعد ملائکہ کی موت کی تصدیق کر دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”دی جان پلیز غصہ چھوڑ دیں میں نے آپ کو بتایا نا کہ کن حالات میں ہمارا نکاح ہوا اور کیسے نور کے گھر والے اُس کی کسی دوسری جگہ شادی کرنے والے تھے تو آپ بتائیں میں کیا کرتا؟؟کیا نکاح پہ نکاح ہونے دیتا ؟؟“زارون نے اپنے زبردستی نکاح والی بات کو گول کرتے، کچھ سیکنڈز پہلے دماغ میں اخذ کی گئی کہانی پورے یقین کے ساتھ سنائی۔۔۔۔”مجھے کوئی غصہ نہیں اور نکاح کر ہی لیا تھا تو تب ہی مجھے بتا دیتے پر تم نے تو نکاح بعد رخصتی کر کہ پچھلے ڈیڑھ مہینے سے اُس لڑکی کو اپنے ساتھ رکھا ہوا ہے اور ہمیں بتانا تو دور کی بات بھنک تک نہیں پڑنے دی“ ،ساجدہ بیگم نے اُس؛کی بات سنتے اپنی خفگی کو برقرار رکھتے ایک اور اعتراض اُٹھایا۔۔۔۔”جی،یہ میری غلطی ہے کہ میں نے آپ کو نہیں بتایا پر آپ خود سوچیں میں آپ کو اتنی بڑی بات کیسے بتاتا؟؟؟جبکہ میں یہ بات اچھے سے جانتا تھا کہ یہ سب سُن کر آپ کو نہ صرف غصہ آئے گا بلکہ دکھ بھی ہوگا کہ میں نے  اپنی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ آپ کو بنا بتائے کر لیا.... لیکن دی جان یقین جانے میں  نے یہ سب اراداتا نہیں کیا“ ،زارون نے کہنے کے ساتھ ہی اُن کی گود میں سر رکھا تو اُس کے چہرے پر شرمندگی دیکھ کر ساجدہ بیگم مزید اپنے غصے کو برقرار نہ رکھ سکیں۔۔۔۔”اچھا بس اب جو ہونا تھا ہو گیا پر اب سب میری مرضی سے ہوگا اور جو میں چاہوں گی تم ویسا ہی کرو گے“،ساجدہ بیگم نے اُسے معاف کرنے کے ساتھ ساتھ شرط رکھی تو زارون نے جلدی سے سر اُٹھاتے اُن کا ہاتھ پکڑا۔۔۔”ٹھیک ہے جیسا آپ کہیں گی اور چاہیں گی میں ویسا ہی کروں گا اور دوبارہ آپ کو میری اور نور کی طرف سے شکایت کا کوئی موقع نہیں ملے گا“،چہرے پر چمک لیے اُس نے اُن کی بات سننے سے پہلے ہی حامی بھر ی جس پر ساجدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا جس سے اُنہوں احتشام صاحب سے بھی زیادہ محبت تھی۔۔۔۔”بس ٹھیک ہے اپنی بیوی کو بُلاؤ آج سے وہ میرے ساتھ رہے گی اُس وقت تک جب تک میں حویلی میں سب لوگوں کی موجودگی میں شاندار طریقے سے تم لوگوں کی شادی نہیں کر دیتی“ ،جتنی نرمی سے ساجدہ بیگم نے اپنی شرط بتائی زارون نے اُتنی ہی حیرت سے اُن کی طرف دیکھا۔۔۔”دی جان یہ تو ظلم ہے وہ بھی بہت بڑا“،اُن کی بات سنتے ہی زارون کے چہرے کا رنگ بدلا کیونکہ کل ہی تو نور نے اُسے قبول کرتے ڈیڑھ مہینے میں پہلی بار اُس کے حق جتلانے پر نہ کوئی لڑائی کی اور نہ ہی غصہ اور آج دی جان نے آکر پھر سے پابندی لگا دی۔۔۔۔”تم نے کہا تھا کہ تم میری ہر بات مناؤ گے؟؟“ساجدہ بیگم نے اُسے اُس کا وعدہ یاد دلایا تو زارون نے منہ پھلائے اُن کی طرف دیکھا جو اُس کی حالات سے محفوظ ہوتے کوئی بھی اثر لیے بغیر رشیدہ کو آوازیں دینے لگیں (جو زارون کے آتے ہی کمرے سے چلی گئی تھی )۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلیم صاحب نے جنید کو ہمت ہارے دیکھ کر خود ہی ہسپتال کے تمام معاملات نمٹائے پر عین واپسی کے وقت پر پولیس کے آنے پر اُن کے ساتھ ساتھ خالدہ بیگم کہ بھی رنگ اُڑے۔۔۔۔۔”جی ،جناب یہ باڈی آپ پولیس کی کاروائی کے بغیر گھر نہیں لے جا سکتے“،انسپکڑ نے آگے بڑھتے سلیم صاحب کو مخاطب کیا۔۔۔”پر کیوں ؟؟اور یہ سب ایک حادثہ تھا۔ اس لیے پلیز ہم پہلے ہی بہت پریشان ہیں آپ مزید مت کریں“،سلیم صاحب نے انسپکڑ کی بات سنتے ہی اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے کہا۔۔۔”ہمم یہ تو بعد میں پتا چلے گا کہ یہ حادثہ تھا یا کوئی سازش اور جناب اس طرح کے ہزاروں کے کیس ہم روزانہ دیکھتے ہیں جس میں یا تو گھر والے بہو کو آگ لگا دیتے ہیں یا خاوند خود اپنی بیوی کی جان لے لیتا ہے اور بعد میں اُسے حادثے کا رنگ دے کر اپنی جان بخشی کروا لیتے ہیں پر ہم پولیس والوں نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلیں اس لیے جب تک ہماری طرف سے ساری کاروائی مکمل نہیں ہو جاتی نہ آپ لوگ یہاں سے کہیں جا سکتے ہیں اور نہ ہی باڈی کو لے جا سکتے ہیں“ ،سلیم صاحب کی بات پر انسپکٹر نے تیش میں آتے کہا اور وارڈ بوائے کو باڈی واپس اندر لے جانے کا کہتے اپنے ساتھ موجود لیڈی انسپکٹر کو خالدہ بیگم سے پوچھ گچھ کرنے کا کہتے خود سلیم صاحب سے پوچھتے کچھ پولیس والوں کو اُن کے گھر روانہ کیا تاکہ محلہ داروں سے واقعہ کے متعلق تحقیق کر سکیں اور خود اُن سے نمبر لیتے ملائکہ کہ گھر فون کرتے اُنہیں اُس کے ساتھ پیش آنے والے حادثہ کا بتاتے جلد از جلد ہسپتال پہنچنے کا آرڈر دیا تاکہ ساری بات کھل کر سامنے آسکے...                                                                        ...........دی جان نے رشیدہ کو بول کر نورکو اپنے کمرے میں بُلایا جو کچھ منٹ بعد ہچکچاتے ہوئے وہاں آئی جہاں زارون ابھی تک بیٹھا دی جان سے اُن کی شرط پر نظر ثانی کی درخواست کر رہا تھا۔۔۔۔”آؤ بیٹا یہاں میرے پاس بیٹھو“،اُس کے چہرے پر گھبراہٹ دیکھ کر ساجدہ بیگم نے ہاتھ آگے بڑھاتے خود ہی اپنے قریب آنے کا کہا۔۔۔۔”میں زارون کی دادی ہوں اور اب تمہاری بھی اس لیے تم بھی اب سے مجھے دی جان بولو گی جیسے زارون بولتا ہے“ ،اپنے بیگ سے کچھ پیسے نکال کر نور کے ہاتھ میں تھماتے اُنہوں نے جتنے خلوص اور نرمی سے سمجھایا نور کو انکار کرنا مناسب نہیں لگا۔۔۔۔”جی دی جان“،اثبات میں سر ہلاتے اُس نے ایک نظر اُن کے پرُنور چہرے کی جانب دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے کی نسبت اب کافی نرمی اور سکون تھا۔۔۔۔”زارون نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے اس لیے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ میں بالکل بھی اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی اولاد کی غلطی کو اپنے اور اُن کے لیے پوری زندگی کا عذاب بنا دیتے ہیں۔ ویسے بھی جو فیصلے جس طرح اللہ پاک نے لکھے ہیں وہ ویسے ہی ہونے ہوتے ہیں پر ہم انسان اپنی  انا کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہ سوچ لیتے ہیں کہ نہیں ہماری اولاد نے ہماری مرضی کے خلاف فیصلہ کیا ہے تو ہم اُنہیں کبھی معاف نہیں کریں گئے حتیٰ کہ جوڑے تو آسمان پر بنے ہیں اور ہو سکتا ہے جو ہم فیصلہ کرتے وہ ہمارے ساتھ ساتھ ہماری اولاد کے لیے بھی غلط ثابت ہوتا اس لیے جو ہوگیا اُسے بھول جاؤ اور ہمیشہ خوش رہو“،اُس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ساجدہ بیگم نے بہت پیار سے اُسے شرمندگی سے نکالا جس پر نور کا دل ایک دم سے بھرآیا کیونکہ آج تک ماں کا لمس تو اُس نے محسوس ہی نہٖیں کیا اور فریحہ بیگم نے بھی آج تک اُسے کبھی اپنے ساتھ نہیں لگایا ہمیشہ اُس نے عورت کا ایک ہی روپ دیکھا تھا جس میں وہ بہت ظالم تھیں پر آج ساجدہ بیگم کی باتوں اور پیار نے اُس کا یہ نظریہ غلط ثابت کر دیا تب ہی وہ جذبات میں آکر زارون کی پروا کیے بناء( جو تب سے اُن دونوں کی باتوں کے درمیان خاموش بیٹھا تھا) ساجدہ بیگم کے ساتھ لگتے رونے لگی تو وہ خود بھی بوکھلا کر اُسے چپ کرواتے سوالیہ نظروں سے زارون کی طرف دیکھنے لگی جس نے نفی میں سر ہلاتے کندھے اچکا دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملائکہ کہ گھر والوں کے آتے ہی انسپکٹر نے اُن سے پوچھ گچھ کی جو جوان بیٹی کی موت کا سُن کر ویسے ہی غم سے نڈھال ہو چکے تھے اور اب انسپکڑ کی باتیں اور سوال وجواب اُنہیں مزید اذیت دے رہے تھے تب ہی سلیم صاحب نے سکندر صاحب کو فون کیا تاکہ وہ اپنے کسی جان پہنچان والے سے بات کر کہ اس معاملے کو ختم کروائیں۔۔”ٹھیک ہے میں آتا ہوں، کس ہسپتال میں ہیں آپ لوگ؟؟“ سلیم صاحب کی مکمل بات سننے کے بعد اُنہوں نے ملائکہ کی موت پر اظہار افسوس کرتے اُن سے پوچھا تو سلیم صاحب نے اُنہیں ہسپتال کا نام بتاتے فون بند کیا اور جنید کے پاس آگئے جو تب ہی خاموش بیٹھا تمام لوگوں کے چہروں کو تک رہا تھا۔۔۔”جنید بیٹا خود کو سنبھالو اور اُٹھو میرے ساتھ دو دیکھو پولیس والے ملائکہ کی ڈیڈ باڈی نہیں دے رہے“ ،سلیم صاحب نے اُس کے قریب آتے اُسے مخاطب کیا جس کی نظروں میں ابھی تک ملائکہ کا جھلسا ہوا وجود گھوم رہا تھا۔۔۔”جنید۔۔۔؟؟“دوسری طرف سے کوئی جواب نہ پاکر سلیم صاحب نے اُسے ہلایا جو ایک نظر اُن کی طرف دیکھ کر پھر سے خاموشی سے سامنے دیوار کو دیکھنا لگا۔۔۔۔۔”اُففف میرے اللہ ہمیں اس مصیبت سے نکال اور میرے بیٹے کو صبر دے ،جنید کی حالت دیکھ کر سلیم صاحب نے ہاتھ اُٹھاتے دعا کی اور اپنے بوڑھے وجود کو پھر سے حوصلہ دیتے انسپکڑ کے پاس آئے جو ابھی تک ملائکہ کے والدین سے اُس کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔

قسط نمبر: 26

کچھ ہی دیر میں سکندر صاحب حارث کے ساتھ ہسپتال پہنچے اور اپنی جان پہنچان کے کچھ لوگوں سے بات کرتے پولیس کے ہاتھوں سے اُس معاملے کو رفع دفع کروایا اور ملائکہ کی ڈیڈ باڈی لے کر گھر پہنچے جہاں تمام محلے والے(جو پہلے ہی پولیس والوں سے ملائکہ کی موت کا سُن چکے تھے )وہاں موجود تھے۔ سکندر صاحب نے کال کر کہ فریحہ بیگم کو بھی بتا دیا تھا تب ہی وہ بھی کچھ دیر میں وہاں پہنچ گئیں جہاں ایک قیامت کا سماں تھا۔ ملائکہ کی ماں اور بہنیں رو رو کے بے حال ہو چکی تھیں پر خالدہ بیگم کی آنکھ سے ایک آنسو نہیں گرا وہ بہت پرسکون انداز میں تمام مہمانوں سے مل رہی تھیں اور ساتھ اس حادثہ کو قسمت کا لکھا بول کر سب کو واقعہ کی تمام تفصیل سے آگاہ کرتے ایک نظر جنید پر بھی ڈال لے تیں جو تب سے اب تک کسی بُت کی ماند خاموش بیٹھا لوگوں کی تسلیاں اور باتیں سُن رہا تھا۔ملائکہ کی حالت کیونکہ زیادہ دیر رکھنے والی نہیں تھی اور پورا وجود جلنے کی وجہ سے چہرہ بھی کسی کو دیکھانے کے قابل نہیں رہا تھا اسی لیے سلیم صاحب نے حارث اور حاشر کو بول کر ملائکہ کو اُس کی آخری منزل تک پہنچانے کے تمام انتظامات مکمل کروائے اور کفن ودفن کے بعد ملائکہ کے گھر والوں کوتڑپتا چھوڑ کر جنازہ اُٹھائے قبرستان کی طرف بڑھے جہاں پہنچ کر جنید نے سارے وقت میں پہلی بار ملائکہ کو لحد میں اُترتا دیکھ اپنی خاموشی توڑی اور اُسے پکارتے ہوئے آگے بڑھاجوکافی دیر پہلے ہی اُس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دی جان کے آنے سے جہاں زارون کو نور کی طرف سے تسلی ہو گئی تھی کہ اب وہ گھر میں اکیلی نہیں ہے وہیں نور بھی گھر میں کسی اور فرد کے اضافہ سے کافی خوش تھی۔ وہ سارا وقت اُن سے باتوں میں مصروف، کبھی حارث کے بارے میں بتاتے خوش ہو جاتی تو کبھی سکندر صاحب کے ذکر پر افسردہ۔ دی جان کی نرم طبیعت کی وجہ سے وہ ایک ہی ہفتے میں اُن سے کافی حد تک  گھل مل گئی تھی،  رات بھی اُن کی پابندی کے مطابق وہ اُن کے ساتھ سوتی جس پر زارون نے کافی بار اعتراض اُٹھایا پر نور تو پہلے ہی اُس کے معاملے میں کافی لاپروا اور بے فکر تھی، اوپر سے باقی رہی سہی کسر دی جان نے اُسے اُس سے دور کر کہ نکال دی پر آج آفس سے آتے خود کو مسلسل ایک ہفتے سے اگنور ہوتا دیکھ اُس کی ہمت جواب دے چکی تھی تب ہی اُس نے دی جان سے بات کرنے کا سوچتے اُن کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔۔”دی جان مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔۔۔“ کمرے کے دروازے پر دستک دیتے وہ اندر آیا تو نور نے اُس کو دیکھتے ہی کمبل چہرے پر لے لیا جس پر زارون نے دل میں بدلہ لینے کا ارادہ کرتے دی جان کو اپنے آنے کا مقصد بتایا ۔۔۔۔۔ ”ہاں۔۔کرو بات۔۔۔“ اپنے قریب بیٹھنے کی جگہ دیتے اُنہوں نے اجازت دی تو زارون نے اپنی بات کے لیے مناسب الفاظ تلاش کرتے ایک نظر رشیدہ کو دیکھا جو دی جان کے ساتھ ہی سنگل بیڈ پر لیٹی اُن سے زیادہ اُس کے بولنے کی منتظر لگ رہی تھی۔۔۔”وہ میں نے کہنا تھا کہ،بلکہ پوچھنا تھا کہ؟ آپ کو یہاں کسی چیز کی تنگی تو نہیں؟مطلب آپ تینوں ایک کمرے میں تنگ تو نہیں ہوتیں۔۔۔؟“زارون نے بات شروع کی تو اُسے سمجھ نہیں آٓیا کہ وہ کیا بولے تب ہی بات بدلتے اُس نے دی جان کو اپنی مسکراہٹ چھپاتا دیکھ شرمندگی سے سر جھکایا۔۔۔”نہیں ۔۔۔ ہمیں یہاں کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی کوئی تنگی، پر لگتا ہے تمہیں کوئی مسئلہ ہے؟“ اُس کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ کر ساجدہ بیگم نے بامشکل اپنی مسکراہٹ چھپاتے پوچھا۔۔”نہی۔۔یں مجھے کیا مسئلہ ہو گا میں تو بس آپ کے لیے بول رہا تھا۔۔۔۔“ اپنی بوکھلاہٹ پر قابو پاتے اُس نے نفی میں سرہلایا اور ایک ضروری کام کا بولتے اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی جنید نہ تو ملائکہ کی موت کا یقین کر پایا اور نہ ہی خود کو سنبھال سکا جس کی وجہ سے نہ صرف سلیم صاحب  بلکہ خالدہ بیگم بھی کافی پریشان تھیں تب ہی اُنہوں نے جنید کو سمجھانے کی کوشش کی تاکہ وہ اس حقیقت کو قبول کرتے زندگی کی طرف لوٹ آئے پر جنید کے زرد پڑتے رنگ اور آنکھوں کے گرد گہرے حلقوں نے اُنہیں اپنی خاموشی توڑنے پر مجبور کیا اور وہ اپنے کمرے میں آتے ہی سلیم صاحب پر برس پڑیں جو ابھی ابھی دکان سے واپس آئے تھے۔”سلیم میں آپ سے کتنے دنوں سے کہہ رہی ہوں کہ جنید کو سمجھائیں کہ اُس لڑکی کا غم منانا بند کرے اور کمرے سے باہر آئے تاکہ میرے دل کو تھوڑی تسلی ہوکہ وہ ٹھیک ہے۔۔“ خالدہ بیگم نے بیڈ پر اُن کے قریب بیٹھتے کہا۔”ہاں، میں تو روز سمجھاتا ہوں پر شاید ابھی اُس کا ذہن ملائکہ کی موت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔۔۔۔“ اپنی عینک اُتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھتے اُنہوں نے خالدہ بیگم کی بات کو ایک مامتا کی تڑپ سمجھ کر نرمی سے جواب دیا۔”تو کیا ساری زندگی اُس کم ذات کا سوگ مناتے خود کو تکلیف دیتا رہے گا۔۔۔؟“ اُن کی بات سنتے ہی خالدہ بیگم نے کوئی بھی لحاظ کیے بغیر غصے سے کہا۔”خالدہ شرم کرو اب تو وہ بیچاری مر چکی ہے پر تم اب بھی اُس کے لیے ایسے الفاظ استعمال کر رہی ہو۔۔۔۔“ سلیم صاحب نے اُن کی بات سنتے تھوڑی شرم دلانا چاہی مگر خالدہ بیگم نے اُن کی کسی بات کا اثر لیے بغیر ملائکہ کو ایک بار پھر سے کوسنا شروع کر دیا۔”تو کیا کہوں؟ مر گئی ہے پر میرے بیٹے کا پیچھا ابھی تک نہیں چھوڑا، پتا نہیں کیا گھول کے پلاتی رہی ہے جو میرا بیٹا یوں اُس کے لیے پاگل ہو رہا ہے جیسے پتا نہیں کونسی کوئی حور پری تھی۔۔۔“ کمر پر ہاتھ رکھتے اُنہوں نے ماتھے پر بل ڈالتے حقارت سے اپنی بات مکمل کی جس پر سلیم صاحب نے کچھ کہنے کی بجائے خاموشی سے اُن کے ایک دم سے بدلتے رویے کو محسوس کیا۔”حور پری نہیں تھی وہ... لیکن جنید کو محبت تھی اُس سے اور پتا ہے زندگی میں سب سے مشکل کام کیا ہے؟“ سلیم صاحب نے اُن کے سامنے آتے سوالیہ نظروں سے دیکھتے خود ہی جواب دیا۔”کسی ایسے انسان کی دوری برداشت کرنا جسے آپ نے زندگی میں سب سے زیادہ چاہا ہو شدت سے اُس کی خواہش کی ہو مگر وہ انسان کچھ دیر کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے آپ کی نظروں کے ساتھ ساتھ اس دنیا سے بھی دور ہو جائے نا تو ایک نہ بیان ہونے والی تکلیف آپ کی زندگی کا احاطہ کر لیتی ہے پر تم یہ سب  کبھی نہیں سمجھ پاؤگی کیونکہ مجھ سے تو دور کی بات کبھی تم نے اپنی اولاد تک سے محبت نہیں کی۔۔“ بڑی نرمی سے اُنہوں نے خالدہ بیگم کو آئینہ دکھایا اور مزید کچھ سنے یا کہے بغیر جنید کے کمرے کی جانب بڑھے۔”ہوننہہ یہاں تو ہر کوئی میرا استاد بنا رہتا ہے بس کوئی بات کرنے کی دیر ہوتی ہے سب شروع ہو جاتے ہیں۔۔۔“ کندھے اچکاتے اُنہوں نے سلیم صاحب کی بات کو دوہرایا اور تمام باتوں کو دفع کرتے ٹی وی لگاتے ڈرامہ دیکھنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔نور کے زخم اب بالکل ٹھیک ہو چکے تھے اور اُس کے پیپر بھی قریب تھے(جس کے بارے میں اُسے خدیجہ نے بتایا تھا) تب ہی اُس نے یونیورسٹی جانے کا فیصلہ کیا اور دی جان سے اجازت لیتے اُس کے کمرے میں آئی تاکہ اُسے صبح یونیورسٹی چھوڑنے کا بول سکے۔۔۔”آجائیں ۔۔۔“ دستک کی آواز پر زارون نے لیپ ٹاپ کی سکرین سے نظریں ہٹاکر دروازے کی جانب دیکھا۔۔۔۔”تم مصروف تو نہیں؟“ اندر داخل ہوتے نور نے اُس کے سامنے لیپ ٹاپ کھلا دیکھ کر سوال کیا۔۔۔۔”نہیں ،آجاؤ تم۔۔۔۔“ جلدی سے لیپ ٹاپ کی سکرین پر ہاتھ مارکر بند کرتے اُس نے نور کو خوشگوار حیرت سے دیکھا۔۔۔۔”وہ میں نے ایک بات کرنی تھی اس لیے آئی ہوں۔۔۔“ اُس کے چہرے کی چمک پر نور نے جلدی سے وضاحت دی اور سامنے موجود صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔”ہاں بولو۔۔۔“،اُس کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد زارون نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلتے کلاک کی جانب دیکھا جہاں رات کے دس بج رہے تھے۔۔۔۔۔”وہ میرا پیپر ہے جمعہ کو، میری دوست ہے نا خدیجہ اُس نے بتایا تو میں سوچ رہی تھی کل یونیورسٹی چلی جاؤں، نوٹس وغیرہ لے لوں گی ساتھ لیکچر  بھی نوٹ کر لوں گی تاکہ پھر سکون سے گھر بیٹھ کر پیپرز کی تیاری کر سکوں۔۔۔“ نور نے پوری تفصیل سے اُسے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔۔۔”تو چلی جاؤ بلکہ میں صبح جاتے ہوئے تمہیں چھوڑ دوں گا اور مجھے کال کر دینا واپسی پہ بھی لے لوں گا۔۔۔“ اُس کی بات سنتے زارون نے نرمی سے جواب دیتے ایک سیکنڈ میں اُس کا مسئلہ حل کیا۔۔۔۔”پر مجھے ڈر لگتا ہے کہ وہ وہاں بھی آگیا تو؟“ نور نے اپنی ہچکچاہٹ کی اصل وجہ بتاتے نظر اُٹھا کر اُسے دیکھا جو اب اُٹھ کر اُس کے قریب آچکا تھا۔۔۔”کیوں ڈر لگ رہا ہے اور وہ کیسے وہاں آئے گا؟کیا تمہیں لگتا ہے کے وہ اتنا طاقتور تھا کہ میرے ہوتے ہوئے دوبارہ سے تمہیں تکلیف پہنچا سکے۔۔۔۔؟“ اُس کے سامنے زمین پر بیٹھتے زارون نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا جو اُس کے دیکھتے ہی نظریں چُرا گئی۔۔۔۔۔”پتا نہیں پر مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔“،آنکھوں میں نمی لیے اُس نے نفی میں سر ہلایا تو زارون نے لمبی سانس لیتے خود کو پرسکون کیا اوراُٹھ کر صوفے پر اُس کے قریب بیٹھا جو اب چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رونے لگی تھی۔۔۔۔”ٹھیک ہے اگر تمہیں ڈر لگتا ہے تو میں کل آفس نہیں جاؤں گا بلکہ تمہارے ساتھ یونیورسٹی جاؤں گا اور جب تک تمہارا کام مکمل نہیں ہو جاتا تمہارے ساتھ وہیں رہوں گا۔۔۔“ زارون نے اُس کا ہاتھ پکڑتے یقین دلایا تو نور نے کوئی بھی جواب دینے کی بجائے اُس کی بات پر غور کرتے رونا دھونا چھوڑتے حیرت اور بے یقینی سے اُس کی طرف دیکھا۔۔۔۔”مطلب تم سارا وقت میرے ساتھ رہو گے۔۔؟“ تصدیق کے لیے نور نے اُس کی بات دوہرائی۔۔۔۔”ہاں ساتھ رہوں گا بلکہ تمہاری نوٹس وغیرہ مکمل کرنے میں مدد بھی کر دوں گا۔۔۔“ زارون نے ایک عزم سے کہا تو نور نے اُس کی بات پر مسکراتے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ کے نیچے سے نکالا۔۔۔”لکھائی دیکھی ہے اپنی؟توبہ اتنی گندی ہے کہ میں نے اُس دن وہ چٹ دس بار پڑھی تب جا کر سمجھ آئی مجھے۔۔۔۔۔۔“ اُس کی بات سنتے ہی نور نے تیوری چڑھاتے اُس کے منہ پر ہی اُس کی بے عزتی کی۔۔۔”ہوننہ اب اتنی بھی بری نہیں جنتی تم نے بے عزتی کر دی ہے میری۔۔۔۔“ خفگی سے کہتے زارون نے اُس کا ہاتھ دوبارہ سے پکڑتے اپنے قریب کیا۔۔۔”کیا کر رہے ہو؟چھوڑو مجھے۔۔۔“ اُسے فری ہوتا دیکھ نور نے جلدی سے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھتے پیچھے کی جانب دھکیلا اور اُٹھ کر جانے لگی پر اُس سے پہلے ہی زارون نے اُسے سنبھالنے کا موقع دیے بغیر ہی ہاتھ پکڑ کر جھٹکا دیا تو وہ سیدھی اُس کے اوپر آگری۔۔۔۔”کیا بدتمیزی ہے یہ؟“ شرم سے لال ہوتے اُس نے غصے سے سر اُٹھاتے دروازے کی طرف دیکھا جو کھلا تھا۔۔۔”وہی جو تم پچھلے دس دن سے کر رہی ہو۔۔۔“،اُسے اپنے حصار میں لیتے زارون نے جتنی نرمی سے جواب دیا نور نے اُتنے ہی غصے سے اُسے گھورا۔۔۔”پلیز چھوڑو مجھے دی جان کیا سوچیں گی کہ اتنی دیر سے گئی ہے اور ابھی تک آئی کیوں نہیں۔۔۔“ نور نے نظریں دروازے پر رکھتے زارون کی منت کی۔۔۔۔”تو سوچ لینے دو اور چپ کر کہ لیٹی رہو۔۔۔اتنے دن سے ایسے مجھ سے بھاگ رہی ہوجیسے میرے ساتھ کوئی رشتہ ہی نہ ہو تمہارا۔۔۔“ بال اُس کے چہرے سے ہٹاتے زارون نے اُس کی مذحمت پر آنکھیں نکالیں اور اُس کی گردن پر جھکنے لگا کہ نور نے اُس کا ارادہ بھانپتے اُس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔”پلیز ۔۔۔۔ میں کہہ رہی ہوں نا، مجھے چھوڑ دو، ورنہ میں زور سے چیخوں گی تاکہ دی جان خود ہی یہاں آجاٸیں ۔“ ،نور نے اپنا ہاتھ ہٹاتے اُسے  دھمکایا جس کا کوئی بھی اثر لیے بغیر زارون نے اپنی گرفت مزید تنگ کی ۔۔۔۔”تو چیخ لو۔۔۔“ آنکھوں میں شرارت لیے اُس نے جتنے سکون سے کہا نور نے اُتنی ہی بے چینی سے دروازے کو دیکھا۔۔۔”پلیز زارون رشیدہ آجائے گی۔۔۔۔“ نور نے غصے سے بات بنتی نہ دیکھ نرمی سے کہا تو زارون نے جواب دینے کی بجائے اُس کے سر پر ہاتھ رکھتے نیچے جھکتے اُسکے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں قید کیا تو نور نے اُس کی شرٹ کو مضبوطی سے اپنی مٹھی میں دبوچے آنکھیں بند کیں۔۔۔۔کچھ سیکنڈز کی خاموشی کے بعد زارون نے اپنے چہرے پر نمی محسوس کرتے اپنی گرفت کمزور کی۔۔۔”کیا ہوا؟“ اُس کے گال پر آنسوؤں کی نمی دیکھ کر زارون نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔”کچھ نہیں۔۔۔“،نفی میں سر ہلاتے اُس نے آنکھیں کھولیں تو زارون نے  اُس کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے سمجھا کہ وہ اُس کی زبردستی پر رو رہی ہے تب ہی اُسے اپنے حصار سے نکالتے صوفے پر بیٹھایا۔۔۔۔”سوری وہ بس میں۔۔۔۔۔۔“ زارون نے شرمندگی سے سر جھکاتے وضاحت دینا چاہی پر اُس سے پہلے ہی نور اُٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔۔۔”اُففف پتا نہیں کیا ہو جاتا ہے مجھے۔۔“اُس کے اس طرح خاموشی سے جانے پر زارون نے خود کو کوسا اور صبح نور کو منانے کا ارادہ کرتے اُٹھ کر لیپ ٹاپ آن کیا تاکہ اپنا کام مکمل کر سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”حارث۔۔۔؟“ سکندر صاحب جو لاؤنج میں اُسی کے انتظار میں بیٹھے تھے اُنہوں نے اُس بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتا دیکھ کر آواز دی۔۔۔”السلام علیکم۔۔۔ ابو آپ ابھی سوئے نہیں؟طبیعت ٹھیک ہے آپ کی۔۔؟“ سکندر صاحب کی آواز پر اُس کے سڑھیوں کی جانب بڑھتے قدم رکے اور اُس نے اُن کی جانب متوجہ ہوتے حیرت سے سوال کیا۔۔۔”ہاں طبیعت ٹھیک ہے میری بس تمہارا انتظار کر رہا تھا، یہاں آؤ مجھے کچھ بات کرنی ہے۔۔“ صوفے پر بیٹھتے اُنہوں نے اُسے بھی اپنے سامنے پڑے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔”جی بولیں۔۔۔“ہاتھ میں پکڑا موبائل ٹیبل پر رکھتے وہ اُن کے قریب ہی بیٹھ گیا۔۔۔۔”یہ آج کل تم کچھ زیادہ ہی لیٹ نہیں آنے لگ گئے اور کون سا ایسا کام ہے جو صبح سات بجے شروع ہو کر رات بارہ ایک بجے تک ختم ہوتا ہے۔۔؟“ سکندر صاحب نے اُسے منتظر پا کر بات کو گھومانے کی بجائے اصل بات پر آتے پوچھا۔۔۔۔”آفس میں ہی کام ہے کچھ نئے پراجیکٹ شروع ہوئے ہیں جن کو میں ہی ڈیل کر رہا ہوں اس لیے دیر ہو جاتی ہے ۔۔۔“ صفائی سے جھوٹ بولتے اُس نے ایک نظر فریحہ بیگم کے کمرے کے دروازے کی جانب دیکھا جو بند تھا۔۔۔”ہمم آئندہ جو بھی کام ہو مجھے تم ٹھیک دس بجے گھر پر موجود چاہیے ہو اور میں نے رخصتی کی ڈیٹ فکس کر دی ہے۔ اگلی اتوار کو کچھ مہمانوں کی موجودگی میں سارہ کو تمہارے ساتھ اوپر شفٹ کر دیا جائے گا اس لیے اپنی روٹین ٹھیک کرو تاکہ سارہ کو تم سے کوئی شکایت نہ ہو۔۔۔ باقی میں جو فیصلہ کر چکا ہوں وہ تبدیل نہیں ہو گا اس لیے اسے میرا حکم سمجھ لو یا درخواست، پر اب مجھ میں کسی قسم کی کوئی پریشانی برادشت کرنے کی ہمت نہیں ہے تو تمہارے لیے بہتر ہو گا کہ اب اپنی نئی زندگی کا آغاز پچھلی تمام باتوں کو بھول کر کرو۔۔۔“ حارث کو کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتا دیکھ سکندر صاحب نے اشارہ سے منع کرتے اپنی بات ختم کی اُسے اپنی تمام تیاری مکمل رکھنے کا کہتے اُس کی کوئی بھی بات سنے بغیر کمرے میں چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلی صبح زارون اپنے وعدہ کے مطابق نور کے ساتھ ہی یونیورسٹی گیا جہاں اُن کا سب سے پہلا سامنا خدیجہ سے ہی ہوا۔۔۔”السلام وعلیکم۔۔۔“ نور نے اُس کے قریب جاتے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا جو کسی لڑکی سے کوئی بات کرنے میں مصروف تھی۔۔۔۔”اوووووو شکر ہے نور مجھےتمہاری شکل دیکھنے کو ملی ورنہ تم تو ایسے غائب ہوئی جیسے اس دنیا میں موجود ہی نہ ہو“،اُس کےسلام کا جواب دیتے وہ اپنی ہی دھن میں بولتے اُس کے گلے لگی تو زارون نے اُس بھورے بالوں والی لڑکی کو غصے سے گھورا۔۔۔۔”یہ کون ہے ؟؟“اُس پر نظر پڑتے ہی خدیجہ نے نور سے الگ ہوتے سوال کیا۔۔۔۔۔”یہ زارون ہیں میرے شوہر اور زارون یہ خدیجہ ہے میری بیسٹ فرینڈ۔۔“ نور نے اُن دونوں کا تعارف ایک دوسرے سے کروایا تو اُس نے ایک بار پھر سے اُس لڑکی کا تفصیلی جا ئزہ لیا جو  ٹخنوں سے اونچی جینز کے ساتھ بامشکل پیٹ تک آتی شرٹ اور دوپٹے سے بے نیاز، میک اپ سے اٹے چہرے پر بے فکر سی مسکراہٹ سجائے، اُسے کہیں سے بھی نور کی چوائس نہیں لگی۔۔۔۔”اوو یہ تو بہت ہینڈسم ہیں میری سوچ سے بھی زیادہ“،ایک بے باک سی نظر زارون پر ڈالتے جو اُس کے دیکھتے ہی اپنی نظروں کا زاویہ بدل کر نور کو دیکھنے لگا جو گاؤن کے ساتھ اچھے سے حجاب کیے چہرے پر معصومیت لیے خدیجہ کی بات پر نرمی سے مسکراتے اثبات میں سر ہلا گئی۔۔۔”ہمم شکریہ، مگر پلیز بُرا مت منائیے گا کیونکہ مجھے آپ کسی بھی اینگل سے اچھی نہیں لگی اور نہ ہی مجھے آپ سے مل کر کوئی خاص خوشی ہوئی اس لیے میں آپ کی کوئی تعریف نہیں کر سکتا“ ،زارون نے نور کے گھورنے کی پروا کیے بناء ہی لاپروائی سے اپنی بات مکمل کی تو خدیجہ نے اُس کے منہ پھٹ ہونے کے ساتھ ساتھ بدتمیز ہونے پر بھی اپنی مسکراہٹ سُکیڑے نور کو دیکھا جو زارون کو چپ رہنے کا اشارہ کر رہی تھی۔۔۔”زارون کیا بول رہے ہو تم“ ،نور نے اُسے آنکھیں نکالتے اُس کے مزید کچھ بولنے سے پہلے ہی ٹوکا تو خدیجہ نے اُسے اشارہ سے چپ کرواتے دو قدم آگے بڑھائے اور پھر سے چہرے پر مسکراہٹ سجاتے اُسے دیکھنے لگی جو ابھی بھی آنکھوں میں ناپسندیدگی لیے اُسے گھوررہا تھا۔۔۔۔”خیر ہے بولنے دو خوبصورت لوگوں پر اسی طرح کا ایٹیٹیوڈ اچھا لگتا ہے“ ،اُس کی آنکھوں میں دیکھتے وہ اک ادا سے کہتے اُس کے مزید قریب ہوئی تو زارون نے خونخوار نظروں سے اُسے دیکھتے دو قدم پیچھے کی جانب بڑھائے۔۔۔۔۔۔۔۔”اپنی حد میں رہو“،انگلی اُٹھا کر تنبیہ کرتے اُس نے نور کا ہاتھ پکڑا (جو خود خدیجہ کی حرکت پر شرمندہ تھی ) اور یونیورسٹی کے دوسرے حصے کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔”زین ٹھیک کہتا ہے بہت دماغ خراب ہے اس شخص کا“ ،اُس کی پشت کو گھورتے خدیجہ نے اپنی بے عزتی پر کُڑتے ہوئے خود کلامی کی اور اپنا موبائل نکال کر زین کو کال کرنے لگی تاکہ اُسے زارون کے یونیورسٹی آنے کے بارے میں بتا سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر: 27

”کیا مسئلہ ہے تمہیں؟؟ کیوں تم نے میری دوست کی انسلٹ کی؟؟ اگر تمہیں وہ اچھی نہیں لگی تھی تب بھی اُس کے سامنے یہ سب بولنے کی کیا ضرورت تھی؟؟“نور نے تھوڑی دور جاتے ہی زارون کا ہاتھ جھٹکتے غصے سے کہا۔۔۔۔”میں کسی کا اُدھار نہیں رکھتا اور اُس لڑکی نے جس طرح مجھ سے بات کی شکر کرو میں نے منہ سے ہی جواب دیا ورنہ ایسے لوگوں کو تو میں جواب دینا دور کی بات، دیکھنا تک پسند نہیں کرتا اور تم؟؟ پاگل ہو کیا؟؟کیا ضرورت ہے ایسی فضول لڑکی کو دوست بنانے کی؟؟؟زارون نے کسی کی پروا کیے بناء اُس سے بھی زیادہ غصے سے بات کی تو نور نے پاس سے گزرتے اسٹوڈنٹس کو اپنی طرف متوجہ پاکر جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کی اور اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے اپنے قدم لائبریری کی جانب بڑھائے۔۔۔ ”پتا نہیں کیا سمجھتی ہے خود کو،سڑی ہوئی چڑیل کہیں کی“ اُس کی پشت کو دیکھتے زارون نے خود کلامی کی اور اُس کے پیچھے ہی لائبریری کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔”میرے پیچھے کیوں آئے ہو؟؟“،لائبریری میں داخل ہوتے ہی نور نے اُسے اپنے پیچھے ہی اندر داخل ہوتا دیکھ کر ٹوکا۔۔۔۔”ہاں تو کہاں جاؤں میں؟؟ یہاں کونسی میری ماسی بیٹھی ہے جس کے پیچھے جاناتھا مجھے؟؟اور تم اتنا غصہ کیوں کر رہی ہو؟؟“ معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑتے زارون نے آنکھیں جھپکائیں تو نور نے خونخوار نظروں سے اُسے گھورتے پاؤں پٹختے ایک خالی ٹیبل کا رخ کیا۔۔۔۔۔”ہوننہ بہت نک چڑھی ہے یہ لڑکی“،ایک نظر وہاں بیٹھے لوگوں پہ ڈالتے وہ منہ میں بڑبڑایا اور اُس ٹیبل کی جانب بڑھا جہاں ابھی ابھی نور نے جا کر اپنا بیگ پٹخاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ”سر آپ کا کام تو میں نے آج ہی کر دینا تھا پر وہ زارون کسی سائے کی طرح نور کے ساتھ ہے“،خدیجہ نے زین کے فون ریسیو کرتے ہی اُسے زارون کے یونیورسٹی آنے کے بارے میں بتاتے باقی بھی تمام تفصیل سے آگاہ کیا۔۔۔”ہمم مطلب آج بھی نور میرے ہاتھ نہیں آئے گی اور یہ زارون ساتھ کیوں آیا ہے تم نے پوچھا نہیں؟؟“خدیجہ کی تمام بات سننے کے بعد زین نے پوچھا۔۔۔”نہیں سر مجھے لگتا ہے زارون کو شک ہو گیا ہے تب ہی وہ اُس کے ساتھ یہاں آیا ہے“ ،لائبریری کی وجہ سے آواز نیچی رکھتے اُس نے ریک سے ایک کتاب اُٹھاتے اُس نے اندازہ لگایا اور سامنے ٹیبل کی طرف دیکھا جہاں اب وہ دونوں بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے۔۔۔’ہممم ٹھیک ہے، مجھے بھی یہی لگ رہا ہے اور زارون بہت شاطر انسان ہے اس لیے تم تھوڑی احتیاط کرنا تاکہ اُسے تم پر کسی قسم کا کوئی شک نہ ہو“،اُسے ہدایت دیتے زین نے اُسے مزید کچھ باتیں سمجھائیں اور پھر سے محتاط رہنے کا کہہ کے کال بند کی۔۔۔”اب میں دیکھتی ہوں یہ نور مجھ سے کیسے بچتی ہے“ ،موبائیل کی سکرین پر ہاتھ مارتے اُس نے اُسے آف کیا اور چہرے پر مسکراہٹ سجاتے اُس ٹیبل کی جانب بڑھی جہاں وہ دونوں بیٹھے تھے۔۔۔۔”آؤ خدیجہ بیٹھو“،اُسے دیکھتے ہی نور نے زارون کو نظروں ہی نظروں میں خاموش رہنے کی التجا کی تو وہ کچھ بولتے بولتے رُکا۔۔۔”نہیں میں بیٹھنے نہیں آئی بس یہ تمہیں لیکچرز دینے آئی تھی“،اپنا رجسٹر اُس کی جانب بڑھاتے اُس کی نظریں زارون پر ہی تھیں جو سر جھکائے رجسٹر پر کچھ بنانے میں مصروف تھا۔۔۔”شکریہ پر میں نے نمرہ سے لے لیے ہیں سب نوٹس،وہ یہاں لائبریری میں ہی بیٹھی تھی تو میں نے اُس سے لے لیے “،نور نے بتانے کے ساتھ ہی وضاحت دی اور اصرار کرتے اُسے اپنے ساتھ والی چیئر پر بیٹھا لیا۔۔۔”لاؤ میں بھی کچھ مدد کر دیتی ہوں، ویسے تم اتنے دن یونیورسٹی کیوں نہیں آئیں؟؟طبیعت ٹھیک تھی؟؟“ خدیجہ نے اُس کے ساتھ بیٹھتے بڑی ہوشیاری سے اُسے کُریدا۔۔۔”ہاں بس پاؤں میں کا نچ لگ تھا، زخم کافی گہرا تھا تو چلا نہیں جا رہا تھا مجھ سے اور کچھ مہمان بھی آئے ہیں اسی وجہ سے زیادہ چھٹیاں ہو گئیں“،نور نے زارون کی بات پر عمل کرتے خدیجہ سے بھی جھوٹ بولا جیسے اُس نے اپنی چوٹ کے متعلق دی جان سے بولا تھا (کہ اُس کے پاؤں میں ٹوٹا ہوا کانچ لگ گیا تھا جس کی وجہ سے پاؤں پہ زخم ہوا اور بازؤ کا زخم تو ویسے ہی اُس کی آستین میں چھپ جاتا تھا تو اُس کے متعلق اُسے کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں پڑی)۔۔۔۔”اچھا، خیال رکھا کرو یار اپنا اور دھیان سے کام کیا کرو“،خدیجہ نے اُس کی بات سنتے ہی اپنے لہجے میں نرمی سموتے سمجھایا تو نور نے اثبات میں سر ہلایا اور رجسٹر میں سے ایک لیکچر نکال کر اُس سے اُس کے متعلق پوچھنے لگی تو زارون نے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔”مجھے بتا دو کون کون سی چیزیں  فوٹوکاپی کروانی ہے میں جب تک کروا لیتا ہوں“ ،اُن دونوں کو مصروف دیکھ کر زارون نے کہا تو نور نے خدیجہ سے پوچھتے زارون کو کچھ نوٹس اور لیکچرز تھمائے تو وہ اُس سے شاپ کا راستہ پوچھتے لائبریری سے باہر نکل گیا۔۔۔”سوری یار زارون بس کبھی کبھی تھوڑا روڈ بیہیو کر جاتا ہے“ ،اُس کے جاتے ہی نور نے خدیجہ سے کہا جو تب سے اُسے نارمل طریقے سے سب سمجھا رہی تھی۔۔۔۔”ہمم خیر ہے، کوئی بات نہیں مجھے بُرا نہیں لگا ویسے بھی تم نے جو کچھ مجھے اُس کے متعلق بتایا تھا مجھے امید بھی یہی تھی کہ وہ اسی قسم کی کوئی بات کرے گا“،خدیجہ نے اپنے غصے کو ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ لہجے کو نارمل رکھتے نور کو شرمندگی سے نکلا جو بار بار زارون کی طرف سے اُس سے معذرت کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سارا دن اُس کے نوٹس فوٹوکاپی کرواتے اور کچھ کتابیں ایشو کروانے میں شام کے پانچ بج چکے تھے تب ہی زارون  نے بھوک کا احساس ہونے پراُسے کینٹن چلنے کو کہا جو کافی دیر سے خدیجہ سے لیکچرز سمجھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔”ہاں، ٹھیک ہے  چلتے ہیں مجھے بھی کافی بھوک لگی ہے“،اُس کی بات سنتے ہی نور نے خدیجہ کو بھی پیشکش کی جو زارون کو کچھ خاص پسند نہیں آئی۔۔۔ ”نہیں تم لوگ جاؤ میں بس گھر کے لیے نکلوں گی کافی ٹائم ہو گیا ہے“،کافی دیر سے وہ زارون کے سامنے اچھا بننے کا ناٹک کر کر کے تھک چکی تھی تب ہی اپنی گھڑی پر وقت دیکھتے اُس نے زارون کے کچھ کہنے سے پہلے ہی انکار کر دیا پر نور نے اُس کی کوئی بھی بات سنے بغیر اُسے زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹا۔۔۔۔”نور میں کہہ رہی ہوں نا مجھے بھوک نہیں ہے تم لوگ جاؤ“ ،خدیجہ نے اپنے آگے چلتے شخص  کے چہرے پراکتاہٹ دیکھ کر ایک بار پھر سے منع کیا تو اب کی بار زارون نے رک کر اُن دونوں کو دیکھا جو کافی دیر سے ایک ہی بات پر بحث کر رہی تھیں۔۔۔”نور کیا مسئلہ ہے تمہیں ؟؟جب وہ کہہ رہی ہے کہ اُسے بھوک نہیں تو کیوں زبردستی کر رہی ہو؟؟“ایک نظر خدیجہ کے چہرے کی طرف دیکھتے (جس پر میک اپ کی تہہ زارون کو کافی دیر سے کوفت میں مبتلا کر رہی تھی )اُس نے نور کو ٹوکا جو کافی دیر سے اُس کی منتیں کر رہی تھی۔۔۔۔۔”زارون پلیز تم پہلے ہی میری دوست کی کافی انسلٹ کر چکے ہو پر اب تم نے ایک لفظ بھی کہا تو میں برادشت نہیں کروں گی اس لیے اگر تمہیں کوئی مسئلہ ہے خدیجہ کے آنے پر تو تم اکیلے ہی چلے جاؤ“،زارون کی بات سنتے ہی خدیجہ کے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھ کر نور نے غصے سے کہا اورخدیجہ کا ہاتھ پکڑتے اُس کہ انکار کرنے کے باوجود بھی زارون کو وہیں کھڑا چھوڑ کر آگے نکل گئی۔۔۔۔”اس لڑکی کا کوئی تو علاج کرنا پڑے گا مجھے“ ،اُن دونوں کو سامنے کینٹن میں داخل ہوتا دیکھ کر زارون نے سوچا اورنور کی حرکت پر غصے سے لال ہوتے وہیں لان میں موجود چیئر پر بیٹھ کر اُس کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلیم صاحب کے سمجھانے پر جنید آج کمرے سے باہر آیا تو خالدہ بیگم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔۔۔۔۔”شکر ہے اللہ کا کہ تمہیں ہم پر ترس آیا“،خالدہ بیگم نے اُسے دیکھتے ہی کہا اور اُٹھ کر اُس کے قریب آئیں جو کچھ دنوں میں کافی کمزور ہو گیا تھا۔۔۔۔۔”طبیعت ٹھیک ہے؟؟اُسے خاموشی سے اپنی طرف دیکھتا پا کر خالدہ بیگم نے آہستگی سے اُس کی پیشانی سے بال ہٹائے۔۔۔”جی ٹھیک ہوں بس سر میں درد ہے چائے بنا دیں“،آگے بڑھ کر صوفے پر بیٹھتے اُس نے کہا تو خالدہ بیگم پانچ منٹ میں بنا کر لانے کا کہتے جلدی سے کچن کی جانب بڑھیں اور وہ وہیں بیٹھ کر لاؤنج میں پڑی چیزوں کو دیکھنے لگا جو ملائکہ نے اپنے ہاتھوں سے سیٹ کی تھیں۔۔۔۔۔”پتا نہیں تمہیں کیا جلدی تھی مجھ سے دور ہونے کی“ ،سائیڈ ٹیبل پر پڑے چھوٹے گلدان کو اُٹھاتے (جو ملائکہ نے خاص لاؤنج میں رکھنے کے لیے ضد کر کہ لیا تھا) جنید نے خود کلامی کی اوراحتیاط سے اُسے واپس رکھتے سلیم صاحب کے آنے پر اُن کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔”السلام علیکم بھئی آج تو تم نے دل خوش کر دیا ہے میرا“،جنید کو دیکھتے ہی سلیم صاحب نے بغل گیر ہوتے خوشی سے کہا تو وہ بھی بامشکل مسکرایا۔۔۔۔۔”جی بس سوچا کہ خود کو سنبھال لوں اب تاکہ آپ لوگوں کو مزید پریشانی نہ ہو“،الگ ہوتے اُس نے نرمی سے جواب دیا اور اُن کے اشارہ کرنے پر اُن کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔”اچھا کیا ویسے بھی قسمت کے لکھے کو کوئی ٹال نہیں سکتا،ملائکہ کی زندگی اتنی ہی تھی جو وہ بہت اچھے سے گزار گئی اب تم بھی خود کو سنبھالو کیونکہ اُس کی روح تمہیں اس طرح دیکھ کر بے چین ہو گی اس لیے اگر تم چاہتے ہو کہ وہ پرسکون ہو تو زندگی میں آگے بڑھو کیونکہ زندگی بڑھنے کا نام ہے اور موت بھی ایک حقیقت ہے آج نہیں تو کل ہم سب کو اس کا سامنے کرنا ہی ہے اور خود سوچو اگر وہ زندہ رہتی تو کیا تم اُس کی تکلیف کو برادشت کر سکتے؟؟یقینا نہیں کیونکہ جس طرح اُس کا پورا وجود جھلسا تھا اُس کے لیے زندگی کا ایک ایک پل اذیت بن جانا تھا“،اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے سلیم صاحب نے ہمیشہ کی طرح اُسے بہت نرمی اور پیار سے سمجھایا۔۔۔”جی،میں جانتا ہوں پر وہ اتنی جلدی مجھ سے دور ہو جائے گی اور اس طرح سے کہ اپنی واپسی کی کوئی امید تک میری زندگی میں نہیں چھوڑے گی ،مجھے صبر نہیں آتا حالانکہ میں نے اللہ سے بہت دعا کی ہے پر ابو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ابھی بھی ملائکہ تکلیف میں ہو؟؟وہ روز میرے خواب میں آتی ہے مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہے جیسے اُسے کوئی پریشانی ہو“ ،جنید نے اُن کا ہاتھ پکڑتے کسی بچے کی مانند اُنہیں اپنی الجھن سے آگاہ کیا۔۔۔۔”تب ہی کہتا ہوں کہ خود کو سنبھالو تاکہ اُس کی روح کو سکون ہو ،وہ تمہاری وجہ سے ہی بے چین ہو گی جو باربار ایسے تمہاری خواب میں آتی ہے۔۔۔“”پتا نہیں پر مجھے لگتا ہے وہ مجھے کچھ بتانا چاہتی ہے پر کہہ نہیں پاتی“ ،سلیم صاحب کی بات سنتے ہی جنید نے نفی میں سر ہلایا تو خالدہ بیگم ٹرے اُٹھائے لاؤنج میں داخل ہوئیں۔۔۔۔۔”یہ لو تمہاری چائے اور یہ کباب ،تمہیں پسند ہیں نا“ ،ٹرے سے چائے کا کپ نکال کر پہلے جنید اور پھر سلیم صاحب کے سامنے رکھتے خالدہ بیگم نے کباب ایک پلیٹ میں رکھتے جنید کو تھمایا۔۔۔”میرا دل نہیں ہے اور امی یہ آپ کے ہاتھ پہ کیا ہوا ہے؟؟“ جنید نے پلیٹ واپس ٹیبل پر رکھتے اُن کے بائیں ہاتھ کی جانب اشارہ کیا۔۔۔۔”کچھ نہیں شاید کسی چیز نے کاٹا ہے“ ،اپنا ہاتھ پیچھے کرتے اُنہوں نے خود بھی ایک نظر اُسے دیکھا جو کافی دن سے درد کر رہا تھا پر وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھیں کہ اُس پر ہوا کیا ہے؟؟”نہیں مجھے تو یہ کوئی زخم لگ رہا ہے“،پریشانی سے اُن کا ہاتھ تھامے جنید نے کہا تو سلیم صاحب بھی اُن کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔۔”ہاں میں بھی کافی دنوں سے اسے کہہ رہا ہوں پر یہ کسی کی سنتی کہاں ہے۔۔۔۔“”ہاں ،بس ہو جائیں شروع ویسے بھی آپ کو تو موقع چاہیے مجھے باتیں سنانے کا“،اُن  کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ٹوکتے خالدہ بیگم نے جنید سے اپنا ہاتھ چھڑوایا۔۔۔۔۔”خود ہی ٹھیک ہو جائے گا تم فکر نہ کرو اورسکون سے چائے پیو پہلے ہی سر میں درد ہے“،اُسے تسلی دیتے اُنہوں نے اپنا کپ اُٹھایا اور اپنے اندر کے خوف کو چھپاتے سامنے سنگل صوفے پر جا بیٹھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھر واپس آنے کے بعد بھی زارون کا موڈ کافی خراب تھا جو نور کے ساتھ ساتھ دی جان نے بھی محسوس کیا۔۔۔۔”کیا ہوا ہے ؟؟ایسے ہر چیز کو گھور کیوں رہے ہو؟کھانا نہیں کھانا کیا؟؟؟“،اُسے مسلسل پلیٹ میں چمچہ گھومتا دیکھ کر دی جان سے رہا نہیں گیا تب ہی اُنہوں نے سوال کیا۔۔۔۔ ”کھا رہا ہوں“،زارون نے اُنہیں شک پڑنے کے ڈر سے جلدی سے چمچہ بھر کے منہ میں رکھا۔۔۔۔”یہ تم دونوں کو کیا ہوا ہے آج ؟؟لڑ کے آئے ہو کیا؟؟“زارون کے نظریں چرانے اور نور کی مسلسل خاموشی پر دی جان کو کسی غیرمعمولی بات کا احساس ہوا۔۔۔”نہیں، ہم نے کیوں لڑنا تھا اور ہم تو کبھی بھی نہیں لڑے، کیوں نور میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟؟“ اُس کے جواب دینے سے پہلے ہی زارون نے  بات سنبھالی۔”ہوننہ توبہ کتنا چالاک ہے“،اثبات میں سر ہلاتے نور نے اُسے گھورا جو اُسے اشارے سے دی جان کو کچھ بھی بتانے سے منع کر رہا تھا۔۔۔”اچھا ٹھیک ہے بس میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ تم دونوں ہمیشہ خوش رہو“،نور کا جواب سنتے ہی اُنہیں کچھ تسلی ہوئی کہ سب ٹھیک ہے تب ہی اُنہوں نے زارون سے نور کے پیپر ختم ہوتے ہی اُسے اپنے ساتھ گاؤں لے جانے کی بات کی۔۔۔”پر دی جان آپ نورکو وہاں کیوں لے کے جائیں گی؟؟اور وہاں سب سے کیا کہیں گی کہ یہ کون ہے؟“اُن کی بات سنتے ہی چاول زارون کے گلے سے جا لگے تب ہی کھانستے ہوئے اُس نے دو گھونٹ پانی کے پیتے خود کو پرسکون کرتے دی جان سے پوچھا۔۔۔۔”چاہتی تو میں یہ تھی کہ نور کے گھر والوں کو خود جا کرمنا لوں اور اُن کے گھر سے ہی تمام برداری کے ساتھ باعزت طریقے سے رخصت کروا کے حویلی لے کر جاؤں پر نور کی باتیں سننے کے بعد مجھے اُن کا منانا بہت مشکل لگ رہا ہے پر پھر بھی میں اپنی طرف سے ایک کوشش ضرور کروں گی کہ وہ مان جائیں اوراپنی دعاؤں میں اسے تمہارے ساتھ رخصت کریں پر اگر وہ پھر بھی نہیں مانتے تو میں نور کو اپنے ساتھ سائیں فاروق(ساجدہ بیگم کے بھائی )کی حویلی لے جاؤں گی اور وہیں سے کچھ با اعتماد لوگوں کی موجودگی میں اسے اپنی حویلی لے کر جاؤں گی تاکہ ہماری عزت بھی رہ جائے اور تمہیں یا نور کو بھی زندگی میں کبھی یہ طعنہ نہ دے کہ تم لوگوں نے خود سے شادی کی“ ،دی جان نے بڑی نرمی سے اُس کو ساری بات سمجھائی جس پر زارون نے اثبات میں سر ہلاتے نور کی طرف دیکھا جو ایک نفرت بھری نگاہ زارون کے چہرے پر ڈالتے(جس نے دی جان کو زبردستی نکاح کے بارے میں نہ بتا کر نور کو بھی اس جرم میں برابر کا شریک ٹھہرا دیا تھا)اُس نے خود کو کوسا کہ کیوں اُس نے زارون کی بات مانتے دی جان کو اُس کی اصلیت نہیں بتائی کہ کیسے اُس نے زبردستی اُس کے ساتھ نکاح کیا اور پھر کیسے اُسے اُس کے گھر والوں کی نظروں میں گرایا۔۔۔۔”میں تھک گئی ہوں بس کچھ دیر آرام کروں گی“ ،مزید وہاں رکنا نور کو ناممکن لگا تب ہی رشیدہ کو برتن اُٹھانے کا کہتے وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔”لگتا ہے نور کو میری بات پسند نہیں آئی“ ،اُس کے اس طرح جانے پر دی جان نے کہا تو زارون نے اُنہیں تسلی دی اور بیل کی آواز پر اُٹھ کر دروازے کھولنے چلا گیا جہاں عالیان نے اُسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا۔۔۔۔”اگر منہ ہی پھیرنا تھا تو آنے کی کیا ضرورت تھی؟؟“ (عالیان  اُس دن ہسپتال میں ہونے والی بدکلامی پر ابھی تک ناراض تھا اُس وقت تو زارون کو تکلیف میں دیکھ کروہ خاموشی سے اُس کے ساتھ رہا پر نور کے ٹھیک ہوتے ہی اُس نے زارون سے ہر طرح کی بول چال بند کر  دی حتی کہ زارون نے اُسے منانے کی کافی کوشش کی پر وہ آفس میں بھی بس مطلب کی بات کرتا اور اپنے اپارٹمنٹ سے بھی وہ ایک دوست کی طرف شفٹ ہوگیا تھا تاکہ زارون کو اُسے منانے کا کسی قسم کا  کوئی موقع نہ ملے)زارون نے اُسے دیکھتے ہی اپنی مسکراہٹ چھپاتے خفگی سے طعنہ مارا۔۔۔ ”میں تم سے ملنے نہیں آیا اس لیے زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں“،اُسے دروازے سے ہٹاتے عالیان نے اپنی ناراضگی برقرار رکھتے سامنے بیٹھی دی جان کا رخ کیا تو زارون بھی دروازہ بند کرتے اُس کے پیچھے آیا۔۔۔۔”کیسے ہو بیٹا ؟اور اپنی دی جان سے ناراض تھے کیا؟جو اتنے دنوں بعد ملنے آئے ہو“،اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے دی جان نے شکوہ کیا تو عالیان ،زارون کو اگنور کرتے اُن کے ساتھ والی چیئر پیچھے کر کہ اُن کے پاس ہی بیٹھ گیا۔۔۔ ”میں بھلا آپ کو بھول سکتا ہوں؟؟اور مجھے آج ہی پتا چلا کہ آپ آئیں ہوئیں ہیں تو دیکھیں میں آج ہی ملنے آگیا۔۔۔۔“”پر میں تو کافی دن سے زارون سے پوچھ رہی ہوں کہ عالیان کو نہیں بتایا میرے آنے کا ؟؟تو اس نے کہا کہ بتایا ہے پر وہ مصروف ہے نہیں آسکتا“،دی جان نے ایک نظر اُس کے چہرے پر ڈالتے عالیان کو بتایا جو آج زارون کی کھچائی کروانے کا پکا اراداہ کر کے آیا تھا دی جان کے موقع دیتے ہی شروع ہو گیا۔۔۔۔”میں مصروف نہیں تھا دی جان بلکہ  آپ کے پوتے کا دماغ آج کل کافی خراب ہے مجھے تو یہ انسان ہی  نہیں سمجھتا جب چاہے جہاں چاہے بے عزت کر دیتا ہے حالانکہ بعض دفعہ تو مجھے خبر بھی نہیں ہوتی کہ یہ مجھے پہ غصہ نکال کیوں رہا ہے“ ،زارون کے آنکھیں نکالنے کے باوجود بھی عالیان نے اپنی بات مکمل کر کے ہی سانس لیا۔۔۔۔”زارون یہ میں کیا سُن رہی ہوں؟؟“اُسے پرنسس کو گود میں اُٹھاتا دیکھ دی جان نے تصدیق چاہی۔۔۔”دی جان یہ انسان تو پیدا ہی میری برائیاں کرنے کے لیے ہوا ہے آپ کو یاد ہے نا؟؟ایک بار پہلے بھی اس نے آپ سے میری شکایت کی تھی جو بعد میں جھوٹی ثابت ہو گئی اور پھر الٹا آپ کو شرمندگی ہوئی تھی کہ آپ نے مجھے کیوں ڈانٹا“،بڑی چالاکی کے ساتھ زارون نے دی جان کو اپنی سائیڈ پر کیا جو اُس کی تمام تیزی بڑے اچھے سے سمجھتی تھیں۔۔۔۔”دی جان یہ جھوٹ بول رہا ہے اُس وقت بھی میں نے آپ کو سچ بتایا تھااور اب بھی“ ،عالیان نے کہنے کے ساتھ ہی بریانی پلیٹ میں نکالی جو رشیدہ اُٹھانے لگی تھی۔۔”اُففف کیا تم لوگ بچوں کی طرح لڑ رہے ہو ،بس کرو اب اور زارون سوری بولو عالیان کو، مجھے پتا ہے تم نے ضرور بدتمیزی کی ہو گی“ ،دی جان نے اُن کی بڑھتی بحث کو ختم کرنے کے لیے زارون سے کہا جو سوری کے نام پر ہونقوں کے طرح منہ کھولے دی جان کو دیکھنے لگا۔۔۔۔”میں اس سے سوری بولوں؟اس بندر نما انسان سے؟؟؟“ اُسے بریانی کے ساتھ انصاف کرتا دیکھ کر زارون نے دی جان کا لحاظ کیے بغیر ہی پلیٹ اُس کے آگے سے اپنی طرف سرکائی۔۔۔”دی جان دیکھ لیں یہ مجھے بندر کہہ رہا ہے“،عالیان نے پلیٹ واپس اپنی طرف کرتے شکایت کی تو دی جان نے سر پکڑے اُن دونوں کو اُن کے حال پر چھوڑتے اپنی چھڑی اُٹھاتے کمرے کا رخ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بحث کرنے کے بعد زارون نے سریس ہوتے عالیان سے اپنے رویے کی معافی مانگی تو اُس نے فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے اُسے معاف کر دیا۔۔۔۔”اس بار تو میں نے معاف کر دیا ہے پر اگلی بار تم نے ایسا کیا تو میں معاف نہیں کروں گا“ ،اُس کی معذرت قبول کرنے کے ساتھ ہی عالیان نے شرط رکھی تو زارون نے تابعداری سے سر جھکایا۔۔۔۔”ٹھیک ہے نہ کرنا ویسے بھی مجھے تم جیسے فضول انسان کو بار بار منانے کا کوئی شوق بھی نہیں ہے“،ایک بار پھر سے اُس نے آنکھوں میں شرارت لیے کہا تو عالیان کا تیسری بار ٹرے کی طرف بڑھتا ہاتھ رُکا۔۔۔۔”بھاڑ میں جاؤ تم اور دوبارہ مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں“،اُس نے غصے سے کہتے ٹرے میں موجود تمام بریانی اپنی پلیٹ میں نکالی تو زارون نے قہقہہ لگاتے پھرسے سوری بولا۔۔۔”دفعہ ہو اور دوبارہ کوئی کام ہو نا تو مجھے مت کہنا“ ،چمچہ بھر کہ منہ میں رکھتے عالیان نے اُس کے کان پکڑنے پر اپنی مسکراہٹ چھپائی۔۔۔”ہوننہہ میں کسی اور سے کیوں کہوں تم میرے مینجر ہو اس لیے میرے تمام کام کرنا تم پر فرض ہے“،اُس کی بات سنتے ہی زارون نے اپنی ہی دھن میں جواب دیا۔۔۔۔۔”میں مینجر کے ساتھ تمہارا دوست بھی ہوں جس کے بارے مٖیں تم اکثر ہی بھول جاتے ہوتب ہی مجھے بھی تم اُنہی نوکروں کی طرح ٹریٹ کرتے ہو جو تمہارے انڈر کام کر رہے ہیں“ ،سنجیدگی سے کہتے وہ زارون کی مسکراہٹ غائب کر چکا تھا۔۔۔۔.”شرم کرو آج تک میں نے تمہیں کبھی اپنا نوکر یا ملازم نہیں سمجھا ہمیشہ دوست سمجھ کر حق کہ ساتھ ہر بات کہہ لیتا ہوں پر لگتا ہے میں غلط کرتا ہوں“ ،اُس کی بات سنتے ہی زارون نے افسردگی سے سر جھٹکا۔۔۔۔”غلط نہیں کرتے پر تمہارا طریقہ غلط ہوتا ہے“ ،رشیدہ کو برتن اُٹھانے کا کہتے عالیان نے اُسے اُس کی غلطی کا احساس دلایا۔۔۔۔”اوکے میں دوبارہ خیال رکھوں گا اور مجھے نہیں پتا کہ ہم دونوں کی دوستی اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ ایک معمولی سے بات پر یوں بکھر جائے گی“ ،عالیان کی باتوں سے زیادہ زارون کو اُس کے روکھے پھیکے اور طنز بھرے لہجے نے ہرٹ کیا  تب ہی اُس نے مزید بات بڑھانے کی بجائے پھر سے معذرت کی اور بات بدلتے اُس سے احمد کی شادی کے متعلق پوچھنے لگا جو ایک ہفتے بعد تھی

 

قسط نمبر: 28

”سارہ میں تمہیں کب سے سمجھا رہی ہوں کہ ہر معاملے میں جلد بازی سے کام مت لیا کرو اور ہمیشہ ٹھیک وقت کا انتظار کیا کرو تاکہ فیصلہ تمہارے حق میں ہو“،فریحہ بیگم جو پچھلے دو گھنٹے سے اُسے رخصتی کے لیے رضامند کرنے میں لگی تھی آخر تھک ہار کر غصے سے بولیں۔۔۔۔”کونسا وقت اور کونسا سا فیصلہ؟؟ امی میں آپ کو بتا رہی ہوں میں اُس حارث سے کبھی بھی شادی نہیں کروں گی کیونکہ میں عمر کو نہیں چھوڑ سکتی“ ،نکاح تو میں نے آپ کی ضد اور جائیداد کی خاطر کر لیا پر اب یہ رخصتی۔۔۔۔ سوری مجھ سے اب یہ ڈرامہ اور نہیں ہو گا“،اُن کی بات سنتے سارہ نے چیختے ہوئے کہا تو فریحہ بیگم نے جلدی سے اُٹھ کر اُس کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔۔۔۔ ”آہستہ بولو،کوئی سُن لے گا اور ہمارا بنا بنائے کھیل تمہاری بے وقوفی کی وجہ سے چند سیکنڈز میں خراب ہو جائے گا“،اُسے آنکھیں دکھاتے فریحہ بیگم نے ایک نظر لاؤنج میں نظر دوڑاتے کمرے کا دروازہ بند کیا۔۔۔۔”امی میں آپ کو بتا رہی ہوں اگر آپ نے اس معاملے میں میرے ساتھ زبردستی کی تو میں وہی کروں گی جو میرا دل چاہے گا اور آپ تو کہہ رہی تھی کہ ہم یہ سب کچھ ملتے ہیں یہاں سے نکل جائیں گئے اور آپ حارث سے میری طلاق بھی کروا دیں گی تو اب یہ سب کیا ہے۔۔؟؟“ ”اُففف یہاں آؤ سکون سے بیٹھو پھر میں تمہیں ساری بات سمجھاتی ہوں“ ،سارہ کے غصے کو دیکھتے فریحہ بیگم نے اپنے لہجے کو نرم رکھتے کہا اور اُس کا بازؤ پکڑتے صوفے پر بیٹھایا۔۔۔۔”جی بولیں اب کیا سازش سوچ رکھی ہے آپ نے میری زندگی برباد کرنے کی؟؟“اُن کی آنکھوں میں دیکھتے سارہ نے طنز کیا تو فریحہ بیگم نے بیٹی کی طرف افسوس سے دیکھا جس کے لیے وہ یہ سارا کچھ کر رہی تھیں۔۔۔۔٬میں یہ سازشیں تمہاری زندگی کی آسانی کے لیے کر رہی ہوں ورنہ اس میں میرا کوئی فایدہ نہیں اور رہی بات اس جائیداد کی تو مجھے کیا پتا تھا کہ یہ بڈھا اس بار بھی بازی لے جائے گا“ ،میں تو سمجھی تھی کہ اب سب کچھ ہمارے ہاتھ میں ہے پر بھائی صاحب کا دماغ ہم سے کہیں زیادہ شاطر نکلا،دانت پیستے اُن کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سکندر صاحب کا گلا دبا دیتیں۔۔۔”تو اب؟آپ کچھ سوچیں اور اس حارث سے میری جان چھڑوائیں کیوں کہ میں اب عمر کو زیادہ دیر انتظار نہیں کروا سکتی“،اُن کی بات سنتے سارہ نے لاپروائی سے کندھے اچکائے۔۔۔۔۔”میں کیا کر سکتی ہوں تمام حالات تمہارے سامنے ہیں باقی اگر نور کا معاملے درمیان میں نہ آتا تب بھی تو تمہاری رخصتی ہونی ہی تھی نا تب تو تمہیں کوئی مسئلہ نہیں تھا پر اب یہ عمر بیچ میں کہاں سے آگیا۔۔۔“”وہ نہیں بلکہ حارث آیا ہے ہمارے درمیان اور پہلے عمر نے اس طرح کی مجھے کوئی آس نہیں دلائی تھی اور نہ ہی میں نے اتنی توجہ دی پر حارث کے رویے یہ ہر وقت کی نور نور کی گردان نے میرا دل بے زار کر دیا ہے۔ میں ایسے انسان کے ساتھ بالکل بھی زندگی نہیں گزار سکتی جو مجھ سے زیادہ اپنی بہن کو توجہ دے اور بہن بھی ایسی جس کے بدکرادری کے قصے ہر طرف مشہور ہوں۔“ ”بس کرو کیا ہو گیا ہے تمہیں، اگر پہلے مان گئی تو اب بھی کچھ دن کے لیے ہی سہی پر یہ ڈرامہ تمہیں کرنا پڑے گا کیوں کہ اب میں منزل کے اتنے قریب جا کر واپس نہیں آؤں گی اور نہ ہی تمہیں یوں خالی ہاتھ واپس آنے دوں گی اور رہی بات بھائی صاحب کی؟؟میں نے اُن کے دماغ میں اُن کی اولاد کے خلاف اتنا زہر بھر دیا ہے کہ وہ کبھی چاہ کر بھی اُن کے قریب نہیں ہو سکیں گے“ ،مسکراتے ہوئے اُنہوں نے زہر اُگلا تو سکندر صاحب(جو سارہ کو شاپنگ کے لیے کچھ رقم دینے آئے تھے ) کے پاؤں وہیں زمین پر جم گئے۔۔۔۔”اُففف امی مجھے نہیں پتا آپ کیا چاہتی ہیں پر میرا مشورہ ہے آپ  ماموں کو زہر دے دیں تاکہ اُن کا پتہ تو صاف ہو اور جو کچھ اُنہوں نے ہمارے نام کیا ہے کم ازکم وہ تو ہمیں مل جائے اور باقی رہی حارث کی بات وہ تو بہن کے غم میں ویسے ہی آدھا پاگل ہو چکا ہے“ ،سارہ نے تیوری چڑھاتے کہا تو فریحہ بیگم نے اُس کی بات پر قہقہہ لگاتے اُسے اپنے ساتھ لگایا اور آنے والے وقت کے لیے صبر کرنے کی تلقین کرتے جلد ہی سکندر صاحب اور حارث کا کوئی پکا انتظام کرنے کا وعدہ کرتے اُسے تسلی دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فریحہ بیگم اور سارہ کی باتیں سننے کے بعد سکندر صاحب نے دیوار کا سہارا لیتے اپنے کمرے میں جانا چاہا مگر اپنی بہن اور بھانجی کے اس قدر زہریلے الفاظ نے اُنہیں چند قدم چلنے کے بعد تھکا دیا تب ہی سہارا لے کر وہیں موجود چیئر پر بیٹھتے اُنہوں نے اپنے سینے پر ہاتھ پھیرا اور آنکھیں بند کرتے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی پر پچھلے گزرے ہوئے پل ایک فلم کی طرح اُن کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگے اپنی ایک ایک زیادتی اور ہمیشہ اپنی اولاد کو پیچھے چھوڑ کر فریحہ بیگم اور سارہ کو ترجیح دینے کا انجام اتنے بھیانک طریقے سے اُن کے سامنے آیا کہ آج اُنہیں خود کو سنبھالنا مشکل لگا تب ہی سینے میں اُٹھتی تیز درد کی لہر پر اُنہوں نے کراہتے ہوئے آنکھیں کھولتے گھر میں داخل ہوتے حاشر کو آواز دی جو اُنہیں چیئر پر ایک طرف لڑکھڑاتا دیکھ کر جلدی سے اُن کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نور کا دل آج صبح سے ہی گھبرا رہا تھا اوپر سے زارون بھی اُس دن یونیورسٹی سے آنے کے بعد سے اُس سے بات نہیں کر رہا تھا اور دی جان بھی آج ہی دو دن کے لیے رشیدہ کو ساتھ لیے اپنے ایک رشتے دار  کہ ہاں گئی تھیں تب ہی وہ گھر پر اکیلی کل ہونے والے پیپر کی تیاری کرنے کی کوشش میں لگی تھی پر بار باردروازے کی جانب دیکھتے ایک خوف کی لہر اُس کے اندر سرایت کر رہی تھی جیسے چھے بند کرنے کے بعد بیرونی دروازہ بھی اندر سے لاک کر لیا اور اپنا موبائل اُٹھاتے زارون کا نمبر ڈائل کیا جو ایک ضروری کام کا بول کر گھر سے نکالا تھا۔۔۔۔”کال کاٹ دی؟؟“موبائل کان سے ہٹاتے نور نے سکرین کو گھورا اور ایک بار پھر سے اُس کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔”ٹھیک ہے بھاڑ میں جاؤ تم“،پھر سے کال کاٹنے پر نور نے غصے سے موبائل اُٹھا کر دیوار میں مارا جس کی سکرین کرچی کرچی ہو کر زمین پر بکھر گئی۔۔۔۔”پتا نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے اُس دن بھی مجھے ایسے ہی اکیلا چھوڑ کر گیا تھا اور آج بھی“،آنکھوں میں نمی لیے اُس نے سر گھنٹوں پر رکھتے خوف سے دروازے کی طرف دیکھا جس میں ابھی ابھی کسی نے چابی لگاتے ناب کو گھوماتے کھولنے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔”نور دروازہ کھولو“،زارون نے اندر سے دروازے کو لاک دیکھ کر اُس پر ہاتھ مارتے پریشانی سے آواز لگائی تو اُس کی آواز سنتے نور کی جان میں جان آئی۔۔۔”کہاں تھے تم میں کب سے کال کر رہی ہوں“ ،ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑتے اُس نے جلدی سے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔۔۔۔”میں یہی تھا پر تم نے دروازہ کیوں لاک کیا تھا؟؟“ اُس کی بات کا مختصر جواب دیتے زارون نے فکر مندی سے پوچھا۔۔۔”مجھے ڈر لگ رہا تھا اس لیے لاک کیا تھا“،جواب دیتے اُس نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے کچن کا رخ کیا تو زارون بھی دروازہ لاک کرتے اُس کے پیچھے آیا۔۔۔۔”کس بات کا ڈر؟؟ اور میں نے پہلے بھی تم سے کہا ہے کہ یہ ڈر اپنے دل ودماغ سے نکال دو کیونکہ میرے ہوتے ہوئے اب کوئی بھی تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا“،اُس کے کانپتے ہاتھوں اور ماتھے پر پسینہ دیکھ کر زارون کو اپنے آپ پر غصہ آیا کہ وہ کیوں ایسے اُسے پھر سے اکیلا چھوڑ کرگیا۔۔۔۔۔”میں ٹھیک ہوں اور تم نے اتنی دیر کیوں لگا دی تم نے تو کہا تھا کہ ایک گھنٹے میں آجاؤں گا“،اُس کی بات سنتے ہی نور نے  پانی کے دو گھونٹ پیئے اور اب غصے سے اُسے گھورتے پوچھنے لگی جو اپنے موبائل پر آنے والی کال پر اُسے  چپ رہنے کا اشارہ کرتے پانچ منٹ میں آنے کا بولتے اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔”ہوننہ پتا نہیں کس سہیلی کا فون تھا جو میرے سامنے نہیں سُن سکتا تھا“ اُس کے جاتے ہی نور نے خود کلامی کی اور مغرب کی اذان کی آواز پر زارون کی بعد میں خبر لینے کا سوچتے نماز پڑھنے کے لیے کمرے کا رُخ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاشر اور فریحہ بیگم سکندر صاحب کو لے کر ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے سریس ہارٹ اٹیک کا بتاتے دعا کرنے کا کہا۔۔۔۔”اللہ یہ بیٹھے بیٹھائے کیا ہو گیا بھائی صاحب کو ،میں ابھی تو چائے دے کر آئی تھی تب تو بالکل ٹھیک تھے“،ڈاکٹر کے جاتے ہی فریحہ بیگم نے آنسو بہاتے حاشر کو بتایا جو اُنہیں تسلی دیتے خود کو سنبھالنے کا کہتے حارث کو کال کرنے لگا۔۔۔۔”اللہ میری زندگی بھی میرے بھائی کو لگا دے“ ،ہاتھ اُٹھائے وہ مسلسل رونے کے ساتھ دعائیں مانگ رہی تھیں۔۔۔۔”پھوپھو پلیز حوصلہ کریں اور بس دعا کریں ان شاءاللہ ابو ٹھیک ہو جائیں گے“،حارث کو بتانے کے بعد حاشر نے اُنہیں روتا دیکھ کر اپنے ساتھ لگایا تو وہ اور زور سے رونے لگیں۔۔۔۔”کیسے حوصلہ کروں؟؟میرا تو ہر رشتہ بھائی صاحب کے ساتھ جڑا ہے اگر اُنہیں کچھ ہو گیا تو میں بھی مرجاؤں گی“،سر اُٹھاتے اُنہوں نے چادر منہ پر رکھتے آنسوؤں کے درمیان اپنی بات مکمل کی تو حاشر نے اُنہیں سکندر صاحب کے ٹھیک ہونے کا دلاسہ دیتے خود بھی ضبط کرتے آنسوؤں کو آنکھوں سے نکلنے سے روکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نماز پڑھنے کے بعد نور نے کھانا لگایا اور زارون کو بُلانے اُس کے کمرے کی جانب بڑھی جو تب سے موبائل پر کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا۔۔۔۔”ہاں ٹھیک ہے بس تمہیں میں نے جیسا سمجھایا ہے ویسا کرو اور خبر ملتے ہی مجھے انفارم کرنا“،راحیل سے کہتے اُس نے نور کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ  پھر بات کرنے کا بول کر کال کاٹ دی۔۔۔”کھانا لگا دیا ہے ،آجاؤ“،اُس کے فورا فون بند کرنے پر نور نے ایک شک بھری نظر اُس پہ ڈالتے بتایا۔۔۔”ٹھیک ہے میں بس دو منٹ میں منہ ہاتھ دھو کر آیا“،اُس کی بات سنتے ہی زارون نے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور واش روم کی جانب بڑھا تو نور نے بھی باہر کا رُخ کیا اور چیئر پر بیٹھتے اُس کا انتظار کرنے لگی جو ٹھیک دو منٹ بعد وہاں موجود تھا۔۔۔۔۔”کیا بنایا ہے آج؟؟“چیئر پیچھے کر کہ بیٹھتے ہی اُس نے نور سے پوچھا جس نے جواب دینے کی بجائے خاموشی سے ڈونگا اُٹھا کر اُس کے سامنے رکھا۔۔۔۔”ناراض ہو؟؟؟“ڈھکن اُٹھا کر اُس میں موجود آلو گوبھی کا سالن دیکھ کر ماتھے پر بل ڈالتے اُس نے ڈھکن واپس رکھا۔۔۔”نہیں،مجھے کیا ضرورت پڑی ہے ناراض ہونے کی وہ بھی تم جیسے فضول انسان سے“ ،کندھے اچکاتے نور نے لاپروائی سے کہا اور سالن اپنی پلیٹ میں نکالا۔۔۔۔”ہمم اوکے“ ،اُس کے حقارت بھرے لہجے پر زارون نے ایک گہری سانس لیتے ایک نظر اُس کے چہرے پر ڈالتے اپنی چیئر پیچھے کی اور اُٹھ کر  کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔”کیا ہوا؟؟کھانا نہیں کھانا؟؟؟“نور نے اُسے اس طرح جاتا دیکھ کر ناسمجھی سے پوچھا۔۔۔۔”نہیں ،بھوک نہیں ہے تم کھا لو“ ،پلٹے بناء ہی جواب دیتے وہ کمرے میں چلا گیا تو نور نے اپنی بات پر غور کیا۔۔۔۔”اُففف مجھے بھی کیا ضرورت تھی ایسی بات کرنے کی“ ہاتھ میں پکڑی روٹی پلیٹ میں رکھتے اُس نے خود کلامی کی اور کچھ دیر خود کو پرسکون کرنے کے بعد اُس نے ہمت کرتے کمرے کا رخ کیاتاکہ زارون کو سوری بول سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سکندر صاحب کا سنتے ہی حارث آفس سے چھٹی لیتے حاشر کے بتائے ہوئے ہسپتال پہنچا تو وہاں فریحہ بیگم اور حاشر پریشان کن حالت میں آئی سی یو کے باہر موجود تھے۔۔۔۔”کیا ہوا ابو کو؟؟؟ ابھی صبح تو بالکل ٹھیک تھے“،حارث نے آتے ہی فریحہ بیگم کو اگنور کرتے حاشر سے پوچھا جو اُسے دیکھتے ہی اُٹھ کر اُس کے گلے لگ چکا تھا۔۔۔۔”کیا ہوا ؟؟؟کچھ بتاؤ مجھے؟؟“حاشر کو یوں پریشان دیکھ کسی انہونی کے پیش نظر حارث کا رنگ فق ہوچکا تھا۔ وہ اپنے ذہن میں آنے والے وسوسوں کو جھٹلاتا ایک بار پھر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ ”پتا نہیں کیا ہوا ہے ڈاکٹر کچھ نہیں بتا رہے بس بار بار دعا کا کہہ رہے ہیں“ ،اُس سے الگ ہوتے حاشر نے اپنے آپ کو سنبھالتے حارث کو بتایا جو اُس کی بات سنتے ہی آئی سی یو کی جانب بڑھا جہاں سے ابھی ابھی ایک ڈاکٹر باہر آیا تھا۔۔۔۔”سر کیسی طبیعت ہے اب ابو کی؟؟؟“حارث نے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔۔”جی،وہ اب وہ خطرے سے باہر ہیں پر اٹیک کے ساتھ اُنہیں فالج کا شدید جھٹکا لگا ہے جس کی وجہ سے اُن کی زبان اور با ئیں حصہ بالکل کام کرنا چھوڑ چکا ہے“ ،ڈاکٹر نے سکندر صاحب کی زندگی کی امید کے ساتھ ساتھ جو خبر سنائی وہ حارث اور حاشر کے ساتھ ساتھ فریحہ بیگم کے لیے بھی پریشان کن تھی۔۔”سر کوئی علاج اور ایسا ایک دم سے کیسے ہو سکتا ہے؟؟“سب سے پہلے حارث نے خود کو سنبھالتے ڈاکٹر سے سوال کیا۔۔۔۔”جی علاج تو ہے پر جس حد تک اُن کا جسم متاثر ہوا ہے  اُنہیں ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا وہ بھی تب جب آپ لوگوں اُنہیں میڈیسن کے ساتھ ساتھ پراپر ورزش کروائیں گے“ ،ڈاکٹر نے بتانے کے ساتھ حارث کو مزید کچھ ہدایات دیں اور اپنے ساتھ ہی کمرے میں آنے کا کہا تاکہ سکندر صاحب کے بارے میں تفصیل سے بات کر سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”آجاؤ۔۔“،دروازے پر دستک کی آواز پر زارون نے رخ پھیرے بناء ہی اجازت دی کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ گھر میں نور کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔۔۔”ناراض ہو مجھ سے؟؟؟“،اُس کے قریب آتے نور نے اُسے چاند کی طرف دیکھتا پاکر ہچکجچاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔ ”نہیں، میں تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہو سکتا“،چاند سے نظر ہٹا کر اُس نے نور کے چہرے کو دیکھا جہاں اب اُسے اپنے لیے فکر نظر آنے لگی تھی۔۔۔”تو پھر کھانا کیوں نہیں کھایا؟؟اور ٹیبل سے ایسے اُٹھ کر کیوں آئے ہو؟؟؟“سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھتے نور نے پھر سے سوال کیا۔۔۔۔”مجھے آلو گوبھی پسند نہیں“،بہت آہستگی سے کہتے اُس نے نور کو شرمندگی سے نکالا جو یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ اُس کی بات کی وجہ سے اُٹھ کر گیا ہے۔۔۔”اچھا تو مجھے بتا دیتے میں کچھ اور بنا دیتی“،اُس کی بات سنتے ہی نور کو کچھ تسلی ہوئی تب ہی اُس نے دوستانہ انداز میں اپنی بات مکمل کی۔۔۔۔”کیا کیا بنا لیتی ہو تم ؟؟“اُس کے سرخ گالوں کو فوکس کرتے زارون نے بلامقصد ہی سوال کیا۔۔۔۔”سب کچھ ہی بنا لیتی ہوں بلکہ روز میں ہی کھانا بناتی ہوں تمہیں نہیں پتا کیا؟؟؟“اُس کے سوال پر نور نے تجسس سے آنکھیں سُکیڑیں۔۔۔۔”پتا ہے  بس ویسے ہی تمہارے منہ سے سننا چاہتا تھا“،ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے اُس نے اپنی نظروں کا رخ پھر سے اپنے جوبن پر چمکتے چاند کی جانب کیا۔۔۔۔”ہوننہ تم ہو ہی بدتمیز بلکہ تم کھڑوس ہو اور دنیا میں بس مجھے تنگ کرنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہو“،اُس کی بات پر منہ پھلاتے نور نے ایک نظر اُس کے چہرے پر ڈالی جو کچھ دنوں سے بالکل مرجھا سا گیا تھا۔۔۔۔”کیا ہوا ہے؟؟؟ تم کچھ پریشان ہو؟؟“ دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آنے پر نور نے اُس کے سامنے آتے پوچھا جو کچھ دنوں سے اُسے بالکل اگنور کیے ہوئے تھا۔۔۔۔ ”نہیں ،کچھ نہیں ہوا ،بس ویسے ہی سر میں تھوڑا درد ہے“،اُس کے چہرے پہ آتی لٹوں کو دیکھتے( جو ٹیرس کے کھلے دروازے سے آنے والی ہوا پر مسلسل اُس کے چہرے پر جھوم رہی تھی) زارون نے نرمی سے اُنہیں اُس کے کان کے پیچھے کیا۔۔۔”تو پھر ایسے چپ چپ کیوں ہو؟؟ پہلے تو تم میری ہر بات کا جواب دیتے تھے۔ ہر وقت مجھ سے لڑنے کے لیے تیار رہتے تھے پر اب میں کچھ دنوں سے محسوس کر رہی ہوں تم ایسا نہیں کرتے میں بات بھی کروں تو جواب نہیں دیتے ،پہلے مجھے لگا شاید دی جان کی وجہ سے تم ایسا کر رہے ہو پر آج تو وہ بھی نہیں تھیں پھر بھی تمہارا رویہ میرے ساتھ ویسا ہی ہے“ نور جب سے آئی تھی آج پہلی بار اُس نے زارون سے اس قسم کاشکوہ کیا تھا تب ہی اُس نے اپنی ساری ناراضگی بھولتے اُسے اپنے حصار میں لیا۔۔۔۔”سوری میں دوبارہ ایسا نہیں کروں گا“، اُس کے کان کے قریب سرگوشی میں کہتے زارون نے اُس کے گال کو اپنے ہونٹوں سے چھوا تو نور نے آنکھیں بند کرتے اُس کے لمس کو محسوس کیا۔۔۔۔”جان ہو تم میری اور میں ناراض نہیں تھا بس مجھے لگا کہ تمہیں میرا یوں بات کرنا ،پاس آنا پسند نہیں اسی لیے میں دور ہوا“، ہونٹ اُس کے دوسرے گال سے مس کرتے زارون نے وضاحت دی تو نور نے فٹ سے آنکھیں کھولے اُسے دیکھا۔۔۔”میں نے کب کہا کہ مجھے تمہارا بات کرنا بُرا لگتا ہے؟؟اور پاس آنا؟؟؟ہاں پہلے لگتا تھا پر اب نہیں کیوں کہ میں سمجھ چکی ہوں کہ اب میرے لیے تم ہی سب کچھ ہو۔ دی جان نے مجھے بتایا ہے کہ شوہر کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے اس سے اللہ ناراض ہوتا ہے“ ،اُس کی گردن میں بازؤ حائل کرتے نور نے اپنی بھوری آنکھوں سے اُس کی کالی آنکھوں میں جھانکا جس میں آج کچھ الگ ہی چمک تھی۔۔۔”ہاہاہا شکر ہے دی جان نے میرا کچھ فایدہ کیا ورنہ جب سے آئیں ہیں ایسے پہرے لگائے بیٹھیں ہیں جیسے میں کو ئی جن ہوں جو اُن کی شہزادی پر جادو کرتے اُس کو اپنے قبضہ میں کر لوں گا“،نور کے ڈھکے چھپے اقرار نے آج زارون کی تمام تھکاوٹیں اور خدشات دور کر دیے تھے تب ہی کھل کر مسکراتے اُس نے نور کے اوپر جھکنا چاہا جو اُس کا ارادہ بھانپتے ہی جلدی سے نیچے سے اُس کے حصار سے نکلتے دروازے کی جانب بھاگی۔۔۔۔”نور رکو“،زارون نے آواز لگائی پر وہ اُس سے پہلے ہی دوسرے کمرے میں جاتے دروازہ لاک کر چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر: 29

خالدہ بیگم کا زخم دیکھتے ہی دیکھتے پورے ہاتھ پہ پھیل چکا تھا اور حیران کن بات یہ تھی کہ اُس کے اندر اب چھوٹے چھوٹے کیڑے نمودار ہونے لگے جس کی نہ تو  کسی ڈاکٹر کو سمجھ آرہی تھی اور نہ ہی کسی دم والے کو تب ہی اتنی دواٸیاں کھانے اور لگانے کے باوجود بھی جب زخم کم ہونے کی بجائے بازو کی طرف بڑھنے لگا تو ڈاکٹر نے سلیم صاحب کو خالدہ بیگم کا ہاتھ کٹوانے کا مشورہ دیا تاکہ زخم مزید پھیل کر اذیت کا باعث نہ بنے۔”میں ہاتھ نہیں کٹواؤں گئیں اور ڈاکٹر کا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا جو اتنی آسانی سے یہ بات کہہ دی جیسے میرا ہاتھ نہ ہو کوئی چیز ہو جیسے کاٹ دیا جائے؟“خالدہ بیگم کے کانوں تک جیسے ہی یہ بات پہنچی اُنہوں نے غصے اور ڈر کے ملے جلے تاثرات سے چیختے ہوئے ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ سلیم صاحب کو بھی کوسا جو بڑے پرسکون انداز میں اُن کو یہ بات بتا رہے تھے۔”اُس کا دماغ خراب نہیں ہوا بلکہ تمہارا ہو گیا ہے جو بات سننے اور سمجھنے سے پہلے ہی واویلا مچانا شروع کر دیتی ہو“،اُن کے قریب بیٹھتے سلیم صاحب نے اُن کے مسلسل بولنے سے تنگ آکر بے زاری سے کہا۔”ہاں ہاں میرا ہی دماغ خراب ہو گیا ہے جو آپ کے منہ لگ رہی ہوں اور میں آپ کو بتا رہی ہوں سلیم صاحب میں اُس جعلی دو نمبر ڈاکٹر کی باتوں میں آکر اپنا ہاتھ بالکل بھی نہیں کٹواؤں گی چاہے جو مرضی ہو جائے“ ،آنکھوں میں بے بسی اور تکلیف کے باعث آنے والوں آنسوؤں کو دائیں ہاتھ سے صاف کرتے وہ اُٹھ کر کمرے سے باہر چلی گئیں تو سلیم صاحب نے اُن کی حالت دیکھ کر اللہ پاک سے رحم کی دعا کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک ہفتے بعد ڈاکٹرز نے سکندر صاحب کی حالت سنبھلنے کے بعد اُنہیں ڈسچارج کیاتو حاشر اور حارث اُنہیں لے کر گھر پہنچے جہاں پر فریحہ بیگم اور سارہ اُنہی کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔”ماموں۔۔؟یہ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟“سارہ جو اُس دن سے طبیعت خرابی کا بہانہ کر کے ایک بار بھی سکندر صاحب کو ہسپتال دیکھنے نہیں گئی تھی اُس نے اُنہیں وہیل چیئر پر بے بسی کی تصویر بنے دیکھ کر چہرے پر تکلیف کے جھوٹے تاثرات سجاتے اُن کے قریب نیچے زمین پر بیٹھتے آنکھوں میں آنسو بھرتے اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ جس پر سکندر صاحب نے کچھ بولنے کی کوشش میں اپنے لب ہلائے اورغصے سے اُس کا ہاتھ جھٹکتے حارث کو اشارے سے اپنے کمرے میں جانے کا کہا تو سارہ کے ساتھ ساتھ فریحہ بیگم نے بھی کسی غیر معمولی احساس کے تحت ایک دوسرے کو دیکھا۔”ابو اپنی طبیعت کی وجہ سے کافی چڑچڑے ہو گئے ہیں اس لیے تم پریشان مت ہونا،ہمارے ساتھ بھی وہ کچھ دنوں سے ایسے ہی اکڑے اکڑے سے ہیں“ ،حارث کو سکندر صاحب کی وہیل چیئر دھکیل کر کمرے کی طرف لے جاتا دیکھ حاشر نے سارہ کے اُترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر تسلی دی اور خود بھی اُن کے پیچھے ہی کمرے کی جانب بڑھا۔”یہ بڈھے کو کیا ہوا؟ ایسے میرا ہاتھ کیوں جھٹکا؟“اُن کے جاتے ہی سارہ نے تاسف سے فریحہ بیگم کی طرف دیکھا جو خود بھی سکندر صاحب کی حرکت پرغور کرتے وجہ سمجھنے کی کوشش میں لگی سارہ کی بات پر نفی میں سر ہلا گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نور کا آج آخری پیپر تھا تب ہی اُس نے خدیجہ کے کہنے پر زارون کو لیٹ آنے کا کہا تاکہ وہ دونوں ساتھ کچھ وقت گزار سکیں مگر پرچہ ختم ہوتے ہی خدیجہ نے اُس سے اصرار کیا کہ وہ اُس کے ساتھ اُس کے گھر چلے کیونکہ اُس کی امی اُس سے ملنا چاہتی ہیں۔”نہیں یار میں نہیں جا سکتی ویسے بھی دی جان میرا انتظار کر رہی ہوں گی اور زارون کی اجازت کے بغیر جاؤں گی تو وہ غصہ کرے گا اس لیے میں کسی اور وقت چکر لگالوں گی“ ،نور نے اُس کے بڑھتے اصرار پر ایک معقول سی وجہ بتاتے معذرت کی۔”اوو تو یہ بات ہے اب تمہیں مجھ سے زیادہ زارون اور اُس کی دی جان عزیز ہو گئی ہیں“،ٹھیک ہے بھئی یہاں تو ہر انسان ہی مطلب پرست ہے، طنزیہ سی ہنسی ہنستے خدیجہ نے کندھے اچکائے تو نور نے نفی میں سر ہلاتے وضاحت دی۔”نہیں ،یار ایسی بات نہیں ہے اور تم کیوں ایسی باتیں کر رہی ہو؟ہماری دوستی کے بیچ کوئی نہیں آسکتا پر۔۔۔۔“ ”کیا پر؟اور میں کون سا تمہیں اغواہ کرنے لگی جو تم اس طرح میرے ساتھ جانے سے ڈر رہی ہو اور تم پہلے بھی بہت بار انکار کر چکی ہو پر آج تمہیں میرے ساتھ چلنا پڑے گا کیونکہ میں ماما کو بول کے آئی ہوں کہ آج نور میرے ساتھ آئے گی تو آپ کسی پارٹی میں مت جائیے گا بلکہ گھر پہ رہیے گا اور اب تم خود سوچو کہ اگر تم نہ گئیں تو ماما کو کتنا بُرا لگے اور ساتھ مجھے بھی“،نور کو بات کے درمیان رکتا دیکھ خدیجہ نے اپنی ناراضگی برقرار رکھتے ایک اور پتہ پھینکا۔”اُففف خدیجہ یار ایسی بات نہیں ہے اور تم میری بات نہیں سمجھ رہی ،اچھا ٹھیک ہے میں زارون سے فون کر کہ پوچھ لیتی ہوں پھر چلتی ہوں تمہارے ساتھ“ ،اُس کا منہ بنا دیکھ نور نے اپنا موبائل نکالا تو خدیجہ نے جلدی سے اُسے اُس کے ہاتھ سے اچک لیا۔”شرم کر لو اور میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ اُس زارون کو اپنے سر پر اتنا سوار نہ کرو کہ بعد میں وہ تمہاری زندگی کہ ہر کام اور فیصلے میں مداخلت کرے، یارکچھ فیصلہ اپنی مرضی سے کرنا سیکھو اور اگرتمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے یا میرے ساتھ کہیں بھی جانے کے لیے تمہیں اپنے شوہر کی اجازت چاہیے تو پلیز رہنے دو، مجھے تمہیں کہیں نہیں لے کر جانا“،موبائل واپس اُس کے بیگ میں ڈالتے اُس نے خفگی سے اپنی بات مکمل کی اور اُٹھ کر جانے لگی کہ نور نے اُس کا ہاتھ پکڑتے روکا۔ ”پلیز اب تم تو ناراض نہ ہو اور میں نے ساتھ جانے سے منع نہیں کیا میرا بھی دل ہے کہ میں آنٹی سے ملوں پر مجھے اک بار زارون سے پوچھ لینے دو تاکہ وہ بعد میں غصہ نہ کرے“،نور نے اُس کے سامنے کھڑے ہوتے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی تو خدیجہ نے نفی میں سر ہلاتے اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ سے نکالا۔”سوری پر مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں کہیں بھی تمہارے ساتھ کسی کی بھی اجازت لیے بغیر چلی جاتی ہوں کیونکہ مجھے تم پر اعتبار ہے مگر تم نے آج یہ بات کر کے ثابت کر دیا ہے کہ تمہیں نہ تومجھ پر یقین ہے اور نہ ہی تم اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر میرے ساتھ کہیں جا سکتی ہو“،آنکھوں میں اداسی لیے اُس نے جس طرح سے نور کو اُس کی غلطی کا احساس دلایا اُس نے حامی بھرنے میں ایک سیکنڈ لگایا۔”ٹھیک ہے میں چل رہی ہوں اب موڈ ٹھیک کرو اپنا“،اُس کی آنکھوں میں نمی اور افسردگی دیکھ کر نور سے برادشت نہیں ہوا تب ہی اُس نے دل سے تمام خدشات کو دور کرتے خدیجہ کے ساتھ جانے کی حامی بھری تو وہ خوشی سے چیختے اُس کے گلے لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔زارون گیارہ بجے تک ایک میٹنگ  سے فارغ ہونے کے بعد دی جان کے کہنے پر اُنہیں ٹائم سے سکندر صاحب کے گھر لے گیا تاکہ وہاں سے واپسی پر نور کو یونیورسٹی سے لے سکے جس نے آج اُسے چار بجے تک آنے کا کہا تھا۔۔۔۔۔۔۔”دی جان میں آپ کو بتا رہا ہوں نا کہ یہاں آنے یا بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ میں ان لوگوں کو اچھے سے جانتا ہوں یہ آپ کی کوئی بات نہیں سنیں گے“،زارون نے گیٹ کے سامنے گاڑی روکتے اُنہیں ایک بار پھر سے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی۔۔۔۔”بات کرنا اور مسئلے کو سلجھانا میرا فرض ہے باقی جو اللہ کو منظور ہوا ہونا وہی ہے اس لیے تم زیادہ پریشان مت ہو اور چلو اندر“،نرمی سے جواب دیتے اُنہوں نے اپنی طرف کا دروازہ کھولا تو اُن کے ارادوں میں پختگی دیکھ کر زارون نے اپنے آپک و مزید کچھ کہنے سے باز رکھا اور اپنی طرف کا دروازہ کھول کر دی جان کا ہاتھ پکڑ کر اُنہیں گاڑی سے نکالتے اندر کی جانب بڑھا جہاں راحیل(جو سکندر صاحب کا خاص ڈرائیور ہونے سے پہلے زارون کا وفادار ملازم تھا اور اُسی کے کہنے پرسکندر صاحب کے گھر پچھلے چار سال سے نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ وہ وہاں چلتے تمام حالات کی خبر زارون کو دیتا ،نور کے نکاح کا بھی اُسی نے زارون کو بتایا تھا تب ہی وہ عین وقت پر وہاں پہنچ گیا) نے زارون کو دیکھتے ہی چوکیدار سے اُنہیں اندر آنے دینے کا کہا۔۔۔”کیسے ہو؟؟؟“زارون نے اُس کے قریب رکتے پوچھا۔۔۔”جی سر میں ٹھیک ہوں اور آپ یہاں کیسے؟؟ سب خیریت ہے نا؟؟“ زارون کو اچانک وہاں دیکھ کر راحیل نے دی جان کو سلام کیا جو اُسے وہاں دیکھ کر حیران تھیں۔۔۔۔”ہاں خیریت ہی ہے بس دی جان کی ضد تھی کہ اپنی بہو کے گھر والوں سے ملنا چاہتی ہیں تب ہی لے آیا“،ہلکی سے مسکراہٹ چہرے پر سجاتے اُس نے جواب دیا اور بیرونی دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے حارث عجلت میں نکل کر اپنی گاڑی کی جانب بڑھا پر زارون پر نظر پڑتے ہی رک گیا۔۔۔۔”تم یہاں کیسے؟؟“گاڑی کا دروازہ بند کرتے وہ اُس کی جانب بڑھا جو اشارے سے راحیل کو جانے کا کہہ چکا تھا۔۔۔۔”دی جان یہ حارث ہے نور کا بڑا بھائی جس کا ذکر وہ اکثر آپ سے کرتی ہے“،اُس کی بات کا جواب دینے کی بجائے زارون نے دی جان سے اُس کا تعارف کروایا جو اُس کا نام سنتے ہی ایک نرم مسکراہٹ کے ساتھ اُسے دیکھنے لگیں جو ابھی تک آنکھوں میں بے یقینی لیے اُن دونوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔”ہم سکندر صاحب سے بات کرنے آئے ہیں بلکہ اُنہیں منانے،کیا وہ گھر پہ ہیں؟؟؟“دی جان نے بہت اپنایت کے ساتھ سوال کیا تو حارث نے اثبات میں سر ہلاتے اُنہیں اپنے ساتھ اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔”آپ بیٹھیں اور جو بھی بات ہے مجھے بتا دیں کیوں کہ ابو کی طبیعت خراب ہے“،ڈرائنگ روم میں آتے اُس نے اُنہیں بیٹھنے کا کہتے خود بھی سامنے والے صوفے پر بیٹھتے اپنے دل کو نور کے بارے میں پوچھنے سے باز رکھتے کہا۔۔۔۔”بات تو آپ کے ابو سے ہی کرنے والی تھی تو اگر اُن کی طبیعت زیادہ خراب نہیں ہے تو آپ مہربانی کر کے اُن ہی بلا دیں“،حارث کی بات سنتے ہی دی جان نے شائستہ لہجے میں درخواست کی۔۔۔۔”اُن کو کچھ دن پہلے ہی فالج کا اٹیک ہوا جس کی وجہ سے اُن کے بائیں حصہ کام کرنا چھوڑ چکا ہے، زبان پہ بھی اثر ہے اس لیے آپ کی کسی بات کا جواب نہیں دے پائیں گے“،دی جان کی عمر کا لحاظ کرتے حارث نے نرمی سے جواب دیا۔۔۔”اوو اللہ پاک صحت دے“،دی جان نے حارث کی بات سنتے ہی دعا دی اور اصل بات پر آتے اپنی بات کا آغاز کیا۔۔۔۔”دیکھو بیٹا تم بھی جوان ہو پڑھے لکھے ہو سمجھ سکتے ہو کہ انسان غلطی کا پتلا ہے اور بعض اوقات جذبات میں آکر بڑے بڑے فیصلے بناء سوچے سمجھے کر لیتا ہے جیسے زارون اور نور نے کیا مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک غلطی کے بعد انسان مزید غلطیاں کرے اسی لیے میں ان کی غلطی کو سدھارنے یہاں آئی ہوں تاکہ ہم دو خاندانوں کے درمیان اس وجہ سے جو خلش آچکی ہے وہ دور ہو سکے“،دی جان نے بڑے تحمل کے ساتھ اپنی بات کی بنیاد رکھی اور حارث کی سوالیہ نظروں پر اپنی بات کو مزید آگے بڑھایا۔۔۔”میں جانتی ہوں کہ ایک بار بیٹی کی عزت پر کوئی داغ لگ جائے تو ساری عمر نہیں مٹتا اور یہ بھی سمجھتی ہوں کہ زارون نے جو کچھ کیا وہ غلط تھا اُسے نور کو اس طرح اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہیے تھا پر شاید ان کی قسمت میں اسی طرح ایک ہونا لکھا تھا“،ڈرائنگ روم میں کسی عورت کو داخل ہوتا دیکھ کر دی جان نے مزید کچھ کہنے سے پہلے نظر اُٹھا کر دیکھا۔۔۔”یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟؟اور تم؟؟تم نے ایسے اندر کیسے آنے دیا؟؟؟“فریحہ بیگم نے زارون کو دیکھتے ہی حارث پر چلاتے ہوئے پوچھا جو اُن کے آنے کا کوئی بھی نوٹس لیے بغیر دی جان کی بات پر غور کر رہا تھا۔۔۔”یہ میرا گھر ہے اور یہاں سب میری مرضی کے مطابق ہو گا اس لیے آپ مزید کچھ بھی بولنے سے پہلے سوچ لیجیے گا“،زارون کے کچھ بولنے سے پہلے ہی حارث نے اُن کی طرف دیکھے بغیر خبردار کیا۔۔۔”کونسا گھر؟؟ یہ گھر بھائی صاحب میرے نام کر چکے ہیں اس لیے یہاں جو کچھ بھی ہو گا وہ سب میری مرضی سے ہو گا تو تمہارے لیے بہتر ہے کہ ان لوگوں کو یہاں سے دفع کرو اور دوبارہ مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا کہ اب تم اپنے نہیں بلکہ میرے گھر میں کھڑے ہو کر بات کر رہے ہو“،ایک نظر دی جان پر ڈالتے (جو زارون کو کچھ بھی بولنے سے منع کر رہی تھی) فریحہ بیگم نے زہر اُگلا تو حارث کی ہمت جواب دے گئی جو تب سے ضبط سے اُن کی ساری باتیں برداشت کر رہا تھا۔۔۔۔”یہ لوگ کہیں نہیں جائیں گے اور آپ کو جو کرنا ہے کر لیں میں بھی دیکھتا ہوں اس گھر سے مجھے کون نکلتا ہے،یہ گھر ہمارا تھا ہمارا ہی رہے گا سمجھیں آپ“،حارث نے کسی کی بھی پروا کیے بناء چلاتے ہوئے کہا تو ڈرائنگ روم میں شور کی آواز پر حاشر جو سکندر صاحب کو لاؤنج میں لے کر جا رہا تھا اُس جانب بڑھا۔۔۔”یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟؟“میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا زارون کو دیکھتے ہی حاشر وہیل چیئر چھوڑتے اُس کی جانب لپکا پر حارث نے اُسے زارون تک پہنچنے سے پہلے ہی پکڑا۔۔۔۔۔”زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے، تم ابو کو لے کے باہر جاؤ میں بات کر رہا ہوں“،حاشر کی آنکھوں میں غصے کی لہر دیکھتے حارث نے ٹوکا۔۔۔”میں کہیں نہیں جاؤں گا اور اسے بھی کہیں نہیں جانے دوں گا اس کی ہمت کیسے ہوئی یہاں قدم رکھنے کی“،حارث کا ہاتھ جھٹکتے حاشر نے خونخوار نظروں سے زارون کو دیکھا جو اب اُن سب کی مسلسل بدتمیزوں پر دانت پیستے بس دی جان کی وجہ سے خاموش کھڑا سب برداشت کر رہا تھا۔۔۔۔”بیٹا تحمل سے بیٹھ کر ہماری بات سُن لو ایسے غصے سے نہ تمہیں کچھ حاصل ہوگا نہ ہمیں بلکہ بات مزید بگڑ جائے گی“،دی جان  نے حاشر کے سامنے جاتے اُسے سمجھانے کی کوشش کی جو بار بار حارث سے ہاتھ چھڑواتے زارون کو مارنے کے لیے اُس کی جانب لپک رہا تھا۔۔۔۔”بڑھیا تمہارے لیے اچھا ہے کہ یہاں سے چپ کر کہ اپنے اس بیٹے کو لے کر چلی جاؤ، ورنہ اس عمر میں میرے بھتیجے نے تمہاری کوئی ہڈی وڈی توڑ دی تو پھر جوڑنی  بھی مشکل ہو جائے گی“،حارث حاشر کی مسلسل بدتمیزوں کو دیکھ دی جان کو کچھ دیر انتظار کرنے کا کہتے اُسے لے کر باہر کی جانب بڑھا تاکہ اُس کا غصہ ٹھنڈا کر سکے تو فریحہ بیگم نے موقع ملتے ہی ساجدہ بیگم کو مشورہ دیا جس پر زارون نے تمام باتیں فرمواش کرتے فریحہ بیگم کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے اُن کا راستہ روکا جو اپنی بات کہہ کر واپس جا رہی تھیں۔۔۔”کیا بکواس کی ہے تم نے ابھی؟؟؟“آنکھوں میں بلا کا غصہ لیے زارون نے اپنے جبڑوں کو مضبوطی سے بند کرتے پوچھا تو فریحہ بیگم دو قدم پیچھے ہوئیں۔۔۔”زارون چھوڑو بس گھر چلو مجھے لگتا ہے ہم نے یہاں آکر غلطی کر لی“،دی جان نے اُسے آگ بگولہ ہوتے دیکھ مداخلت کی اور اُس کا بازؤ پکڑ کر اپنے ساتھ باہر کی جانب دھیکلا تاکہ مزید کوئی تماشہ نہ بنے۔۔۔”دی جان پلیز مجھے چھوڑ دیں میں اس عورت کو اس کی اوقات یاد دلا کر ہی یہاں سے جاؤں گا“،زارون نے اُن کا ہاتھ ہٹاتے کہا اور واپس فریحہ بیگم کی جانب بڑھا جو زارون کے غصے سے سہم چکی تھیں۔۔۔۔”زارون میں کہہ رہی ہوں نا یہاں سے چلو تو بس چلو“،دی جان نے اب کی بار غصے سے حکم دیا تو وہ فریحہ بیگم کی بعد میں خبر لینے کا ارادہ کرتے دی جان کے پیچھے ہی باہر کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ خدٖیجہ کے ساتھ اُس کے گھر پہنچی تو اُس کی امی نے ہی اُن کا استقبال کیا جو نور کو کہیں سے بھی خدیجہ کی والدہ نہیں لگیں۔۔۔”ماشاءاللہ آپ کی دوست تو بہت پیاری ہے آپ کی باتوں اور تعریفوں سے بھی زیادہ“،نور کے شفاف چہرے کو دیکھتے تہمینہ بیگم نے اپنا ساڑھی کا پلو ٹھیک کیا تو نور نے اُن کا تفصیلی جائزہ لیا جو سرخ رنگ کی ساڑھی میں چہرے پر میک اپ کی تہہ چڑھائے اور بھاری زیورات کے ساتھ بالوں میں سفید موتیوں کے گجرے لگے نور کو کسی طرف سے معزز یا عام خاتون نہیں لگی تب ہی اُس نے کچھ منٹ بیٹھنے کے بعد خدیجہ سے جانے کا کہا جو بڑی بے تکلفی کے ساتھ اپنی ماں کو نور کے بارے میں بتا رہی تھی۔۔۔”اتنی جلدی ابھی تو ہمیں دس منٹ بھی نہیں ہوئے یہاں آئے ہوئے“،اُس کی بات سنتے ہی خدیجہ نے کلاک کی جانب دیکھا۔۔۔”ہاں بس دی جان میرا انتظار کر رہی ہوں گی اور زارون بھی شاید اب تک مجھے لینے آچکا ہو تو پلیز تم مجھے یونیورسٹی ڈراپ کر دو“،نور نے وہاں کے ماحول سے کچھ اجنبیت سی محسوس کرتے خدیجہ سے کہا جو اُس کو پریشان دیکھ کر تسلی دیتے کچھ دیر میں چلنے کا کہتے اپنی ملازمہ کو آواز لگانے لگی۔۔۔۔”مجھے لگ رہا ہے آپ کی دوست کو ہم سے مل کر زیادہ خوشی نہیں ہوئی“،نور کے چہرے پر ہوائیاں اُڑی دیکھ تہمینہ بیگم نے اندازہ لگایا۔۔۔۔”نہیں ،آنٹی ایسی کوئی بات نہیں ہے بس میرے شوہر مجھے لینے آگئے ہوں گے، اس لیے جانے کا بول رہی ہوں“،مرواتا نور نے مسکراتے ہوئے اُنہیں مطمئن کیا تو ملازمہ خدیجہ کی ہدایت کے مطابق جوس لے کر لاؤنج میں داخل ہوئی۔۔۔۔۔”اس تکلف کی کیا ضرورت تھی“،نورنے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتے جوس کا گلاس اُٹھایا۔۔۔”کیوں ضرورت نہیں تھی بھئی تم ہماری مہمان اور ہم اپنے مہمانوں کی بہت عزت کرتے ہیں“ نور کے کانپتے ہاتھوں کو دیکھ کر خدیحہ نے تہمینہ بیگم کو چپکے سے آنکھ ماری تو وہ اپنی مسکراہٹ سکیڑتے گلاس لبوں سے لگا گئی۔۔۔۔۔

قسط نمبر: 30

”دی جان میں نے آپ سے کہا تھا نا ان لوگوں سے بات کرنا بے کار ہے اور آپ نے مجھے کیوں روکا؟؟میں اُس عورت کو زندہ نہیں چھوڑوں گا اُس کی ہمت کیسے ہوئی آپ سے بدتمیزی کرنے کی“ زارون نے گاڑی یونیورسٹی کے راستے میں ڈالتے کو ئی دس بار ایک ہی بات دوہرائی تو دی جان کو بھی اپنے فیصلہ پر تھوڑا افسوس ہوا۔۔۔۔”ہمم بات کرنا تو بے کار تھا پر میں نے اپنا فرض پورا کیا تاکہ کل کو نور کو یہ نہ لگے کہ ہم نے اُس کے گھر والوں کو منانے کی ایک بھی کوشش نہیں کی“،دی جان نے زارون کے غصے کی وجہ اپنے لہجے کو ہموار رکھتے اُسے یہ ظاہر ہونے نہیں دیا کہ اُنہیں حاشر کی یا فریحہ بیگم کی کوئی بات بُری لگی ہے۔۔۔”نورکو کچھ نہیں لگے گا کیوں کہ وہ خود بھی اپنے گھر والوں کی اصلیت اچھے سے جانتی ہے اس لیے آپ بے فکر رہیں اور گھر پہنچتے ہی حویلی جانے کی تیاری کریں میں آج شام میں ہی آپ لوگوں کو سائیں کی حویلی چھوڑ آؤں گا“،زارون نے بات کو مزید طول دینے کی بجائے دی جان سے کہا جو خود بھی نور کے گھر والوں کے رویے سے کافی افسردہ ہوئیں تھیں تب ہی زارون کی بات سنتے ہی اثبات میں سر ہلا گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔یونیورسٹی کے سامنے گاڑی روکتے زارون نے دی جان کو دو منٹ کا بولتے اپنی طرف کا دروازہ کھولا اور گیٹ کے پاس نور کی تلاش میں نظر دوڑائی۔۔۔”کہاں رہ گئی ہے یہ لڑکی“،کچھ منٹ انتظار کرنے کے بعداُس نے اپنے موبائل سے اُس کا نمبر ڈائل کیا اور دوسری طرف موبائل بند دیکھ کر یونیورسٹی کے اندر کی جانب بڑھا۔۔۔۔”اُفف اب یہ موبائیل پتا نہیں کیوں آف کیا ہوا ہے“،دو تین بار ٹرائی کرنے کے بعد زارون نے کچھ سوچتے ہوئے اُس کے ڈیپارٹمنٹ کا رخ کیا پر وہاں پہنچ کر اُس کی کلاس اور ہر جگہ دیکھنے کے بعد بھی جب وہ اُسے نہیں ملی تو اُس نے پھر سے موبائل سے اُس کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔”پھربند اتنی بار کہا ہے کہ موبائل یاد سے چارج کر لیا کرو پر میری تو کسی بات کی سمجھ نہیں آتی“ اسے دوسے تین جگہ مزید دیکھتے جہاں جہاں اُس کے ملنے کی امید تھی زارون نے اُس کی کلاس کی لڑکی(جس نے نور نے اُس دن نوٹس لیے تھے) کو پاس سے گزارتا دیکھ کر مخاطب کیا۔۔۔ ”ایکسوزمی سسٹر؟؟کیا آپ نور میرا مطلب نور العین کی کلاس فیلو ہیں۔۔۔؟؟“”جی اور آپ اُس کے شوہر ہیں ناجو اُس دن اُس کے ساتھ نوٹس بنا رہے تھے؟“سحر نے زارون کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔۔۔”جی جی میں وہی ہوں وہ مجھے پوچھنا تھا کیا آپ نے نور کو کہیں دیکھا؟؟ایکچولی وہ مجھے مل نہیں رہی اور اُس کا موبائل بھی بند ہے“،زارون نے ادھر اُدھر کی کوئی بات کرنے کی بجائے سیدھا اپنے مسئلے پر آتے اُس سے پوچھا جو شاید زارون کے اس طرح مخاطب کرنے پر کچھ زیادہ ہی پر جوش ہو چکی تھی۔۔۔”نہیں ،میں نے ابھی تو نہیں دیکھا پر اب سے تقربیا دو گھنٹے پہلے میں نے اُسے خدیجہ کے ساتھ لان میں بیٹھے دیکھے تھا“،سحر نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا۔۔۔”اچھا تو آپ پلیز خدیجہ سے پوچھ سکتی ہیں کہ نور اس وقت کہاں ہیں یا آپ مجھے ہی نمبر دے دیں میں خود ہی پوچھ لیتا ہوں“،ہچکچاتے ہوئے زارون نے اُس سے اپنی بات کہی کیوں کہ اس طرح کسی لڑکی کا نمبر مانگتے اُسے خود بھی عجیب لگ رہا تھا۔۔۔۔”جی میں ویسے بھی اُس ٹائپ کی لڑکیوں سے بات نہیں کرتی اور نہ ہی میرے پاس اُس کا نمبر ہے پر میں آپ کو  اپنے سی آر سے لے کر دے دیتی ہوں“،زارون کی بات سنتے ہی سحر نے اُسے پریشان دیکھ کر اُس کا مسئلہ حل کیا اور اپنے موبائل سے کسی کا نمبرڈائل کرنے لگی تو زارون نے اُس کا شکریہ ادا کیا۔۔۔۔”ہیلو احمد کیا تم مجھے خدیجہ کا نمبر سینڈ کر سکتے ہو؟؟مجھے اُس سے کام تھا“،سحر نے سلام کرتے ہی دوسری طرف موجود لڑکے سے کہا۔۔۔”اچھا تھینک یو پلیز ابھی سینڈ کر دو“،اُس کی بات سنتے ہی سحر نے زارون کی طرف دیکھا جو اُس کی مسکراہٹ سے سمجھ چکا تھا کہ اُس کا کام ہو چکا ہے۔۔۔”کر رہا ہے سینڈ“،موبائیل کان سے ہٹاتے اُس نے زارون کو بتایا اور ساتھ ہی احمد کا میسج دیکھتے اُسے نمبر نوٹ کروانے لگی جس کی فکر مندی اب پریشانی میں بدل چکی تھی۔۔۔۔”بہت شکریہ آپ کا“،زارون نے ایک بار پھر سے اُس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے موبائل سے نمبر ڈائل کرتے کینٹین سے باہر آیا پر دوسری طرف نمبر بند ملنے پر اب اُسے صحیح معنوں میں پریشانی ہوئی تب ہی اُس نے دی جان کا خیال آتے باہر کا رخ کیا تاکہ اُنہیں کسی طرح گھر بھیج کر خود نور کو تلاش کر سکے جو پتا نہیں اچانک کہاں غائب ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یو نیورسٹی سے باہر نکلتے ہی زارون نے عالیان کو کال کر کہ ساری بات بتاتے دس منٹ میں یونیورسٹی پہنچنے کا بولا۔۔۔۔”کہاں ہے نور؟؟ابھی فری نہیں ہوئی کیا؟؟“آدھے گھنٹے بعد بھی اُسے اپنی طرف اکیلے ہی آتے دیکھ کر ساجدہ بیگم نے سوال کیا۔۔۔۔”جی ،دی جان بس اُس کا ابھی تھوڑا کام رہتا ہے، ٹائم لگے گا اُسے“،زارون نے اصل بات بتا کر اُنہیں پریشان کرنے کی بجائے جھوٹ کا سہارا لیا۔۔۔۔”اچھا ٹھیک ہے آ جاؤ تم بھی اندر ہم انتظار کر لیتے ہیں“ اُسے گاڑی سے باہر کھڑا دیکھ کر اُنہوں نے کہا تو زارون نے نفی میں سرہلایا۔۔۔”نہیں آپ گھر جائیں میں نے عالیان کو بُلایا ہے اور میں کچھ دیر میں نور کو ساتھ لے کر ہی آؤں گا“،عالیان کی گاڑی اپنے قریب رکتی دیکھ کر جو دس منٹ سے بھی پہلے وہاں پہنچ چکا تھا زارون نے کہتے ساتھ ہی اُن کی طرف کا دروازہ کھولا۔۔۔۔”زیادہ وقت لگے گا کیا جو تم نے عالیان کو بلوا لیا“،اُس کے چہرے کے اُڑے ہوئے رنگ دیکھ کر ساجدہ بیگم کو کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا تب ہی اُنہوں نے پھر سے سوال کیا۔۔۔۔”جی ایک گھنٹہ لگے گا ابھی اور شام بھی ہو رہی ہے تو مجھے ایسے اُسے اکیلا چھوڑنا کچھ مناسب نہیں لگا تب ہی عالیان کو بُلایا کہ وہ آپ کو گھر چھوڑ دے تاکہ میں پھر تسلی سے نور کو لے کر ہی گھر آؤں“ ،زارون نے پوری بات تفصیل سے بتاتے ساجدہ بیگم کو مطمئن کیا اور عالیان کو وہیں رکنے کا اشارہ کرتے اُن کی طرف کا دروازہ کھولتے اُنہیں ہاتھ کا سہارا دے کر نیچے اُتارا۔۔”ٹھیک ہے جلدی آجانا“،گاڑی کے پاس جاتے اُنہوں نے عالیان کے سلام کا جواب دیتے زارون کو تلقین کی جو اثبات میں سر ہلاتے اُنہیں عالیان کی گاڑی میں بیٹھا چکا تھ۔۔۔۔۔”کیا ہوا اور کہاں گئی ہیں بھابھی؟؟“عالیان نے دی جان کے بیٹھتے ہی تھوڑ سا سائیڈ پر ہوتے زارون سے پوچھا۔۔۔۔”پتا نہیں یار ہر جگہ دیکھ چکا ہوں کہیں نہیں مل رہی اور اوپر سے موبائل بھی بند ہے“”لڑائی ہوئی تھی کیا تمہاری۔۔۔؟؟؟عالیان کو لگا شاید ابھی بھی اُن کے درمیان سب ویسا ہی ہے تب ہی اُس نے اندازہ لگایا۔۔۔”نہیں یار لڑنا کیوں ہے اور لڑنے سے نور کے غائب ہونے کا کیا تعلق؟؟“سوالیہ نظروں سے اُس کی جانب دیکھتے وہ کچھ الجھا۔۔۔۔”اچھا پریشان نہ ہو،یہیں ہوں گی تم دیکھو میں بس کچھ دیر میں دی جان کو چھوڑ کر آتا ہوں“،ساجدہ بیگم کو اپنی جانب متوجہ دیکھ کر عالیان نے اُسے تسلی دی اور دوسری طرف ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھتے گاڑی سٹارٹ کرتے سڑک پر ڈالی تو زارون اُن کے جاتے ہی واپس یونیورسٹی کی جانب بڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نور کو تلاش کرتے شام کے سات بج چکے تھے اور دھیرے دھیرے یونیورسٹی خالی ہونے لگی تو زارون کو اپنا دل بند ہوتا محسوس ہوا۔۔۔”یار اب کیا کریں میری تو بس ہو گئی ہے چل چل کہ پر بھابھی تو مل ہی نہیں رہی“،عالیان جو دی جان کو چھوڑ کر پندرہ منٹ میں واپس آگیا تھا اور تب سے ہی زارون کے ساتھ مختلف لوگوں سے پوچھتے اور یونیورسٹی کا ہر حصہ دیکھنے کے بعد اُس نے پھولے ہوئے سانس کو ہموار کرنے کے لیے ایک بینچ پر بیٹھتے کہا۔۔۔۔”مجھے تو لگ رہا ہے وہ یہاں ہیں ہی نہیں“،زارون کو خاموش دیکھ کر عالیان نے ایک بارپھر سے اپنا اندازہ لگایا تو اُس کی بات سنتے ہی زارون نے اپنا موبائل نکالا اور ڈی ایس پی(جو احتشام صاحب کی وجہ سے  زارون کو بھی بہت اچھے سے جانتا تھا) کو کال کرتے تمام صورت حال سے آگاہ کرتے یونیورسٹی آنے کا کہا تاکہ وہاں کی ایڈمنسٹریشن سے بات کر کے آج کی سی سی ٹی کیمروں کی ویڈیوز دیکھے سکیں۔۔۔۔”ٹھیک ہے زارون تم انتظار کرو میں بس کچھ ہی دیر میں خود وہاں آتا ہوں“،ڈی ایس پی نے اُسے تسلی دی تو زارون نے اُنہیں جلدی آنے کی تلقین کرتے کال کاٹ دی۔۔۔۔”یار پولیس کو انفارم کرنے کی کیا ضرورت تھی ہم خود ہی جا کر ایڈمنسٹریشن سے بات کر لیتے“،اُس کے فون بند کرتے ہی عالیان نے اُس کے قریب آتے کہا تو زارون نے جواب دینے کی بجائے اُسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔”اُفف ایک تو یہ لڑکا کسی کی نہیں سنتا“،اُس کی پشت کو دیکھتے عالیان نے خود کلامی کی اور اُس کے پیچھے ہی یونیورسٹی کی دوسری جانب بڑھا جہاں انفارمیشن آفس کے ساتھ کنٹرول روم بھی موجود تھا( جہاں گارڈ کے انفارمیشن کے مطابق اُسے  تمام سی سی ٹی وی کیمروں کی ویڈیو کا ریکارڈمل سکتا تھا)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نور کی آنکھ کھلی تو اُس نے سراُٹھانے کی کوشش کی جو کافی بھاری تھا۔۔۔ ”یہ میں کہاں ہوں؟؟“خود کو ایک انجان جگہ پر دیکھ اُس نے آنکھیں جھپکتے سوچا اور ذہن پر زور ڈالتے ہی اُسے یاد آیا کہ وہ خدیجہ کے ساتھ اُس کے گھر آئی تھی جہاں جوس پینے کے بعد وہ شاید بے ہوش ہو گئی تھی۔۔۔”خدیجہ؟؟“بامشکل سر اُٹھاتے وہ اُٹھ کر بیٹھی اور کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی جو خالی تھا۔۔۔۔”خدیجہ کہاں ہو تم ؟؟؟“دونوں ہاتھوں سے اپنی کنپٹیوں کو مسلتے اُس نے درد کو کم کرنے کی کوشش کی جو سر اُٹھانے سے شدید ہوچکا تھا۔۔۔۔”کہاں ہوں میں ؟؟زارون ؟؟؟“ابھی بھی نشے اور درد کی وجہ سے اُسے سمجھ نہیں آئی کہ اُس کے ساتھ کیا ہوا ہے؟؟؟تب ہی لڑکھڑاتے الفاظ کے ساتھ اُس نے اپنی آنکھوں کو کھولا رکھنے کی کوشش کی جو پھر سے بند ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔”خدیجہ کہاں ہو تم یار آجاؤ مجھے گھر چھوڑ دو زارون میرا نتظار کر رہا ہوں گا“،ہمت کر کے کھڑے ہوتے اُس نے آواز لگائی پر اس سے پہلے کے وہ کچھ سوچتی یا آگے بڑھتی ایک دم سے اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا آیا اور وہ پھر سے بیڈ پر گرتے بے ہوش ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈی ایس پی کہ آتے ہی پرنسپل کی اجازت سے زارون نے تمام ویڈیوز دیکھیں جس میں ایک بجے کے قریب نور اُسے سحر کی بتائی ہوئی جگہ پر خدیجہ کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی نظر آئی اور پھر ایک تیس پر وہ اُسے خدیجہ ہی کے ساتھ گیٹ کی طرف جاتے ہوئے نظر آئی تو زارون کا شک یقین میں بدل گیا وہ جس دن خدیجہ سے پہلے ملا تھا اُسے اُسی دن وہ خود اور اُس کی باتیں کچھ عجیب لگی تھیں پر زارون نے یہ سوچ کے اگنور کر دیا کہ ہوسکتا ہے اُس کی غلط فہمی ہو۔۔۔۔”یہ لڑکی کون ہے اور بھابھی اس کے ساتھ باہر کیوں گئیں؟؟؟“عالیان نے خدیجہ کو دیکھتے ہی حیرت سے سوال کیا تو زارون نے خدیجہ کی تصویر پر ویڈیو کو سٹاپ کرواتے ڈی ایس پی صاحب کو اُس لڑکی کو جلد از جلد تلاش کرنے کا کہا اور خود انفارمیشن روم کی جانب بڑھتے اُنہیں خدیجہ سے متعلق تمام معاملات نکالنے کاںآرڈ دیا جو پولیس کی وجہ اور اپنی یونیورسٹی سے ایک لڑکی کی گمشدگی پر خاموشی سے زارون کو خدیجہ کا تمام ریکارڈنکال کر بتانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یونیورسٹی سے ملنے والی انفارمیشن کے بعد زارون نے اکرم کو کال کرتے وہاں جا کر خدیجہ کے بارے میں پتا کرنے کا کہا اور ساتھ اُسے اُس کی تصویر بھی سینڈ کی تاکہ کسی قسم کی کوئی مشکل نہ ہو پر ایک گھنٹے بعد اکرم کی طرف سے جو خبر اُسے ملی اُس نے زارون کو تیش دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تب ہی وہ عالیان کے روکنے کے باوجود انفارمیشن روم کی جانب بڑھا ۔۔۔”زارون میری بات سنو کہاں جا رہے ہو“ اُس کے خطرناک ارادے دیکھ عالیان اُس کے پیچھے بھاگا جو وہاں داخل ہوتے ہی وہاں موجود شخص کو گربیان سے پکڑ چکا تھا۔۔۔۔”اندھے ہو تم لوگ؟؟“ ایک زور دار تھپٹر اُس شخص کے گال پر جڑتے اُس نے پھر سے ہاتھ اُٹھایا تو عالیان نے اُس کا ہاتھ پکڑا۔۔۔”کیا کر رہے ہو یار اس بچارے کا کیا قصور ہے اور وہ لڑکی کافی شاطر تھی اور شاید وہ اسی مقصد کے تحت یہاں آئی تھی“،عالیان جو خدیجہ کے نہ ملنے کی خبر سُن چکا تھا اُس نے آتے ہی زارون کو سنبھالا جو اب آپے سے باہر ہوتے ہر چیز کو آگ لگانے کے لیے بے تاب تھا۔۔۔۔”سر پلیز اپنی لمٹ میں رہیں اور آپ کی بیوی خود گئی ہیں یہ بات آپ ریکاڈنگ میں دیکھ چکے ہیں اس میں ہمارا یا یونیورسٹی کے کسی بھی شخص کا کوئی عمل دخل نہیں“،زارون کو مسلسل چیختا دیکھ کر پرنسپل نے آگے بڑھتے وضاحت دی تو زارون اپنا ہاتھ چھڑواتے اُس کی جانب لپکا۔۔۔۔”قصور آپ کا یہ ہے کہ ایک اسٹوڈنٹ پچھلے چھ مہینے سے یہاں پڑھ رہی ہے وہ بھی جعلی کاغذات پہ اور آپ کو خبر تک نہیں ہوئی اگر میری نور کو کچھ ہوا نا تو آپ سب سُن لیں زارون علی یہاں کی ہر چیز تباہ کر دے گا اور ساتھ آپ لوگوں کو بھی“ زور سے ہاتھ ٹیبل پر مارتے اُس نے دھمکی دی اور ڈی ایس پی کے آتے ہی اُن سب سے پوچھ گچھ کا کہتے باہر کی جانب بڑھا تاکہ خود جا کر خدیجہ کے بارے میں معلوم کر سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساری رات گزر چکی تھی پر نہ تو خدیجہ کا کچھ پتا چل رہاتھا اور نہ ہی نور کی کچھ خبر تھی دی جان الگ سے گھر میں اُن دونوں کی غیر موجودگی کی وجہ سے پریشان تھیں اور رشیدہ سے پانچ بار زارون کو فون کرواچکی تھیں جو ہر بار کچھ دیر میں آنے کا بولتے اُنہیں تسلی دے دیتا۔۔۔”اللہ خیر کرے پتا نہیں کیا بات ہے جو یہ لڑکا ہمیں بتا نہیں رہا“،رشیدہ نے آخری بار فون کرتے دی جان کو بتایا تو دی جان نے پریشانی نے اُسے دوبارہ نمبر ملانے کا کہا تاکہ خود زارون سے بات کر کے پوچھ سکیں۔۔۔۔”دی جان مصروف ہے نمبر چھوٹے صاحب کا“،رشیدہ نے دو بار ٹرائی کرنے کے بعد اُنہیں بتایا تو کلا ک پر صبح کے چار بجتے دیکھ اُنہوں نے اپنی تسبیح اُٹھائی اور زارون اور نور کے خیریت سے ہونے کی دعا کرنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نور کی دوبارہ آنکھ منہ پر پڑنے والے ٹھنڈے پانی سے کھلی۔۔۔”زا۔۔رون“،ایک دم سے ٹھنڈے پانی پر وہ چلاتے ہوئے اُٹھی تو اپنے سامنے زارون کی بجائے تہمینہ بیگم کو دیکھ کر  اُس کا ذہن مکمل طور پر بیدار ہوا۔۔۔۔”میں کہاں ہوں؟؟کیا ٹائم ہو گیا ہے؟؟آنٹی پلیز خدیجہ کو بُلالیں مجھے گھر چھوڑ آئے زارون بہت پریشان ہو گا“،نور نے کلاک پر وقت دیکھتے سمجھا کہ شاید شام ہو گئی ہے تب ہی جلدی سے اُٹھتے اُس نے باہر کی جانب بڑھنا چاہا مگر اُس سے پہلے ہی ایک لمبے قد کے ہٹے کٹے شخص نے اُس کا راستہ روکا جس کی حد سے زیادہ کالی رنگت اور سامنے چمکتے پیلے دانت دیکھ کر نور کو وحشت ہوئی۔۔۔۔”کیا مسئلہ ہے تمہیں میرا راستہ چھوڑو اور آنٹی پلیز خدیجہ کو بُلائیں مجھے گھر جانا ہے“،آنکھوں میں بے خوفی لیے اُس نے اُس شخص کو دیکھتے تہمینہ بیگم سے کہا جو اُس کی بات سنتے ایک زور دار قہقہہ لگاتے تالی بجانے لگیں۔۔۔۔۔”اُففف خدیجہ نے ٹھیک کہا تھا تم اول درجے کی احمق لڑکی ہو مطلب کے تم مجھے دیکھ کر بھی نہیں سمجھیں کہ وہ تمہیں کہاں لائی ہے؟؟؟“تہمینہ بیگم جو اب نا مناسب سے لباس میں دوپہر کی ہی طرح ڈھیر سارے زیور اور بالوں میں گجرے لگائے سجی سنوری سی تھیں اُنہوں نے نور کی بات سنتے قدم اُس کی جانب بڑھائے جو ابھی بھی ناسمجھی سے اُنہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔”مطلب کہاں لائی ہے مجھے؟؟؟ اورآپ یہ کیا  پہلیاں بجھوا رہی ہیں پلیز آنٹی خدیجہ سے بولیں مجھے گھر چھوڑ دے زارون پریشان ہو گا۔۔۔“”تو ہونے دو پریشان اور بھول جاؤ اُسے کیوں کہ تمہاری دوست میرا مطلب خدیجہ جو کہ میرے گینگ کا حصہ ہے اور میں اُس کی ماں نہیں بلکہ اُس کی باس ہوں وہ تمہیں یہاں میرے پاس اس کوٹھے میں چھوڑ گئی ہے“،تہمینہ بیگم نے مسکراتے ہوئے جتنی آسانی سے اپنی بات کہی نور نے اتنی ہی بے یقینی سے اُنہیں دیکھا۔۔۔”نہیں، وہ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی پلیز مجھے جانے دیں اور آپ کو جتنے پیسے چاہیے ہوں گے زارون آپ کو دے دے گا پر پلیز مجھے جانے دیں“،اُس کی بات سنتے نور کے حواس جواب دے چکے تھے اور آنسو خودبخود اپنی بے وقوفی پر گالوں پہ بہنے لگے جسے ہاتھ کی پشت سے رگڑتے اُس نے تہمینہ بیگم کی منت کی۔۔۔۔”اوو سوری میری تتلی میں تمہیں اب یہاں سے جانے نہیں دے سکتی کیوں کہ تمہاری طرح کی خوبصورت پریاں تو کبھی کبھی ہی ہمارے ہاتھ آتی ہیں اور تمہارا شوہر  ہمیں  کیا دے گا ہوننہہ بس چند لاکھ مگر تم سے کڑوڑوں کیسے کمانے ہیں یہ میں اچھے سے جانتی ہوں اس لیے زیادہ شور کرنے کی ضرورت نہیں اب یہ جگہ ہی تمہارا گھر ہے اور تم زندگی بھر یہیں رہو گی“،اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے تہمینہ بیگم نے جتنی نرمی سے کہا نور نے اتنے ہی غصے سے اُن کا ہاتھ جھٹکتے پیچھے کی جانب دھکا دیا۔۔۔۔”تم میرے شوہر کو جانتی نہیں وہ تم لوگوں کو حشر کر دے گا اور ساتھ خدیجہ کا بھی جس نے دوستی کی آڑ میں مجھ سے اتنا بڑ اکھیل کھیلا“،ہمت ہارنے کی بجائے نور نے نڈر ہوتے جواب دیا اور وہاں پڑا گلدان اُٹھا کر تہمینہ بیگم کی طرف پوری طاقت سے پھینکا جو لگنے سے پہلے ہی اُس  دیو نما شخص نے ہاتھ مارتے توڑ دیا۔۔۔۔”یہ بس چہرے سے ہی معصوم ہے اس لیے اس کا خاص دھیان رکھنا اور جتنا جلدی ممکن ہوسکے اس کی ساری اکڑ نکال دو“، اُس شخص کو ہدایت دیتے تہمینہ بیگم نے ایک اچکتی نظر نور پر ڈالی اور اُس کے چیخنے کی پروا کیے بناء کمرے سے باہر نکلی تو اُس شخص نے اندر سے دروازہ لاک کرتے قدم نور کی جانب بڑھائے جو اب اُس کے چہرے پر سجی مکروہ مسکراہٹ پر اندر تک دہل چکی تھی تب ہی آنکھوں میں خوف لیے اُس نے زور سے اللہ کو اپنی مدد کے لیے پکارا کیوں کہ اب وہی تھا جو اُسے اس شخص کے ناپاک ارادوں سے بچا سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔

قسط نمبر: 31

وہ دیو نما شخص جیسے جیسے اُس کے قریب آرہا تھا ویسے ہی نور کے دل کی دھڑکن سست ہو رہی تھی مگر پھر بھی اُس نے ہمت  نہیں ہاری اور اپنی عزت کو خطرے میں دیکھ  کر جلدی سے پاس پڑا پانی کا جگ اُٹھایا اور اُسے دیوار میں مارتے قدرے نوک دار حصہ اُٹھا کر اُس شخص کے سامنے کیا جیسے کچھ دیر پہلے تہمینہ بیگم نے جانی کے نام سے پکارا تھا۔۔۔۔”میرے قریب مت آنا ورنہ میں تمہاری جان لے لوں گی۔۔۔۔“ کانپتے ہاتھوں سے بامشکل شیشے کو سنبھالتے اُس نے اُس مضبوط جسم اور اونچے قد کاٹ کے شخص کو دھمکی دی جو اُس لڑکی پر پورے زور سے قہقہہ لگاتے ہنسا۔۔۔۔”تو منع کس نے کیا ہے،میری تتلی، آؤ مارو مجھے۔۔“ جانی نے اُس کی بہادری پر جی جان سے متاثر ہوتے اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کی تو نور نے اُس کی شکل سے کوفت محسوس کرتے اپنے ہاتھ میں پکڑا شیشے کا نوک دار ٹکڑا اُس کی بجائے اپنی طرف کیا۔۔۔”دور رہو مجھ سے ورنہ میں اپنی جان لے لوں گی“ ،اپنے گلے پر رکھتے اُس نے ایک بے جان سی دھمکی دی جس پر جانی نے مزید اُس کی کوئی بھی بات سنے بغیر اُس کی جانب جھپٹا اور ایک ہی حملے میں شیشے کا ٹکڑا اپنے ہاتھ میں لے کر زمین پر پھینکا۔۔۔۔”بہت اکڑہے تم میں پر آج میں تمہاری خوبصورتی کو خراج تحسین پیش کرتے تمہاری ساری اکڑ نکال دوں گا میری بلبل“،اُس کے بالوں کو سختی سے اپنی مٹھی میں دبوچے اُس نے نور کا چہرہ اپنے قریب کیا تو اُس نے جلدی سے اُس کے کے آگے ہاتھ جوڑے۔۔۔”پلیز تمہیں اللہ کا واسطہ مجھے چھوڑ دو“ آنکھوں میں ابلتے گرم سیال کو بہاتے( جو اُس کے چہرے کو تر کر چکا تھا) اُس نے جانی کو ایک انسان سمجھ کر اُس کی منت کی پر وہ اس بات سے نا واقف تھی کہ اس جگہ بسنے والے لوگ یہاں آتے ہی حیوان بن جاتے ہیں۔۔۔۔”زیادہ بک بک کرنے کی ضرورت نہیں ہے میرے سامنے“،بالوں سے پکڑے اُس نے اُسے بیڈ پہ اچھلا تو وہ  منہ کے بل بیڈ پہ جا گری اور اس سے پہلے کے وہ سنبھل کر سیدھی ہوتی وہ شخص اُس کے اوپر کسی جانور کی ماند جھپٹا۔۔۔”میں تمہارا منہ توڑ دوں غلیظ انسان،اللہ میری مدد کر“ زور زور سے چیختے اور روتے اُس نے فریاد کی تو اُس کی  چیخنے چلانے کی آواز سنتے تہمینہ بیگم کسی خطرے کا احساس دل میں لیے اوپر آئیں اور دروازے کو اندر سے بند دیکھے اُن کے حواس خطاء ہونے لگے۔۔۔۔۔”جانی منحوس مارے دروازہ کھول میں نے تجھے اس طرح اکڑ نکالنے کا نہیں کہا تھا“ تہمینہ نے دروازے پر زور زور سے ہاتھ مارتے ساتھ ہی اُسے پکارا جو اس وقت وحشی بنا نور پر جھپٹا پر اُسی وقت تہمینہ بیگم نےاپنے دوسرے دو ملازموں کو آواز دیتے دروازے کا لاک توڑنے کا کہا۔۔۔۔ ”منحوس انسان پیچھے ہٹ کیا تو زین صاحب کو نہیں جانتا؟؟جو اس طرح اُن کے حق پر ڈکا ڈالنے لگا تھا“،اندر داخل ہوتے ہی اُس نے جانی پر جھپٹتے  اُسے نور کے اوپر سے ہٹایا جو کسی شیر کی ماند اُسے نوچ رہا تھا۔۔۔۔”پرے ہٹ منحوس انسان“ ،نور کو سیدھا کرتے اُس نے جانی کے ایک ٹانگ رسید کی جو ہوش میں آتے ہی جلدی سے بیڈ سے اُٹھا۔۔۔۔”کیا ہوا باجی اور  تو نے خود ہی تو کہا تھا کہ اس کی اکڑ نکال دے“ ،جانی نے اُس عورت کے سامنے ہاتھ باندھے تابعداری کا مظاہرہ کیا تو نور کو خوف سے کانپتا دیکھ اُس نے غصے سے جانی کے گال پر دو تھپڑ جڑے۔۔۔۔”مر جا تو منحوس مارے تجھے نہیں پتا تھا کہ یہ زین صاحب کی ملیکت ہے اور جب تک وہ اسے خود استعمال نہیں کریں گے کسی کو ہاتھ لگانے نہیں دیں گے اور اب اگر اُنہیں پتہ چل گیا کہ تو نے اُن کی تتلی کو اُن سے پہلے چھونے کی کوشش کی ہے تو خود سوچ لے کے وہ تیرا کیا حشر کریں گے“ ایک کے بعد ایک تھپٹر مارتے وہ ساتھ ساتھ اُسے کوستے باہر کی جانب لے گئیں اور اُن کے ساتھ ہی دوسرے دو مرد بھی ایک لالچاتی سی نظر نور پر ڈالتے( جو اُٹھ کر بیٹھتے اپنا سکارف اپنے اوپر لے چکی تھی ) تہمینہ بیگم کے ڈر سے فورا اُن کے پیچھے باہر کی جانب بڑھے تو نور نے ہوش میں آتے اپنی ٹانگیں سیمٹتے سر گھٹنوں پر رکھا۔۔۔۔۔”یا اللہ مجھے اس دلدل سے نکال اب تو ہی ہے جو میری مدد کر سکتا ہے“،آنکھوں میں آنسوؤں کا سمندر لیے اُس نے دل میں پوری شدت سے اپنے رب کو پکارا۔۔۔۔”مجھے کبھی ذلت مت دینا اللہ پاک کیا میں اس قابل ہوں کہ تو مجھے اتنی ذلت دے، کیا ساری زندگی  میں نے کوئی ایک نیکی بھی ایسی نہیں کی جس کے بدلے تو مجھے یہاں سے نکال دے، میں تجھ سے اپنی عزت کی حفاظت کی دعا کرتی ہوں مجھ پہ رحم کر مولا“ ،اتنے خوفناک منظر کے بعد نور نے پوری شدت سے زمین پھٹ جانے کی دعا کی تاکہ وہ مزید کسی آفت سے پہلے اُس میں دفن ہو سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جانی کی اچھی خاصی دھلائی کے بعد تہمینہ بیگم نے اُسے وہاں سے دفع کیا تو وہ اتنا اچھا شکار ہاتھ سے نکل جانے پر افسوس سے سر جھٹکاتے اپنا دل بہلانے کے لیے تہمینہ بیگم سے نظر بچا کر شمع کے کمرے کی جانب بڑھا۔۔”اس منحوس کا دماغ بہت اونچی چھلانگیں مارنے لگا ہے اس لیے اس کو کچھ دن کے لیے سلطان کے پاس بھیج دو تاکہ وہ اچھے سے اس کا دماغ ٹھیک کر سکے“،جانی کی ہوشیاری پر اُس پر لعنت بھجتے تہمینہ بیگم نے شیرے کو ہدایت دی اور پان دان سے پان نکال کر اپنے منہ میں رکھتے اُن دونوں کو رکنے کا اشارہ کرتے اپنی بات کو جاری رکھا۔۔۔  'تم دونوں بھی کان کھول کر سُن لو اگر کسی نے زین صاحب کے آنے سے پہلے اُس لڑکی کو ہاتھ لگایا یا اُس کے کمرے میں گئے تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا، میں تم لوگوں کا وہ حشر کروں گی کہ ساری عمر یاد رکھو گے“،تہمینہ بیگم نے نور کو دیکھ کر اُن کی رال ٹپکتے دیکھ سختی سے تنبیہہ کی تو وہ زین کا نام سنتے ہی تابعداری سے سر ہلانے لگے۔۔۔ ”جی باجی ٹھیک ہے پر زین صاحب کے بعد تو ہمیں چانس ملے گا نا“،شیرے نے اُس کی بات سنتے ہی دانت دکھائے۔۔۔۔۔ ”ہاں مل جائے گا اگر زین صاحب نے اُسے زندہ چھوڑا تو اوراب یہاں کھڑے  میرا منہ کیا تک رہے ہو،جاؤ یہاں سے اور آج دوپہر کے پروگرام کی تیار ی کرو“ ،اُن دونوں کو وہیں جما دیکھ کر تہمینہ بیگم نے غصے سے کہا اور اپنی نوکرانی کو آواز لگائی جو پلک جھپکتے میں اُس کے سامنے حاضر ہوئی ۔۔۔”جی باجی بولیں کیا حکم ہے چنبیلی کے لیے؟؟؟“ ہاتھ باندھے اُس نے اپنے بالوں کو اک ادا سے پیچھے کیا۔۔۔۔۔”میرے لیے گرم گرما اور کڑک سی چائے بنا کر لا ،توبہ صبح صبح ہی دماغ کی دہی کر دی اس نحوست مانے جانی نے“،چنبیلی کو حکم دیتے تہمینہ بیگم نے اپنی پیشانی کو مسلا تو وہ جی ابھی لائی کہتے گنگناتے ہوئے کچن کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون اور ساجدہ بیگم کے جانے کے بعد سکندر صاحب کی طبیعت کافی خراب ہو گئی تھی جس کی وجہ سے حارث نے حاشر یا فریحہ بیگم کو کچھ کہنے سے اپنے آپ کو باز رکھا پر اب سکندر صاحب کی طبیعت سنبھالتے ہی اُس نے حاشر کو جا گھرا جو اس وقت اپنے کمرے میں فیکڑی جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔۔۔۔”آجائیں۔۔۔“،بالوں میں برش پھیرتے اُس نے دستک کی آواز پر اجازت دیتے منتظر نظروں سے دروازہ کی طرف دیکھا۔۔۔ ”بھائی آپ ؟؟خیریت ہے ؟؟ابو ٹھیک ہیں ؟؟“،حارث جو رات سکندر صاحب کی طبیعت کی وجہ سے اُن کے پاس ہی سویا تھا اُسے صبح صبح اپنے کمرے میں دیکھ کر حاشر کو لگا کہ شاید سکندر صاحب کی طبیعت خراب ہے تب ہی اُس نے فکر مندی سے پوچھا اور برش رکھتے اُس کے قریب آیا۔۔۔ ”ہاں ابو ٹھیک ہیں پر مجھے تمہارا دماغ ٹھیک نہیں لگ رہا تب ہی تم سے بات کرنے آیاہوں ،صوفے پر بیٹھتے اُس نے اُسے اپنے ساتھ چیئر پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو حاشر ناسمجھی سے اُس کی طرف دیکھتے بیٹھ گیا۔۔۔۔”میرے دماغ کو کیا ہوا ہے؟اور کس بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں آپ؟؟“حاشر نے ابرو اچکاتے سوال کیاتو حارث نے اپنے لہجے کو نرم کیا۔۔۔۔”میں نور کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں اور پلیز میری ساری بات سننے کے بعد کچھ کہنا“،اُسے بولنے کے لیے منہ کھولتے دیکھ حارث نے ٹوکا تو حاشر نے خاموشی اختیار کی۔۔۔”ٹھیک ہے بولیں میں سُن رہا ہوں“ ،ہتھیار ڈالتے اُس نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا جوبات کے آغاز کے لیے مناسب لفاظ کی تلاش میں تھا۔۔۔۔”دیکھو حاشر جو ہوا اُس میں نہ ہی ہمارا بس تھا اور نہ نور کا اگر ہمارے ساتھ دھوکا ہوا تو دھوکا تو اُس نے بھی کھایا،تم نے سُنا تھا کہ؟؟ زارون نے خود اپنی زبان سے بتایا تھا کہ اُس نے نور کے ساتھ زبردستی نکاح کیا اُس میں اُس کی مرضی شامل نہیں تھی۔۔۔۔۔“”تو مر جاتی پر اُس شخص کی زبردستی پر کبھی لبیک نہ کہتی اور کون سی سی زبردستی بھائی؟؟؟نکاح پر دستخط تو نور نے اپنے ہاتھوں سے کیے تھے نا؟؟کونسا کسی نے ہاتھ پکڑ کر خود سے کروا لیے اور وہ کیا چھوٹی بچی تھی جس نے ہم میں سے کسی کو بھی اس بات کی بھنک تک نہیں پڑنے دی اور اوپر سے غضب یہ کہ دوسرے نکاح کے لیے بھی تیار ہو گئی“،حاشر نے اُس کی بات سنتے ہی اپنے غصے کو ضبط کرتے طنزکیا۔۔”ہمم بچی نہیں تھی پر کیا ہم نے اُسے بڑا ہونے دیا؟؟؟کیا ہم نے اُسے دنیا کے ساتھ چلنا سیکھایا؟؟ کیا ہم نے اُسے یہ سمجھایا کہ اس دنیا میں انسانوں کے علاوہ کچھ حیوان بھی بستے ہیں؟؟کیا ہم نے کبھی اُسے خود سے اتنا قریب ہونے دیا کہ وہ بلاجھجک ہمیں یہ بات بتا دیتی اور کیا حاشر کبھی ہم نے اُسے اتنی ہمت دی کہ وہ اس طرح کے حالات کا مقابلہ کر سکتی یا کوئی تیزی دیکھاتے وہاں سے نکل آتی یا پھر ڈٹ کر اُس شخص کا مقابلہ کرتی افسوس ہم ان میں سے کچھ بھی اپنی بہن کو نہ دے سکے بچپن سے لے کر اب تک ہم نے اُسے بس دنیا سے ڈرنا،رونا یا پھر سہم کر گھر کے کسی کونے میں بیٹھ جانا ہی سیکھایا جو آج اس صورت میں ہمارے سامنے آیا تو ہم اپنی انا کا مسئلہ بنا کر بول رہے ہیں کہ نور انکار کردیتی مر جاتی تو بتاؤ اپنی بیٹی کے لیے بھی یہی الفاظ استعمال کرو گے اگر زندگی میں کبھی اُس سے اس طرح کی غلطی ہو گئی تو؟؟“ اپنی بات مکمل کرتے اُسبنے حاشر کو خاموش چھوڑے باہر کا رخ کیا تو ایک نہ محسوس سی بے چینی نے حاشر کا احاطہ کیا جس کی وجہ سے وہیں بیٹھا حارث کی باتوں پر غور کرنے لگا جس نے ایک لفظ بھی غلط نہیں کہا تھا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت منتوں اور ڈاکٹر کے سمجھانے کے بعد خالدہ بیگم اپنا ہاتھ کٹوانے کے لیے تیار ہو گئیں کیونکہ بازو کی طرف پھیلتے زخم اور اُس میں بڑھتے کیڑوں کی تعداد نے اُنہیں کوفت میں متبلا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے وجود سے نفرت پر مجبور کر دیا تھا وہ اب ہر وقت خاموش رہتی اور  سلیم صاحب اور جنید سے چھپ چھپ کر روتی اور ہر وقت اللہ سے اپنے گناہ کی معافی مانگتے اپنی اذیت کو کم کرنے کی دعا کرتیں۔۔۔۔۔ ڈاکٹر نے آج کا وقت دیا تھا تب ہی سلیم صاحب ،جنید اور دعا اُنہیں لے کر ہسپتال پہنچے تو وہاں ڈاکٹرز اور نرسس نے اُن کے زخم کو دیکھتے کانوں کو ہاتھ لگائے اور سب ہی اُن کے حالت پر توبہ کرتے کسی گناہ کی سزا ملنے کا کہتے پاس سے گزر جاتے کوئی بھی نرس اُن کو ہاتھ لگانے کے لیے تیار نہ تھی تب ہی دعانے خود ہی سرجری کے وقت تک اُن کو سنبھالا اور ساتھ اُن کو سب ٹھیک ہوجانے کی تسلی دیتے حوصلہ دیا جو لوگوں کی نفرت آمیز رویے اور باتوں سے کافی دلبراشتہ ہو چکی تھیں۔۔۔”امی پلیز روئیں مت لوگوں کو تو موقع چاہیے باتیں کرنے کا اورآپ فکر مت کریں دیکھیے گا اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہوجائے گا“،دعا نے اُنہیں آنسو بہتا دیکھ تسلی دی تو خالدہ بیگم نے بیٹی کا ہاتھ پکڑتے ہمت کی اور دکھ میں آکر اپنے اندر چھپے راز سے اُسے آگاہ کیا کہ کیسے اُنہوں نے سلنڈر کا وال کھولا اور ملائکہ کو کس طرح ایک سازش کے تحت اپنی جلنے اور غصے کا نشانہ بناتے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔۔۔۔”امی۔۔۔؟؟“ اپنا ہاتھ اُن کے ہاتھ سے چھڑواتے دعا نے بے یقینی کی سی کیفیت میں خالدہ بیگم کی جانب دیکھا جو آج بستر مرگ پر قابل رحم حالت میں لیٹی اُسے اپنے گناہ کے بارے میں بتا کر ساتھ اللہ سے دعا کرنے کا کہہ رہی تھیں۔۔۔”آپ اتنی سگندل ہو سکتی ہیں اور اس حد تک گر سکتی ہیں کہ اپنی جلن اور غصہ نکالنے کے لیے آپ نے ملائکہ کی جان لے لی جو آپ کے بیٹے کی جان تھی امی کیوں کیا آپ نے ایسا؟؟کیا کمی تھی ملائکہ میں؟؟اور آپ کا دل نہیں کانپا اُس معصوم کے ساتھ اتنا گھناؤنا کھیل کھیلتے ہوئے“،دعا نے اُن کی حالت کی پروا کیے بغیر دکھ اور غصے کے ملے جلے تاثرات سے آنکھوں میں رحمدلی کی کوئی بھی رمق ظاہر کیے بناء کہا تو خالدہ بیگم نے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے جس پر نفرت سے ایک نگاہ ڈالتے وہ اُنہیں وہیں بلکتا، سسکتا ہوا چھوڑ کر باہر آگئی۔۔۔۔اُسے یقین نہیں آرہاتھا کہ اُس کی ماں اس قدر سگندل اور ظالم ہے کہ اپنے انتقام کے لیے کسی کی جان تک لے لی۔۔۔ ”نہیں ،میری امی ایسا نہیں کر سکتیں “ آنکھوں میں آنسو لیے اُس نے وہیں دیوار کا سہارا لے کر کھڑے ہوتے خود کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ جو کچھ خالدہ بیگم نے اُس سے کہا وہ سب جھوٹ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تہمینہ بیگم نے چائے پینے کے بعد چنبیلی کے ہاتھ ہی نور کے لیے کھانا بھجوایا جو اُس نے کھانے کی بجائے غصے سے زمین پر پھینک دیا۔۔۔۔”باجی وہ لڑکی تو بڑی نک چڑھی ہے اور آپ کیوں اُس کی اتنے نخرے برداشت کر رہی ہیں؟؟میں تو کہتی ہوں اچھا تھا کہ جانی اُس کی اکڑ نکال دیتا“ ،چنبیلی جو نور کے چیخنے اور بدتمیزی کرنے پر کافی خفا تھی اُس نے آتے ہی تہمینہ بیگم کو مشورہ دیا جو اپنے تخت پر لیٹی تھیں۔۔۔۔ ”ہاں اکڑ تو کافی ہے پر کیا کریں زین صاحب کی امانت ہے لالی(خدیجہ) اُنہی کے کہنے پر اسے یہاں تک لائی ہے اور اب جب تک اُن کی طرف سے کوئی نیا آرڈر نہیں ملتا میں اس تتلی کا کوئی علاج نہیں کر سکتی حالانکہ کل سے یہ جتنا اچھل رہی ہے نا اس کی جگہ کوئی اور ہوتی تو اب تک تہمینہ بیگم کے شر کی نظر ہو چکی ہوتی“،اپنے پاؤں کی طرف اشارہ کرتے اُس نے دانت پیستے ہوئے اپنی بات مکمل کی تو چنبیلی نے نرمی سے اُن کے پاؤں پہ ہاتھ رکھتے دبانا شروع کیا۔۔۔”پر باجی کچھ تو کریں تاکہ اس کی زبان تو تھوڑی بند ہو“ ،دروازہ پر زور زور سے ہاتھ مارنے اور چلانے کی آواز پر کانوں پر ہاتھ رکھتے چنبیلی نے کہا تو تہمینہ بیگم نے کچھ سوچتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔”ٹھیک ہے کرتی ہوں اس کا کچھ بندوبست۔۔۔ جا اُٹھ میرا موبائل لا میں زین صاحب کو فون کر کہ پوچھوں“ ،پاس پڑی باسکٹ میں تھوکتے اُس نے چنبیلی کی بات پر غور کرتے حکم دیا جو پھرتی سے اُٹھ کر اُن کے کمرے کی جانب بڑھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساری رات نور کو ڈھونڈنے اور پولیس کے ساتھ شہر کا چپہ چپہ چھاننے کے بعد بھی جب کوئی مثبت سرا ہاتھ نہ آیا تو زارون نے دی جان کے مسلسل فون کرنے پر تقربیا دوپہر تین بجے کے قریب گھر کا رخ کیا اور عالیان بھی اُس کی حالت کے پیش نظر اُس کے ساتھ ہی اپارٹمنٹ آگیا جہاں ساجدہ بیگم فکر مندی سے اُن کے ہی انتظار میں بیٹھی تھیں۔۔۔۔ ”زارون کیا ہوا ہے؟؟؟اور یہ تم نے اپنی کیا حالت بنائی ہوئی ہے ؟؟“ اُسے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتا دیکھ ساجدہ بیگم نے چھڑی کے سہارے اُس کے قریب آتے پوچھا جس کے زرد پڑتے رنگ اور اجڑی ہوئی حالت نے اُنہیں مزید پریشان کیا۔۔۔۔”نور کہاں ہے؟؟ تم تو اُسے لینے گئے تھے ؟؟؟“اُس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے جو بالکل ٹھنڈا ہو رہا تھا، ساجدہ بیگم نے پھر سے سوال کیا۔۔۔۔”چلی گئی ہے وہ مجھے دھوکہ دے کر مجھے چھوڑ کر، دی جان وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی تو مجھ سے کہتی میں خوشی سے اُسے خود سے الگ کر دیتا مگر مجھے اتنی بڑی اذیت کیوں دی؟؟کیوں کیا اُس نے میرے ساتھ ایسا۔۔۔؟“ زارون نے نور کے نام پر ایک دم سے چلاتے اُن کا ہاتھ پکڑا اور نیچے زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔۔۔”مطلب چلی گئی؟؟کہاں چلی گئی؟؟؟“بے یقینی سے اُس کی بات پر آنکھوں میں الجھن لیے اُنہوں نے سامنے کھڑے عالیان کی طرف دیکھا۔۔۔۔”پتا نہیں دی جان، یونیورسٹی سے وہ اپنی  ایک دوست کے ساتھ گئی تھیں اور تب سے اب تک اُن کا کچھ پتا نہیں موبائل بھی آف ہے“،عالیان نے تفصیل سے ساری بات دی جان کو بتائی تو لڑکھڑا کہ تھوڑا پیچھے ہوئیں اور خود کو کھڑا رکھنے کے لیے صوفے کا سہارا لیا۔۔۔”ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟؟نور بہت اچھی ہے مجھے لگتا ہے اُس کے ساتھ کوئی گیم کھیلی گئی ہے وہ ایسے کیسے کسی کے ساتھ جا سکتی ہے“،ساجدہ بیگم کا دل نور کے حق میں گواہی دینے لگا تو اُنہوں نے آگے بڑھتے زارون کے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔۔”گیم تو میرے ساتھ کھیلی گئی، میری زندگی کے ساتھ، میرے جذبات سے ،مجھے کیوں نہیں سمجھ آئی کہ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے وہ مجھ سے کبھی محبت کیسے کر سکتی ہے؟تو کیوں میں نے اُس کی محبت بھری باتوں کا یقین کیا؟؟ کیوں میں نہیں سمجھا کہ وہ مجھ سے میری غلطی کا بدلہ لے گئی ،وہ کیسے مجھے اتنی آسانی سے معاف کر سکتی ہے ل؟؟دی جان اُس نے مجھ سے بدلہ لے لیا اُس نے مجھے ایسی سزا دی کہ نہ ہی میرے پاس زندہ رہنے کی کوئی وجہ بچی ہے اور نہ ہی موت مجھے قبول کرے گی، دی جان کیوں کیا اُس نے ایسا؟؟؟ کیا قصور تھا میرا؟؟؟میں تو اُس سے محبت کرتا تھا نا“،آنکھوں میں ڈھیروں آنسو لیے اُس نے اپنے اندر کی تکلیف کو ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے ذریعے باہر نکالا تو ساجدہ بیگم نے اپنے لخت جگر کی خوشیوں کو یوں منٹوں میں برباد ہوتا دیکھ کر آہ بھری اور اُسے سنبھالنے کی کوشش کی جو مسلسل چیختے اُن کے اور عالیان کے ہاتھوں میں بے قابو ہو تے خود اذیتی کی انتہاء پر پہنچ چکا تھا۔

قسط نمبر: 32

خالدہ بیگم کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا اور دعا آپریشن ختم ہوتے ہی اپنی طبیعت خرابی کا بہانہ کرتے وہاں سے جا چکی تھی جو جنید اور سلیم صاحب دونوں کے لیے ہی حیران کن تھا مگر اُنہوں نے خالدہ بیگم کی حالت کے پیش نظر کسی بھی قسم کی کوئی بات کرنے سے غرض برتے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ شاید ماں کی تکلیف کی وجہ سے دلبرداشتہ ہے اور اُن کی بے بسی اور تکلیف کو برداشت نہیں کر  سکتی تب ہی یہاں سے چلی گئی۔۔۔خالدہ بیگم کو ہوش آیا تو اپنے جسم کے ایک اہم حصے کو اپنے ساتھ نہ پاکر اُن کے اندر اذیت کا ایک طوفان اُٹھا کو گناہ کے احساس کو مزید شدید کرتے اُنہیں شرمندگی کی اتہہ گہرائیوں میں دھکیلنے کے لیے کافی تھا۔۔”کاش میں نے وہ سب نہ کیا ہوتا تو آج مجھے اتنی بڑی سزا نہ ملتی“،آنکھوں میں ندامت کے آنسوؤں لیے اُنہوں نے جنید کے چہرے کی طرف دیکھتے سوچا جودو دن سے دن رات اُن کی خدمت میں لگا تھا۔۔۔”میں نے اپنے بیٹے کی خوشیاں اُس کی زندگی خوداپنے ہاتھوں سے برباد کر دی پر ملائکہ نے تو مر کہ بھی مجھ سے بازی لے لی،میں نے اُسے بس چند پل کی اذیت دی پر اللہ نے مجھے میرے گناہ کی سزا کے طور پر پوری زندگی کی اذیت سے دو چار کر دیا ہے تاکہ میں ساری زندگی سسک سسک کر بھی اپنی موت کی دعا مانگوں اور دن رات اُسی اذیت کا مزہ چکھؤں جس کا انتخاب میں نے ملائکہ کے لیے کیا تھا“،آنکھیں بند کرتے آنسوؤں کو بہنے سے روکتے اُنہوں نے دل ہی دل میں کہا تو جنید نے اُن کے پاس آتے نرمی سے اُن کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا۔۔۔”امی آپ ٹھیک ہے نا؟؟؟کہیں درد ہے تو بتائیں میں ڈاکٹر سے بول دیتا ہوں“ ،لہجے میں اُن کے لیے درد اور فکرمندی لیے اُس نے پوچھا تو خالدہ بیگم نے آنکھیں کھولتے نفی میں سر ہلایا۔۔۔”مجھے کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے جنید، اور نہ ہی میرے درد کا علاج اب کسی ڈاکٹر کے پاس ہے، اُس کے ہاتھ کو اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ میں لیتے خالدہ بیگم نے اجڑی ہوئی بے جان سی آواز میں کہا۔۔۔”امی آپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا“،جنید کو لگا کہ شاید وہ ہاتھ کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو رہی ہیں۔۔۔”اللہ مجھے معاف نہیں کرے گاجنید، وہ مجھے کیسے معاف کر سکتا ہے؟؟ وہ مجھے میرے کیے کی سزا دے چکا ہے اور اس سے بدتر سزا کیا ہو گی کہ میں اپنی بقیہ زندگی نہ صرف دوسروں کی محتاج رہوں گہ بلکہ لوگوں کی باتوں اور نفرتوں کانشانہ بنتے یہ سنوں گی کہ اس عورت کو اپنے کسی گناہ کی سزا ملی ہے ،اور تمہیں پتا ہے؟؟؟ لوگ غلط نہیں کہتے، مجھے سچ میں اپنے گناہ کی سزا ملی ہے۔ مجھے تو اس سے بھی بدتر سزا ملنی چاہیے تھی کیوں کہ میں نے ایک بے گناہ معصوم لڑکی کی جان لی ہے۔ ہاں میں نے قتل کیا ہے۔ تمہیں پتا ہے سلیم میں نے اپنے اسی ہاتھ سے سلنڈر کھولا تھا میں نے اسی ہاتھ سے ملائکہ کے لیے موت کا گھڑا کھودا، میں نے سوچا میرا گناہ چھپ جائے گا کیوں کہ مجھے کسی انسان نے یہ سب کرتے نہیں دیکھا پر ،میرا گناہ نہیں چھپا سلیم کیوں کہ میں ایک بات بھول گئی تھی کہ مجھے تو وہ سب سے بڑی اور اعلیٰ ذات اوپر بیٹھے دیکھ رہی ہے میرے ہر عمل پر نظر رکھے ہوئے ہے اور دیکھو آج اُس نے مجھے اس موڑ پہ لا کھڑا کیا کہ میں نے اپنی زبان سے اپنے ظلم کا اعتراف کیا ہے، میں نے ملائکہ کو مارا اُسے وہ اذیت دینا چاہی جو آج میرے ہی نصیب میں لکھ دی گئی ہے“،اُن دونوں کو بے یقین اور ساکت کھڑا دیکھ کر وہ زارو قطار رونے لگیں تو جنید نے اپنا ہاتھ ہٹاتے بے جان نظروں سے روتی بلکتی معافیاں مانگتی عورت کو دیکھا جو بدقسمتی سے اُس کی ماں تھی اور اُس کی مجرم بھی جسے وہ چاہ کر بھی سزا نہیں دے سکتا تھا۔۔۔۔۔”اللہ نے مجھے سزا دی ہے اُس نے مجھے میرے اُسی ہاتھ سے محروم کیا جس سے میں نے وہ گناہ کیا اور زندگی بھر کی اذیت میرے نام لکھ دی تاکہ میں پل پل سسکوں اپنی موت کی دعا کروں، سلیم؟؟ اُس نے کیوں مجھے ایک ہاتھ سے محروم کیا؟؟؟ وہ مجھےمیرے دونوں ہاتھوں، میری زبان اور آنکھوں سے بھی محروم کر دیتا، پھر مجھے ایک زندہ لاش کی مانند اس دنیا میں چھوڑتا، تاکہ میرے جیسی بہت سی عورتیں جو اپنی بہوؤں کو آگ لگا دیتی ہیں، اپنی جلن اور غصے میں کسی معصوم کی جان لے لیتی ہیں مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کرتیں، سیکھتیں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے جس نے جو کیا اُس نے بھر کر ہی قبر میں جانا، کیوں اُس نے مجھے اتنی چھوٹی سزا دی؟کیوں اللہ نے مجھے عبرت کا نشان نہیں بنایا؟؟کیوں اُس نے مجھے بس معمولی سی اذیت دی؟؟وہ مجھے معاف نہیں کرے گا جنید میں نے خون کیا ہے ،بلکہ قتل کیا ہے، میں نے تمہاری ملائکہ کو مار دیا۔ میں نے اپنے ان ہاتھوں سے تمہاری زندگی تباہ کی ہے“، مسلسل چیختے جہاں وہ اللہ کے عذاب سے ڈر کر سب کچھ اگل رہی تھیں وہیں اُن کی باتیں سنتے سلیم صاحب نے جنید کو سنبھالا جو زرد پڑتے بس گرنے کے قریب تھا۔۔”امی ۔۔یہ۔۔ آپ۔۔کیا ۔۔بو۔۔ل رہی ہیں؟؟آ۔۔پ۔۔کیو۔۔ں ملا۔۔ئکہ۔۔“ ،جنید کا دماغ درد سے پھٹنے لگا تو اُس نے سلیم صاحب کا ہاتھ جھٹکتے ،خالدہ بیگم کو دونوں بازوؤں سے پکڑتے جھنجھوڑا جو اپنے ہوش وحواس سے بیگانہ ہو رہی تھیں۔۔۔”ہاں میں۔۔سچ۔۔بو۔۔ل رہی ہوں ،ہا۔۔ں میں۔۔نے ل۔۔۔ی ہے جان۔۔ہاہاہا میں نے ل۔۔ی ہے میں نے ۔۔ملائکہ کو ۔۔ماردیا۔“ رونے کی بجائے اب ہنستے ہوئے اُنہوں نے ایک بار پھر سے اپنے جرم کا اعتراف کیا تو جنید نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بالوں کو جکڑا اور وہیں زمین پر بیٹھتا چلا گیا ایک بے یقینی اور دکھ کی کیفیت اُس کے دل ودماغ پر حاوی ہونے لگی جو سلیم صاحب کے چیخنے اور پکارنے سے بھی نہ ٹوٹی جو خالدہ بیگم کے ناک، منہ اور کانوں سے خون نکالتا دیکھ کر مسلسل اُسے آوازیں لگاتے ڈاکٹر کو بلانے کے لیے دوڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون کی حالت سنبھلی تو وہ ساجدہ بیگم  کے کہنے پر اُٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔۔۔”دی جان میں کچھ دیر میں آتا ہوں آپ پلیز زارون کا خیال رکھیے گا“،عالیان نے اپنے موبائل پر مسلسل آتی کال کو تیسری بار بند کرتے کہا تو ساجدہ بیگم نے اثبات میں سر ہلاتے اُسے جلد واپس آنے کی تلقین کی۔۔۔”جی بس میں کچھ دیر میں آتا ہوں، آپ اپنا اور زارون کا خیال رکھیے گا“، اُنہیں تسلی دیتے وہ بیرونی دروازے سے باہر نکلا تو دی جان نے رشیدہ کو آواز لگاتے دروازہ بند کرنے کا کہا اور زارون کے کمرے کی جانب بڑھیں جہاں وہ زمین پر ہی بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔۔۔۔”زارون۔۔۔؟؟؟“دی جان نے اُس کے قریب بیٹھتے نرمی سے مخاطب کیا تو اُس نے سر اُٹھاتے بے جان نظروں سے اُنہیں دیکھا اور کسی بچے کی مانند اپنا سر اُن کی گود میں رکھتے اپنی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔”دی جان کیا میں اتنا بُرا تھا؟؟کہ اُس نے میرے لیے اتنی بڑی سزا کا انتخاب کیا؟؟وہ مجھے زہر دے دیتی، جان سے مار دیتی تو شاید مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی اُس کے نظروں سے اوجھل ہونے سے ہو رہی ہے“،سرخ آنکھوں کو ایک بار پھر سے بہانے سے روکتے اُس نے شکوہ کیا تو دی جان نے اُس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اُس کے سر پر بوسہ دیا۔۔۔”زارون تمہیں پتا ہے؟؟؟بعض دفعہ انسان کی آنکھیں دھوکا کھا جاتی ہیں اُسے جو نظر آتا ہے حقیقت اُس کے برعکس ہوتی ہے اس لیے ہو سکتا ہے اس بار تمہاری آنکھیں تمہیں دھوکا دے گئی ہوں اور کہانی کا جو پہلو تمہیں دیکھایا گیا وہ غلط اور جو تمہاری نظروں سے اوجھل رکھا گیا وہ صیح ہو، اس لیے اپنے دماغ کے بہکاوے میں آکر کوئی ایسی بات خود سے اخذ مت کرنا جس پر ساری عمر تمہیں پچھتانا پڑے اور کیا تمہیں لگتا ہے کہ نور ایسا کر سکتی ہے وہ تمہیں چھوڑ سکتی ہے؟؟“اُس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اپنے سامنے کرتے اُنہوں نے تصدیق چاہی تو زارون نے نفی میں سر ہلا دیا۔۔۔۔ ”وہ کر سکتی ہے دی جان کیوں کہ میں نے اُس سے اُس کے اپنوں کو دور کیا۔ وہ کہتی تھی کہ وہ مجھے معاف نہیں کرے گی مجھ سے بدلہ ضرور لے گی اور دی جان اُس نے ویسا ہی کیا اُس نے مجھے اُس وقت منہ کہ بل گرایا جب مجھے اعتبار ہو گیا کہ اب وہ میری ہے“،اُن کا ہاتھ پکڑتے اُس نے اپنی آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں کو بہانے دیا۔۔۔۔ ”کیوں تمہیں معاف نہیں کرے گی؟؟ تم دونوں نے تو مرضی سے نکاح کیا تھا نا؟پھر یہ شکوہ کیسا۔۔۔؟؟”مرضی میری تھی نور کی نہیں، میں نے یونیورسٹی میں اُس سے گن پوائنٹ میں نکاح کیا تھا کیوں کہ میں اُسے کھونا نہیں چاہتا تھا“،اُن سے نظریں ملائے بغیر زارون نے اُن کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی  پوری بات تفصیل سے بتائی( کہ کیسے اُس نے نور سے نکاح کیا اور عین نکاح کے وقت جا کر اُسے سارے گھر والوں کی نظروں میں گرا کر یہاں اپنے ساتھ لایا) تو دی جان نے پلک جھپکتے اُس کی جانب دیکھا جو اب تک اُن سے اتنی بڑی بات چھپائے ہوئے جھوٹ پہ جھوٹ بولے جا رہا تھا۔۔۔۔”ہمم تو پھر تو اُس کی نفرت لازم ہے کیوں کہ تم نے اُس کے جذبات کے ساتھ ساتھ اُس کا بھروسہ اعتبار اور سالوں سے بنی عزت کو خاک میں ملا دیا۔ بے شک اُس کے والد اُس سے محبت نہیں کرتے تھے اُسے وہ مان وہ حق نہیں دیتے تھے جو ایک بیٹی کو ملتا ہے پر کم از کم نور کی اُن کی نظروں میں کوئی تو حیثیت تھی جو اب تک اُسے اپنے ساتھ اپنے سامنے گھر میں رکھے ہوئے تھے،بے شک وہ بات نہیں کرتے تھے پر ایک بیٹی کے لیے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اُس کا باپ اُس کے سامنے ہے وہ اُسے دیکھ سکتی ہے۔ تم نے بہت بُرا کیا زارون بہت زیادہ، اگر تمہیں نور پسند تھی تو میرے لال مجھ سے کہتے، میں اُن لوگوں کے پاؤں پکڑ لیتی منت کر لیتی، تمہیں پتا ہے نا تمہاری دی جان تمہارے لیے اپنی جان بھی دے سکتی ہیں تو کیوں تم نے ایک لڑکی کی زندگی برباد کی۔۔۔“،ساجدہ بیگم نے زارون کی بات سنی تو اُنہیں سمجھ آیا کہ کیوں وہ یہ سب بول رہا ہے۔۔۔۔”میں مانتا ہوں میں نے غلطی کی پر دی جان اُس وقت میں اپنی ضد اور انا کے ہاتھوں مجبور ہو گیا تھا مجھے لگا کہ وہ صرف میری ہے اور میں اُسے چھین کے حاصل کروں یا زبردستی اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، میں خود غرض ہو گیا تھا یا اپنے دل کے ہاتھوں مجبور جو انجام کا سوچے بغیر ہی اتنا کچھ کر گیا“،زارون نے ندامت سے نظریں جھکائیں تو دی جان نے اُس کی حالت دیکھتے اپنے لہجے کو نرم کیا کیوں کہ یہ وقت غصے کا نہیں تھا۔۔۔۔”انسان غلطی کا پتلا ہے اگر وہ غلطیاں نہ کرے تو فرشتہ کہلائے اور اگر غلطی کر کہ سبق نہ سیکھے تو حیوان ،اس لیے تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا یہی بڑی بات ہے بس اللہ سے بھی معافی مانگو کہ تم نے ایک انسان کا دل دکھایا اور نور کو ڈھونڈنے کی کوشش کرو کیوں کہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ تمہیں چھوڑ کر جا سکتی ہے اور اگر گئی بھی ہے تو تم اُس کے  محرم ہو تمہیں اُسے اکیلے نہیں چھوڑنا، جب تک وہ تمہارے نکاح میں وہ تمہاری ذمہ داری ہے ،اس لیے ہمت کرو اور ہوسکتا جو تم سوچ رہے ایسا کچھ ہو ہی نہ اور تم دونوں کی اسی کمزوری کا کسی نے فائدہ اُٹھایا ہو“،دی جان نے بہت گہرائی میں جاتے زارون کو سمجھانے کی کوشش کی جس کا ذہن اُن کی بات سنتے ہی فورا سے اُس شام کی طرف گیا جب نور کو کسی نے اُس کے ہی گھر میں گھس کر نقصان پہنچایا تھا۔۔۔۔”زارون میرا دل نہیں مانتا کہ نور تمہیں چھوڑ سکتی ہے۔ میں نے اُس کی آنکھوں میں تمہارے لیے پیار دیکھا ہے۔ بے شک تم نے جو بھی کیا تھا پر مجھے وہ ایسی لڑکی نہیں لگتی کہ اپنا گھر چھوڑ کر کہیں اور جائے اور جاتا وہ ہے جس کا کوئی آسرا اور سہارا ہو جیسے پتا ہو کہ وہ ایک ٹھکانے سے نکل کر آسانی سے کسی دوسری جگہ جا بسے گا پر نور کی واپسی کے تمام دروازے تو تم نے اپنے ہی ہاتھوں سے بند کردیے تو اب یہ بے اعتباری کیسی؟؟یہ سوچ کیوں؟؟؟کیا تمہاری محبت اتنی کمزور تھی زارون جو تم نے اتنی جلدی ہار مان لی تم نے اتنی جلدی یقین کرلیا کہ وہ تمہیں چھوڑ سکتی ہے“،دی جان نے بہت نرمی کے ساتھ اُس کے دماغ کے بند دریچوں کو کھولا جس پر کچھ دیر پہلے دکھ اور بے اعتباری کی کیفیت حاوی ہوچکی تھی۔۔۔”ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ ،پتا نہیں کیوں میرے دماغ میں یہ سوچ آئی“،اُن کی باتوں کو توجہ سے سنتے زارون نے اپنی آنکھوں کو رگڑا اور پھر سے باہر کی جانب بڑھا تو ساجدہ بیگم نے اُسے مخاطب کیا۔۔”اب کہاں جا رہے ہو؟؟؟“”نور کو ڈھونڈنے اگر وہ مجھ سے ناراض ہو کر یا بدلہ لینے کے لیے بھی کہیں گئی ہے تو مجھے اُسے ڈھونڈنا چاہیے کیوں کہ میری نہ تو محبت کمزور ہے اور نہ میں خود“،پلٹے بغیرہی جواب دیتے وہ بیرونی دروازہ کھولتے باہر نکل گیا تو دی جان نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے زارون کے ذہن کو جلد ہی ان خدشات سے پاک کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رات کا اندھیرا پھر سے چھانے لگا تو اس غلیظ جگہ پر ایک اور رات کا تصور نور کی روح فنا کر نے لگااور آنسو ایک بار پھر سے اپنی بے بسی پر آنکھوں کے بند توڑتے بہہ نکلے۔۔۔۔”یا اللہ میری مدد کر میں کچھ دیر مزید یہاں رہی تو شاید زارون بھی مجھے کبھی قبول نہ کرے، میرے پاس تو پہلے ہی کوئی رشتہ کوئی اپنا نہیں بچا ایک آخری امید وہ انسان ہے وہ بھی مجھ سے بدگمان ہو گیا تو میں کہاں جاؤں گی“،دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپاتے وہ پھر سے سسکنے لگی تو کسی نے دھڑم سے دروازہ کھولا اور ساتھ ہی تہمینہ بیگم اندر داخل ہوئیں۔۔۔۔۔”یہ کیا تم بار بار نخرے دیکھا رہی ہو؟؟اور کھانا کیوں نہیں کھایا؟؟؟“چنیلی کو ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھنے کا اشارہ کرتے اُس نے نور سے پوچھا جو اب آنکھوں میں غصہ لیے تہمینہ بیگم کو گھور  رہی تھی۔۔۔”میں حرام طریقے سے کمایا ہوا رزق نہیں کھاتی“،حقارت سے جواب دیتے نور نے نظریں پھیریں تو تہمینہ بیگم کو تو جیسے پتنگے لگ گئے وہ کسی شکاری کی طرح اُس کے اوپر جھپٹی اور اُس کے بالوں کو اپنی گرفت میں قید کرتے چہرہ اپنے سامنے کیا۔۔۔”کیا بکواس کی تم نے ابھی؟؟؟“دانت پیستے اُس نے سختی سے نور کے بالوں کو دبوچا تو اُس نے بے خوف ہوتے اپنے الفاظ دہرائے جس کو سنتے ہی تہمینہ بیگم نے ایک زور دار تھپٹر اُس کے گال پر رسید کیا اور ساتھ ہی اُس کے منہ کو اپنے سخت ہاتھ میں دبوچا۔۔۔”یہ بکواس آج کر دی ہے دوبارہ مت کرنا ورنہ میں تمہارا وہ حشرکروں گی کہ تم ساری زندگی میرے شر سے پناہ مانگو گی“،اپنے جبڑوں کو مضبوطی سے بند کرتے اُس نے نور کو دھمکی دی جو ڈرے بغیر بے خوفی سے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے اُس کا ہاتھ جھٹک چکی تھی۔۔۔۔”کھانا اُٹھاؤ اور یہ پانی بھی جب تک میں نہ کہوں اسے کچھ نہیں دینا“،زمین پر تھوکتے تہمینہ بیگم نے ایک حقارت بھری نظر نور پر ڈالی اور چنیبلی کو حکم دیا جو فوراً سے سب سامان اُٹھاتے اُن کے پیچھے ہی کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تہمینہ بیگم غصے سے بھری اپنے کمرے میں آئی تو اُن کا موبائل بج رہا تھا جس پر زین کا نام دیکھتے ہی اُس نے چنیلی کو چپ رہنے کا اشارہ کرتے کال ریسیو کی۔۔۔”ہاں بولو کیا بات ہے کیوں بار بار فون کر رہی تھی تم؟؟“ زین نے دوسری طرف ہیلو کی آواز سنتے ہی سختی سے پوچھا۔۔۔۔”صاحب جی وہ لڑکی تو بڑی ڈھیٹ ہے جب سے آئی ہے مجھ سیمت سب لوگوں کی ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ چنبیلی صبح سے دو بار کھانا لے کر گئی پر ہاتھ مار کر سارا کھانا فرش پہ گرا دیا۔ کسی کی کوئی بات ہی نہیں سُن رہی“ ،تہمینہ بیگم جو پہلے ہی بھری ہوئی تھیں اُنہوں نے ایک ہی سانس میں پوری بات بتائی۔۔۔۔”وہ جو کرتی ہے اُسے کرنے دو اور کھانا کمرے میں رکھ دو اگر کھانا ہوا تو کھا لے گی باقی ابھی میں دو تین دن نہیں آسکوں گا اس لیے تمہیں اُسے کچھ اور دن اپنے پاس رکھنا پڑے گا جس کی منہ مانگی قیمت تمہیں مل جائے گی بس ایک بات کا خیال رکھنا اگر میرے آنے تک اُسے کچھ ہوا یا تم لوگوں میں سے کسی نے بھی زین کی امانت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا“،دھمکی دیتے اُس نے تہمینہ بیگم کے کچھ بولنے سے پہلے ہی کال کاٹ دی۔۔۔۔”بیڑہ غرق ہو اس منحوس کا،کیسے بک بک کر کہ اگلے بندے کی بات سنے بغیر ہی فون کاٹ دیتا ہے“،موبائل بیڈ پر اچھالتے تہمینہ بیگم نے زین کو ایک گالی دی تو چینلی نے گلاس میں پانی ڈالتے اُسے تھمایا۔۔۔۔”باجی غصہ نہ کریں آپ کو پتا ہے نا کل رات کا پروگرام ہمارے لیے کتنا اہم ہے اور اگر آپ کی طبیعت خراب ہو گئی تو سارا مزہ خراب ہو جائے گا“،چنبیلی نے آنکھوں میں فکر لیے تہمینہ بیگم کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی جو پانی کے گھونٹ بھرتے زین کے آنے سے پہلے نور سے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کا ارادہ کر چکی تھی۔۔۔۔”تو فکر نہ کر چنبیلی کل کا دن ایسا ہو گا کہ اس نور کے ساتھ ساتھ زین صاحب بھی دھنگ رہ جائیں گے“،چہرے پرایک مکروہ مسکراہٹ سجاتے اُنہوں نے چنبیلی کو آنکھ ماری جس نے ناسمجھی سے اُن کی جانب دیکھا۔جو اُسے اپنے پاس بیٹھتے ،دماغ میں چلتے پلان سے  آگاہ کرنے لگیں تو اُن کے خوفناک اراداوں کو سُن کر چنبیلی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔۔۔”باجی اگر زین صاحب کو پتا چل گیا تو؟؟“اُس کی پوری بات سنتے چنبیلی نے آنکھوں میں خوف لیے پوچھا۔۔۔۔”تہمینہ بیگم نے کوئی کچی گولیاں نہیں کھلیں،میں سب سے شاطرکھلاڑی ہوں  اس کھیل کی جس میں زین صاحب ابھی نئے نئے داخل ہوئے ہیں۔ بس تو اپنا منہ بند رکھنا“، اُٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جاتے اپنی سرخ لپسٹک کو مزید گہرا کرتے اُس نے چنبیلی کو تنبیہہ کی جو اب کسی گہری سوچ میں گم تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بی پی ہائی ہونے سے خالدہ بیگم کے دماغ کی نس پھٹ چکی تھی۔ ڈاکٹرز اُنہیں بچانے کی اپنی پوری کوشش کر رہے تھے پر جنید کے ساتھ ساتھ سلیم صاحب کے دل میں اب اُن کی زندگی کو لے کر کوئی خواہش باقی نہیں رہی تب ہی وہ اُن کی زندگی کے لیے فکرمند ہونے کی بجائے جنید کے قریب آبیٹھے جو تب سے خاموش بیٹھا خالدہ بیگم کے الفاظ پر غور کر رہا تھا۔۔۔۔”کیا سوچ رہے ہو؟؟“اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے سلیم صاحب نے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔”یہی کہ اگر امی کو ملائکہ پسند نہیں تھی تو مجھے بول دیتیں۔ میں اُسے لے کر کہیں چلا جاتا اتنا بڑا ظلم کرنے کی کیا ضرورت تھی پر نہیں ابو غلطی ہماری ہے۔ ہم نے امی کی رائے کو فوقیت نہیں دی ہم نے اُن کو پسے پشت کرتے اپنی مرضی سے تمام فیصلہ کرلیا کاش ہم ایسا نہ کرتے کاش میں ایسا نہ کرتا، میں نے کیوں ملائکہ کو جانتے بوجھتے اس دلدل میں دھکیل دیا؟؟؟کیوں میں اُس کی حفاظت نہیں کر پایا مگر میں حفاظت کرتا بھی تو کس سے اپنی ماں سے؟؟“ سوالیہ نظروں سے اُن کی جانب دیکھتے وہ اُن کے جواب کا منتظر تھا۔۔۔۔”صبر کرو بیٹا کیوں کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اور ظالم کو اپنے کیے کی سزا ہر حال میں مل کر رہتی ہے تمہاری ماں نے جو کچھ ملائکہ کے لیے سوچا آج اُس سے دوگنی اذیت اُسے اپنی جان پر برداشت کرنا پڑ رہی ہے پتا نہیں اُس کے پاس کچھ لمحوں کا وقت ہے بھی یا نہیں اس لیے اُسے معاف کر دو بیٹا کیوں کہ اللہ پاک اُسے اپنے طریقے سے سزا دے چکا ہے“،سلیم صاحب نے کہتے ہوئے جنید کے آگے ہاتھ جوڑے۔۔۔”ابو پلیز کیا کر رہے ہیں آپ ،اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں اور امی نے جو بھی کیا اُس کا خمیازہ بھگت چکی ہیں اس لیے میرے معاف کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اگر پڑے گا تو میں نے اُنہیں معاف کیا“،اُن کے جوڑے ہوئے ہاتھوں کو نیچے کرتے جنید نے بہت آہستگی سے اپنی بات مکمل کی اور اُٹھ کر وہاں سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساری رات اور اگلا دن پولیس کے ساتھ شہر کا کونہ کونہ چھاننے کے بعد بھی جب نور کا کوئی سراغ نہ ملا تو عالیان(جیسے زارون نے فون کر کہ بلایا تھا) نے زارون سے گھر چلنے کا کہا مگر وہ کسی کی بھی کوئی بات سننے کے لیے تیار نہ تھا۔۔۔”زارون میری بات مانو تو ہم گھر چلتے ہیں تم کچھ کھا پی لینا اور تھوڑی دیر آرام بھی کر لینا مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی“،عالیان نے کمزور سی مزاحمت کی۔۔۔۔ ”مجھے کہیں نہیں جانا جب تک نور مل نہیں جاتی میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا“،غصے سے  اُس کا ہاتھ جھٹکتے وہ پولیس والے کے بُلانے پر اُس کی جانب بڑھا۔۔۔۔”سر اگر آپ چاہیں تو ہم سرد خانوں میں....“،اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتا زارون نے اُس کا گریبان پکڑتے جھنجھوڑا۔۔۔”دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟؟؟“آنکھوں میں سختی لیے وہ چیخا تو ڈی ایس پی صاحب جو تب سے اُن کے ساتھ تھے اُنہوں نے آگے بڑھتے زارون کو اُس سے الگ کرتے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔۔۔”کیا ہوا؟؟“سوالیہ نظروں سے امجد کی طرف دیکھتے اُنہوں نے معاملہ سمجھنے کی کوشش کی۔۔۔”کچھ نہیں سر میں نے بس اتنا کہا کہ سر ہم سرد خانوں میں ایک بار دیکھ لیتے ہیں“ اپنی شرٹ ٹھیک کرتے امجد نے آہستگی سے اپنی بات دوہرائی۔۔۔ جس پر اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے وہ زارون کی جانب بڑھے جو بار بار عالیان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر امجد کو مارنے کے لیے اُس کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔”زارون پلیز ہوش سے کام لو اور امجد نے صرف ایک بات کہی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں باقی اگر تم نہیں دیکھنا چاہتے تو تمہاری مرضی مگر میری اطلاع کے مطابق کچھ دیر پہلے ویرانہ سے ایک لڑکی کی لاش ملی ہے اور بدقسمتی سے جو تم حلیہ بتا رہے وہ۔۔۔“”ایسا نہیں ہوسکتا میری نور زندہ ہے اُسے کچھ نہیں ہوسکتا آپ لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی“ ،اب کی بار غصے کی بجائے بے یقینی کی سی کیفیت میں چلاتے زارون نے اُن کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی ٹوکا۔۔۔۔”مجھے  امید ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا مگر اس کے لیے تمہیں ہمارے ساتھ چلنا پڑے گا کیوں کہ لاش کو تیزاب ڈال کر جلا دیا گیا ہے اور پہچان کرنا مشکل ہے اس لیے ڈی این اے سیپمل کے ذریعہ ہی پتا چلے گا کہ وہ لاش نور کی ہے یا نہیں“،بڑے تحمل کے ساتھ اُنہوں نے زارون کو سمجھایا جس کا وجود بالکل بے جان ہو چکا تھا اور دل سے بس یہ دعا نکل رہی تھی کہ وہ نور نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر: 33

”ڈاکٹر احمد آپ فری ہیں تو میں اندر آجاؤں؟؟“،ڈاکٹر سہیل(احمد کا دوست اور کولیگ) نے دروازہ ناک کرتے دروازے سے سر نکالتے اجازت طلب کی تو احمدنے اُسے گھور کر دیکھا۔۔۔۔”شرم کر یار، تجھے کب سے میرے کمرے میں آنے کے لیے اجازت کی ضرورت پڑ گئی؟؟“احمد جو کے کسی پیشنٹ کی فائل دیکھنے میں مصروف تھا اُس نے سہیل کو دیکھتے ہی خفگی سے کہا۔۔۔”جب سے تمہاری شادی ہوئی ہے نا قسم سے یار بیگانے سے لگنے لگے ہو“،سہیل نے اندر داخل ہوتے سامنے والی چیئر سنبھالتے اعتراض کیا۔۔۔”ہوننہہ بس کرو یار میں نے کوئی اپنی مرضی سے نہیں کی مجھ غریب پر تو ظلم ہوا وہ بھی اتنا شدید کے میری آزادی کے ساتھ ساتھ مجھ سے میری مرضی بھی چھین لی گئی میں نے امی سے اتنا کہا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی پر اُن کو تو میرا سکون راس ہی نہ آیا، کہتی بیٹا میری زندگی میں میری بہو گھر لے آؤ اور پھر ہونا کیا تھا یہ میں نے حامی بھری ساتھ ہی امی نے ایک ہی مہینے میں لڑکی تلاش کرتے دوسرے مہینے میرے سر پر سہرا سجادیا“،احمد جو پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا سہیل کو دیکھتے ہی ایک ہی سانس میں اپنی پوری روداد مرچ مسالہ لگاتے سُنائی۔۔۔۔”ہوننہ بس کرو یہ ڈرامے اور میرے سامنے زیادہ ناٹک کرنے کی ضرورت نہیں ہے“،اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے جھٹکتے سہیل نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔۔۔۔”میں کہاں ناٹک کر رہا ہوں یار سچ میں پتا نہیں امی کے کس نے کان بھرے کے اُنہوں نے میری شادی کروا کے ہی دم لیا ورنہ تو میں نے کبھی بھی تم سے پہلے شادی نہیں کر نی تھی“،دونوں ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھتے وہ چیئر پر پرسکون ہو کر بیٹھا تو سہیل نے ٹیبل پر پڑی پینسل اُٹھاتے اُس کا نشانہ لیا۔۔۔۔”یار کیا ہے کیوں مجھ مسکین کو مار رہے ہو اب تمہاری شادی نہیں ہو رہی تو اس میں میرا کیا قصور“ ،احمد نے آنکھوں میں معصومیت سجاتے کہا تو سہیل نے اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔۔۔”میں اس لیے ناراض نہیں ہوں۔۔۔“”تو۔۔۔؟؟؟“”میں نے تمہیں پرسوں کال کی کہ میرے ساتھ چلو پر تم نے انکار کر دیا۔ کل کہا پھر بھی تم نے انکار کیا پر آج میں تمہیں ہر صورت اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا“،سہیل نے کہنے کے ساتھ ہی اُس کی چیئر کے قریب آتے اُس کا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔ ”جا نا کہاں ہے؟؟“احمد نے  کھڑے ہوتے ناسمجھی سے سوال کیا تو سہیل نے اُسے آنکھ ماری۔۔۔۔”یار شرم کر اب میری شادی ہو گئی ہے اگر میری بیوی کو پتا چل گیا نا تو وہ مجھے جان سے مار دے گی“،اُس کی مسکراہٹ سے اندازہ لگاتے احمد دوبارہ سے بیٹھ گیا۔۔۔۔ ”شادی ہو گئی ہے تو کیا تم دنیا کی رنگینیاں دیکھنا چھوڑ دو گے اور یار بھابھی کو کون بتائے گیا نہ اُدھر ہمیں کوئی جانتا ہے نہ ہم کسی کو ،تو بس بات ختم اب اُٹھو تمہیں پتا نا مجھے تمہارے بغیر کوئی بھی پروگرام دیکھنے کا مزہ نہیں آتا“،سہیل نے منت بھرے لہجے میں کہا تو اُس کا دل رکھنے کے لیے احمد نے حامی بھری۔۔۔۔”ٹھیک ہے چلوں گا پر ایک شرط پہ“،احمد نے اُٹھنے سے پہلے اُسے کے خطرناک ارادوں پہ لگام ڈالنا ضروری سمجھا۔۔۔ ”کیسی شرط؟؟“سہیل نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔۔۔ ”یہی کہ ہم وہاں زیادہ دیر نہیں رکیں گے اور اس بار نو ڈرنک، نو بدتمیزی“،احمد نے اپنی شرط بتائی تو سہیل نے بدمزہ ہوتے اُس کی جانب دیکھا۔۔۔”اچھا ٹھیک ہے مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے بس تم میرے ساتھ چلو“،دوبارہ سے اُس کا ہاتھ پکڑتے سہیل نے کہا تو احمد نے اُسے دومنٹ رکنے کا کہتے اپنی گاڑی کی چابی اور موبائل اُٹھایا اور اُس کے ساتھ ہی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا جس کا انتخاب آج سہیل نے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون، ڈی ایس پی صاحب اور عالیان جب ہسپتال پہنچے تو اُس لاش کی شناخت ہو چکی تھی۔۔۔”میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ یہ میری نور نہیں ہو سکتی۔ وہ یوں مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ وہ زندہ ہے“،زارون نے گہری سانس لیتے خود کو پرسکون کیا اور اپنے کانپتے ہوئے وجود کے ساتھ وہیں موجود چیئر پر بیٹھ گیا تو عالیان نے اُس کے قریب آتے تسلی دی۔۔۔”یار پلیز خود کو سنبھالوں اور اُٹھو گھر چلیں رشیدہ کا فون آیا تھا دی جان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے“،عالیان نے اُسے بتایا جو اُس کی بات سنتے ہی ہوش میں آیا۔۔۔”کیا ہوا دی جان کو؟؟اور میرے نمبر پہ کال کیوں نہیں کی؟؟“ زارون نے جلدی سے اپنا موبائل نکالتے سوال کیا۔۔۔”اوو یہ تو بند ہے لگتا ہے بیٹری لو ہے“،عالیان کے جواب سے پہلے ہی زارون نے موبائل کی طرف دیکھتے  کہا۔۔۔”ہاں اسی لیے رشیدہ نے میرے نمبر پہ فون کیا بس اب چلو پولیس اپنا کام کر رہی ہے نا ان شاء اللہ بھابھی جلد ہی مل جائیں گی“،اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے عالیان نے یقین دہانی کروائی تو زارون نے نا چاہتے ہوئے بھی اُس کی بات پر اثبات میں سر ہلایا اور دی جان کی طبیعت وجہ سے اُس کے ساتھ گھر کے لیے روانہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد وہ گھر پہنچے تو ساجدہ بیگم کی طبیعت کافی خراب تھی تب ہی عالیان نے احمد کو کال کی پر اُس نے اپنی شہر میں غیر موجودگی کا بتاتے اپنے کولیگ کو بھیجنے کا بولا۔۔۔۔”ہاں یار بس اُسے کہو ذرا جلدی آجائے“،عالیان نے ایک بار پھر سے درخواست کی تو احمد نے اُسے تسلی دیتے فون بند کیا۔۔۔۔”احمد تو یہاں نہیں ہے پر اُس کا کولیگ آرہا ہے وہ چیک کر لے گا“،زارون کو احمد سے ہونے والی بات کے متعلق آگاہ کرتے وہ خود بھی ساجدہ بیگم کے قریب بیٹھ گیا۔ اُن کے پاؤں رگڑتے گرم کرنے کی کوشش کرنے لگا جو شاید بی پی لو ہونے کی وجہ سے یخ ٹھنڈے ہو چکے تھے۔۔۔۔”ہاں بس آرہا ہے“،عالیان نے اُسے تسلی دی اور رشیدہ سے کوئی کپڑا لانے کا کہا جو فکر مندی سے اُن کے قریب ہی کھڑی تھی۔۔۔۔ٹھیک دس منٹ بعد ڈاکٹر پہنچا تو اُس نے ساجدہ بیگم کا تفصیلی چیک اپ کرتے اُن کا بی پی خطرناک حد تک گرنے کے متعلق بتاتے اُنہیں کچھ ضروری ٹریٹمنٹ دیا جس سے کچھ دیر میں ہی اُن کی طبیعت سنبھل گئی تھی۔۔۔”دی جان اب کیسا محسوس کر رہی ہیں آپ؟؟؟“زارون جو تب سے اُن کے قریب ہی بیٹھا تھا اُس نے نرمی سے اُن کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔”ہمم ٹھیک ہوں اب“،ساجدہ بیگم نے آنکھیں کھولتے اُسے مطمئن کیا جو پہلے ہی نور کے نہ ملنے سے کافی پریشان تھا۔۔۔”بس اب آپ انہیں آرام کرنے دیں اور بار بار مخاطب مت کریں“،ڈاکٹر نے ساجدہ بیگم کو انجیکشن لگانے کے بعد زارون کو ٹوکا جو مزید کچھ پوچھنے والا تھا۔۔۔۔”اگر دوبارہ ضرورت ہو تو یہ میڈیسن دے دیجیے گا اور اُن کے کھانے پینے اور آرام کا خاص خیال رکھیں کیوں کہ اس عمر میں بد احتیاطی انسان کو کسی بڑے مسئلے سے دو چار کر سکتی ہے“،کچھ میڈیسن پیپر پر لکھنے کے بعد عالیان کی طرف بڑھاتے اُس نے ہدایت کی اور اجازت طلب کرتے وہاں سے چلا گیا۔۔۔”میں ابھی میڈیسن لے کر آتا ہوں“،ڈاکٹر کے جاتے ہی عالیان نے زارون سے کہا جس نے نفی میں سر ہلا دیا۔۔۔”نہیں تم رہنے دو میں اکرم سے منگوا لوں گا تم جاؤ گھر جا کر آرام کرو کل سے میرے ساتھ ذلیل ہو رہے ہو“،پیپر اُس کے ہاتھ سے لیتے زارون نے رشیدہ کو دی جان کے پاس بیٹھنے کا کہتے باہر کا رخ کیا تو عالیان بھی اُس کے پیچھے ہی کمرے سے نکلا۔۔۔”خیر ہے یار میں ٹھیک ہوں اور دس منٹ لگیں گے میڈیسن لانے میں تو میں لے آتا ہوں“،عالیان نے ایک بار پھر سے مزاحمت کی۔۔۔”نہیں، بس تم جاؤ آرام کرو۔ صبح پھر سے تمہیں میرے ساتھ جانا ہے اور یہ میں اکرم سے منگوا لیتا ہوں وہ نیچے ہی ہے“، اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے زارون نے نرمی سے کہا تو عالیان نے اُسے کھانا کھانے کے ساتھ اپنا اور دی جان کا خیال رکھنے کا کہتے نور کے جلد مل جانے کی تسلی دی اور صبح جلد آنے کی یقین دہانی کرواتے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عالیان کے جاتے ہی زارون نے گھر کے نمبر سے اکرم کو کال کر کہ اوپر بلایا جو اُس کا حکم ملتے ہی دو منٹ میں اپارٹمنٹ کے سامنے تھا۔۔۔”جی سر آپ نے بُلایا تھا“،مودبانہ انداز میں ہاتھ بندھے اُس نے زارون سے پوچھا۔۔۔”ہاں یہ کچھ میڈیسن ہیں لے آؤ“،پیپر اُس کی طرف بڑھاتے زارون نے چند ہزار کے نوٹ نکال کر اُس کی طرف بڑھائے جسے تھامتے وہ سر ہلاتے نیچے کی جانب بڑھا۔۔۔۔”چھوٹے صاحب کھانا لگا دوں آپ کے لیے؟“رشیدہ جو اُس کے پیچھے کھڑی اکرم کے جانے کا انتظار کر رہی تھی اُس نے زارون کے پلٹتے ہیں سوال کیا۔۔۔۔”نہیں مجھے بھوک نہیں ہے آپ بس دی جان کے پاس رہیں مجھے کچھ چاہیے ہوا میں خود لے لوں گا“،انکار کرتے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھا تاکہ موبائل چارج پر لگا سکے تو رشیدہ بھی دی جان کے پاس اُن کے کمرے میں آگئی جو انجیکشن میں نشے کے زیر اثر سو چکی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاشر کل سے ہی حارث کی باتوں پر غور کر رہا تھا اور آج بھی پورا دن سوچ بیچار کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ حارث کی تمام باتیں ٹھیک تھیں اگر نور کی جگہ اُس کی اپنی بیٹی ہوتی تو وہ اُسے بھی معاف کر دیتا تو پھر نور کو کیوں نہیں۔۔۔”بس میں آج ہی حارث سے کہوں گا کہ ہم نور سے ملنے جائیں گے اور تمام گلے شکوے دور کر تے اپنی بہن کو معاف کرتے اپنے ساتھ گھر لے آئیں گے تاکہ اپنے گھر سے اُسے پھر سے اُسی مان کے ساتھ رخصت کریں جس کی وہ حق دار ہے“ ،حاشر نے فیصلہ کن انداز میں خود کلامی کی اور اب اُسے انتظار تھا تو بس حارث کے واپس آنے کا جو خالدہ بیگم کی طبیعت کا پوچھنے کچھ دیر پہلے ہی ہسپتال گیا تھا۔۔۔انہی سوچوں میں گم وہ ایک فائل کھول کر اُسے دیکھنے لگا تو اُس کا موبائل بج اُٹھا۔۔۔”لو شیطان کو یاد کیا اور شیطان حاضر“ اسکرین پر حارث کا نام چمکتا ہوا دیکھ کر اُس نے زیرلب مسکراتے ہوئے کال ریسیو کی۔۔۔۔”حاشر کہاں ہو تم؟؟“حارث نے سلام دعا کے بغیر ہی سوال کیا۔۔۔۔”آفس ہوں،کیوں خیریت ؟؟“”ہاں خیریت ہی ہے میں نے صبح تم سے کہا تھا کہ آج ابو کا چیک اپ ہونا ہے تو اُنہیں ٹائم سے ڈاکٹر کے پاس لے جانا پر ابھی میں نے گھر فون کیا تو راحیل نے بتایا کہ تم تو ابھی تک گھر ہی نہیں آئے“،حارث نے اُسے یاد دہانی کروائی۔۔۔”اُففف بھائی میں بھول گیا تھا بس میں ابھی نکلتا ہوں آپ فکر نہ کریں“،گاڑی کی چابی اُٹھاتے اُس نے ساتھ حارث کو تسلی دی جس نے اُسے جلدی گھر پہنچے اور سکندر صاحب کا ٹھیک سے چیک اپ کروانے کی ہدایت کرتے اپنی واپسی کے متعلق بتایا جو کل تک متوقع تھی۔۔۔”ٹھیک ہے میں دیکھ لوں گا آپ پریشان نہ ہوں“،حاشر نے اُس کی ہدایات سننے کے بعد گاڑی میں بیٹھتے ایک بار پھر سے اُسے مطمئن کیا جو اُس کی لاپروا طبیعت کی وجہ سے اچھا خاصا تنگ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”باجی میں کب سے اُس لڑکی کو تیار کرنے کی کوشش میں لگی ہوں پر مجال ہے کہ وہ میری کوئی بات مانے“ ،شبنم نے نور کے کمرے سے نکلتے خفا ہوتے تہمینہ بیگم کو بتایا جو آج کے پروگرام کے لیے بالکل تیار اپنے تخت پر بیٹھیں چنبیلی سے نیل پالش لگوانے میں مصروف تھیں۔۔۔۔”ہاں تو میں نے تجھے کہا تھا کہ نصیبو کو اپنے ساتھ لے کر جانا پر تجھے ہی تھا کہ نہیں میں اکیلی ہی کافی ہوں“،تہمینہ بیگم نے زمین پر تھوکتے شبنم کو لمبے ہاتھوں لیا جو کچھ ہی دیر پہلے بڑی تیزی دیکھا رہی تھی۔۔۔”باجی مجھے کیا پتا تھا کہ یہ لڑکی نہیں چڑیل ہے قسم سے دیکھیں کیسے ناخن مارے ہیں میرے“،اپنا بازو سامنے کرتے شبنم نے دکھی ہوتے کہا تو چنبیلی اُس کی مسکین صورت دیکھ کر ہنسی۔۔۔”اچھا ہی ہوا تیرے ساتھ بڑا پھیل رہی تھی نا کہ میں اکیلی سب کر لوں گی اور باجی کی بات سے انکار کرو گی تو اُس کا نتیجہ بُرا ہی نکلے گا“،اپنے دانتوں کی نمائش کرتے چنبیلی نے تہمینہ بیگم کو مزید تپایا۔۔۔”تو زیادہ بک بک نہ کر“،شبنم نے آنکھیں مٹکائیں تو تہمینہ بیگم نے اُن دونوں کو غصے سے گھورا۔۔۔۔۔”تم دونوں ہی اپنی بکواس بند کرو اور جا کر اُس لڑکی کو تیار کیونکہ آج تہمینہ بیگم اُسے پورے شہر کے امراء کے سامنے پیش کرنے علاوہ اُس کی بولی لگوانے کا بھی ارادہ رکھتی ہیں اسی لیے میں نے کچھ خاص مہمانوں کو بھی آج کے پروگرام میں مدعو کیا ہے تاکہ اس کی بدتمیزیاں برداشت کرنے کا ہمیں کوئی تو فائدہ ہو“،آنکھوں میں انتقام کی جلن لیے تہمینہ بیگم نے اُن دونوں کو جانے کا اشارہ کیا جو اثبات میں سر ہلاتے پھرتی سے اوپر کی جانب بڑھیں تاکہ تہمینہ بیگم کا موڈ خراب ہونے سے پہلے نور کو تیار کر سکیں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ”اُفف ایک تو یہ حارث اگلے بندے کے پیچھے ہی پڑ جاتا ہے“، سارے راستے اُس کا لیکچر سننے کے بعد حاشر نے گاڑی گیٹ سے باہر ہی کھڑی کر دی تاکہ دوبارہ سے باہر نکالنے میں ٹائم ضائع نہ ہو اور خود سکندر صاحب کو لینے بیرونی دروازے سے گزرتے اُن کے کمرے کی جانب بڑھا پر اُس سے پہلے ہی  فریحہ بیگم حال بے حال دوڑتی ہوئیں اُس کے قریب آئیں۔۔۔۔ ”کیا ہوا پھوپھو؟؟ سب خیریت ہے نا؟“حاشر کو اُن کی حالت دیکھ کسی غیر معمولی بات کا احساس ہوا پر فریحہ بیگم کے چیخنے اور رونے سے وہ احساس یقین میں بدل گیا۔۔۔۔”پھو پھو کیا ہوا ہے ابو، ابو ٹھیک ہے نا“ اُنہیں چھوڑتے وہ جلدی سے سکندر صاحب کے کمرے کی جانب بڑھا تو فریحہ بیگم زمین پر بیٹھتے سارہ کو پکارنے لگیں۔۔۔”حاشر میری سارہ کو بچا لو پلیز حاشر میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں میری سارہ کو بچا لو“،فریحہ بیگم نے باقاعدہ دونوں ہاتھ اُس کے سامنے جوڑے تو حاشر کے سکندر صاحب کے کمرے کی جانب بڑھتے قدم رک گئے۔۔۔۔ ”سارہ۔۔؟؟“اُس نے زیر لب اُس کا نام دوہرایا اور حیرت سے فریحہ بیگم کی جانب دیکھا جو اب زارو قطار رو رہی تھیں۔۔۔”پھو پھو کیا ہوا سارہ کو؟؟کہاں ہے وہ؟؟“واپس پلٹتے اُس نے فریحہ بیگم کے قریب بیٹھتے اُنہیں سنبھالنے کی کوشش کی جن کے رونے کی آواز پورے گھر کے در و دیورا ہلا چکی تھی۔۔۔۔”پتہ۔۔ نہ۔۔یں۔۔ مج۔۔ھ۔۔ س۔۔ے۔۔بات۔ کر ۔۔رہ۔۔ی تھی ۔۔۔کہ اچا۔۔نک اُس کے ،چیخنے کی آواز ۔۔آئی ۔۔اور پھر میں ا۔۔آوزیں دیتی رہی ۔۔پر ۔۔۔مجھے ۔۔سار۔۔ہ کی۔۔آوا۔۔ز نہیں آ۔۔ئی۔۔ ایک لڑکے نے بتایا کہ اُس کا  ایکسڈنٹ ہو گیا ہے۔“”حاشر میری بچی۔۔میرے ۔۔جگر کا ۔۔ٹکڑا ۔۔خدا کے لیے میری بیٹی کو بچا لو“،دونوں ہاتھ اُس کے سامنے جوڑتے فریحہ بیگم کی ساری اکڑ نکل چکی تھی اور اب وہ بس ایک بے بس اور لاچار ماں کی طرح اُس سے فریاد کر رہیں تھیں جو اُن کی بات سنتے ہی اُنہیں تسلی دے کر چپ کرواتے ہسپتال کا نام پوچھ کر (جو اُس لڑکے نے بھی بتایا تھا)باہر کی جانب بھاگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احمد اور سہیل دو گھنٹے کا لمبا سفر طے کرنے کے بعد ایک نئی جگہ پہنچے تو وہاں کی رنگینیاں دیکھ کر سہیل کے ساتھ ساتھ احمد کا دل بھی باغ باغ ہو گیا وہ جو سہیل سے جلدی واپس جانے کی شرط رکھ کر آیا تھا وہاں پہنچتے ہی  سب بھول گیا۔۔۔”یار پہلے تو تم نے کبھی اس جگہ کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کبھی دیدار کروایا“،للچاتی ہوئی نظروں سے اپنے اردگرد منڈلاتی تتلیوں کو دیکھ کر احمد نے اعتراض کیا۔۔۔”میں تو خود پہلی بار آیا ہوں یہاں“،سہیل نے کہنی مار کر اُسے ایک اور تتلی کی جانب متوجہ کرتے بتایا۔۔۔”یار کیا مست آئٹم ہے نا؟؟؟“آنکھوں میں خمار لیے اُس نے احمد سے تصدیق چاہی تو اُس نے اُس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں ایک لڑکی نا مناسب سے لباس میں ڈانس کرتی بھر پور طریقے سے اپنے جسم کی نمائش کرنے میں مصروف تھی۔۔۔”ہاں یار بہت مست ہے“،آنکھوں میں ستائش لیے وہ آگے بڑھا پر سامنے سے آتی ایک بدہی سی عورت سے ٹکراتے جہاں وہ گرنے سے بچا وہیں اُس کی ساری شرٹ اُس مرد نما عورت کے ہاتھ میں پکڑی شراب سے بھر گئی۔۔”اندھے ہو گئے ہو کیا؟؟؟“احمد کو سمجھ نہیں آئی کہ وہ اپنے سامنے کھڑی اُس چیز کو گی کہہ کر ڈانٹے یا گا تب ہی اُس نے اُسے غصے سے گھورتے خود کو مزید کچھ کہنے سے باز رکھا۔۔۔”سوری بابو جی مجھ سے غلطی ہو گئی“،اُس مرد نما عورت نے تالی بجاتے معذرت کی تو سہیل کے ساتھ ساتھ احمد کی آواز پر ایک اور عورت بھی اُٹھ کر اُن کے قریب آئی۔۔۔”معاف کیجیے گا صاحب یہ تھوڑی پاگل سی ہے“، اُس عورت نے لہجے میں مخصوص پیشہ ورانہ طوائفوں کی مٹھاس سموئے کہا تو سہیل نے احمد کو ٹھنڈا کیا جو غصے سے لال ہو رہا تھا۔۔۔”ٹھیک ہے کوئی بات نہیں آپ پریشان نہ ہوں“،احمد کی بجائے سہیل نے اُس عورت کو تسلی دی جو بار بار احمد سے معذرت کر رہی تھی۔۔۔۔”صاحب آپ پلیز اندر جائیں وہاں اوپر ہی سڑھیاں چڑھتے دائیں ہاتھ میں واش روم ہے وہاں جا کر اپنی شرٹ صاف کر لیں یا پھر مجھے دے دیں میں کسی سے کہہ کر صاف کروا دیتی ہوں“،اُس عورت نے شائشتہ لہجے میں پیشکش کی تواحمد نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔”نہیں میں خود صاف کر لوں گا“ سہیل کو وہیں رکنے کا اشارہ کرتے وہ اندر کی جانب بڑھا جہاں پر ہرطرف خاموشی تھی۔۔۔۔”پتا نہیں کہاں سے آجاتے ہیں ایسے بے وقوف لوگ“،سارا مزہ خراب کر دیا بولنے کے ساتھ ہی وہ سڑھیاں چڑھتے اوپر آیا اور اندازے سے ہی آگے بڑھتے اُس نے دروازے کو دھکا مارا جو بند تھا۔۔۔ ”اُففف واش روم کے دروازے کو بھی باہر سے لاک لگایا ہے حد ہے“،خود کلامی کرتے اُس نے باہر لگی کنڈی کو کھولا اور اندر داخل ہوتے ہی جو چہرہ اُسے نظر آیا وہ اُس کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر: 34

 

حاشر ہسپتال پہنچا تو سارہ کو ہوش آچکا تھا،اُس کے سر پر چوٹ لگی تھی جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ کچھ اورمعمولی چوٹیں آئیں تھیں جس پر ڈاکٹر نے اُنہیں مطمئن کرتے ڈرپ ختم ہوتے ہی ڈسچارج کرنے کا بولا۔۔۔۔”شکر ہے تم بچ گئیں ورنہ حارث بھائی نے میری جان لے لینی تھی“،حاشر نے اُسے پریشان دیکھ کر شریر سے انداز میں مسکراتے ہوئے چھیڑا۔۔۔۔”اب اتنی بھی اہم نہیں میں تمہارے بھائی کے لیے کہ میری خاطر وہ تمہیں کچھ کہے اور تمہیں میرے یہاں ہونے کا کس نے بتایا؟“،حارث کے نام پر ہی سارہ کا دل اندر تک افسردہ ہو گیا مگر اُس نے حاشر پہ ظاہر کرنے کی بجائے بات بدلی۔۔۔۔۔”پھوپھو نے بتایا اور تمہیں اس وقت اکیلے جانے کی کیا ضرورت تھی ڈرائیور کو ساتھ لے جاتیں“،حاشر نے بتانے کے ساتھ ہی اُس کی کلاس لی۔۔۔۔ ”اب میں کوئی چھوٹی بچی نہیں ہوں جو ہر جگہ ڈرائیور کو ساتھ لیے پھروں اور تم کیا یہاں مجھے ڈانٹنے آئے ہو؟“ ہلکی سے مسکراہٹ چہرے پر سجاتے سارہ نے شکوہ کیا تو حاشر کو اُس کا انداز بالکل نیا سا لگا۔۔۔۔”لگتا ہے ایکسڈنٹ نے دماغ پر گہرا اثر کیا ہے جو مجھ سے اتنے پیار سے بات کر رہی ہو،کہیں کوئی اندرونی چوٹ تو نہیں آئی؟“،حاشر نے سنجیدگی سے اُس کی جانب دیکھتے آنکھوں میں فکر مندی لیے سوال کیا تو سارہ نے اُسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا۔۔۔۔”بھاڑ میں جاؤ تم اگر میں مسکرا کر بات کروں تب بھی تمہیں مسئلہ ہے غصے سے کروں تب بھی۔ اس لیے بہتر ہے کہ تم اس وقت میرے منہ نہ لگو“،زیر لب اُسے مسکراتا دیکھ کر سارہ نے آنکھوں میں ناراضگی لیے کہا تو حاشر کو اُس کا یہ انداز بہت اچھا لگا کیوں کہ زندگی میں پہلی بار اُس نے اُسے اپنا سمجھ کر بات کی تھی۔۔۔۔”ہاں مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تمہارے منہ لگنے کا“،اپنی انا بر قرار رکھتے اُس نے سارہ کو جواب دیا جس کی آنکھیں ایک دم ہی آنسوؤں سے بھر گئیں۔۔۔”کیا ہوا؟کہیں درد ہے تو ڈاکٹر کو بُلاؤں؟؟“،حاشر نے اُسے روتا دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔”نہیں، بس مجھے گھر لے جاؤ۔ میرے گھر، جہاں ماموں ہیں، امی ہیں، تم ہو، حارث ہے“،اپنی آنکھوں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتے اُس نے کہا تو حاشر کو اُس کا ایک دم سے بدلا ہوا رویہ کچھ سمجھ نہیں آیا پر پھر بھی اُس نے کوئی سوال پوچھنے سے خود کو باز رکھتے اُسے تسلی دی جو اب پھوٹ پھوٹ کر روتے اُسے مزید پریشان کر گئی تھی۔۔۔۔”اچھا بس تم اب چپ کرو۔ میں ڈاکٹر سے بات کر کے آتا ہوں، پھر گھر چلتے ہیں“،اُسے چپ کروانے کی کوشش کرتے حاشر نے کہا اور اُسی کشمکش کی کیفیت میں باہر کی جانب بڑھا۔۔۔۔”یا اللہ ،تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے میری بروقت آنکھیں کھول دیں ورنہ اُس عمر کے پیچھے میں جہاں اپنی زندگی برباد کرتی وہیں اپنے سگے رشتوں کو بھی ہمیشہ کے لیے گنوا بیٹھتی۔ ٹھیک کہتے ہیں یہ دنیا مکافات عمل ہے کہاں میں اور امی دولت کی ہوس میں ماموں کو مارنے اُن کو تکلیف پہنچانے کے چکر میں تھے اور کہاں عمر میری زندگی میں شامل ہونے سے پہلے ہی میری ساری جائیداد ہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں سے میرا سودا بھی طے کر چکا تھا۔۔۔۔ اُُفففف اللہ اگر میں اور امی وہ سب کچھ کر دیتیں جو ہم نے سوچا تھا تو پوری زندگی کے لیے اپنی عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی، شکر ہے پرورگار تو نے ہماری عزت ہماری جان کو اُس شخص سے محفوظ رکھا جسے میں اپنا محسن سمجھ بیٹھی تھی“،خود کلامی کرتے سارہ نے آنکھیں بند کیں اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج وہ عمر کو بتائے بغیر اُس کے اپارٹمنٹ گئی تو اُس کے ذہن میں چلنے والے تمام ارادوں سے واقف ہو گئی ورنہ ساری زندگی پچھتانے کے علاوہ اُن کے ہاتھ کچھ نہ آتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نور کو وہاں اُس ناپاک جگہ پر دیکھ کر احمد کو اپنی آنکھوں پہ شبہ ہوا تب ہی اُس نے اُنہیں مسلتے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا جو خود بھی آنکھوں میں حیرت لیے اُسے دیکھ رہی تھی۔۔۔”نہیں ،یہ کوئی ہم شکل ہے اور نور بھابھی کا یہاں کیا کام وہ یہاں کیسے آسکتی ہیں“،نظریں اُس کے چہرے پر جمائے جہاں میک اپ کی تہہ لگائی گئی تھی احمد نے سوچا اور پلٹ کر واپس جانے لگا تو نور نے جلدی سے ہوش میں آتے اُسے آواز دی۔۔۔”احمد بھائی۔۔۔“،کسی اپنے کی وہاں موجودگی جہاں نور کو حیرت میں مبتلا کر گئی وہیں اس دلدل سے نکلنے کی امید نے اُسے پھر سے زندگی بخشی تب ہی اُس نے احمد کو پلٹتے دیکھ کر جلدی سے اُس کے سامنے آتے روکا۔۔۔”بھابھی آ۔۔پ۔۔ی۔۔ہا۔۔ں۔۔م۔۔طل۔۔ب“،احمد کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ اُس سے کیا پوچھے کیوں کہ اُس کے نام پکارنے سے یہ بات کنفرم ہو گئی تھی کہ وہ نور ہی ہے پر یہاں اس جگہ اس سوچ نے احمد کا دماغ ہلا کر رکھ دیا۔۔۔۔”پلیز مجھے بچا لیں،میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ پلیز کسی طرح مجھے یہاں سے نکال دیں یا آپ زارون کو کال کریں اُسے بتائیں کہ میں یہاں ہوں پلیز احمد بھائی آپ کو اللہ کا واسطہ ہے مجھے یہاں سے بچا لیں“،نورنے دونوں ہاتھ اُس کے سامنے جوڑے زاروقطار روتے ہوئے فریاد کی تو احمد نے کسی کے قدموں کی آہٹ سنتے اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور واپس آنے کا بولتے کمرے سے نکل کر کنڈی لگاتے سڑھیوں کی طرف آیا جہاں وہی مرد نما عورت اُسے دیکھنے سڑھیاں چڑھتے اوپر آرہی تھی۔۔۔۔”صاحب جی آپ کو واش روم ملا یا نہیں؟؟“خوشبو جو تہمینہ بیگم کے کہنے پر احمد کے پیچھے آئی تھی پر لاکھ شکر کہ اُس نے شراب کے نشے کے زیر اثر احمد کو نور کے کمرے سے نکلتا دیکھ کر بھی کوئی تاثر نہیں دیا۔۔۔۔”ہاں مل گیا،پر وہاں صابن نہیں ہے آپ کو تکلیف نہ ہو تو آپ مجھے لا کر دے سکتی ہیں؟؟؟“احمد اُس کے منہ سے آنے والی بو اور لہجے کی لڑکھڑاہٹ سے سمجھ چکا تھا کہ وہ نشے میں ہے تب ہی اُس نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے اُسے نیچے بھیجا تاکہ نور سے بات کر سکے۔۔۔”جی صاحب جی میں لاتی ہوں“،دانتوں کی نمائش کرتے اُس نے کہا اور ویسے ہی لڑکھڑاہتے قدموں سے نیچے کی جانب بڑھی تو احمد نے شکر ادا کرتے ایک نظر نیچے ہال میں ڈالی جہاں ابھی کوئی نہیں تھا اور واپس اُس کمرے کی جانب بڑھا جہاں نور موجود تھی۔۔۔۔”آپ یہاں کیسے میرا مطلب کہ کون لایا ہے آپ کو یہاں اور یہ بات زارون کا پتا ہے؟؟؟؟“کمرے میں آتے ہی اُس نے نور سے مناسب الفاظ میں سوال کیا جو ابھی بھی رو رہی تھی۔۔۔۔”میری دوست خدیجہ لائی ہے وہ مجھے دھوکے سے یہاں لائی زارون کو نہیں پتا بس آپ پلیز مجھے یہاں سے نکل دیں یا پھر زارون کو کال کر دیں وہ مجھے لے جائے گا“،نور نے کسی کے آجانے کے ڈر سے ایک ہی سانس میں احمد کو سب بتایا جو اُس کی پوری بات سنتے اُسے جلد ہی کچھ کرنے کی تسلی دی اور خاموشی اختیار کرنے کا کہتے واپس دروازہ بند کرتے نیچے آگیا تاکہ اُس کی غیر موجودگی سے کسی کو شک نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زارون اپنا موبائل چارج پر لگانے کے بعد دی جان کے پاس ہی آگیا جو تب سے سوئی ہوئی تھیں تو وہ بھی وہاں موجود صوفے پر کچھ دیر کمر سیدھی کرنے کی غرض سے لیٹ گیا۔۔۔اُسے لیٹے ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ بیرونی دروازے کی بیل بجنے لگی۔۔۔”اس وقت کون آگیا؟؟“کلاک پر رات کے گیارہ بجتے دیکھ کر اُس نے خود کلامی کی اور رشیدہ کو اُٹھتا دیکھ کر اشارے سے روکتے خود اُٹھ کر باہر کی جانب بڑھا۔۔۔۔”کون۔۔۔؟؟“آواز لگاتے اُس نے دروازہ کھولا اور وہاں موجود شخص کو دیکھ کر چند ثانیے کواُس کی زبان ساکت ہوئی۔۔ ”ابو آپ یہاں اس وقت؟؟سب خیریت ہے نا؟؟“،احتشام صاحب کو دیکھ کر جہاں زارون کو حیرت ہوئی وہیں پیچھے کھڑی شہناز بیگم کو دیکھ کر اُس کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔۔۔”ہاں،کیوں میرے یہاں آنے پر پابندی ہے یا میں یہاں نہیں آسکتا؟،آگے بڑھتے اُنہوں نے زارون کو اپنے ساتھ لگاتے شکوہ کیا۔۔۔”نہیں، میں نے ایسا تو نہیں کہا پر آپ اس وقت آئے وہ بھی بغیر بتائے تو میں تھوڑا پریشان ہوگیا“،زارون نے اپنی بات کی وضاحت دی اور شہناز بیگم کے سلام کا جواب دیتے دروازہ بند کیا۔۔۔”ہاں یہ تو ہے مجھے بتا کر آنا چاہیے تھا مگر کس کو بتاتا نہ تو تم میرا فون اُٹھانا ضروری سمجھتے ہو اوپر سے امی جان بھی جب سے یہاں آئیں ہیں ایک فون تک نہیں کیا میں فون کرتا ہوں تب بھی بس تھوڑی بہت بات کر کہ بند کر دیتی ہیں“،زارون کے اشارہ کرنے پر صوفے پر بیٹھتے اُنہوں نے اعتراض کیا تو رشیدہ بھی اُن کی آواز سنتے باہر آگئی۔۔۔ ”سلام بڑے صاحب“،احتشام صاحب کو دیکھتے ہی رشیدہ نے خوش دلی سے کہا۔۔۔”وعلیکم السلام رشیدہ کیسی ہو تم؟“ ،اُس کے سلام کا جواب دیتے اُنہوں نے سوال کیا جو اب شہناز بیگم کو سلام کر رہی تھی۔۔۔۔۔”جی بڑے صاحب میں ٹھیک ہوں۔۔۔“ احتراماً نظریں جھکائے اُس نے جواب دیا اور زارون کے کہنے پر اُن کے لیے پانی لینے چلی گئی۔۔۔”امی جان کہاں ہیں اور ہماری بہو؟؟؟“رشیدہ کے جاتے ہی احتشام صاحب نے سوال کیا۔۔۔”دی جان کی شام تھوڑی طبیعت خراب ہو گئی تھی، ڈاکٹر نے چیک کیا تھا، میڈیسن دی تھیں اُن کے زیر اثر سو رہی ہیں اور نور اپنے گھر گئی ہے“،زارون کو نور کے بارے میں کچھ بتانا مناسب نہیں لگا تب ہی اُس نے جھوٹ بولا۔۔۔”کیا ہوا امی کو زیادہ طبیعت خراب ہے کیا؟؟“احتشام صاحب نے پریشانی سے سوال کیا تو زارون نے نفی میں سر ہلاتے اُنہیں مطمئن کیا۔۔۔”نہیں اب ٹھیک ہیں آپ پریشان نہ ہوں اور پانی پیئیں“ ایک اچکتی نظر شہناز بیگم پر ڈالتے جو نظریں نیچی کیے بیٹھی تب سے اپنے ہاتھوں کو آپس میں مسل رہی تھیں۔۔۔۔ ”اچھا،ٹھیک ہے آرام کرنے دو ہم ویسے بھی یہاں تم سے بات کرنے آئے ہیں بلکہ تمہیں منانے“،احتشام صاحب نے اپنے آنے کا مقصد بتایا تو زارون نے ناسمجھی سے اُن کی جانب دیکھا۔۔۔۔”مطلب؟ مجھے کیوں منانا ہے اور میں کب ناراض ہوا آپ سے؟؟“کچھ الجھے سے اندازہ میں جہاں وہ پہلے شہناز بیگم کی خاموشی پر ہکابکا سا بیٹھا تھا اب احتشام صاحب کے انکشاف پر مزید فکر مند ہوا۔۔۔۔”میں نہیں بلکہ شہناز تم سے معافی مانگنا چاہتی ہے اور اسی نے مجھے یہاں آنے کے لیے کہا اور میں اسی کے کہنے پر یہاں آیا ہوں“،احتشام صاحب نے ایک اور انکشاف کیا جسے سُن کر جہاں زارون کو حیرت ہوئی وہیں شک بھی کہ یہ شہناز بیگم کی کوئی نئی چال نہ ہو۔۔۔۔”میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا، مجھے اپنے کیے کا احساس ہو گیا ہے جب سے ڈاکٹر نے مجھے بتایا ہے کہ میں بانجھ ہوں ایک پھانس سی میرے دل میں اٹک گئی ہے کہ میں نے دولت کے لالچ میں آکر تمہیں تمہاری ماں سے دور کیا احتشام کو اپنا بنانے کے لیے میں نے یہ تک نہیں سوچا کہ اللہ پاک مجھے اُسی نعمت سے محروم کر دے گا جس کی مجھے زندگی میں سب سے زیادہ خواہش تھی“،آنکھوں میں آنسو لیے اُنہوں زارون کے سامنے ہاتھ جوڑے۔۔۔۔۔”پلیز زارون مجھے معاف کر دو، میں نے ضد اور جلن میں آکر سب کیا پر میرا مقصد تمہاری ماں کو مارنا یا اُسے تکلیف پہنچانا نہیں تھا مجھے تو احتشام سے، اُس کی دولت سے پیار تھا جس کے لیے میں اس حد تک چلی گئی کہ میں نے تم سے تمہاری ساری خوشیاں چھین لیں“ ،زاروقطار روتے وہ زارون سے اپنے ہر گناہ کی معافی مانگ رہی تھیں۔۔۔۔”اچھا بس زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے آپ مت روئیں۔ آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا یہ ہی کافی ہے باقی اپنی زندگی کو حسد اور جلن کی نظر کر کہ نہ ہی آپ کو کچھ ملے گا نہ مجھے اس لیے بہتر ہے کہ ہم دونوں ہی اپنے رویے ٹھیک کر لیں۔ جہاں تک جائیداد کی بات ہے تو جتنا میرا حق ہے اتنا آپ کا بھی ہے اور آپ مجھے پیار سے کہتیں تو میں شاید سب کچھ ہی آپ کے نام کر دیتا مگر آپ نے مجھے کسی کانٹے کی طرح اپنی زندگی سے نکالنا چاہا اسی لیے وہ سب میری انا کا مسئلہ بن گیا۔ اپنی انا میں آکر نہ تو میں امی کی روح کو سکون دے سکا اور نہ ہی ابو کو خوش رکھ سکا۔۔ غلطی ہر انسان سے ہوتی ہے آپ دونوں سے بھی ہوئی جس کی وجہ سے میری ماں کی جان چلی گئی اور یہ بات اتنی بڑی تھی کہ میں وقتی طور پر سنبھل نہیں پایا پر اب مجھے سمجھ آگئی ہے کہ موت کے صرف وجوہات و اسباب پیدا ہوتے ہیں تاکہ ہم انسان یہ کہہ سکیں ایسا نہ ہوتا تو وہ نہ مرتے یا اس وجہ سے اُس انسان کو موت آئی پر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ موت کا وقت طے ہے اور وہ اپنے مقررہ وقت پر ہر ذی روح کو آنی ہی ہے۔ امی کی موت کا وقت بھی طے تھا اس میں آپ کا یا ابو کا کوئی قصور نہیں“،اُن کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لیتے زارون نے اُن کی شرمندگی کو کم کرنے کی کوشش کی تو شہناز بیگم کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہنے لگے۔۔۔”میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی“،آنکھوں میں ندامت کی جگہ خوشی کے آنسو لیے اُنہوں نے زارون کو اپنے ساتھ لگایا تو اُس نے بھی اپنے اتنے اہم رشتوں سے تمام گلے شکوے پل بھر میں دور کر دیے۔۔۔”اب ماں بیٹا ہی لگے رہو گے یا مجھے بھی موقع دو گے“،احتشام صاحب نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ زارون کے دل سے بھی نفرت ختم ہوئی اور نرم گوشہ پیدا ہوا، ان کو فخر ہوا ان کے بیٹے نے آج ان کی لاج رکھ لی۔ ”لیں دے دیا آپ کو بھی موقع“،زارون نے نم آنکھوں سے مسکراتے احتشام صاحب کے سینے پر سر رکھا تو آج اتنے عرصہ بعد بیٹے کا پیار بھرا لمس اُن کو اندر تک سر شار کر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”کہاں رہ گئے تھے یار تم اتنی دیر کہاں لگا کر آئے ہو؟؟“ سہیل نے احمد کو آتا دیکھ کر پوچھا۔۔۔”کہیں نہیں تم پروگرام انجوائے کرو میں بس ایک کال کر کہ آیا“،احمد نے چاروں طرف نظر دوڑاتے کسی کو بھی اپنی طرف متوجہ نہ پاکر کہا اور سہیل کے روکنے کے باوجود بھی لان کے قدرے خاموش حصے کی جانب بڑھا۔۔۔۔”یہ صاحب کہاں گئے لگتا ہے ناراض ہو گئے ہیں؟“،تہمینہ بیگم نے احمد کو جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا تب ہی اپنے مہمانوں سے فارغ ہوتے سہیل کی جانب آئیں جو حیران، پریشان احمد کے رویے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔ ”نہیں،ایسی کوئی بات نہیں اُسے کوئی ضروری کال کرنی تھی اس لیے گیا ہے ابھی آجائے گا“،سہیل نے اُس کے نامناسب سے لباس میں سے نمایا ں ہوتے جسم پر نظر ڈالتے چہرے پر ایک جاندار سی مسکراہٹ سجائے بتایا۔۔۔”ٹھیک ہے وہ آجائیں گے مگر آپ تو آئیں یہاں اکیلے بیٹھ کر محفل کا کیا مزہ“،اک ادا سے کہتے اُس نے سہیل کو کالر سے پکڑا اور لان کے اُس حصے میں لے گئی جہاں اس وقت محفل اپنے عروج پر تھی اور بہت سی حسینائیں اپنے حُسن کے جلوے بکھیرتے حاضرین کا دل جیتنے میں مصروف تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاشر سارہ کو لے کر گھر پہنچا تو فریحہ بیگم(جنہیں حاشر پہلے ہی فون پر سارہ کے ٹھیک ہونے اور گھر آنے کے بارے میں بتا چکا تھا) اُن ہی کے انتظار میں لان میں ٹہل رہی تھیں۔۔۔”میری بیٹی میری جان، تم ٹھیک ہو نا؟“،حاشر کی گاڑی رُکی تو فریحہ بیگم نے جلدی سے آگے بڑھتے دروازہ کھول کر سارہ کو گاڑی سے اترنے میں مدد کرتے والہانہ اندازمیں اُسے بوسہ دیتے دیکھنے لگیں جس کے سر پر پٹی بندھی تھی۔۔۔۔”جی امی میں ٹھیک ہوں آپ کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہیں بس معمولی سی چوٹ ہے جلد ٹھیک ہو جائے گی“،ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے اُس نے فریحہ بیگم کو تسلی دی اور اُنہیں ساتھ لیے اندر کی جانب بڑھی جہاں سکندر صاحب بھی لاؤنج میں اپنی وہیل چیئر پر بیٹھے اُسی کا انتظار کر رہے تھے۔ سارہ کو دیکھتے ہی اشارے سے اپنے پاس بُلانے لگے۔۔۔”میں ٹھیک ہوں آپ پریشان نہ ہوں“،اُن کا لرزتا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے سارہ کو دکھ ہوا کہ وہ اور اُس کی ماں اُن کے ساتھ کیا کچھ کرتی رہی ہیں مگر آج اُس کی تکلیف میں اُس کے یہ اپنے ہی اُس کے ساتھ کھڑے تھے۔۔۔۔”ماموں میں ٹھیک ہوں آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں“ سکندر صاحب کی آنکھوں سے بہتا پانی دیکھ کر سارہ نے اُنہوں بہت پیار سے تسلی دی جو اُن کی باتوں اور اتنی نفرتوں کے باوجود بھی اُس کے ایکسڈنٹ کا سنتے ہی تب سے بیٹھے حاشر کے لوٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔”راحیل تم ابو کو کمرے میں لے جاؤ“،حاشر نے اُنہیں سارہ کی طرف سے دلبرداشتہ ہوتا دیکھ کر راحیل سے کہا جو سکندر صاحب کو حارث اور حاشر کی غیر موجودگی میں سنبھالتا تھا۔۔۔”جی سر۔۔۔“،اُس کی بات سنتے ہی راحیل وہیل چیئر کو کمرے کی طرف لے گیا تو حاشر نے سارہ کو بھی آرام کرنے کا کہا تو فریحہ بیگم اُسے سہارا دیتے اُس کے کمرے میں لے گئیں۔۔۔۔۔”یہاں بیٹھو اور مجھے یہ بتاؤ یہ سب کیسے ہوا؟تم تو عمر سے ملنے گئی تھیں نا تو پھر یہ سب۔۔۔؟“بیڈ کی بیک پر تکیہ رکھتے اُنہوں نے سارہ کو بٹھایا۔۔۔۔”آنکھیں کھل گئی تھیں میری پر اللہ کا انصاف دیکھ کر دماغ بند ہوگیا اس لیے گاڑی سنبھلی ہی نہیں مجھ سے“،سارہ نے آنکھوں میں نمی لیے کہا تو فریحہ بیگم نے اتنی گہری بات پر بیٹی کے چہرے کی جانب دیکھا جہاں آج پہلی والی سارہ کا کوئی عکس نہیں تھا۔۔۔۔”مطلب کیسا انصاف ؟؟“ناسمجھی سے کہتے وہ اُس کے قریب ہی بیٹھ گئیں ۔۔۔”جو سب ہم ماموں اور حارث ،حاشر کے ساتھ کرنے والے تھے نا، عمر بھی یہی سب کرنے کا ارادہ کیے بیٹھے تھا۔ امی اُسے مجھ سے محبت نہیں تھی بلکہ وہ یہ سب اس لیے کر رہا تھا کہ میں نے اُسے بتادیا تھا کہ ماموں نے مجھے اور آپ کو بھی جائیداد میں سے کڑوڑوں کا حصے دار بنایا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ میں نے وہ سب عمر کو بتایا تو اُس کی اصلیت میرے سامنے آگئی ورنہ وہ تو اپنے دوستوں سے مجھے ایک بار استعمال کرنے کے بعد اُن کو سونپنے کا سودا کرچکا تھا“،آنکھوں میں اذیت لیے سارہ نے اپنی بات مکمل کی تو فریحہ بیگم کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔ ”مطلب عمر نے یہ سب تم سے خود کہا؟؟؟“”نہیں مجھ سے یہ سب کیوں کہنا تھا آج میں اُس کو بتائے بغیر گئی کہ اُسے سرپرائز دوں گی پر وہاں پہنچتے ہی مجھے یہ سب سننے کو ملا وہ اپنے کسی دوست سے فون پر بات کر رہا تھا“،سارہ نے مزید وضاحت کی تو فریحہ بیگم نے اُسے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔”شکر ہے اللہ نے ہمیں بچا لیا ورنہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہونے والا تھا میرے تو سُن کر ہی رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں“ اپنے بازو پر ہاتھ پھیرتے اُنہوں نے خوف سے جھر جھری لی۔۔۔۔”ہمم پر ہمارے یہ سب کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے نہیں ہوئے کیوں کہ اُس وقت ہم دونوں یہ بھول گئے تھے کہ آج جو کچھ ہم بو رہی ہیں آگے جا کر اُس کی فصل ہمیں خود ہی کاٹنا پڑے گی اور امی آپ نے میرے دل میں ہمیشہ ماموں کے خلاف نفرت کیوں بھری کیوں آپ نے مجھے یہ نہیں سمجھایا کہ باہر کی دنیا اتنی خوفناک ہے۔۔؟“،سارہ نے نظروں میں خفگی لیے پوچھا تو فریحہ بیگم نے بیٹی کے الزام پر نظریں چرائیں۔۔۔۔”سوچیں اگر میں یہ سب نہ سنتی تو ہمارا کیا ہوتا ہم نے تو خالدہ آنٹی کا انجام دیکھ کر بھی سبق نہیں سیکھا کیوں کہ ہماری آنکھوں پر بس دولت اور پیسے کی پٹی بندھ گئی جس کے آگے ہمیں سب کچھ ہی صحیح لگا“،آنسوؤں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتے وہ آج فریحہ بیگم کو آئینہ دکھا رہی تھی اُن کی اپنی بیٹی جس کے ذہن میں اُنہوں پورے پچیس سال زہر بھرا تھا۔۔۔۔”آپ کو پتا ہے ابو نے آپ کو طلاق اسی وجہ سے دی کیوں کہ آپ آستیں کے سانپ کی مانند ہیں،جن لوگوں نے پوری زندگی ہمیں سنبھالا ہمیں سہارا دیا اچھا کھانے، پہنے اور اوڑھنے کو دیا ہم اُن ہی کے خلاف ہو گئے کس کے لیے؟؟؟؟ان آسائشوں کے لیے جو ہمیں ابو بھی نہیں دے سکتے اور ماموں نے بن مانگے ہی ہماری جھولی میں ڈال دیں کبھی اپنی اولاد کا نہیں سوچا بس ہمیشہ مجھے اور آپ کو ترجیح دی تاکہ ہمیں احساس کمتری نہ ہو پر ہم نے کیا کیا؟؟؟میں تو ناسمجھ تھی پر امی آپ نے بھی مجھے نہیں سمجھایا اگر میں عمر کے پیچھے لگ بھی گئی تھی تو آپ نے مجھے کیوں نہیں روکا کیوں نہیں سمجھایا کہ اب جو بھی ہے حارث میرا محرم ہے آپ نے کیوں مجھے شے دی اپنی زندگی برباد کرنے کی“،سارہ نے تڑپتے ہوئے ماں سے وہ تمام سوال کر ڈالے جن کا اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔”آپ سوچیں ابھی تو ہمارے پاس ماموں تھے جنہوں نے ہمیں سنبھال لیا پر آگے ہمارے پاس کون ہوگا؟؟اس دولت کے سہارے ہم کب تک زندگی گزار لیں گے جب ہمارے پاس کوئی رشتہ ہی نہیں بچے گا“،اپنے دل کی ساری بھڑاس نکالتے وہ فریحہ بیگم کو پریشان چھوڑے بیڈ کا سہارا لیتے اُٹھی اور دروازہ کھول کے باہر نکل گئی۔۔۔۔”میں بُری بیوی تو تھی ہی کاشف (سارہ کے ابو)آج بُری ماں بھی بن گئی“،آنکھوں سے گرتے قطار در قطار آنسو اُن کی شرمندگی کی علامت تھے جو پوری زندگی چاہنے کے باوجود بھی کم نہیں ہو سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”اُففف یہ زارون فون کیوں نہیں اُٹھا رہا“،احمد پچھلے آدھے گھنٹے سے مسلسل اُسے فون کر رہا تھا جس کا موبائل کمرے میں موجود چارج پرلگا تھا اور وہ خود دی جان کے اُٹھ جانے کی وجہ سے احتشام صاحب اور شہناز بیگم کے ساتھ  ہی اُن کے کمرے میں موجود تھا۔۔۔۔”اللہ.. پتا نہیں کہاں ہے یہ، میں گھر کے نمبر پر فون کرتا ہوں“،ایک نظر چاروں طرف دیکھتے اُسں نے زارون کے اپارٹمنٹ کا نمبر ملایا جو دوسری بیل پر رشیدہ نے اُٹھالیا۔۔۔۔ ”ہیلو کون۔۔۔؟؟“”میں احمد بات کر رہا ہوں میری زارون سے بات کروا دیں فوراً“،رشیدہ نے پوچھا تو احمد نے سلام دعا کے بغیر ہی اُس سے کہا۔۔۔۔”جی میں بلاتی ہوں“،کریڈل پر فون رکھتے وہ دی جان کے کمرے کی جانب بڑھی۔۔”چھوٹے صاحب کسی احمد صاحب کا فون ہے“ زارون جو نور کی غیر موجودگی کے متعلق احتشام صاحب کو سب سچ بتا رہا تھا احمد کا نام سنتے ہی اُس نے کلاک کی طرف دیکھا۔۔۔”احمد؟؟اس وقت۔۔۔“ رات کے دو بجتے دیکھ کر اُس نے خود کلامی کی اور اُٹھ کر باہر آتے فون اُٹھایا۔۔۔۔”ہیلواحمد۔۔۔“”زارون پلیز اس وقت سوال جواب کا وقت نہیں ہے۔ میں تمہیں موبائل پر ایک پتہ سینڈ کر رہا ہوں جلد از جلد اُس پر پہنچ جاؤ اور اکیلے مت آنا اپنے گارڈز کو ساتھ لے کر آنا“،احمد نے چاروں طرف نظر رکھتے رازداری سے اُسے کہا جو دوسری طرف حیرت سے ایک بار پھر سے کلاک کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔”ہوا کیا ہے کوئی لڑائی ہو گئی ہے کیا تمہاری۔۔۔“”نہیں یار بس تم سمجھو تمہاری زندگی اور عزت دونوں خطرے میں ہیں پلیز جتنا جلدی ممکن ہے پہنچ جاؤ“احمد نے تہمینہ بیگم کو اپنی طرف آتا دیکھ کر جلدی سے فون بند کیا۔۔۔۔۔”صاحب ہم کب سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور آپ ہیں کہ جب سے آئے ہیں بس فون پر ہی لگے ہیں“،تہمینہ بیگم نے  اُس کے قریب آتے شکوہ کیا تو احمد نے اپنی پیشانی پہ آتی پسینے کی ننھی بوندوں کو نامحسوس طریقے سے صاف کرتے ایک مسکراہٹ اچھالی۔۔۔۔”بس ڈاکٹر ہیں نا، اپر سے شادی شدہ تو سو کام پڑ جاتے ہیں“، احمد نے ہوشیاری سے تہمینہ بیگم کی جانچتی نظروں سے نظر ملاتے جواب دیا تو اُس نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور احمد کو اپنے ساتھ لان کے دوسرے حصے میں لے گئیں جہاں اب سہیل نشے میں بلکل مست ہو چکا تھا اور  ایک لڑکی کے ساتھ ڈانس کرنے میں مصروف احمد کو دیکھتے ہی اُسے بھی بُلانے لگا تو اُس نے تہمینہ بیگم کی نظر سے بچاکر (جیسے احمد پر شک ہوچکا تھا ) زارون کو وہاں کا پتہ سینڈ کیا اور ساتھ نور کے وہاں ہونے کے بارے میں بھی بتا دیا جسے پڑھتے ہی زارون کی جان میں جان آئی اُس نے جلدی سے احتشام صاحب کو سب بتایا اور اُنہیں گھر رک کر سب کا دھیان رکھنے کا کہتے احمد کی بتائی ہوئی جگہ کی طرف روانہ ہوا اور اپنے گارڈز کو بھی فون کرتے وہاں جلد از جلد پہنچنے کا کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔احمد کو وہاں لانے کے بعد تہمینہ بیگم مطمئن ہو گئیں اور سب کے درمیان جا کر بیٹھیں تو چنبیلی اُن کا فون لیے اُن کے پاس آئی جو کب سے بج رہا تھا۔۔۔”باجی زین صاحب کا فون آرہا ہے“،رازداری سے اُس کے کان میں گھستے چنبیلی نے اُسے آگاہ کیا جو چند سیکنڈ پہلے ہی شبنم کو نور کو لینے کے لیے بھیج چکی تھی۔۔۔”اُفف اب اس کم بخت کو اس وقت میری یاد کیسے آگئی“،منہ میں پان چباتے اُس نے خود کلامی کی اور شور کی وجہ سے ایک سائیڈ پر ہوتے کال ریسیو کی۔۔۔”ہیلو۔۔کہاں مر گئی تھی تم میں کب سے کال کر رہا تھا“،اُس کے ہیلو کہتے ہی زین نے غصے سے چلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔ ”صاحب آپ تو جانتے ہیں یہ وقت ہماری روزی روٹی کا ہے بس اسی لیے فون اُٹھانے میں دیر ہو گئی“ ،تہمینہ بیگم نے اندر کی جانب بڑھتے جواب دیا اور اُسے مزید وضاحتیں دینے لگیں۔۔۔”اچھا زیادہ بک بک نہ کرو اور نور کو تیار کرو میں آرہا ہوں کچھ دیر میں پہنچ جاؤں گا“،زین نے اُس کی مسلسل چلتی زبان سے تنگ آتے مطلب کی بات کی اور ایک دو مزید ہدایت دیتے کال کاٹ دی۔۔۔”اُفف اس منحوس کو بھی آج ہی یاد آنی تھی“،سڑھیوں سے اوپر کی جانب جاتے اُس نے زین کو گالی دی جس نے اُس کے سارے پلان پر پانی پھیر دیا تھا۔۔۔۔۔۔

قسط نمبر: 35

زین کا فون سنتے ہی تہمینہ بیگم سڑھیاں چڑھتے اوپر آگئیں تاکہ شبنم کو نور کو نیچے لانے سے منع کر سکیں۔۔۔۔”باجی دیکھیں اس نے کیا کیا“،شبنم نے تہمینہ بیگم کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ کر نور کی شکایت کی جس نے سارا میک اپ صاف کرنے کے ساتھ ساتھ تمام جیولری اُتار کر کمرے کے کونے کونے میں پھینک دی تھی۔۔۔۔”میری اتنی مہنگی جیولری کا ستیاناس کر دیا“،دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے اُنہوں نے ایک نظر فرش پر بکھرے پڑے اپنے سونے کے سیٹ پر ڈالی اور پھر کھا جانے والی نظروں سے نور کو دیکھا جو بڑے سکون سے اُس کی کسی بھی بات پر غور کیے بغیر دوپٹے کو اچھے سے اپنے گرد پھیل کر اوڑھے چکی تھی۔۔۔۔”کیا کیا ہے یہ تم نے؟؟تمہاری جراءت کیسے ہوئی تہمینہ بیگم کی چیزوں کو یوں پاؤں میں روندنے کی۔۔“ غصے سے پاگل ہوتے وہ اُس کے اوپر جھپٹی جو اس حملہ کے لیے بالکل بھی تیار نہ تھی۔۔”منہ توڑ دوں گی میں تیرا“،دونوں ہاتھوں سے اُس کے گالوں پر تھپڑوں کی بارش کرتے وہ کچھ سیکنڈز کے لیے زین کے بارے میں بالکل بھول چکی تھی۔۔۔۔”منہ توڑنا مجھے بھی آتا ہے اس لیے اپنے ہاتھ اور زبان کنٹرول میں رکھو“ ،اُس کا ہاتھ پکڑتے نور نے غصے اور تکلیف کے ملے جلے تاثرات لیے تہمینہ بیگم کو ایک زور دار دھکا دیا جس سے اس کا سر شبنم کے بروقت سنبھالنے سے دیوار میں لگتے لگتے بچا۔۔۔۔”اگر زین صاحب کے آنے کا خیال نہ ہوتا نا مجھے تو تم  دیکھتی کہ تہمینہ بیگم کس قہر کا نام ہے“،غصے سے پاگل ہوتے اُنہوں نے پھر سے آگے بڑھتے نور کے جبڑوں کو سختی سے اپنے ہاتھ میں دبوچا تو تکلیف کی شدت سے آنسو آنکھوں سے نکلتے اُس کے گالوں پہ بہہ نکلے۔۔۔۔۔”آج جتنی زبان چلانی ہے نا چلا لے جتنا اکڑنا ہے اکڑ لو کیوں کہ کل سورج نکلنے کے ساتھ ہی زین صاحب تجھے استعمال کر کہ میرے حوالے کر دیں گے پھر تو ساری زندگی میرے شر سے پناہ مانگے گی پر تجھے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا،پھر تہمینہ بیگم دل کھول کر تجھ سے تیری ساری بدتمیزیوں کا بدلہ لے گی“،دانت پیستے اُس نے اپنی بات مکمل کی اور اُسے پیچھے بیڈ پر دھکا دیا جس کا چہر ہ تہمینہ بیگم کے بھاری ہاتھ کی انگلیوں سے بالکل سرخ ہوچکا تھا۔۔۔۔”اس کا دھیان رکھو بلکہ یہاں اس کے پاس ہی رہو جب تک زین صاحب نہیں آجاتے“،شبنم کو حکم دیتے اُس نے ایک تمسخرانہ نظر نور پہ ڈالی (جو اپنے ہونٹ پر ہاتھ لگاتے اُس سے نکلتے خون کو صاف کر رہی تھی )اور کمرے سے نکل گئی۔۔۔”زین میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی کبھی بھی نہیں اور نہ ہی زارون تمہیں معاف کرے گا“،سر گھٹنوں میں چھپائے نور نے سوچا اور ایک بار پھر سے روتے ہوئے احمد کے جلد آنے کی دعا کرنے لگی جو اُسے آس دلانے کے بعد کہیں غائب ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سارہ نے کمرے سے نکلتے ہی اپنا رخ سکندر صاحب کے کمرے کی جانب کیا تاکہ اُن سے اپنے رویے کی معافی مانگ سکے جو پچھلے چند دنوں سے وہ اُن کے ساتھ اختیار کیے ہوئے تھی۔۔۔ دستک دیتے وہ اندر داخل ہوئی تو حاشر بھی وہیں موجود تھا۔۔۔”سارہ تم یہاں کیوں آئی ہو؟؟ میں نے کہا تھا نا کہ آرام کرو“،حاشر جو سکندر صاحب کو سوپ پلا رہا تھا تاکہ اُنہیں میڈیسن دے سکے جو اُنہوں نے سارہ کی پریشانی میں راحیل کے لاکھ منتیں کرنے پر بھی نہیں کھائی تھیں۔۔۔۔”ہاں،وہ میں ماموں سے بات کرنے آئی تھی“،ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پیوست کرتے اُس نے اپنے آنے کا مقصد بتایا۔۔۔۔”بات صبح بھی ہو سکتی ہے اس لیے تم خاموشی سے اپنے کمرے میں جاؤ اور آرام کرو“ ،پیالہ ٹیبل پر رکھتے اُس نے سکندر صاحب کا منہ صاف کیا تو اُنہوں نے اشارے سے سارہ کو قریب بلایا جو حاشرکے بار بار کہنے پر جانے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔۔۔”ہ۔۔ا۔۔ں کہ۔۔و۔۔“،سکندر صاحب نے اپنی لرزتی ہوئی زبان کو حرکت دی تو سارہ حاشر کے اُٹھنے پر اُن کے قریب ہی بیڈ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔”وہ ماموں میں آپ سے معافی مانگنے آئی تھی“،نظریں جھکائے اُس نے سکندر صاحب کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میںپکڑا۔۔۔”ک۔۔س۔۔چی۔ز۔ک۔ی۔۔مع۔۔۔ف۔۔ی۔۔“،ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اُنہوں نے سوال کیا تو سارہ نے جواب دینے کی بجائے ایک دم سے اُن کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگاتے رونا شروع کر دیاجس پر سکندر صاحب کے ساتھ ساتھ حاشر نے بھی حیرت سے اُسے دیکھا۔۔۔”کیا ہوا؟؟کچھ ہوا ہے کیا؟؟میں شام سے دیکھ رہا ہوں کہ تم ایسے ہی پریشان ہو“،حاشر نے کرسی کھینچ کر اُس کے قریب بیٹھتے کب سے اپنے ذہن میں گردش کرتے سوال کو زبان پر لاتے پوچھا۔۔۔۔”نہیں، کچھ نہیں ہوا بس میری آنکھیں کھل گئیں ہیں۔ ماموں پلیز مجھے معاف کر دیں میں نے پچھلے دنوں میں آپ کے ساتھ بہت بدتمیزی کی۔ میں کچھ دیر کے لیے اپنا اصل بھول کر سود کے نشے میں یہ سمجھ بیٹھی کہ سود مجھے نفع دے گا پر درحقیقت سود تو انسان کی نسلوں تک کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور اس دنیا میں بھی رسوائی کا سبب بنتا ہے اور آخرت میں بھی“،نم آواز میں کہتے اُس نے آہٹ پر دروازے کی جانب دیکھا جہاں سے فریحہ بیگم اندر داخل ہوئیں۔۔۔۔”پھوپھو کیا ہوا آپ کو اور یہ سارہ کیسی باتیں کر رہی ہے؟؟کیا ہے یہ سب؟؟“حاشر جو تمام باتوں سے انجان تھا اُس نے فریحہ بیگم کی روئی ہوئی سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔۔۔”ٹھیک ہوں میں اور سارہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے میں نے آج تک اسے اپنوں کی بجائے پرائے لوگوں کواہمیت دینا سکھایا اسے یہ بتایا کہ یہ رشتے کچھ نہیں ہوتےصرف دولت ہی سب کچھ ہے کیوں کہ اپنی زندگی کے ایک تلخ تجربہ سے مجھے یہ احساس ہوا کہ رشتوں کو جتنی مرضی اہمیت دے لو پر وہ کبھی بھی آپ کے نہیں بنتے جیسے کاشف نے طلاق دیتے ایک بار بھی میرے یا سارہ کے بارے میں نہیں سوچا اُس کے سر پر نئی بیوی کی دولت کا ایسا نشہ چڑھا تھا کہ اُس نے میری سات سال کی ریاضتوں کو یوں خاک میں ملا دیا جیسے وہ سال نہیں بلکہ کچھ پل ہوں،تب ہی میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ بس مجھے دولت چاہیے تاکہ میں اور میری بیٹی کبھی بھی کسی رشتے کی محتاج نہ ہوں پر میں یہ بھول گئی کہ اس دولت کے چکر میں وہ وہی سب دوہرا رہی ہوں جو کاشف نے کیا اُس نے میری زندگی برباد کی اور میں اب اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کی زندگی برباد کرنے چلی تھی۔ میں اپنے ساتھ کیے جانے والے ظلم کا بدلہ اپنی ہی بیٹی سے چکانے کی سوچ میں لگی یہ تک فرموش کر گئی کہ نقصان پھر بھی میرا ہی ہوگا“،گہری سانس لیتے وہ سکندر صاحب کے پاؤں کے قریب بیٹھ گئیں جو حیرت سے کبھی سارہ کو اور کبھی فریحہ بیگم کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔”بھائی صاحب مجھے معاف کر دیں میں نے آپ کو بھی سب جیسا سمجھا حالانکہ آپ نے ساری زندگی سارہ کو اپنے بچوں پر فوقیت دی مجھے گھر کا سربراہ بنایا اور کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں یا سارہ آپ پر بوجھ ہیں“،آنکھوں میں آنسو لیے اُنہوں نے اپنے ہاتھ سکندر صاحب کے پاؤں پر رکھے تو اُنہوں نے جلدی سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔”پھوپھو کیا کررہی ہیں آپ؟؟ پلیز ایسا مت کریں اور اگر ابو نے آپ کا خیال کیا تو یہ اُن کا فرض تھا وہ بھائی ہیں آپ کے اور آپ نے بھی تو ساری زندگی ہمیں سنبھالا کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی اس لیے پلیز آپ ایسا کر کہ ہمیں شرمندہ مت کریں“،حاشر نے اُن کے دونوں ہاتھ ہٹائے تو فریحہ بیگم اُس کے ساتھ لگتے پھوٹ پھوٹ کر روتے اپنے تمام بُرے رویوں کی معافی مانگنے لگیں۔۔۔”کوئی بات نہیں پھوپھو آپ پلیز پریشان نہ ہوں اور چپ کر جائیں دیکھیں ابو بھی فکر مند ہو رہے ہیں“،حاشر نے اُنہیں خود سے الگ کرتے سکندر صاحب کی جانب متوجہ کروایا جو اشارہ سے اُنہیں اپنے پاس بُلا رہے تھے۔۔۔۔”مجھے معاف کر دیں بھائی صاحب اگر امی ابو بھی ہوتے تو شاید مجھے اور سارہ کو اتنی سہولیات اتنا پیار نہ دیتے جتنا آپ نے دیا“،اُن کے سینے پر سر رکھتے آج جلن اورحسد سے ہٹ کر اُنہوں نے لہجے میں بہنوں والا مان سموتے کہا تو سکندر صاحب نے آنکھوں میں نمی لیے اپنا ہاتھ اُٹھ کر اُن کے سر پر رکھا اور سارہ کو اشارہ سے اپنے پاس بُلایا جو تب سے رو رہی تھی۔۔۔۔”پلیز ماموں ہمیں معاف کر دیں“سارہ نے دوسری سائیڈ پر جاتے اپنا سر اُن کے سینے پر رکھتے کہا تو سکندر صاحب نے آنکھوں میں نمی لیے حاشر کو دیکھا جو منہ بناتے خود ہی اُن کے پاس آچکا تھا جو اب اپنی ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں سارہ کو تسلی دے رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تہمینہ بیگم نے نیچے آتے ہی پروگرام کی وجہ سے زین کو کال کرتے پچھلے دروازے سے اندر آنے کا کہہ دیا جو وہاں پہنچ چکا تھا۔۔۔”ٹھیک ہے میں بس پہنچ گیا ہوں بس تم دھیان رکھنا کوئی اوپر نہ آئے“ ،اُس کی بات سنتے زین نے اپنی گاڑی پچھلے دروازے سے اندر لاکر گراج میں کھڑی کی۔۔۔۔۔۔”جی صاحب آپ بے فکر ہو کر اپنا کام کریں کوئی نہیں آئے گا“،شیرے کو اشارے سے اپنے قریب بلاتے اُس نے زین کو تسلی دی اور اُسے اندر داخل ہوتا دیکھ کر موبائل کان سے ہٹایا۔۔۔۔”زہے نصیب ،شکر ہے زین صاحب آپ کی شکل دیکھنے کو ملی“،دانتوں کی نمائش کرتے اُس نے اک ادا سے اُس کے سامنے آتے کہا جو اپنے دھیان میں اندر آرہا تھا۔۔۔”پر مجھے تمہاری شکل میں کوئی دلچسپی نہیں اس لیے میرا وقت ضائع کرنے کی بجائے جو کہا ہے وہ کرو“،چند ہزار کے نوٹ اُس کے سامنے کرتے زین نے غصے سے کہا۔۔۔”صاحب جی آپ تو ناراض ہی ہوگئے میں تو بس یونہی۔۔۔“ ،اپنی بے عزتی پر لال ہوتے تہمینہ بیگم نے وضاحت دی۔۔۔”بس میں نے کہا نا میرا وقت ضائع مت کرو اور کہاں ہے نور ؟؟“اُسے مزید کچھ بولنے کے لیے منہ کھولتا دیکھ کر اُس نے ٹوکا اور مطلب کی بات پر آتے سوال کیا۔۔۔”جی اوپر ہے۔ شیرے، صاحب کو اوپر اُس نئی لڑکی کے پاس چھوڑ آؤ“ ،بدمزہ ہوتے اُس نے شیرے سے کہا جو اثبات میں سر ہلاتے زین کو گھر کے قدرے ویران حصے کی جانب لے گیا۔۔۔۔۔۔نور کے رونے کا تسلسل شبنم کی آواز پہ ٹوٹا جو اُسے زین کے آنے کا بتاتے کمرے سے باہر نکل چکی تھی۔۔۔۔”میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گی اس نے میری زندگی برباد کی میں اسے جان سے مار دوں گی“، ڈرنے کی بجائے نور نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور کسی چیز کی تلاش میں ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو بیڈ کے نیچے اُسے ایک لوہے کا راڈ نظر آیا جیسے اُٹھاتے اُس نے مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور دروازے کے پیچھے جا کھڑی ہوئی جو شبنم نے ٹھیک دو منٹ بعد دوبارہ کھُولا جس سے اندر آتے شخص کا چہرہ دیکھتے اُس کے ہاتھ میں موجود راڈ لرزا۔۔۔”کہاں ہو سویٹ ہارٹ۔۔۔؟؟“ایک نظر خالی کمرے پہ ڈالتے وہ مڑا تو نور کو دروازے کے پاس گم صم سا حیرت سے ہونقوں کی طرح منہ کھولے اپنی طرف متوجہ پایا۔۔۔”تو تم یہاں ہو،اور یہ راڈ۔۔۔۔ لگتا ہے مجھے مارنے کا ارادہ رکھتی ہو“،آنکھوں میں کسی بھی قسم کی شرمندگی کا تاثر لائے بغیر اُس نے راڈ پکڑ کر دور پھینکا۔۔۔”تمہیں کیا لگا تھا؟؟؟تم اتنی آسانی سے مجھ سے بچ جاؤ گی؟؟زین تمہیں اتنی آسانی سے اپنی زندگی سے جانے دے گا؟؟؟“قدم آگے بڑھاتے اُس نے نور کو چار قدم پیچھے ہونے پر مجبور کیا۔۔۔۔”ت۔۔م۔۔۔ن۔۔ہیں ت۔۔م ز۔۔ین نہیں ہو تم ۔۔تو۔۔“ اس سے پہلے کے نور مزید کچھ بولتی اُس نے آگے بڑھتے اُس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔۔”نہ بے بی آج کوئی بات نہیں، آج صرف تم اور میں اور یہ رات“ ،اپنا چہرہ اُس کے چہرے کے قریب کرتے اُس نے اپنی بات مکمل کرتے اُس پہ جھکنا چاہا مگر اُس سے پہلے ہی نور نے اپنے دونوں ہاتھ اُس کے سینے پر رکھتے اُسے پیچھے کی جانب دھکیلا۔۔۔۔”میرے قریب مت آنا میں تمہارا منہ توڑ دوں گی دروازے کی جانب بڑھتے اُس نے اُسے کھولتے باہر نکالنا چاہا مگر اُس سے پہلے ہی زین نے آگے بڑھتے نور کو بازؤں سے پکڑتے بیڈ پر دھکا دیا اور دروازہ لاک کرتے زمین سے لوہے کا راڈ اُٹھائے اُس کی جانب بڑھا جس کی آنکھوں میں اب وحشت آچکی تھی۔۔۔”میں نے کہا نا مجھ سے دور رہو“ آنکھوں میں خوف لیا اُس نے راڈ کو دیکھا۔۔۔۔”نہیں میری جان آج یہ ناممکن سی بات ہے کیوں کہ میں اس رات کے لیے پہلے ہی کافی انتظار کر چکا ہوں زین نے آنکھوں میں سرخی لیے اُس کا پاؤ ں پکڑے اپنے جانب کھینچا تو دوپٹہ اُس کے ہاتھ سے چھوٹتے بے ترتیب ہوا اور ایک چیخ اُس کے منہ سے نکلی جیسے زین نے اُس کے منہ پر ہاتھ رکھتے روکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”یہ زارون پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے۔۔۔“ احمد نے سہیل کوسہارا دیتے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹایا جو نشے سے بالکل مدہوش ہو چکا تھا۔۔۔”کہا بھی تھا جلدی آ جانا۔۔“ دروازہ بند کرتے اُس نے اپنا موبائل نکالتے زارون کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔”یار کہاں ہو تم ؟؟میں نے کہا بھی تھا جلدی پہنچ جانا“،دوسری طرف ہیلو کی آواز سنتے ہی احمد نے سوال کیا۔۔۔”پہنچ گیا بس اُس؛کے قریب بریک لگاتے زارون نے موبائل ڈیش بورڈ پر پھینکا اور اپنی گن نکالتے باہر آیا۔۔۔”کہاں ہے نور؟؟؟“زارون نے اُترتے ہی پوچھا تو احمد نے اپنے پیچھے موجود کوٹھی کی جانب اشارہ کیا جو کہیں سے بھی کسی شریف گھرانے کی رہائش نہیں لگ رہی تھی۔۔۔ ”کونسی جگہ ہے یہ؟؟“زارون نے اندر کی جانب بڑھتے سوال کیا پر احمد کے جواب دینے سے پہلے ہی وہاں موجود لوگ اور عورتیں اُسے اُس کی بات کا جواب دے گئیں۔۔۔”نور یہاں ہے؟“؟زارون نے رک کر احمد کی جانب دیکھا۔۔۔”ہاں وہاں اوپر۔۔۔۔“،احمد نے شرمندگی سے سر جھکایا تو زارون کی آنکھوں میں خون اُترنے لگا اُس نے احمد کو اشارے سے چلنے کا کہا تو وہ سر جھکائے جلدی سے اندر کی جانب بڑھا اور تہمینہ بیگم بھی اُن کو اندر کی جانب جاتا دیکھ کر اپنے بندوں کو لیے اُن کے پیچھے لپکیں۔۔۔۔”صاحب پروگرام وہاں چل رہا ہے اندر نہیں، اور یہ ہمارا گھر ہے یہاں کوئی بھی میری اجازت کے بغیر نہیں جاسکتا“،احمد کو دیکھتے ہی وہ سمجھ گئیں تھیں کہ معاملہ اُس کا ہی پھیلایا ہوا ہے کیوں کہ وہ جب سے نیچے آیا تھا تہمینہ بیگم کو وہ کچھ بے چین سا لگا۔۔۔۔”میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔۔۔“لہجے میں سختی لیے زارون نے سامنے کھڑی عورت کا لحاظ کیا اور ہاتھ کی بجائے زبان سے بات کی۔۔۔۔”کیوں صاحب ؟؟میں کیوں ہٹوں یہ میرا گھر ہے یہاں سب میری مرضی سے ہو گا“ ،آنکھوں میں تکبر لیے وہ بولی تو زارون نے گارڈز کو اشارے کیا جو تہمینہ بیگم اور اُس کے بندوں کو قابو میں کر تے ایک سائیڈ پر لے گئے تو زارون احمد کے پیچھے اُس حصے کی جانب بڑھا جہاں نور کو رکھا گیا تھا۔۔۔”اس کمرے میں تھی۔۔۔“ ،احمد نے اوپر آتے اشارہ کیا اور ساتھ ہی آگے بڑھتے کنڈی کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو دروازہ اندر سے بند تھا۔۔۔”پیچھے ہٹو۔۔۔“،زارون نے احمد کو مزید کسی بات کا موقع دیے بغیر ہی دروازے کو ایک زور دار دھکا مارا تو وہ پرانے اور بوسید ہونے کی وجہ سے فورا کھل گیا۔۔۔ع۔لیان ؟؟سامنے موجود شخص کو دیکھ کر جہاں زارون کی زبان ساکت ہوئی وہیں احمد نے اُس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوتے حیرت سے اُس کا نام پکارا جو اُن دونوں کو وہاں دیکھ کر ہکا بکا سا رہ گیا۔۔۔۔۔”تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ سب کرنے کی“ دوستی کا کوئی بھی لحاظ کیے بغیر زارون نے آگے بڑھتے اُسے گریبان سے پکڑا اور احمد نے بیڈ سے نیچے پڑا نور کا دوپٹہ اُٹھا کے اُس کو تھامایا جسے اوڑھتے اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ آج احمد کی وجہ سے اُس کی عزت بچ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔

 

قسط نمبر: 36

 

تمہاری جراءت کیسے ہوئی نور کو چھونے کی“،اُسے گریبان سے پکڑ کے جھنجوڑتے ہوئے زارون نے اُسے پیچھے کی جانب دھکا دیا جو ابھی تک سکتے کی سی کیفیت میں کھڑا اُن دونوں کی وہاں آمد پر حیران تھا۔۔۔۔۔۔

تم نے مجھ پر ہاتھ ڈالا ہوتا تو شاید میں تمہیں معاف کر دیتا پر تم نے میرے دل پر میری عزت پر ہاتھ ڈالا ہے جس کے لیے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا پر تمہیں سزا دینے سے پہلے میں یہ بات ضرور جاننا چاہوں گا کہ تم نے یہ سب کیوں کیا؟؟“دوبارہ سے اُس کا گریبان پکڑتے زارون نے اپنے جبڑوں کو مضبوطی سے بند کرتے گن نکال کر اُس کے سر پر رکھی جو ابھی بھی پھٹی ہوئی آنکھوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔

بولو کیوں تم اس حد تک گرگئے کہ تم نے دوستی جیسے پاکیزہ رشتے کو یوں اپنی ہوس کی نظر چڑھاتے مجھ سے اتنی بڑی غداری کی؟؟کیا کمی تھی میری دوستی میں جو تم اس حد تک جانے پر مجبور ہو گئے؟کیا گناہ کیا تھا میں نے جس کی تم نے مجھے اتنی بڑی سزا دی؟؟بولو عالیان میں تمہارے جواب کا منتظر ہوں۔ اس سے پہلے میرا دل پھٹ جائے بولو کیوں کیا تم نے ایسا“،آنکھوں میں نمی لیے زارون نے ایک دکھ بھری نظر اپنے جان سے پیارے دوست پر ڈالی جس کے لیے ان دس سالوں میں اُس نے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔۔۔۔

زارون پلیز میری بات سنو ،مجھے نہیں پتا تھا کہ بھابھی ایسا کیوں کر رہی ہیں پر میں نے یہ سب ان کے کہنے پہ کیا“،عالیان نے بڑی چالاکی کے ساتھ سارا الزام نور پر ڈالا جو اب رونا بھول کے آنکھوں میں حیرت لیے اُٹھی۔۔۔۔

میں تو کب سے ان کو سمجھا رہا تھا پر ان کو بس ایک ہی رٹ لگی تھی کہ تم سے بدلہ لینا ہے انہوں نے ہی مجھے مجبور کیا کہ میں ان کا ساتھ دوں یہ بار بار مجھے دھمکیاں دے رہی تھیں کہ۔۔۔“اس سے پہلے کے وہ مزید کچھ بولتا نور نے ایک زور دار تھپٹر اُس کے گال پر جڑا۔۔۔

بے شرم جھوٹے انسان اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی تمہیں سکون نہیں ملا۔ شرمندہ ہونے کی بجائے تم الٹا مجھ پہ الزام لگا رہے ہو۔ ٹھیک ہے اگر یہ سب میں نے کیا تو ثبوت دکھاؤ مجھے۔۔۔۔“ آنکھوں میں انتقام کی آگ لیے نور نے ایک اور تھپٹر اُس کے منہ پہ مارا تو زارون نے آگے بڑھتے اُسے اپنے حصار میں لیا جو غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔۔۔۔

زارون اُس دن مجھے زخم دینے والا یہی شخص تھا اسی نے تمہارے گھر میں گھس کر مجھے اتنی تکلیف دی تھی پر اُس وقت چہرے پر ماسک پہنے یہ اپنی گھناؤنی کرتوں کے ساتھ اپنی شکل بھی چھپائے ہوئے تھا تب ہی میں اسے پہچان نہیں پائی پر آج میں اسے پہچان گئی اس نے تمہارے ساتھ ساتھ مجھ سے بھی گیم کھیلا، چار سال پورے چار سال اس نے مجھے اپنی دوستی کے شکنجے میں پھنسائے رکھا ،آرجے زین کے نام سے اس نے میرا اعتبار جیتا اور میں پاگل اپنے گھرکے ماحول اور ہر وقت کی لعن طعن سے تنگ اس شخص پر یقین کر بیٹھی، اس سے اپنے تمام دکھ شیئر کرنے لگی کیوں کہ اُس وقت میرے گھر والوں نے مجھے اکیلا کر دیا تھا۔ میرے ابو جنہوں نے آج تک مجھے قبول نہیں کیا بچپن سے لے کر آج تک اس بات کا طعنہ دیا کہ میں اپنی ماں کو نگل گئی۔ میری پھوپھو میرے بھائی کسی نے بھی تو آج تک میرامان نہیں رکھا تھا تو ان سب سے ہٹ کر مجھے اس شخص سے اپنایت ملی تو میں اس کی جانب کھنچی چلی گئی یہ سوچے اور جانے بغیر کہ یہ کون ہے کیسا ہے میں تو کبھی بھی اسے نہیں دیکھا تھا مجھے تو خود آج پتا چلا کہ یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ تمہارا دوست ہے جس پر میں نے اعتبار کیا۔ مجھے لگا تھا یہ شخص مجھے کبھی بھی تکلیف نہیں دے گا پر میں غلط تھی اس نے آج مجھے اُس مقام پر کھڑا کردیا ہے کہ میں زندگی میں چاہ کر بھی کبھی خود کو معاف نہیں کر سکتی“،عالیان کے بتانے سے پہلے ہی نور نے سب کچھ اپنی زبان سے زارون کو بتایا جو اس انکشاف پر بس حیرت زدہ سا کھڑا نور کے چہرے کو تکتا رہ گیا جو اب چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں چھپائے رونے لگی تھی۔۔۔۔

زارون یہ جھوٹ بول رہی ہے میں نے اس سے کبھی بات نہیں کی یہ مجھ پر الزام ہے۔ مجھے پھنسانے کی سازش یے۔۔۔۔“ ،ہر طرف سے اپنے آپ کو کو گھرتا دیکھ عالیان نے جلدی سے وضاحت دی تو نور نے  جہاں پوری آنکھیں کھولے حیرت سے اُسے دیکھا (جو اس بات کے ذریعے آسانی سے اپنا راستہ صاف کر سکتا تھا ) وہیں زارون نے اُس کو ایک سائیڈ پر کرتے اپنا رخ عالیان کی جانب کیا۔۔۔۔۔

اب جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ جو نور نے بات کی ہے اُس کے بعد اب تم بھی جان گئے ہو کہ اب تمہاری کوئی بھی وضاحت کام نہیں آئے گی“،نور کی بات سننے کے بعد بھی زارون کا اس حد تک اطمینان جہاں نور کو کسی غیر معمولی بات کا احساس دلا رہا تھا وہیں احمد نے بھی اُسے حیرت سے دیکھا جو نور کے منہ سے اتنا بڑا انکشاف سُن کے بھی عالیان کی بجائے اُس پہ یقین کر رہا تھا۔۔۔۔

عالیان بولو؟؟ کیوں کیا تم نے ایسا؟؟“ضبط سے اپنی مٹھی بند کرتے اُس نے ایک بار پھر سے سوال کیا ۔۔۔

تمہیں نہیں پتا کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟؟ ایکچویلی تمہیں پتا ہونا چاہیے تھا“،ایک قہقہہ لگاتے اُس نے زارون کے چہرے کو دیکھا جو ضبط سے سرخ ہو رہاتھا۔۔۔۔۔

وہ کیا ہے نا اگر زارون اپنی بے عزتی نہیں بھولتا تو عالیان کیسے بھول سکتا ہے“،شرمندہ ہونے کی بجائے اُس نے آنکھوں میں کرختگی لیے اپنے اندر کا زہر باہر نکلا۔۔۔۔

اگر زارون کی عزت تھی نا تو عالیان کی بھی تھی پر زارون نے کیوں ہمیشہ اپنی عزت نفس کو بلند رکھتے ہر موقع پر عالیان کو ذلیل کیا کیوں تم نے ہمیشہ مجھے سب کے سامنے نیچے دکھایا کیوں ہمیشہ مجھے پس پشت پھینکتے میری محنت کا کریڈٹ خود لیا۔ دیکھو ذرا میری بات سنو بزنس کو چلانے میں کس کا ہاتھ تھا؟؟ میرا نا؟میری محنت تھی اُسے بلندی تک لے جانے میں پر تم نے کیا کیا؟؟ تم نے مجھے اونچائی پر دیکھ کر یہ سوچتے ہوئے کہ میں تم سے آگے نہ نکل جاؤں مجھے ایک معمولی سے پوسٹ پر اپنی کمپنی میں رکھ لیا اور روز مجھے اس بات کا طعنہ مارا کے میں تمہارا دوست بعد میں مینجر پہلے ہوں،کیا میں نوکر تھا تمہارا؟؟؟کیا میری کوئی محنت نہیں تھی جو تم نے مجھے اتنا گرا ہوا سمجھ کر ہر جگہ ذلیل کیا۔اُس دن ہسپتال میں تم نے سب لوگوں کے سامنے میرا گریبان پکڑا کیا یہ تھی دوستی کہ تم جب چاہو کہیں بھی چاہو مجھے مارو۔ بے عزت کرو اور بعد میں یہ کہہ کر کہ میں دوست ہوں سب بھول جاؤں۔ نہیں زارون، نہیں تم نے پچھلے دس سالوں سے دوستی کی آڑ میں مجھے بہت بے عزت کر لیا اور میں نے بہت برداشت کر لیا اب تمہاری باری تھی تب ہی میں نے تمہاری سب سے قیمتی چیز پر ہاتھ ڈالا بہت مان تھا نا تمہیں اپنی بیوی پہ کہ میں اُس کا نام نہ لوں اُسے دیکھوں نا تو دیکھو میں نے اُسے وہاں پہنچا دیا جہاں سے لے جانے کے بعد تم خود بھی اسے ہاتھ لگانے سے پہلے سو بار سوچو گے۔ طوائف بن چکی ہے تمہاری بیوی طوائف“ ،قہقہہ لگاتے عالیان نے اپنے اندرکی جلن کو باہر نکالا جو پچھلے دس سال سے زارون کے رویے کی وجہ سے جلن سے نفرت اور پھر انتقام میں بدل چکی تھی۔۔۔۔

تم اتنے گھٹیا نکلو گے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا اور اگر تمہیں اتنی ہی نفرت تھے تو تم مجھ سے بدلا لیتے میری جان لے لیتے زارون علی تمہیں پھر بھی معاف کر دیتا مگر عالیان تم نے میری دوستی کو نہیں بلکہ میرے بھروسے، عزت، مان، یقین سب کو خاک میں ملا دیا“ ،گن سیدھی اُس کی طرف کرتے زارون نے اُس کو مزید کسی بات کا موقع دیے بغیر احمد کے پکڑنے سے پہلے ہی لگاتار تین فائر کیے جو سیدھے اُس کے سینے اور پیٹ  میں لگے۔۔۔۔۔

زارون یہ کیا کیا تم نے؟؟“،احمد نے اُسے ہوش دلانا چاہا جس کا دماغ عالیان کی اصلیت جاننے کے بعد بالکل ماؤف ہو چکا تھا۔۔۔

ٹھیک کیا میں نے، ایسے لوگوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے“،قدم آگے بڑھتے زارون نے اُس کا سر اُٹھاتے اپنی گود میں رکھا جو خون میں لت پت پڑا اپنے کیے کی سزا بھگت چکا تھا۔۔۔

مجھ سے ایک بار کہتے کہ تمہیں میرا یہ سب کرنا بُرا لگتا ہے تو میں کبھی بھی تم سے ایسی بات نہ کرتا، میری جان مجھ سے بولتے تو صحیح کہ تمہیں مینجر نہیں بننا تو زارون کبھی تمہیں اُس جگہ نہ بیٹھاتا،مجھ سے سب بولتے پر یہ سب نہ کرتے جو تم نے کیا،انتقام لینا تھا مجھ سے لیتے اس معصوم کا کیا قصور تھا جو پہلے ہی ساری زندگی بے قصور ہوتے ہوئے سزا بھگتی آئی تھی کیوں کیا تم نے ایسا عالیان؟کیا میں اتنا بُرا تھا کہ تمہیں یہ سب کرنا پڑا؟؟یار تو میری جان لے لیتا زارون تجھے ہنسی خوشی معاف کر دیتا پر میری عزت پہ ہاتھ نہ ڈالتا۔ جب تمہیں پتا تھا کہ زارون کی جان بستی ہے تم میں تو یہ سب کیوں کیا کیوں میری نظروں میں خود کو گرایا“،اُس کا چہرہ اپنی طرف کرتے زارون نے سوال کیا تو عالیان نے بامشکل اپنی آنکھیں کھولیں جن میں درد کے ساتھ آنسو بھی تھے پر کچھ بولنے سے پہلے ہی اُس کی سانسیس اکھڑنے لگیں تو زارون کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔۔۔

احمد پلیز کچھ کرو۔۔۔۔ پلیز عالیان کو کچھ نہیں ہونا چاہیے“،زارون نے تڑپتے ہوئے احمد سے کہا جو اُس کے سینے پہ دباؤ ڈال رہا تھا پر برائی کا انجام ہمیشہ بُرا ہوتا ہے۔۔۔

اُٹھو گھر چلو“،کچھ منٹ کوشش کرنے کے بعد بھی جب عالیان کی سانس بحال نہ ہوئی تو اُس نے زارون سے کہا جو ابھی تک اُس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔

مجھے کہیں نہیں جانا مجھے اس کے پاس رہنے دو یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے میں اپنے غصے کو قابو میں رکھتا تو آج عالیان یہ سب نہ کرتا“،اُس کے ٹھنڈے پڑتے جسم کو محسوس کرتے وہ احمد کے بتانے سے پہلے ہی سمجھ چکا تھاکہ عالیان مر چکاہے۔۔۔

پلیز یار چلو دیکھو نور کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے“،احمد نے پولیس کے آنے سے پہلے اُسے وہاں سے نکالنے کی کوشش کی پر وہ بار بار عالیان کے چہرے کو دیکھتے آنسو بہا رہا تھا۔۔۔

زارون چلو“،احمد نے نور کے زرد پڑتے رنگ کو دیکھتے( جو عالیان کے طوائف لفظ کے بعد نہ کچھ سن پائی تھی اور نہ ہی سمجھ بس بت بنے کھڑی اُس لفظ پر غور کر رہی تھی جو عالیان نے اُس کے لیے بولا تھا)زارون سے کہا تو وہ آنکھیں صاف کرتے اُٹھا اور نور کا دوپٹہ ٹھیک سے اُس کے سر پر اوڑھاتے اُسے لیے نیچے آگیا جہاں اُس کے گارڈز ابھی بھی تہمینہ بیگم اور اُس کے بندوں کو قابو کیے کھڑے تھے۔۔۔۔

آتے ہوئے اوپر کمرے سے عالیان کو اپنے ساتھ لے آنا کیوں کہ میں نہیں چاہتا اپنی زندگی کی طرح وہ مر کر بھی مجھ سے نفرت کرے“،اکرم سے کہتے وہ نور کو لے کر آگے بڑھا جو ایک زندہ لاش کی مانند اُس کے ساتھ چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی زارون کی خاموشی نہیں ٹوٹی تھی وہ نور کو گھر لانے کے بعد اُس سے بالکل بے نیاز خود کو کمرے میں بند کیے ہوئے تھا۔ احتشام صاحب کے ساتھ ساتھ ساجدہ بیگم نے بھی کافی بار اُسے سمجھانے کی کوشش کی (جو نور کے منہ سے سب جان چکے تھے عالیان کی یہ حرکت جہاں سب کے لیے حیران کن تھی وہیں زارون کے ہاتھوں اُس کی موت بھی ایک نا قابل فرموش بات تھی) پر وہ اپنی چپ برقرار رکھے کسی ربوٹ کی مانند بیٹھا اُن کی باتیں اور نصیحتیں سنتا رہتا۔۔۔

نور بھی اُس دن کے بعد سے کافی چپ تھی اور زارون کے سامنے بھی نہیں گئی حالانکہ دی جان اُسے کافی بار زارون کے پاس جانے کا بول چکی تھیں پر وہ ہر بار کل جاؤں گی بول کر ٹال دیتی۔ وہ دونوں ایک ہی گھر میں ایک ہی چھت تلے رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو چکے تھے۔ زارون جہاں اپنے ہی دکھ میں پوری دنیا کو بھلائے بیٹھا تھا وہیں نور عالیان کے الفاظ کو سوچتے شرمندگی کے باعث زارون کا سامنا کرنے سے کترا رہی تھی۔۔۔۔

نور بیٹا ایسے کیوں بیٹھی ہو طبیعت ٹھیک ہے نا؟؟“،ساجدہ بیگم سکندر صاحب اور شہناز بیگم کو گاؤں کے لیے روانہ کرتے خود کمرے میں واپس آئیں تو اُنہوں نے نور کو چپ چاپ بیٹھے دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔

جی ٹھیک ہوں میں۔ بس ویسے ہی بیٹھی تھی“،سر اُن کی گود میں رکھتے وہ بیڈ پر لیٹ گئی۔۔۔۔

نور میری جان، اب تمہیں زارون کے پاس اپنے کمرے میں چلے جانا چاہیے کیوں کہ اس وقت اُسے کسی اپنے کی ضرورت ہے جس کے کندھے پر سر رکھ کر وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکے اور میں جانتی ہوں وہ میرے یا احتشام کے سامنے ایک آنسو نہیں بہائے گا پر تمہارے سامنے وہ سب بول دے گا اس لیے اب زیادہ دیر مت کرو اُس کے پاس جاؤ کیوں کہ اس بار پہل تمہیں ہی کرنی پڑے گی“،ساجدہ بیگم نے اُس کے بالوں میں انگلیاں چلاتے بہت نرمی سے اپنی بات سمجھائی۔۔۔

دی جان مجھ میں حوصلہ نہیں ہے زارون کا سامنا کرنے کا“،سر اُٹھاتے اُس نے ساجدہ بیگم کا ہاتھ اپنے سرد ہوتے ہاتھوں میں لیتے نظریں جھکائے ٹوٹے پھوٹے سے لہجے میں اپنی بات مکمل کی۔۔۔

کیوں حوصلہ نہیں ہے؟دیکھو نور عورت کی سب سے بڑی طاقت یہی ہے کہ وہ اپنے شوہر کو اُس وقت سنبھالے جب وہ ٹوٹا ہوا ہو اور زارون اس وقت جس حال میں تمہارے علاوہ اُسے کوئی نہیں سنبھال سکتا۔۔۔

پر دی جان وہ مجھے جہاں سے لے کر آیا ہے مجھے نہیں لگتا ہے وہ اب میری شکل بھی دیکھنا چاہے گا“،ساجدہ بیگم کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی نور نے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔۔۔۔

اور مجھے لگتا ہے وہ تمہارا ہی انتظار کر رہا ہے کہ تم اُس کے پاس آؤ تو وہ اپنے اندر کی درد اور تکلیف تم سے بیان کر سکے اس لیے اپنے دل ودماغ میں شیطان کے ڈالے وہموں کو جگہ مت دو اور اُٹھو جاؤ اُس کے پاس، سنبھالو اُس کو اور جا کر دیکھو اُس نے ایک ہی ہفتے میں اپنی کیا حالت بنا لی ہے“،آنکھوں میں نمی لیے دی جان نے اس بار اپنے لہجے کو سخت کرتے نور سے کہا جو اُن کی بات سنتے ہی اثبات میں سر ہلاتے اُٹھی مگر کمرے سے نکلتے ہی ہزار خدشوں نے اُس کے دل میں سر اُٹھایا جیسے دبانے کی کوشش میں آنسو بے آواز ہی بند توڑنے لگے۔۔۔

نہیں، میں نہیں جا سکتی مجھے پتا ہے زارون مجھے اب کبھی قبول نہیں کرے گا“،دروازے پر ہاتھ رکھتے وہ ایک بار پھر سے اپنے ارادے میں ڈگمگائی پردی جان کی بات یاد آتے ہی اُس نے ہاتھ کی پشت سے آنسوؤں کو رگڑا اور ہمت کر کے دروزے پر دستک دیتے اندر داخل ہوئی۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی اُس نے آہستگی سے درواز بند کیا اور بیڈ کی جانب قدم بڑھائے جہاں زارون دوسری طرف کروٹ لیے لیٹا تھا۔۔۔۔

زارون؟؟“،اُس کے قریب جاتے نور نے بے آواز اُسے پکارا جو آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔۔۔۔

زارون۔۔۔“ہمت کر کہ اُس کے پاس بیٹھتے نور نے پھر سے اُسے پکارا جو پہلے کی نسبت کافی کمزور ہوچکا تھا۔۔۔۔

کیوں آئی ہو تم یہاں؟“،اُس کی آواز سنتے ہی زارون نے آنکھیں کھولتے بھڑکتے ہوئے کہا۔۔۔

وہ۔۔۔میں ۔۔وہ دی ۔۔جان نے“،نور نے کچھ بولنا چاہا مگر الفاظ اُس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔۔۔

کیا وہ میں، میں پوچھ رہا ہوں تمہاری جراءت کیسے ہوئی میرے کمرے میں آنے کی“،اُٹھ کر بیٹھ کے اُس نے نور کا ہاتھ پکڑتے اُسے بیڈ پر بیٹھایا جو زارون کے غصہ کرنا پر اُٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔۔۔۔

وہ مجھے دی جان نے کہا تھا“،ڈبڈبائی آنکھوں سے زارون کے چہرے کے سخت تاثرات دیکھتے اُس نے وضاحت دی۔۔۔

تو مطلب تم  آج بھی دی جان کے کہنے پر میرے پاس آئی ہو؟“،اُس کے بازؤ سے ہاتھ ہٹاتے آنکھوں میں افسوس لیے اُس نے سر جھٹکا۔۔۔

نہی۔۔۔ں میں وہ خود ہی آنا۔۔چاہا رہی تھی۔پر ۔۔۔۔

کیا پر۔۔۔؟“،اُسے بات بات میں اٹکتا دیکھ کر زارون نے ابرو اچکاتے پوچھا۔۔۔

پر مجھے لگا کہ تم اب مجھے قبول نہیں کرو گے“،نظریں چراتے اُس نے کہا تو زارون نے پیچھے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے اُسے دیکھا جو اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھی۔۔۔۔ ”مجھے لگا کہ اب میں شاید اس قابل نہیں رہی کہ تمہارے قریب آسکوں۔ میں تمہیں اپنے کردار کی صفائی نہیں دے رہی بس تمہارا حق ہے اس لیے بتا رہی ہوں کہ مجھے کسی نے ہاتھ نہیں لگایا میں جیسی پاک تھی ویسی ہی ہوں“ اپنے آنسوؤں کو اندر اُتارتے نا چاہتے ہوئے بھی نور نے وہ بات کہی جس سے اُس سے کہیں زیادہ زارون کو تکلیف ہوئی۔۔۔

مطلب تم مجھے ایسا سمجھتی ہو کہ میں تم سے تمہارے کردار کی صفائی مانگوں گا؟؟؟

نہیں پر میں جس جگہ پر تھی وہاں سے آکر کردار کی صفائیاں دینا بھی کام نہیں آتا“،اُس کا سوال سنتے نور نے نظریں اُٹھائے اُسے دیکھا جو اب سینے پر ہاتھ باندھے پوری طرح اُس کی جانب متوجہ تھا۔۔۔۔

ٹھیک ہے جب تمہیں سب پتا ہے تو مجھے پھر صفائیاں دینے کا فائدہ؟؟جب تم سب جانتی ہو کہ میں تمہیں قبول نہیں کروں گا تو کیوں آئی ہو میرے پاس؟؟؟“،اُس کا چہرہ اپنے چہرے کے قریب کرتے زارون نے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔۔۔

بس یہ کہنے کے بے شک تم مجھے کبھی مت اپنانا پر پلیز اپنا نام میرے نام سے الگ مت کرنا کیوں کہ میرا تمہارے سوا کوئی نہیں ہے“،اُس کے سینے پر عین دل کے مقام پر ہاتھ رکھتے نور نے آنکھوں میں بے بسی لیے کہا تو زارون نے اُس کا ہاتھ ہٹاتے اپنے آپ سے دور کیا۔۔۔۔

دوبارہ میرے کمرے میں مت آنا۔۔۔“،بیڈ سے اُٹھتے ٹیرس کے دروازہ کے پاس کھڑے ہوتے زارون نے کہا تو نور  نے بے یقینی سے اُس کی پشت کو دیکھا جو اب پوری زندگی کے لیے اُس سے منہ موڑ چکا تھا۔۔۔۔

ٹھیک ہے نہیں آؤں گی۔ میں دی جان کے ساتھ گاؤں چلی جاؤں گی۔ تم یہاں اپنی زندگی کسی کہ بھی ساتھ گزار سکتے ہو۔ نور تم سے کبھی کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کرے گی“،اپنی بات مکمل کرتے وہ بے جان سے قدم اُٹھاتے کمرے سے باہر نکل گئی تو زارون نے پلٹ کر دروازہ کو دیکھا جہاں سے ابھی ابھی وہ دشمن جاں اپنا فیصلہ سُناکے جا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساجدہ بیگم کے منع کرنے اور سمجھنے کے باوجود بھی نور نے ہار نہیں مانی اور اُن کے ساتھ گاؤں جانے پر بضد رہی۔۔۔۔ نور کا فیصلہ اُن کی سمجھ سے باہر تھا اُنہوں نے زارون سے بھی بات کی کہ وہ نور کو سمجھائے پر اُس نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ یہ نور کا اپنا فیصلہ ہے وہ اب اُس پہ کوئی زور زبردستی نہیں کرے گا اس لیے اُسے جیسے ٹھیک لگتا ہے وہ کرے جہاں خوشی ملتی ہے وہاں رہے۔۔۔

اُن دونوں کی باتیں ساجدہ بیگم کی سمجھ سے باہر تھیں تب ہی اُنہوں نے بھی نور کے فیصلہ پر حامی بھری اور اُسے ساتھ لیے گاؤں آگئیں جہاں احتشام صاحب اور شہناز بیگم جہاں نور کے آنے پر خوش تھے وہیں زارون کے نہ آنے پر خفا بھی تب ہی شہناز بیگم نے اُسے فون کرتے ڈانٹا کہ اُس نے نور کو اکیلے گاؤں بھیج دیا۔۔۔۔

وہ اپنی خوشی سے آئی ہے اور میں بھی آنا چاہتا تھا پر امی مجھے یہاں ہزار کام ہیں پچھلے دو ہفتوں سے میں نے اپنے بزنس کو نہیں دیکھا بس اُسے دیکھوں گا اور کچھ ضروری کام ہے وہ ختم کرتے ہی گاؤں آجاؤں گا آپ پریشان نہ ہوں“،شہناز بیگم کو جھوٹی تسلی دیتے جہاں نور نے ساجدہ بیگم سے اپنے اور زارون کے بیچ ہونے والی باتوں کا ذکر نہیں کیا تھا وہیں زارون نے بھی اُس راز کو فاش کرنا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔۔۔

نور کو گاؤں آئے پورا ایک مہینہ گزر چکا تھا پر اس ایک مہینے میں زارون نے ایک بار بھی اُسے پلٹ کر نہیں دیکھا اور نہ ہی اُسے کوئی کال یا میسج کیا۔۔۔۔۔

دن گزرنے کے ساتھ نور کی ہر امید جواب دے چکی تھی۔ سارا دن وہ شہناز بیگم اور ساجدہ بیگم کے ساتھ باتوں اور مختلف کاموں میں مصروف رہتی پر رات ہوتے ہی ایک بار پھر سے تمام پرانی یادیں تازہ ہونے لگتیں تو اپنی غلطیوں پر پچھتانے کے علاوہ اُس کے پاس کچھ نہ بچتا۔۔۔

آج بھی وہ تھک ہار کر اپنے کمرے میں آئی تو بیڈ پر لیٹتے ہی اُسے زارون کی یاد ستانے لگی جس نے اُس سے ایسا منہ موڑا کے ہر رابطہ ہی ختم کر دیا۔۔۔۔

کاش میں نے خدیجہ کا اعتبار نہ کیا ہوتا کاش میں نے زارون کی بات مان لی ہوتی تو آج میرے ساتھ ایسا نہ ہوتا“،ہر رات کی طرح آج بھی آنسو بند توڑتے اُس کے بالوں میں جذب ہونے لگے تو دل کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے اُس نے اُٹھ کر وضو کیا اور جائے نماز بچھاتے گڑگڑاتے ہوئے اپنے رب کے حضور زارون کا دل نرم پڑنے کی دعا کرنے لگی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے ایک مہینے میں اپنے کاموں میں مصروف ہونے کے باوجود بھی زارون نے نور کو ہر پل یاد کیا تھا،اُس کے پاس جانے کی خواہش ہر روز دل میں جوش مارتی پر اُس کی بے اعتباری نے ایسے قدم باندھے کے دل کو سختی سے خاموش کرواتے وہ اُسے اُس کے حال پر چھوڑ چکا تھا پر آج آفس سے آنے کے بعد اُسے کچھ زیادہ ہی نور کی یاد ستائی تو اُس نے اپنے موبائل سے دی جان کا نمبر ڈائل کیا تاکہ اُس دشمن جان کی کوئی تو بات اُس کے کانوں کو ٹھنڈک دے پر بار بار فون ملانے کے باوجود بھی جب دی جان نے کال ریسیو نہیں کی تو زارون کو پریشانی ہوئی تب ہی اُس نے گھر کے نمبر پر فون کیا جس پر بھی اتنی بیل جانے کے بعد کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔۔

مجھے پتہ ہے یہ سب مجھے حویلی بُلانے کی سازش ہے پر میں بھی کسی کی بہکاوے میں نہیں آنے والا“،شہناز بیگم کا نمبر ٹرائی کرنے کے بعد وہ اُن سب کی چال سمجھ چکا تھا تب ہی خود کلامی کرتے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ کے باہر آیا تاکہ کچھ کھا پی سکے پر کچن میں قدم رکھتے ہی بیرونی دروازے پر ہونے والی بیل نے اُسے اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔

اُففف یہ کون آگیا اس وقت“،واپس پلٹتے اُس نے جھنجھلاتے ہوئے سوچا اور کچن سے باہر آتے دروازے کی جانب بڑھا تو پرنسس پہلے ہی دروزے کے پاس کھڑی تھی۔ ”کون؟؟؟

تم تو پیچھے ہٹ جاؤ“،اُسے دروازے کے آگے بیٹھا دیکھ کر زارون نے اپنی گود میں اُٹھایا اور دوسری طرف کوئی جواب نہ پاکر دروازہ کھولا تو سامنے سکندر صاحب کے ساتھ حارث، حاشر ،فریحہ بیگم اور سارہ کو دیکھ کر ایک دم بوکھلا سا گیا۔۔۔۔

السلام علیکم“ حارث آگے بڑھتے مصافحہ کرنے کی بجائے  اُس سے بغل گیر ہوا تو زارون نے پرنسس کو چھوڑتے حیرت سے اُسے دیکھا۔۔۔۔

اندر آنے کا نہیں کہو گے؟؟؟“حاشر نے بھی آگے بڑھتے حارث کی ہی طرح اُس سے بغل گیر ہوتے پوچھا جو دروازہ کے سامنے جم کر کھڑا تھا۔۔۔۔

جی آئیں۔۔۔“،ہوش میں آتے اُس نے اُنہیں گزرنے کا راستہ دیا۔۔۔۔

بہت مشکل سے ملا ہے آپ کا گھر“،حارث نے صوفے پر بیٹھتے نور کی تلاش میں نظر دوڑاتے ہوئے بتایا۔۔۔۔

جی جو رشتے اور راستے انسان اپنے ہاتھوں سے گنوا دے اُن کا ملنا تھوڑا مشکل ہی ہوتا ہے“،حارث کی بات سنتے زارون نے لہجے میں کسی قسم کا کوئی طنز یا شکوہ لیے بغیر نرمی سے کہا۔۔۔۔۔

ہاں پر اگر کوشش کی جائے تو راستے مل جاتے ہیں اور رشتے بھی۔ جیسے ہمیں مل گئے“،حارث نے اُس کے انداز میں جواب دیا تو زارون نے اُس کی بات سنتے ہلکی سے مسکراہٹ چہرے پر سجاتے سر ہلایا۔۔۔

نور کہاں ہے ؟؟نظر نہیں آ رہی؟“،حاشر نے بے صبری سے سوال کیا۔۔۔

۔وہ میری دادی جان کہ ساتھ گاؤں گئی ہے میرے والدین اور دادی گاؤں میں رہتے ہیں اور میں اپنے بزنس کے سلسلے میں یہاں ہوتا ہوں“،زارون نے بتانے کے ساتھ ہی ایک نظر فریحہ بیگم پر ڈالتے کچن کا رخ کیا تاکہ اُن کے لیے جوس وغیرہ لا سکے تو سارہ فریحہ بیگم کے کہنے پر اُٹھ کر اُس کے  پیچھے آگئی۔۔۔۔

بھائی لائیں میں ڈال دیتی ہوں“،سارہ نے کچن میں آتے ہی نرمی سے کہا تو زارون کو اُن سب کے اتنے میٹھے اور بدلے ہوئے لہجے دیکھ کر حیرت ہوئی۔۔۔۔

پریشان نہ ہوں میں کر لوں گی“،سارہ نے اُسے اپنی جانب دیکھتا پاکر کہا تو زارون نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔

نہیں ،کوئی بات نہیں میں کر لوں گا آپ مہمان ہیں۔ انسان اب مہمانوں سے کام کرواتے اچھا تھوڑی لگتا ہے“،جلدی جلدی تمام گلاسوں میں جوس ڈالتے اُس نے سارہ کا دل توڑنے کی بجائے نرمی سے کہا۔۔۔۔

میں مہمان تھوڑی ہوں اور میرے ہوتے ہوئے آپ کام کریں گے تو مجھے اچھا نہیں لگے گا“ ٹرے اُس کے ہاتھ سے پکڑتے اُس نے کہا تو زارون نے کندھے اچکائے اور باہر کی جانب بڑھا تو سارہ نے ٹرے لا کر ٹیبل پر رکھتے سب کو جوس سرو کیا۔۔۔۔

کب تک آئے گی نور؟؟؟“زارون کے بیٹھتے ہی فریحہ بیگم نے پوچھا۔۔۔۔

یہ نہیں پتا، ہو سکتا ہے کچھ دن رکے ابھی۔۔۔“،اپنے رویے سے نور کی اور اپنی کوئی بھی ناراضگی اظہار کیے بغیر اُس نے جواب دیا تو فریحہ بیگم نے اُس سے اپنے اُس دن کے رویے کی معافی مانگی۔۔۔

کوئی بات نہیں آنٹی بس پرانی باتوں کو چھوڑ دیں اب“،زارون نے اُن کے ساتھ ساتھ سکندر صاحب کا بھی دل ہلکا کیا جو اپنے کیے پر شرمندہ تھے۔۔۔۔

پھر بھی ہمیں سمجھنا چاہیے تھا میں نے تم سے کافی بدتمیزی کی حالانکہ قصور وار تو ہم بھی تھے کہ ہم نے کبھی نور کو اتنی اجازت ہی نہیں دی کہ وہ ہم سے اپنے دل کی کوئی بات کر سکے“،حاشر نے بھی اپنی غلطی کا اعتراف کیا تو زارون نے اُس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا۔۔۔

کوئی بات نہیں یار قصور میرا تھا۔ میں نے غلط طریقے سے نور کو حاصل کرنا چاہا اور اُسے آپ سب کی نظروں میں بُرا بنا دیا حالانکہ اُس کا کوئی قصور بھی نہیں تھا“،زارون نے نظریں جھکائے کہا تو سب نے گزری باتوں پہ مٹی ڈالنے کا کہتے اُسے معاف کر دیا اور حارث کی شادی کا بتاتے اُسے نور کے ساتھ گھر آنے کا کہا جس پر زارون نے حامی بھرتے مزید ایک گھنٹہ اُن سے باتیں کیں جو کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد وہاں سے چلے گئے تو زارون نے کھانے کا اراداہ ترک کرتے کمرے کا رخ کیا اور موبائل اُٹھاتے نور کی تصویر نکالی۔۔۔۔

آج جب سب کچھ ٹھیک ہو گیا ہے تو تم میرے پاس نہیں ہو۔ کاش کہ تم نے مجھ پر تھوڑا سا اعتبار کیا ہوتا مجھے بتایا ہوتا تو میں تمہیں کبھی اُس دلدل میں پھنس نے نہ دیتا۔۔۔۔کاش تمہیں اپنے آرجے پر تھوڑا سا یقین ہوتا تو تم اتنی بڑی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتیں“، بیڈ پر لیٹتے ہی زارون نے موبائل اپنے سینے سے لگاتے اُس سے شکوہ کیا جو وہ پیچھے گزرے ہوئے دنوں میں ہزار بار کر چکا تھا۔۔۔۔۔

 

قسط نمبر: 37

 

اگلی صبح زارون نے اپنے کچھ کام ختم کیے اور ڈی ایس پی اقبال(احتشام صاحب کے دوست ) کے پیغام پر اُن سے ملنے پولیس اسٹیشن کی جانب بڑھا جنہوں نے عالیان کی موت کو پولیس مقابلہ کی شکل دیتے زارون کو آسانی سے اُس مسئلے سے نکال دیا تھا۔۔۔۔

السلام علیکم“،اُن سے مصافحہ کرتے وہ سامنے والی چیئر سنبھالتے بیٹھ گیا۔۔۔۔

کیسے ہو؟؟“سلام کا جواب دیتے ڈی ایس پی اقبال نے سوال کیا۔۔۔

جی ٹھیک ہوں“،مختصر سا جواب دیتے زارون نے اُن کی طرف دیکھا جو کریڈل سے فون اُٹھاتے دوسری طرف کانسٹیبل کو دو کپ چائے لانے کا بول چکے تھے۔۔۔

اس تکلف کی کیا ضرورت تھی انکل“،زارون نے اُنہیں فون واپس رکھتا دیکھ کر کہا تو ڈی ایس پی اقبال نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

ضرورت تھی، کیوں کہ بات کافی لمبی ہے اس لیے مجھے لگا تمہیں میری باتیں سننے کے بعد چائے کی ضرورت پڑے گی“،آنکھوں میں تجسس لیے اُنہوں نے پھر سے فون اُٹھایا اور امجد کو کسی لڑکی کو اندر لانے کا کہا۔۔۔

سب خیریت ہے نا؟؟“چہرے پر فکرمندی کے آثار لیے زارون نے پوچھا تو ڈی ایس پی نے جواب دینے کی بجائے دروازے کی طرف اشارہ کیا جہاں سے ایک لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ خدیجہ کو اندر آتا دیکھ کر زارون حیرت اور غصے کے ملے جلے تاثرات چہرے پہ سجائے کرسی سے اُٹھا۔۔۔

بیٹھ جاؤ اور اپنے غصے کو قابو میں رکھو“،زارون کے چہرے پر سختی دیکھ کر ڈی ایس پی اقبال نے لیڈی کانسٹیل کو خدیجہ کو لے جانے کا کہا جس نے زارون کو دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔۔۔

یہ کہاں سے ملی آپ کو؟؟“غصے کے باعث آنکھوں میں سرخی لیے زارون نے پوچھا تو ڈی ایس پی اقبال اپنی چیئر چھوڑتے اُٹھ کر اُس کے قریب آئے جس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خدیجہ کو ونہیں کھڑے کھڑے زمین میں گاڑھ دیتا۔۔۔۔

پانی پیواور اپنے غصے کو تھوڑا ٹھنڈا کرو تاکہ میری تمام باتیں سُن کے سمجھ سکو“،جگ سے پانی گلاس میں انڈیلتے اُنہوں نے زارون کے آگے رکھا تو اُس نے ایک ہی سانس میں پورا گلاس خالی کرڈالا۔

یہ ہمیں کراچی کے ایک فحاشی اڈے سے ملی ہے جس پر ابھی کچھ دن پہلے ہی کراچی پولیس نے چھپا مارا تھا۔ میں نے تمام بڑے تھانوں میں اس کی تصویر بھیجی تھی اسی لیے اس کے ملتے ہی اُن لوگوں نے مجھے انفارم کیا تو میں نے اسے اُس تھانے سے یہاں شفٹ کروا لیا تاکہ اپنے طریقے سے سب کچھ اگلوا سکوں پر جو کچھ اس نے بتایا تمہیں وہ جان کر دکھ بھی ہو گا اور شاید تمہارا دل بھی مطمئن ہوجائے کہ تم نے عالیان کو مار کر کوئی غلطی نہیں کی۔ اپنی چیئر سنبھالتے ڈی ایس پی اقبال نے بات کا آغاز کیا تو زارون پوری طرح سے اُن کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔ ”مطلب؟؟؟ کیسا اطمینان؟؟ کیسا دکھ؟؟“،ناسمجھی سے اُن کی جانب دیکھتے زارون نے آنکھوں میں الجھن لیے سوال کیا۔۔۔۔۔

دکھ اس بات کا کہ عالیان اپنی ہوس میں آکر تقربیا بیسں سے پچیس لڑکیوں کی زندگی تباہ کر چکا تھا۔ وہ بھی اس خدیجہ کے ذریعے جو پہلے معصوم لڑکیوں سے دوستی کرتی اور پھر اُسے اسی طرح کسی فحاشی کی جگہ پر لے جاتی جہاں عالیان اُنہیں استعمال کرنے کے بعد آگے بیچ دیتا اور یہ سلسلہ پچھلے ایک سال سے چل رہا تھا جس کا پورا ریکارڈ میں عالیان کی سم اور کالز سے اکٹھا کر چکا ہوں“،پورے ثبوت کے ساتھ زارون کے سامنے عالیان کی سم اور اُن تمام لڑکیوں کا بائیوڈیٹا رکھتے (جن کو عالیان اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد تہمینہ بیگم کے علاوہ چار مختلف جگہوں پر بیچ چکا تھا)ڈی ایس پی اقبال نے اُسے تمام تفصیل سے آگاہ کیا جس کی آنکھیں بے یقینی اور حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔۔۔۔

نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا میں نہیں مانتا عالیان ایسا کیسے کر سکتا ہے۔ ہاں جب ہم باہر تھے تو اُسے ایسی عادت تھی وہ ہر لڑکی پر مر جاتا تھا پر وہ ایسا نہیں تھا۔ میرا دل نہیں مانتا۔ یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے“،زارون نے بے یقینی کی سی کیفیت میں اپنے سامنے پڑے ثبوتوں کو در گزر کرتے ڈی ایس پی اقبال سے کہا جو اُس سے ایسے ہی کسی جواب کی توقع کر رہے تھے۔۔۔۔۔

مجھے بھی یہی لگا تھا پر ان لڑکیوں میں سے تقریباً چار سے میں مل چکا ہوں اور اب وہ میرے پاس ہی ہیں اُن کی عمر تقربیا اٹھارہ سے بیس سال کے درمیان ہے اور اُنہوں نے عالیان کی تصویر دیکھتے ہی اپنے منہ سے سب بتایا ہے اگر تم سننا چاہو تو میں اُنہیں یہاں بُلا سکتا ہوں“،پورے یقین کے ساتھ تمام حقائق اُس کے سامنے رکھتے اُنہوں نے زارون سے اُس کی مرضی پوچھی جو ابھی تک بے یقینی کی سی کیفیت میں گھرا یہ سوچ رہا تھا کہ عالیان کو اتنے قریب سے جاننے اور اتنا عرصہ اُس کے ساتھ رہنے کے باوجود بھی وہ یہ سب کیوں نہیں جان پایا کہ اُس کا دوست بار بار کراچی اور دوسرے شہروں میں کیوں جاتا ہے۔ وہ رات رات بھر باہر کیوں رہتا ہے اور جس سے وہ فون پہ گھنٹوں بات کرتا تھا وہ کون ہے۔۔۔۔

کیا ہوا زارون تم ٹھیک ہو نا؟؟“اُسے کسی گہری سوچ میں گم دیکھ کر ڈی ایس پی اقبال نے اپنی جانب متوجہ کرتے پوچھا۔۔۔۔

جی ،ٹھیک ہوں،بس یہ سوچ رہا ہوں کہ جب وہ روز کسی نئی لڑکی سے بات کرتا تھا تو میں نے پوچھا کیوں نہیں؟؟کیوں میں نے اُسے اس دلدل میں اُترنے دیا؟؟حالانکہ اُس نے تو مجھے کئی بار سختی سے اپنا موبائل چیک کرنے سے روکا تھا کافی بار تو ہمارا اس بات پہ جھگڑا بھی ہوا پر میں نے اس بات پہ کبھی غور ہی نہیں کیا“،زارون نے سوچتے ہوئے اپنے دماغ میں چلنے والی باتوں سے ڈی ایس پی اقبال کو آگاہ کیا جو اُس کی حالت دیکھ کر اُس کی اندر کی تکلیف کا اندازہ لگا سکتے تھے۔۔۔۔

ہو جاتا ہے ایسا، کبھی کبھی ہم اپنے اندر کے انسان کو پہچان نہیں پاتے تو وہ تو پھر بھی تم سے ایک الگ جسم الگ روح کا مالک تھا جس نے حسد، جلن اور انتقام کی آگ میں آکر اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت بھی خراب کر لی بس اللہ پاک ہم سب کو ایسی موت سے بچائے جس کے بعد بھی لوگ ہمیں ہماری اچھائیوں سے نہیں بلکہ برائیوں سے یاد کریں“،ڈی ایس پی اقبال نے دعا کی تو زارون نے آمین کہتے اُن سے اجازت طلب کی جو چائے آنے پر اُسے دوبارہ سے بیٹھا چکے تھے۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

نور ادھر آؤ میرے پاس“،دی جان صبح سے ہی اُسے دیکھ رہی تھیں جس کی سوجی ہوئی آنکھیں ساری رات جاگنے اور رونے کی چغلی کھا رہی تھیں۔۔۔۔

کیا ہوا ؟؟طعبیت ٹھیک ہے؟“،اُس کو تخت پر اپنے پاس بٹھاتے ہی انہوں نے سوال کیا تو نور نے زبان کی بجائے سر ہلانے ہر اکتفا کیا۔۔۔۔

مجھے نہیں لگ رہا کہ تم ٹھیک ہویا پھر میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ جب سے تم یہاں آئی ہو مجھے ایک بھی دن نہیں لگا کہ تم ٹھیک ہو“،ساجدہ بیگم نے جانچتی ہوئی نظروں سے اُسے دیکھا جو چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجانے پر بُری طرح ناکام ہو چکی تھی۔۔۔۔

کیا ہوا؟زارون کی وجہ سے پریشان ہو؟؟“،دوسری طرف سے کوئی جواب نہ پاکر ساجدہ بیگم نے اندازہ لگایا تو نور نے جواب دینے کی بجائے اُن کے گلے لگتے رونا شروع کر دیا۔۔۔۔

نور میری جان کیا ہوا ہے؟ ایسا کیوں رو رہی ہو؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟؟ شہناز نے تو کچھ نہیں کہا؟؟؟ مجھے بتاؤ میں اُس کے کان کھینچوں گی جس نے میری بیٹی کا دل دکھایا“،ساجدہ بیگم نے اُسے اس طرح روتا دیکھ فکر مندی سے پوچھا۔۔۔۔

کس۔۔ی ۔۔نے۔۔کچ۔۔ھ ۔۔نہی۔۔ں کہا دی۔جان“،نور نے رونے کے درمیان اٹکتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔۔۔

تو پھر یہ آنسو کیسے؟؟؟ کیا ہوا ہے؟ زارون نے کچھ کہا ہے؟؟

نہیں، وہ تو مجھ سے اپنا ہر تعلق توڑ چکے ہیں جب سے میں یہاں آئی ہوں اُنہوں نے مجھے ایک بھی کال نہیں کی بلکہ کبھی میسج کر کہ بھی میرا حال نہیں پوچھا۔ دی جان میں مانتی ہوں میری غلطی تھی جو میں نے اُس خدیجہ پہ اعتبار کیا پر آپ بتائیں کیا میں چاہتی تھی کہ میرے ساتھ وہ سب ہو“،آنکھوں میں شکوہ لیے اُس نے ساجدہ بیگم سے پوچھا جو پہلے سے جانتی تھی کہ اُس دن زارون نے ضرور کوئی بات کی تھی جس کی وجہ سے نور نے اُن کے ساتھ یہاں آنے کا فیصلہ کیا اور تب سے اب تک وہ اُن سے جھوٹ بولتی اُن کو تسلی دیتی آئی تھی کہ زارون اُسے روز کال کرتا ہے۔۔۔۔

وہ غلطی تم نے انجانے میں کی تھی پر یہ غلطی تم نے جان بوجھ کے کی ہے۔ تمہیں مجھے شہر میں ہی بتا دینا چاہیے تھا کہ زارون نے تم سے کیا کہا پر لگتا تمہیں اپنی دی جان پر اعتبار نہیں تھا جو پچھلے ڈیڑھ مہینے سے یہ دکھ اپنے اندر لیے بیٹھی ہو۔۔۔

نہیں دی جان ایسی بات نہیں ہے میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی مجھے لگا کہ میں کچھ دن دور رہوں گی تو زارون خود ہی مجھے منانے آجائے گا پر۔۔۔“،اپنی بات ادھوری چھوڑتے اُس نے افسوس سے نظریں جھکائیں۔۔۔۔

پر یہ کہ میں نے تمہیں اُس وقت بھی سمجھایا تھا کہ اس بار پہل تمہیں ہی کرنا پڑے گی پر تم نے ایک ہی بار میں ہار مان لی اپنے حق کے لیے تو لوگ آخری سانس تک لڑ جاتے ہیں مگر میری جان تم نے زارون کے وقتی غصے کو یہاں آکر اور ہوا دے دی میں نے کتنا سمجھایا تھا تمہیں کہ ہمارے ساتھ مت آؤ لیکن تم نے کیا کیا۔۔۔“،گہری سانس لیتے اُنہوں نے نور کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں ایک بار پھر سے اشک بہانے لگیں۔۔۔

میں بات کروں گی زارون سے تم پریشان مت ہو اور یوں رو رو کر خود کو ہلکان مت کرو ان شاءاللہ جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا“،اُسے اپنے ساتھ لگاتے ساجدہ بیگم نے تسلی دی اور آج ہی زارون کی کلاس لینے کا سوچتے نور کو چپ کروانے لگیں جو ان چند دنوں میں ہی پریشانی سے آدھی رہ گئی تھی ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دی جان کے سامنے رونے کے بعد نور کا دل کافی ہلکا ہو چکا تھا تب ہی وہ اُن کے کہنے پر نہانے اور کپڑے تبدیل کرنے کے بعد نیچے آگئی جہاں اب احتشام صاحب بھی زمینوں سے واپس آچکے تھے۔۔۔۔

السلام علیکم بابا سائیں“،اُن کے آگے سر جھکاتے نور نے احترام سے کہا تو احتشام صاحب نے مسکراتے ہوئے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔۔

وعلیکم السلام، کیسی ہے میری بیٹی؟“،سلام کا جواب دیتے اُنہوں نے خوش دلی سے پوچھا۔

جی بابا میں ٹھیک ہوں پر آپ آج دوپہر کے کھانے پر کیوں نہیں آئے؟؟“رشیدہ کو جانے کا اشارہ کرتے نور نے خود چائے کا کپ اُٹھا کر احتشام صاحب کو تھماتے ہوئے سوال کیا۔۔۔۔ ”وہ بس زمینوں پر تھوڑا کام تھا ویسے بھی آج موسم کے تیور کچھ ٹھیک نہیں ہیں، لگتا ہے بارش ہو گی اسی لیے بس پانی کی نکاسی وغیرہ کا انتطام کرواتے کرواتے اتنا وقت ہو گیا“،چائے کا سیپ لیتے اُنہوں نے نور کے سوال کا جواب دیا جو اب شہناز بیگم اور ساجدہ بیگم کو چائے دیتے اپنا کپ لیے اُن کے قریب ہی بیٹھ چکی تھی۔

اچھا میں نے تو آج آپ کی فیورٹ چکن کڑاھی بنائی تھی سوچا آج آپ سے اپنی کتنی ساری تعریفیں سنو گی پر آپ نے نہ آکر میرا سارا موڈ خراب کر دیا“،منہ بسورتے اُس نے مان کے ساتھ شکوہ کیا۔ جب سے وہ یہاں آئی تھی احتشام صاحب اور شہناز بیگم نے بالکل اُسے بیٹیوں کی طرح رکھا ہوا تھا اسی لیے وہ اتنی جلدی اُن سے اتنا گھل مل گئی کہ ہر بات اور شکوہ آسانی سے کر لیتی تھی۔۔۔۔

اوو تو یہ بات ہے تب ہی میں سوچوں آج میرے نہ آنے پر اتنی بے چینی کیوں اور اگر تم نے بنائی ہے تو لے آؤ میں ابھی کھا کر تعریفیں کر دیتا ہوں“،نور کے منہ بسورنے پراُنہوں نے چائے کا کپ واپس ٹیبل پر رکھتے کہا تو اُس نے آنکھوں میں چمک لیے احتشام صاحب کو دیکھا جہنوں نے اُسے سکندر صاحب کی ساری بے رخی اور باتیں بھولا دیں تھیں۔۔۔

جی بابا میں ابھی لائی“،اُن کی بات سنتے ہی وہ خو شی خوشی اُٹھ کر کچن کی جانب بڑھی تو ساجدہ بیگم احتشام صاحب سے اناج کے بارے میں پوچھنے لگیں جو کل ہی اُنہوں نے غریبوں میں باٹنے کے لیے تیار کروایا تھا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کے سائے ڈھلنے کے ساتھ ہی احتشام صاحب کے اندازے کے مطابق بارش شروع ہو چکی تھی تب ہی نور نے دی جان کے منع کرنے کے باوجود بھی سب کام چھوڑے باہر کا رخ کیا کیوں کہ اب اُسے نہ تو بارش سے خوف آتا تھا اور نہ ہی بادلوں کے گرجنے سے ،بلکہ بارش کے ساتھ جڑی کچھ خوبصورت یادیں اُسے اپنی سمت کھنچتی تھی تب ہی وہ بے فکر ہو کر گاؤں کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ وہاں کی ہر بارش کو انجوائے کرنے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اُس نے اپنے اندر کے ہر ڈر کو باہر نکال دیا تھا کیوں کہ زارون کی جدائی کا خوف اس قدر شدید تھا کہ اُسے ہر ڈر اُس کے آگے معمولی اور بے وقت سا لگنے لگا پر دی جان کے صبح کے دلاسوں اور تسلیوں نے اُس کے اندر ایک امید پیدا کی تھی تب ہی آج کافی دنوں بعد وہ بارش کو اداسی کی بجائے دل کی خوشی سے انجوائے کرنے کے بعد مغرب کی اذان کی آواز سنتے ہی اندر آئی تاکہ کپڑے وغیرہ چینج کرنے کے بعد نماز ادا کر سکے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

نمازادا کرنے کے بعد اُس نے نیچے جانے کا ارادہ ترک کیا اور کچھ دیر آرام کی غرض سے لیٹ گئی پر ابھی اُسے لیٹے کچھ دیر ہی گزری تھی جب رشیدہ نے دروازے پر دستک دیتے اُسے ساجدہ بیگم کا پیغام دیا جو اُسے نیچے اپنے کمرے میں بُلا رہی تھیں۔۔۔۔

ٹھیک ہے آپ جائیں میں آتی ہوں“، اُس سے کہنے کے ساتھ ہی نور نے اپنے بال سمیٹے جو ابھی تک گیلے تھے اور دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھتے اپنے کمرے سے نکل کر نیچے آگئی جہاں ساجدہ بیگم اُسی کے انتظار میں بیٹھی تھیں۔۔۔۔

دی جان آپ نے بُلایا تھا“،نور نے دستک دیتے اندر قدم رکھا تو وہاں موجود شخص کو دیکھ اُس کے لفظوں کے ساتھ قدم بھی ساکت ہوئے۔۔۔

ہاں،بیٹا ادھر آؤ میرے پاس“،ساجدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے اپنے پاس بُلایا تو زارون(جو شہناز بیگم کے منہ سے دی جان کی سخت طبیعت خرابی کا سنتے سارے کام چھوڑے فورا ہی حویلی پہنچا تھا جہاں دی جان کو بالکل ٹھیک اور خوش باش دیکھ کر اُسے اپنی بے وقوفی اور جلد بازی پر افسوس ہوا) نے ایک بار بھی نظر اُٹھا کر اُسے دیکھنا گوارہ نہیں کیا جس کی نظریں مسلسل اُس کے غصیلے چہرے کا طواف کرنے میں مصروف تھیں۔۔۔۔۔

دی جان میں اپنے کمرے میں جا رہا ہوں آپ پلیز میرے لیے چائے اوپر ہی بھجوا دیجیے گا“،نور کے بیٹھتے ہی اُسں نے کھڑے ہوتے کہا اور ساجدہ بیگم کا جواب سنے بغیر ہی کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔

یہ کب آئے ؟؟“،اُس کے جاتے ہی نور نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔

ابھی  کچھ دیر پہلے ہی آیا ہے اور تم ان باتوں کو چھوڑو اور جاؤ،جا کر اُسے کپڑے وغیرہ نکال کر دو میرا بچہ بچارا سارا بھیگ گیا بارش میں“،دی جان نے فکر مندی سے کہا تو نور اُن کی بات سنتے سوچ میں پڑ گئی۔۔۔۔

آپ نے بلوایا ہے انہیں؟؟؟“دی جان کے سامنے زارون کو احترام سے پکارنا اُس کی مجبوری تھی تب ہی اُس نے اسے کی بجائے انہیں کا استعمال کیا۔۔۔۔

نہیں بھلا مجھے کیا ضرورت پڑی تھی بُلانے کی میں نے تو شہناز سے بس اتنا کہا تھا کہ اسے بتا دے کہ تمہاری دی جان بیمار ہیں ضرورت ہو تو آکر دیکھ جاؤ“،ساجدہ بیگم نے آنکھوں میں شرارت لیے کہا تو نور نے فکر مندی سے اُن کی طرف دیکھا۔۔۔۔

آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا کیوں کہ میں نہیں چاہتی تھی کہ زارون یہاں زبردستی یا کسی کے بلانے پہ آئے“،نور نے نظریں جھکائے مایوسی سے کہا تو دی جان نے اُس کا ہاتھ تھامتے اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔

جب کوئی اپنا راستہ بھٹک جائے نا تو اُسے یوں بے سہارا اور بے لگام نہیں چھوڑتے کہ وہ تنگ آکر اپنے لیے کسی دوسرے راستے کا انتخاب کر لے اور میں نے بھی وہی کیا تاکہ کل کو زارون تنہائی کا عادی ہو کر تم سے بالکل بے نیاز نہ ہو جائے اور اپنے لیے اُس زندگی کا چناؤ کر لے جو نہ تو اس کے حق میں تھی نہ ہی تمہارے اور بڑوں کا فرض ہوتا ہے کہ جہاں چھوٹے غلطیاں کریں اُنہیں سمجھایا جائے اور میں نے بس اپنا فرض پورا کیا اس لیے بہتر ہے کہ تم یہاں بیٹھ کر اس طرح کی فضول باتوں پر غور کرنے کی بجائے اُس کے پاس جاؤ اور جو کام تم آج سے ڈیڑھ مہینے پہلے نہیں کر پائیں اب کرو۔ نور میری بیٹی مرد کو عورت کے لاپروا ہونے یا اُس سے دور رہنے پر تب فرق پڑتا ہے جب عورت نے اُسے اُتنا مان اور پیار دیا ہو جس کی اُس کو ضرورت تھی اور تم دونوں کا معاملہ اس سے کچھ ہٹ کر ہے پہلے تم نے اپنے رشتے میں لاپروائی برتی اور اب زارون برت رہا ہے تاکہ تم اُسے سمجھو تم کسی کے کہنے میں آکر اُس کے قریب مت جاؤ وہ اپنے رشتوں میں بہت انا پسند ہے اور تمہارے معاملے میں تو وہ انتہاء پسند بھی ہو گیا ہے اس لیے اُسے خود سے دور رکھ کر مزید تکلیف مت دو تم نے آج اُسے نہ سنبھالا تو وہ ہمیشہ کے لیے پتھر بن جائے گا“،بہت نرمی اور پیار سے ایک ماں کی طرح اُنہوں نے نور کو سمجھایا جو اُن کی باتیں پوری توجہ سے سُن رہی تھی۔۔۔

ٹھیک ہے دی جان آپ جیسا کہیں گئی میں ویسا ہی کروں گی“،اُن کی بات مکمل ہوتے ہی نور نے اُنہیں زارون کو جلد راضی کرلینے کی تسلی دی اور اُٹھ کر کمرے سے باہر آگئی تاکہ اوپر جا کر اُس کھڑوس کو دیکھ سکے جو پچھلے ڈیڑھ مہینے سے اُس سے منہ موڑے بیٹھا تھا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

کمرے میں آتے ہی زارون کو شدت سے اپنی بے وقوفی پہ غصہ آیا کہ کیوں اُس نے شہناز بیگم کی بات پر یقین کیا۔۔۔۔ ”یہ عورتیں ہوتی ہی چالاک ہیں۔ ہم مرد معصوم ان کی باتوں میں آجاتے“، الماری سے اپنے کپڑے نکالتے وہ مسلسل بڑبڑا رہا تھا جب کسی نے دروازے پر دستک دی۔۔۔

آجائیں“ ،زارون کو لگا شاید خانسامہ چائے لے کر آیا ہے تب ہی بے فکری سے اجازت دیتے اپنی شرٹ پہننے لگا۔۔۔

تم ؟؟؟تم یہاں کیوں آئی ہو“،نور کو اندرداخل ہوتے دیکھ کر اس نے شرٹ کے بٹن بند کیے جو اُسے دیکھتے ہی جلدی سے اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھے رخ پھیر چکی تھی۔۔۔ک

کیا مطلب کیوں آئی ہوں،آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اب یہ میرا کمرہ ہے اور پچھلے ڈیڑھ مہینے سے میں یہی قیام پذیر ہوں کہنے کے ساتھ ہی نورنے قدم آگے بڑھائے اور زارون کی یقین دہانی کے لیے الماری کا دوسرا حصہ کھولا جس میں اُس کے کپڑے اور چیزیں ترتیب سے رکھی تھیں۔۔۔ ”تو ٹھیک ہے نا اب میں یہاں آگیا ہوں اس لیے اپنی چیزیں سیمٹو اور یہاں سے نکلو“ ،زارون پہلے ہی اُس کی چیزیں دیکھ چکا تھا پر خود کو انجان ظاہر کرتے اُس نے الماری میں سے اُس کے کپڑے نکال کر بیڈ پر پھینکے۔۔۔۔

کیا مسئلہ ہے تمہیں؟اور میں کہیں نہیں جاؤں گی بلکہ تم بھی کہیں نہیں جاؤ گے اب“،آنکھوں میں چمک لیے وہ اُس کے قریب آئی جو اُس کے بدلے ہوئے رنگ دیکھ کر دھنگ رہ گیا پر کچھ بھی اُس پہ ظاہر کیے بغیر اُس نے ایک نظر نور کے ہاتھوں کو دیکھا جو اب اُس کے سینے پہ دھرے تھے۔۔۔۔ ”تمیز سے رہو لڑکی اور اپنی حد کراس کرنے کی کوشش مت کرو“،اپنے سینے پر رکھے اُس کے ہاتھ کو جھٹکتے زارون نے غصے سے کہا تو نور نے پیچھے ہٹنے کی بجائے اپنے بازؤ اُس کی گردن میں حائل کیے۔۔۔۔

حد میں ہی ہوں اور شاید تم بھول رہے ہو کہ میں لڑکی ہونے کے ساتھ ساتھ تمہاری بیوی ہوں اور تمہارے قریب آنے اور تمہیں چھونے کا حق رکھتی ہوں“،اُس کی آنکھوں میں دیکھتے نور نے پوری جراءت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے زارون کے ماتھے پر پڑتی تیوریوں کو ہاتھ سے مٹانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔

مجھے پتا ہے میں نے زندگی میں بہت سے بے وقوفیاں کی ہیں پر اب تمہیں مزید ناراض رکھ کر میں ان تمام بے وقوفیوں کو پھر سے دوہرانا نہیں چاہتی اس لیے تمہیں جتنا غصہ کرنا ہے جتنا مجھے ڈانٹنا ہے ڈانٹ لو پر پلیز مجھے یوں خود سے دور مت کرو،میرے پاس تمہارے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے“، آہستگی سے سر اُس کے سینے سے لگائے نور نے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی کوشش کی۔۔۔ ”سوری،میں نے سُنا نہیں کہ تم نے کیا کہا،ہمم شاید تم نے کہا کہ میں تمہیں ڈانٹ لوں، غصہ کروں پر کس حق سے؟؟؟تم نے تو کبھی آج تک مجھے اتنا حق بھی نہیں دیا کہ اپنی زندگی میں تھوڑی سی اہمیت تھوڑی سی جگہ دے سکو بلکہ تمہیں تو مجھ سے زیادہ اُس دوست کو اہمیت دینا بہتر لگا جو تمہیں اُس دلدل تک لے گئی جہاں اُس دن اگر احمد نہ پہنچتا تو۔۔۔۔“،اُس کے بازؤ اپنی گردن سے نکالتے زارون نے بات کو ادھورا چھوڑا اور نور کو خاموش دیکھ کر کمرے سے باہر نکل گیا جو اُس کی ادھوری بات کا مطلب اچھے سے سمجھ چکی تھی اور جو بھی سمجھی تھی وہ کسی اذیت سے کم نہیں تھا تب ہی اُس نے زارون کے جاتے ہی بیڈ پر پڑے اپنے کپڑوں کو دیکھا جن کی بالکل اُس کے وجود کی طرح نہ تو اس کمرے میں کوئی جگہ تھی اور نہ ہی اس گھر میں۔۔

 

قسط نمبر 38 (آخری قسط)

 

زارون کو حویلی آئے ایک ہفتہ گزر چکا تھا پر اُس نے نور کو دوبارہ اپنے قریب آنے یا بات کرنے کا موقع نہیں دیا۔ وہ دی جان اور باقی گھر والوں کی وجہ سے رات اُس کے سونے کے بعد کمرے میں آتا اور اُس کے اُٹھنے سے پہلے ہی کمرے سے نکل جاتا اور سارا دن احتشام صاحب کے ساتھ باہر رہتا تاکہ نور کو اُس سے بات کرنے کا کوئی موقع نہ ملے اور دوسری طرف نور نے بھی اُس دن کے بعد اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دیا کیوں کہ اُس کے روکھے اور سخت رویے نے اُسے کافی دلبرداشتہ کیا تھا اس لیے رات اُس کے آتے ہی وہ نیند نہ آنے کے باوجود بھی سوتی ہوئی بن جاتی تاکہ اُس کے احساس کو کچھ دیر کے لیے ہی سہی پر اپنے قریب محسوس کر سکے۔۔۔

آج زارون کی طبیعت صبح سے ہی کچھ خراب تھی شاید موسم کی تبدیلی تھی جس کی وجہ سے اُسے جسم میں درد کے ساتھ بخار بھی محسوس ہو رہا تھا تب ہی وہ احتشام صاحب کے ساتھ جانے کی بجائے گھر پر ہی رک گیا تاکہ آرام کر سکے۔

یہ زارون کہاں ہے آج صبح سے نظر نہیں آیا“، ساجدہ بیگم نے اپنے کمرے سے باہر آتے لاؤنج میں آکر اپنے تخت پر بیٹھتے ہوئے شہناز بیگم سے پوچھا جو نور کے ساتھ مل کر دوپہر کا کھانے بنانے میں مصروف تھیں۔۔۔

طبیعت خراب ہے اُس کی، صبح احتشام نے بلوایا تھا پر اُس نے آگے سے طبیعت خرابی کا کہتے آج گھر پر ہی رک کر آرام کرنے کا بول دیا“اپنا کام چھوڑ کر اُنہوں نے باہر آکر ساجدہ بیگم کو بتایا جنہوں نے سنتے ہی فکر مندی سے اپنی چھڑی اُٹھائی۔۔۔

کیا ہوا میرے لال کو اور کسی نے مجھے کیوں نہیں بتایا،رشیدہ رشیدہ کہاں ہو؟“،ساجدہ بیگم نے کہنے کے ساتھ ہی رشیدہ کو آواز دی جو شہناز بیگم کا کمرہ صاف کرنے میں مصروف تھی۔۔۔۔

کچھ زیادہ نہیں بس بخار ہے شاید موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ہے اس لیے آپ پریشان نہ ہوں میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی ناشتہ کروا کے دوائی دے کر آئی ہوں ان شاءاللہ جلدی ہی ٹھیک ہو جائے گا“، ساجدہ بیگم کو اُٹھتا دیکھ کر شہناز بیگم نے تسلی دی اور اُنہیں زارون کے سونے بتاکر واپس تخت پر بیٹھایا۔۔۔۔

اچھا پر میں ایک نظر دیکھ لیتی تو دل کو سکون مل جاتا پتا نہیں میرے بچے کی خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی کچھ ہی دونوں میں بالکل مرجھا سا گیا ہے۔۔۔

ہمم مجھے بھی یہی لگ رہا ہے تب ہی میں نے سوچا ہے کہ ہم زارون اور نور کی ولیمے کی تقریب رکھ لیں تاکہ گھر کے ماحول میں کچھ تبدیلی آئے“،شہناز بیگم نے اپنے ذہن میں چلنے والے ارادے سے ساجدہ بیگم کو آگاہ کیا تو اُنہوں نے اُن کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔

ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے میں بھی کافی دنوں سے نوٹ کر رہی ہوں کہ جیسے نور اور زارون ہمیں دکھانے کی کوشش کررہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہے بلکہ اُن کے درمیان کچھ بھی ٹھیک نہیں“، ساجدہ بیگم نے بھی اپنے خدشے کو ظاہر کیا تو شہناز بیگم نے اُن کی بات کی تصدیق کی۔۔۔

جی مجھے بھی یہی لگتا ہے تب ہی میں نے سوچا کہ ہم یہ تقریب رکھ لیں تاکہ ان دونوں کے بیچ جو یہ دوریاں ہیں وہ ختم ہوں۔۔۔

ٹھیک ہے پھر میں آج ہی احتشام سے بات کرکے کوئی ڈیٹ فکس کرتی ہوں اور تم جاؤ نور سے کہو کہ کاموں کو چھوڑے اور زارون کے پاس جائے اُس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو ہو سکتا ہے کسی چیز کی ضرورت پڑے“،اُن کی بات پر غور کرتے ساجدہ بیگم نے کہا تو شہناز بیگم اثبات میں سر ہلاتے کچن کی جانب بڑھیں تاکہ نور کو زارون کے پاس جانے کا بول سکیں۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

دوپہر سے رات ہو چکی تھی پر زارون کا بخار کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ چکا تھا تب ہی احتشام صاحب نے ڈاکٹر کو کال کی جو کچھ ہی دیر میں زارون کو چیک کرنے کے بعد  میڈیسن دے کر چلا گیا۔۔۔۔

دی جان شہناز بیگم اور احتشام صاحب شام سے ہی زارون کے پاس اُس کے کمرے میں موجود تھے تب ہی نور نے اُن سب کو اپنے ہونے کا یقین دلاتے آرام کرنے کا کہا کیوں کہ وقت کافی ہو چکا تھا۔۔۔۔

ٹھیک ہے امی ،شہناز اُٹھیں اب نور کو بھی آرام کرنے دیں زارون اب ٹھیک ہے“، احتشام صاحب نے اُن دونوں کو تسلی دی اور اپنے ساتھ لیے نیچے آگئے تو نور نے اُن کے جاتے ہی اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا اور زارون کے قریب آبیٹھی جو کچھ دیر پہلے ہی سویا تھا۔۔۔۔

پتا نہیں کیوں پر تمہاری اتنی نفرت اتنی ڈانٹ بھی مجھے تم سے دور نہیں کر سکی بلکہ تمہارا یہ مغرورانہ رویہ تمہاری یہ اکڑ مجھے تمہارے اور قریب لے آئی ہے، ہاں نور کو تم سے محبت ہونے لگی ہے تمہاری ہر چیز ہر بات مجھے اچھی لگنے لگی ہے بس اب تم بھی یہ ناراضگی چھوڑ دو تاکہ ہم دونوں پچھلی تمام باتوں کو بھول کر اپنی نئی زندگی کا آغاز کرسکیں ایسی زندگی جس میں صرف تم ہو، میں ہوں اور ہماری چھوٹی سی دنیا“، اس کے قریب بیٹھتے نور نے اُس کی بخار سے تپتی ہوئی پیشانی پر بوسہ دیا تو زارون نے اُس کے پہلے لمس پر بامشکل خود کو آنکھیں کھولنے سے روکا۔۔۔۔

مجھے پتا ہے کہ جب سے میں تمہاری زندگی میں آئی ہوں میں نے تمہیں بہت تنگ کیا ہے بہت سی غلطیاں کیں جس کے لیے تم نے مجھے معاف کر دیا کیوں کہ وہ صرف میری اور تمہاری ذات تک محدود تھیں مگر اس بار میں نے جو غلطی کی ہے وہ نہ تو معمولی تھی اور نہ ہی ہم دونوں کی ذات تک محدود، تب ہی شاید تم اب تک مجھے معاف نہیں کر پائے یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ اس بار میں نے صحیح معنوں میں تمہارا دل دکھایا اسی لیے تم میرے معاملے میں اتنے پتھر دل ہو گئے ہو کہ میری کوئی التجا کوئی معافی حتی کہ میرا کوئی آنسو تمہیں نظر نہیں آرہا“،کہنے کے ساتھ ہی ایک موتی ٹوٹ کر زارون کے گال پر گرا جسے جلدی سے صاف کرتے اُس نے وہاں سے اُٹھنا چاہا مگر زارون نے فٹ سے آنکھیں کھولتے اُس کا ہاتھ تھاما۔۔۔۔۔

تمہارے معاملے میں زارون علی کا دل کبھی بھی پتھر نہیں ہوسکتا اگر وہ محبت کرنا اور اُسے پانا جانتا ہے تو نبھانے کے لیے اپنی جان تک دے سکتا ہے بس تم کبھی حق سے مانگ کر دیکھو اگر کبھی انکار کروں تو جو سزا دینا چاہو گی مجھے منظور ہے“،اُس کا ہاتھ اپنے سینے پر دل کے مقام پر رکھتے زارون نے اُس کے اقرار محبت پر اُسے خالی ہاتھ نہیں لوٹایا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اگر محبت کے اقرا پر انسان کو خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے تو وہ تکلیف نہ تو لفظوں میں بیان ہوتی ہے اور نہ ہی اُس کا علاج کوئی طبیب کرسکتا ہے۔ بس زندگی بھر کی کسک رہ جاتی ہے جو انسان کو آہستہ آہستہ اندر ہی اندر ختم کرتے دیمک کی طرح چاٹ کر اُس کی روح تک کا سفر طے کر لیتی ہے جو بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور وہ نور کو کبھی بھی وہ تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا جس سے وہ خود کافی بار گزر چکا تھا۔۔۔۔۔

مطلب تم میرے ساتھ ابھی بھی محبت نبھاؤ گے یہ جانتے ہوئے کہ تم مجھے جہاں سے لے کر آئے تھے اُس جگہ پر کوئی سات پردوں میں بھی اپنا وجود چھپا کر رکھے پر کہلائے گا ناپاک ہی“،آنکھوں میں اک آس لیے اُس نے زارون سے وہ سوال کیا جو ایک بار پہلے بھی اُن کے رشتے میں دراڑ ڈال چکا تھا۔۔۔۔

میں نے کہا نا کہ تم مجھ سے مجھے حق سے مانگو تو زارون کبھی انکار نہیں کرے گا اور دوسری بات پوری دنیا بھی ایک طرف ہو جائے تمہیں بُرا کہے تو زارون تمہیں اپنے ساتھ کھڑا ملے گا وہ تب بھی تمہیں کبھی بُرا نہیں کہے گا کیوں کہ اُس نے تمہیں جانا ہے پرکھا ہے تم بہت معصوم ہو نور جو اس ظالم دنیا کو پہچان نہیں پائی اور یہ سب ہماری قسمت میں لکھا تھا اسے ایسے ہی ہونا تھا اس لیے خود کو مزید تکلیف مت دو یہ سوچ کے کہ میں کبھی تم سے تمہارے کردار کی صفائی مانگوں گا اور جس دن میں مانگو سمجھ لینا زارون علی بدل گیا تم بے شک میری محبت کو الودع کہ کر چلی جانا“،اُس کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتے وہ نرمی سے اُسے اپنے حصار میں لے چکا تھا جس کے آنسو قطار در قطار اُس کے گالوں پر بہہ نکلے۔۔

نور صرف تمہاری ہے وہ تم سے کبھی بے وفائی نہیں کرے گی“،سوں سوں کرتے اُس نے آنسو کے بیچ اپنی بات مکمل کی تو زارون نے اُسے اپنے ساتھ لگایا۔۔۔۔

جانتا ہوں تم بدتمیز ہو چڑیل ہو پر باوفا“ نم آنکھوں سے مسکراتے زارون نے اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا جو اب اُس کے سینے میں منہ چھپائے سسکنے لگی تھی۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

نور یار بس کرو کیا سارے آنسو آج ہی بہا دو گی اور میری جان میں تمہیں یاد دلا دوں کہ مجھے پہلے ہی بخار ہے جس کی وجہ سے میرے سر میں درد ہے اور اب تمہارے اس رونے دھونے سے مزید ہو گیا ہے اس لیے پلیز چپ کرجاؤ“، زارون نے اُسے کھل کر آنسو بہانے دینے کے بعد ٹوکا تو اُس نے اُس کے سینے سے سر اُٹھایا جہاں سے اُس کی ساری شرٹ وہ اپنے آنسوؤں سے تر کر چکی تھی۔۔۔۔۔

چپ ہو جاؤ اب کس بات کا رونا ہے جو تب سے آنسو بہا رہی ہو“، سائیڈ ٹیبل پر پڑے ٹشو کے ڈبے سے ٹشو نکالتے زارون نے خود ہی اُس کے آنسوؤں کو صاف کیا۔۔۔۔

بس مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ اگر تمہاری یہ ناراضگی کچھ اور دن قائم رہتی یا تم آج میری محبت کا جواب محبت سے نہ دیتے تو میرے ساتھ ساتھ میرا دل بھی مایوس ہو جاتا“، سوں سوں کرتے اُس نے ٹشو اُس کے ہاتھ سے لیتے خود اپنا چہرہ صاف کیا۔۔۔۔

تو میں نے تمہیں اور تمہارے دل کو اس مایوسی سے بچا لیا ہے نا جس کا تمہیں ڈر تھا تو بس پھر اب سارے ڈر اور خوف اپنے دل سے نکال دو اور وہاں صرف مجھے جگہ دو تاکہ تمہیں ہر پل یہ احساس رہے کہ زارون علی کبھی بھی تم پہ کوئی تکلیف کوئی دکھ نہیں آنے دے گا“، اُس کے بال پیچھے کرتے وہ نرمی سے اُس کے گال سہلانے لگا جو آج بھی رونے سے سرخ ہو چکے تھے۔۔۔۔

اگر زارون علی مجھے تکلیف نہیں دے سکتا تو پچھلے دو مہینوں سے ایسا رویہ کیوں؟اور تم نے اُس دن مجھے اپنے کمرے سے کیوں نکالا کیوں تم مجھے دیکھ کر اتنا غصہ ہوئے؟؟اور جب میں نے دی جان کے ساتھ گاؤں آنے کا کہا تو تم نے مجھے روکا کیوں نہیں؟؟“،اُس کی بات سنتے ہی نور نے ایک ہی سانس میں کئی سوال پوچھ ڈالے۔۔۔۔

پتا نہیں شاید اُس وقت عالیان کی بے وفائی کا زخم اتنا تازہ تھا کہ میں کچھ سوچ ہی نہیں پایا اور مجھے اُس وقت تمہاری سب سے زیادہ ضرورت تھی جب تم نے سارا وقت یہ باتیں سوچنے میں لگا دیا کہ میں تمہیں قبول نہیں کروں گا۔ دیکھو نور اگر میں نے تمہیں قبول نہ کرنا ہوتا تو میں کیوں تمہیں اُس جگہ سے واپس لاتا؟؟اور دوسری بات جب تم نے اپنے کردارکی گواہی دی مجھے اپنا آپ بہت معمولی لگا اپنی محبت ہوس زدہ اور منافق لگی جس کے لیے تم مجھے اُس بات کی گواہی دے رہی جس سے میں پچھلے پانچ سالوں سے واقف تھا۔ بس مجھے غصہ تھا ساتھ یہ بھی احساس کہ تم اب کی بار بھی خود سے میرے پاس نہیں آئی بلکہ دی جان کے کہنے پہ آئی ہو مجھے اور تکلیف دہ اور بُرا لگا جس کی وجہ سے میں نے اب تک تمہیں خود سے دور رکھا تاکہ تم کسی اور کی وجہ سے میرے قریب مت آؤ بلکہ تم بھی اُس جذبے اُس احساس کو محسوس کرو جو میں تمہارے لیے کرتا ہوں۔ تمہیں پتا ہے محبت کا جواب محبت میں نہ ملے تو انسان برداشت کر لیتا ہے پر بے انتہاء محبت کے بدلے آپ کو دوسری طرف سے بے رخی اور بے اعتباری ملے وہ بھی تب جب آپ اپنا سب کچھ ایک انسان کے لیے وقف کر چکے ہوں تو یقین جانو انسان کہیں کا نہیں رہتا وہ اُس دعا کی طرح بن جاتا ہے جو نہ تو فرش پر پلٹتی ہے اور نہ ہی عرش تک پہنچتی بلکہ بیچ راستے میں اٹک کر انسان کو یہ وہم دلاتی ہے کہ وہ قبول ہوچکی ہے یا ہو جائے گی اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اب میں ساری زندگی اُس دعا کی طرح گزاروں تب ہی میں نے تمہیں وقت دیا سوچنے کا سمجھنے کا تاکہ تم خود فیصلہ کرو کہ تمہیں میرے ساتھ رہنا ہے یا نہیں“، اُس کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتے زارون نے بے حد نرمی سے اپنی بات سمجھائی۔۔۔۔

تو اگر میں نہ رہنا چاہتی تو؟؟“اُس کی آنکھوں میں دیکھتے نور نے ایک اور سوال کیا۔۔۔۔۔

تو بھی میں تم سے دست بردار نہیں ہوسکتا تھا کیوں کہ میں یہ تو برداشت کر سکتا کہ تم مجھ سے دور رہو مجھ سے بات نہ کرو پر میری نظروں سے اوجھل ہو یہ میں برداشت نہیں کرسکتا تھا“،اُس کے سوال کا جواب دیتے زارون نے اُسے خود سے مزید قریب کیا تو نور نے اُسے ایک گھوری سے نوازا۔۔۔۔

زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ میں ابھی بھی ناراض ہوں، کیسے تم نے اتنے دن مجھ سے بات نہیں کی مجھ پہ غصہ کیا ساتھ اتنی بار مجھے ڈانٹا بھی“، منہ بسورے نور نے اپنے لاڈ اُٹھوانا ضروری سمجھا۔۔۔۔

ٹھیک ہے میں منا لوں گا پر ابھی نہیں ابھی سو جاؤ بہت وقت ہوگیا ہے ویسے بھی ہمیں صبح جلدی نکلنا ہے“،اپنے ہونٹ اُس کی پیشانی پر رکھتے زارون نے کمفرٹر اُس کے اوپر دیا۔۔۔۔

کہاں جانا ہے؟“،آنکھوں میں تجسس لیے اُس نے سوال کیا۔۔۔

بس یہ سرپرائز ہے اس لیے کل تک کا انتظار کرو بے بی“، اپنے ہونٹ اُس کے رخسار سے مس کرتے زارون نے اُسے کشمکش میں ڈالا۔۔۔۔

زارون پلیز بتا دو نا مجھ سے انتظار نہیں ہوتا۔۔۔

اُفف میری جان سرپرائز کا مطلب ہوتا ہے راز اور راز وقت سے پہلے بتا دیا جائے تو سارا مزہ خراب ہو جاتا ہے۔ اس لیے صبر کرو صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔۔۔۔

پر تھوڑا سا اشارہ ہی دے دو کہ کہاں جانا ہے“،اُس کی پوری بات سنتے نور نے کہا تو زارون نے ابرو اچکاتے اُسے دیکھا جو مسکین سا چہرہ بنائے اُس کے جواب کی منتظر تھی۔۔۔۔

کیا کروں میں تمہارا، قسم سے بہت ہی بدتمیز ہو“، اپنی مسکراہٹ چھپاتے زارون نے اُس کی ناک دبائی جو بدتمیز لفظ سنتے ہی پوری آنکھیں کھولتے اُسے گھورتے ہوئے دوسری طرف کروٹ لے کر خاموشی سے لیٹ گئی۔۔۔

سو جاؤ دیکھنا صبح جب تم اچانک اُس جگہ کو دیکھو گی تو تمہیں بہت خوشی ہو گی اور میری جان رونے کا پروگرام تم نے وہاں بھی شروع کرنا ہے اس لیے اب اپنی آنکھوں کو سکون دو“،اپنے حصار میں لیتے اُس نے نور کے کان کے قریب سر گوشی کی تو دل میں کشمکش لیے وہ کوئی بھی جواب دیے بغیر آنکھیں موندے سونے کی کوشش کرنے لگی تو زارون نے لیمپ کی ہلکی سی روشنی گل کی تاکہ خود بھی سو سکے۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ہوتے ہی زارون نے اپنے ایک قریبی دوست کی شادی میں جانے کا بتایا اور سب کو تیار ہونے کا کہا تو نور نے بھی خاموشی سے کوئی بھی سوال وجواب کیے بغیر شہناز بیگم کا لایا ہوا ڈریس پہنا جو اُنہوں نے اُسے کچھ دن پہلے ہی لا کر دیا تھا۔۔۔۔

زارون دیکھو میں ٹھیک لگ رہی ہوں نا؟؟“،اُسے کمرے میں آتا دیکھ کر نور نے چہرے پر فکر مندی سجائے سوال کیا۔۔۔۔

ہمم اچھی لگ رہی ہو“،سر تا پاؤں اُس کا جائزہ لیتے جو سرخ کلر کے سپمل سے قیمض شلوار میں( جس کے بازوؤں اور گلے پر ڈل گولڈن کلر سے کیا گیا ہلکا نفیس کام اُسے مزید خوبصورت بنا رہا تھا )کہ ساتھ گولڈن کلر کا دوپٹہ لیے (جس کے پلوں پر قیمض کی ہی طرح کا کام ہوا تھا ) ہلکے میک اپ کے ساتھ بالوں کو ڈھیلے سے جوڑے کی شکل دے کر، کانوں میں گولڈن کلر کے ٹاپس اور گلے میں نازک سی چین پہنے کھڑی زارون کی اتنی سی تعریف پر منہ پھولا چکی تھی۔۔

بس ٹھیک لگ رہی ہوں؟“،اُس کے جواب کو دوہرا کر نور نے سوال کیا تو زارون نے اُس سے نظریں ہٹاتے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔

میں نے کہا اچھی لگ رہی ہو بلکہ بہت اچھی، بس اب مزید ٹائم ضائع مت کرو اور آجاؤ نیچے سب لوگ تیار بیٹھے ہیں“، اپنا والٹ اور موبائل اُٹھاتے اُس نے نور سے کہا جو ویسے ہی منہ پھلائے کھڑی تھی۔۔۔۔

کیا ہوا؟؟جانا نہیں کیا؟؟؟اُسے وہیں کھڑا دیکھ کر زارون نے پلٹ کر پوچھا۔۔۔۔۔

نہیں جانا مطلب کے حد ہے تمہیں تو ٹھیک سے کسی کی تعریف بھی کرنا نہیں آتی۔ میں اتنی محنت سے تمہارے لیے تیار ہوئی اور تم نے ایک سرسری سی نظر ڈال کر کہہ دیا کہ اچھی لگ رہی ہوں۔ بھاڑ میں جاؤ تم“، دانت پیستے اُس نے اپنے غصے کا اظہار کیا تو زارون نے اُس کی بات سنتے گہری سانس لی اور قدم واپس اُس کی جانب بڑھائے جو چہرے پر بارہ بجائے کھڑی تھی۔۔۔۔۔

اچھی مطلب ہوتا ہے، بہت پیاری لگ رہی ہو“، اپنا ہاتھ اُس کی کمر پر رکھتے زارون نے اُسے خود سے قریب کرتے اپنی بات کو جاری رکھا۔۔۔۔

بالکل پری جیسی بلکہ بے بی ڈال لگ رہی میری جان“ اُس کی پیشانی پر بوسہ دیتے زارون نے تعریف کی تو نور نے شرماتے ہوئے پلکیں جھکاتے شکریہ ادا کیا۔۔۔۔

تھینک یو۔۔

بس اتنا بہت ہے یا اور جھوٹ بولوں؟؟“آنکھوں میں شرارت لیے اُس نے نور سے پوچھا جو شرمانے کے چکر میں اُس کی بات کا مفہوم سمجھے بغیر ہی اثبات میں سر ہلا گئی۔۔

مطلب اور جھوٹ بولوں؟؟“زارون نے تصدیق چاہی تو نور نے اُس کے لفظوں پر غور کرتے اُسے پیچھے کی جانب دھکیلا۔۔۔۔

تم ہو ہی بدتمیز“، غصہ سے لال ہوتے اُس نے زارون کو مزید چند القابات سے نوازا اور ایک کشن اُٹھا کر اُس کی جانب اچھالتے اپنا پاؤچ اُٹھاتے کمرے سے نکل گئی تو زارون بھی مسکراتے ہوئے اُس کی پیچھے ہی باہر کی جانب بڑھا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

یہ، یہاں یہ تو۔۔۔“،زارون نے سکندر صاحب کے گھر کے سامنے گاڑی روکی تو نور نے حیرت سے اپنے سامنے موجود گھر کو دیکھا جہاں روشنیوں کے ساتھ کافی چہل پہل بھی تھی۔۔

ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ مجھے نہیں جانا یہاں پلیز زارون گھر چلو“،ایک نظر اُس جگہ کو دیکھنے کے بعد نور نے آنکھوں میں نمی لیے زارون سے کہا جو اب گاڑی ایک سائیڈ پہ لگاتے اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور گھوم کر اُس کی جانب کا دروازہ کھول چکا تھا۔۔۔۔۔

کیوں نہیں جانا؟؟؟“،نور دیکھو بیٹا زندگی میں بہت سی رنجشیں ایسی آتی ہیں جنہیں بھولنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا پر اگر اُنہیں یاد رکھنے سے تکلیف ہو تو مجھے لگتا ہے اُن کو بھول جانا ہی بہتر ہے، باقی تمہارے گھر والوں کا ردعمل زارون کے عمل کا جواب تھا اُس وقت حالات ایسے تھے کہ وہ نہ تو تم پر اعتبار کر سکتے تھے نہ زارون پر اس لیے جہاں تک تمہیں لگتا ہے کہ تم بے قصور ہو تو میری جان قصوروار وہ بھی نہیں“، دی جان نے بہت نرمی سے اُسے سمجھایا جس کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہو چکی تھیں۔۔۔۔ ”پر دی جان یہ لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں میں یہاں نہیں جاؤں گی“، پوری بات سننے کے بعد نور نے ایک اور نقطہ اُٹھایا۔۔۔۔

نفرت نہیں کرتے بس کچھ غلط فہمیوں کی پٹی تھی جو کچھ وجوہات کی وجہ سے ان سب کی آنکھوں پر بندھ گئی تھی جسے اللہ پاک نے بہت طریقے سے اُتارا دیا ہے تب ہی تمہارے ابو اور بھائی زارون کے پاس آئے تھے تم دونوں کو منانے۔۔۔

مطلب آپ یہ سب جانتی تھیں کہ زارون ہمیں کہاں لے کر جا رہا ہے؟؟؟“حیرت سے اُن کا چہرہ دیکھتے اُس نے سوال کیا تو ساجدہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔۔

ہاں ہم سب ہی جانتے تھے اور تم بھی اب جان لو کہ تمہارے ابو کے ساتھ ساتھ تمہارے بھائی اور پھو پھو بھی اپنے کیے پر شرمندہ ہیں اور اُن سب کو اپنی کی ہوئی زیادتی کی سزا مل چکی ہے اس لیے اب تم بھی اُنہیں معاف کر دو اور اپنا دل صاف کر کہ اُن تمام خوشیوں کی جانب قدم بڑھاؤ جو تمہاری منتظر ہیں“، اُس کے آنسو صاف کرتے دی جان نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا تو نور نے ایک نظر شہناز بیگم اور احتشام صاحب کو دیکھا جو اُس کے فیصلہ کے انتظار میں تھے۔۔۔

ٹھیک ہے،“اثبات میں سر ہلاتے اُس نے زارون کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھاما اور گاڑی سے باہر نکل کر اُن سب کے ساتھ ہی اندر کی جانب بڑھی جہاں حارث اور حاشر نے اُسے دیکھتے ہی اپنے سینے سے لگایا اور تمام پرانی رنجشوں کو ختم کرتے اندر کی جانب لے کر بڑھے جہاں سکندر صاحب صبح سے اُسی کے انتظار میں بیٹھے تھے۔۔۔۔

فریحہ بیگم اور سارہ سے ملنے کے بعد اُس کے اندر کے باقی شکوے شکایات بھی ختم ہو گئے تب ہی اُس کی نظر وہیل چیئر پر بیٹھے اپنے باپ پر پڑی جو آج بے بسی کی تصویر بنے اشارہ سے اُسے اپنی جانب بُلا رہا تھا۔۔۔۔

ابو یہ سب کیسے ہوا؟؟“نور نے اُن کے قریب نیچے زمین پر بیٹھتے اُن کے لاچار وجود کو دیکھا تو سکندر صاحب کی آنکھیں اشکبار ہوئیں اُنہوں نے اپنے ہونٹ ہلاتے کچھ کہنے کی کوشش کی پر آج اُن کے الفاظ اُن کا ساتھ چھوڑ چکے تھے تب ہی بامشکل اپنے ہاتھوں کو حرکت دیتے اُنہوں نے نور کے سامنے جوڑے جس نے تڑپ کر اُن کے ہاتھوں کو اپنے چہرے سے لگایا۔۔۔۔

میں نے آپ کو معاف کیا بس آپ بھی مجھے معاف کر دیں“،آنسو بہاتے آج وہ اپنے رشتوں کے بیچ خود کو جتنا بھی خوش نصیب سمجھتی کم تھا۔۔۔۔

بس اب یہ رونے دھونے کا پروگرام ختم کرو یار پہلے ہی میری شادی آپ سب کی وجہ سے پورے نو مہینے لیٹ ہو چکی ہے اب بھی کیا آپ لوگ چاہتے ہیں کہ میں پھر سے کچھ مہینے انتظار کروں“،حارث نے نور کے چپ ہونے کے کوئی آثار نہ دیکھ کر خفگی سے کہا تو سکندر صاحب کے ساتھ ساتھ نور کے چہرے پر بھی مسکرا ہٹ آئی کیوں کہ وہ آج سمجھ چکی تھی کہ غلطیوں کو معاف کر دینا اور اُن سے سبق سیکھنا ساری عمر بیٹھ کر اُن پر ماتم کرنے یا خود کو تکلیف دینے سے بہتر تھا۔۔۔۔۔

ایک بھر پور شام کے بعد تقریب تقربیا رات دس بجے ختم ہوئی تو زارون نے واپسی کی تیاری پکڑی تب ہی ساجدہ بیگم نے اُن سب کو زارون اور نور کی ولیمے کی تقریب کا بتاتے گاؤں آنے کی دعوت دی۔۔۔۔

ٹھیک ہے ہم ضرور آئیں گے پر ہمارا تو خیال تھا کہ ہم نور کو یہاں سے اپنے گھر سے رخصت کریں تاکہ جو ہمارے دل میں اس کی خوشیاں دیکھنے کی کسک ہے وہ ختم ہو“،فریحہ بیگم نے اپنے خیال کا اظہار کیا تو حارث اور حاشر کے ساتھ ساتھ سکندر صاحب نے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔۔

جی میرا بھی یہی خیال تھا اگر آپ لوگ بُرا نہ منائیں تو۔۔۔“ حارث نے بھی اپنی خواہش کا اظہار کیا تو زارون نے دی جان کو اشارے سے منع کیا۔۔۔۔

ٹھیک ہے ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں تھا پر مجھے لگتا ہے اب زارون اور نور کو اعتراض ہوسکتا ہے“، ساجدہ بیگم نے ساری بات اُن دونوں پر ڈالی۔۔۔

نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔“ نور نے زارون کے منع کرنے کے باوجود ہامی بھری۔۔۔۔

پر مجھے ہے کیوں کہ مجھے لگتا ہے کہ ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے وہ اپنے مناسب وقت پر ہی ہو تو اچھا لگتا ہے اور اب جب کہ سب کو اس شادی کا پتا ہے ہم بھی اپنے رشتے داروں کو مناسب الفاظ میں بتا چکے ہیں ایسے ایک دم رخصتی کرنا لوگوں کی بند زبانوں کو دوبارہ سے باتیں کرنے کا موقع دینے کے مترداف ہوگا“احتشام صاحب نے زارون سے پہلے ہی اپنی رائے کا اظہار مناسب الفاظ میں کیا۔

بات تو ٹھیک ہے آپ کی بس پھر ٹھیک ہے ہم ولیمے کے فنکشن کو ہی بارات کو فنکشن سمجھ کر انجوائے کر لیں گے“،فریحہ بیگم نے اُن کی بات سمجھتے غصہ کیے بغیر کہا تو حاشر اور حارث نے بھی احتشام صاحب کی بات کو اہمیت دی اور کچھ دیر مزید اُسی خوشگوار ماحول میں باتیں کرنے کے بعد اجازت طلب کرتے واپسی کے لیے نکل پڑے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

گاؤں کا سفر لمبا ہونے کی وجہ سے زارون اُن سب کو اپنے ساتھ اپارٹمنٹ لے آیا تاکہ رات وہاں گزار کر صبح سکون سے گاؤں جا سکیں۔۔۔۔

اپارٹمنٹ پہنچتے ہی احتشام صاحب الگ کمرے میں اور ،شہناز بیگم ،ساجدہ بیگم کے ساتھ اُن کے کمرے میں تھکاوٹ کا بولتے آرام کرنے چلی گئیں اور نور بھی سارا دن سفر اور تقریب کی تھکاوٹ پر نڈھال ہو کر اپنے کمرے میں جا کر لیٹتے خالدہ بیگم کے بارے میں سوچنے لگی، جن کے بارے میں اُسے فریحہ بیگم نے بتایا تھا کہ کیسے اُنہوں نے ملائکہ کو قتل کیا اور اب خود پچھلے تین مہینوں سے کومہ میں ہیں تب ہی جنید اور سلیم صاحب تقریب میں شرکت کے لیے نہیں آئے۔۔۔۔۔

ان کے انجام کو سوچتے ابھی اُسے لیٹے کچھ دیر ہی گزری تھی کہ اُسے اپنے کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہواتب ہی اُس نے اپنا دوپٹہ لیتے اُٹھ کر چاروں طرف نظر دوڑائی جہاں کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔

اُفف یہ زارون کو اس کو اس وقت ہی کام یاد آنا تھا“ نورنے دل میں خوف زدہ ہوتے اُسے کوسا جو ابھی کچھ دیر پہلے ہی ایک کام کا بولتے باہر گیا تھا۔۔۔۔۔

میں نے کہا بھی تھا ٹیرس کا دروازہ بند کر دینا پر نہیں میری تو کوئی بات سمجھ ہی نہیں آتی“،خودکلامی کرتے وہ ٹیرس کا دروازہ بند کرنے کے لیے اُٹھی اور جیسے ہی اُس نے ہاتھ آگے بڑھایا تو کسی نے پیچھے سے اُسے اپنی جانب کھینچا۔۔۔

تمہیں کیا لگا کہ تم اتنی جلدی مجھ سے دور ہو جاؤ گی؟؟؟“،اُس کے منہ پر ہاتھ رکھتے اُس شخص نے اُس کے کان کے قریب ہوتے سر گوشی کی تو خوف سے نور کا پورا وجود کانپنے لگا۔۔۔۔

تمہیں کیا لگا تم مجھ سے اتنی جلدی پیچھا چھڑوا لو گی اور میں تمہیں اتنی آسانی سے زارون کا ہونے دوں گا تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے زین کبھی بھی تمہیں نہیں چھوڑے گا“،آہستگی سے ہونٹ اُس کی گردن پر رکھتے اُس نے بوسہ دیا تو نور کو وہ لمس جانا پہچانا سا لگا اور ساتھ آواز بھی، تب ہی اُس نے خوف کے باوجود بھی اُس کا ہاتھ ہٹاتے اپنا رخ دوسری جانب کیا جہاں کھڑے انسان کو دیکھتے ہی اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔

زا۔۔رون ؟؟؟تم زین کیسے ہو سکتے ہو؟؟نہیں تم نہیں ہو،وہ تو عالیان تھا۔۔۔“خود کو چیخنے سے روکتے اُس نے اٹکتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔۔۔۔۔

کیوں میں کیوں نہیں ہوسکتا اور عالیان نے تمہارے ساتھ جھوٹ بولا تاکہ تم اپنی غلطی کو چھپانے کے لیے مجھے کچھ نہ بتاؤ اور وہ اپنا کام آسانی سے کر سکے“،دو قدم اُس کی جانب بڑھاتے زارون نے اُسے پیچھے دیوار کے ساتھ لگایا جو ابھی تک آنکھوں میں خوف لیے کانپ رہی تھی۔۔۔۔

نہیں ایسا نہیں ہوسکتا اُس نے مجھے خود بتایا تھا کہ وہ زین ہے“،نور نے نفی میں سر ہلاتے اُس کی آنکھوں میں دیکھاجو اپنا موبائل آن کرتے اُس کے تمام میسجز نکال کر اُس کے سامنے کر چکا تھا۔۔۔۔۔

رشتے میں بے اعتباری کا یہی انجام ہوتا ہے کہ دشمن آسانی سے وار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جیسے کہ عالیان نے کیا اور تمہیں تو اُسی دن سمجھ لینا چاہیے تھا جب اُس نے زین ہونے سے انکار کیا حالانکہ اُس کے پاس موقع تھا اگر وہ زین ہوتا تو وہ بہت آسانی سے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر سکتا تھا“،اُس کا ہاتھ پکڑتے بیڈ پر بیٹھاتے زارون نے اُس کے ڈر کو کم کرنے کی کوشش کی جو ایک دم سے زین کو نام سنتے اور اُس کا وجود محسوس کرتے اُس کے چہرے پر آچکی تھی۔۔۔۔۔

پر تم نے یہ سب کیوں کیا مطلب پہلے زین اور اب زارون۔۔ تم زین بن کر آسانی سے مجھ سے نکاح کر سکتے تھے پھر یہ زارون بن کر اتنا کچھ کیوں کیا؟؟“،نور نے اپنے ذہن میں چلتے سوالوں کو زبان پر لاتے اُسے دیکھا جو اب اُس کے قریب ہی بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔

اس لیے کیوں کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم زین سے بدگمان ہو اور اپنی زندگی میں ایک واحد رشتے سے بھی تمہارا اعتبار اُٹھ جائے جس پر تم نے زندگی پر سب سے زیادہ اعتبار کیا میں چاہتا تھا کہ تمہارے دل میں محرم بن کر اپنی جگہ بناؤں اور میں کیسے زین کی صورت تمہارا اعتبار توڑ سکتا تھا؟؟کیسے میں تمہیں تمہارے ایک واحد رشتے سے بدگمان کر سکتا تھا جس پہ تمہیں یقین تھا مان تھا کہ جو بھی ہوجائے پر آرجے مجھے تکلیف نہیں دے گا اسی لیے میں نے زارون بن کر تم سے نکاح کیا کیوں کہ میں خود سے ہی جیلس تھا مجھے اپنا آپ نا محرم کی صورت تمہارے دل میں بستا اچھا نہیں لگا میں چاہتا تھا کہ تم محرم کی صورت مجھ سے محبت کرو“،اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے زارون نے جواب دیا تو نور نے شکوہ کناں نظروں سے اُسے دیکھا۔۔۔۔۔

پر پھر بھی تم زین کو میری نظروں میں اچھا نہیں بنا سکے کیوں کہ وہ بے شک تم بھی تھے پر تھے تو نامحرم اور اللہ نے مجھے اُسی بات کی سزا عالیان کی شکل میں دی میں تب سے اب تک اپنے دل میں یہ کسک لیے بیٹھی ہوں کہ کاش میں اُس سے بات نہ کرتی تو میرے ساتھ ایسا نہ ہوتا“،اپنا ہاتھ آہستگی سے اُس کے ہاتھ کے نیچے سے نکالتے نور نے گہری سانس لیتے خود کو پرسکون کیا۔۔۔۔۔

عالیان نے بس میری دوستی کا، میرے یقین کا فائدہ اٹھایا“، ٹھیک کہتی ہیں دی جان کبھی کسی کو اپنے دل کے راز سے آگاہ نہ کرو کیوں کہ جب انسان کسی کو اپنے دل کے راز سے آگاہ کردیتا ہے تو وہ اُس کی مٹھی میں قید ہونے لگتا ہے جیسے میں ہوا میں نے اپنی اور تمہاری ہر بات عالیان کو بتائی مطلب میں تم سے بات کرتا ہوں یہ سب عالیان کو پتا تھا تب ہی اُس نے ان سب سے فائدہ اُٹھاتے تمہیں تکلیف دی کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ تم میرے لیے سب سے قیمتی ہو“، پھر سے اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے وہ اُس کے سامنے زمین پر بیٹھ چکا تھا جو آنسو ضبط کرنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔۔۔

تم نے یہ بات مجھے تب کیوں نہیں بتائی جب عالیان نے زین ہونے سے انکار کیا تھا؟؟؟؟“پلکیں اُٹھائے اُس نے اپنے دل میں اُٹھنے والے طوفان کو روکا جو یہ راز جاننے کے بعد بہنے کے لیے تیار تھا۔۔۔۔

تب موقع نہیں تھا ایسی باتوں کا اور تمہیں پتا ہے اُس دن تمہاری اسی بات کی وجہ سے عالیان پھنسا تھا اگر تم یہ بات نہ کرتی تو شاید میں اُس پہ اعتبار کر لیتا پر دیکھو میرا تمہیں یہ سب نہ بتانا ہمارے کام آگیا وہ کہتے ہیں نا ہر بات اور کام کے پیچھے اللہ کی مصلحت ہوتی ہے اور اس کے پیچھے بھی تھی تب ہی جب تم نے آخری میسج کیا کہ تم اب مجھ سے بات نہیں کرو گی کیوں کہ تم اپنے شوہر کو دھوکہ نہیں دے سکتی قسم سے دل کیا فورا جا کر تمہیں بتا دوں تمہارا دل ہلکا کر دوں پر پتا نہیں کس چیز نے مجھے روکا میں کیوں تمہیں بتا نہیں پایا“،نم آنکھوں سے مسکراتے اُس نے نور کو دیکھا جس کا ضبط جواب دے چکا تھا اک گناہ کا احساس کے وہ عالیان تھا اُس سے بات کرنے کی وجہ سے یہ سب ہوا اُس کے دل سے دھل چکا تھا۔۔۔۔۔

قسم سے مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنی نادان ہو کہ میرے اتنے ثبوت چھوڑنے کے باوجود بھی نہیں سمجھی کہ میں ہی زین ہوں۔ اس دن یونی میں تمہیں میسج کیا کہ کہاں ہو تم نے کہا یونیورسٹی ہوں اور اُس کے فورا بعد میرا آنا نکاح کرنا تمہیں سمجھ نہیں آیا تھا کیا؟؟اور جب تم زین سے بات کر رہی تھی اُسی وقت میرا وہاں آنا تمہیں تب بھی سمجھ نہیں آیا؟؟ اُفف اللہ کس بے وقوف کے پلے باندھ دیا مجھے“،سر دونوں ہاتھوں میں لیتے اُس نے نور کو بہت سی باتوں سے آگاہ کیا جو اُس کے سامنے ہونے کے باوجود بھی اُسے سمجھ نہیں آئی تھیں۔۔۔۔

ہوننہہ میں نے بس ایک بار تمہاری فون پہ آواز سنی تھی مجھے کیا پتا تھا کہ تم زین ہو اور عالیان نے جب کہا تو مجھے یقین آگیا“، آنکھوں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتے اُس نے جواب دیا تو زارون نے ہاتھ اپنے سر پر مارا۔۔۔۔

نور میری جان پتا مسئلہ کیا ہے؟؟“زارون نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا۔۔۔۔

کیا؟؟

یہی کہ باتوں کو سمجھنے کے لیے دماغ کی ضرورت ہے جو تمہارے پاس ہے نہیں اور میری جان بعض دفعہ کہانی کے کردار جو ہمیں دکھائے جاتے ہیں یا نظر آتے ہیں وہ ویسے نہیں ہوتے کیوں کہ لکھنے والا ہمارے دماغ سے کھیلتا ہے وہ اُس کردار کو ہمیشہ پردے میں رکھتا ہے جو سب سے اہم ہوتا ہے اور زین کا کردار سب سے اہم تھا جس نے اپنی منزل پرپہنچ کر ہی تمہارے سامنے آنا تھا تو بس دیکھو میں تمہارے سامنے ہوں اب جو سزا دینی ہے دے دو“،اُس کے قریب بیٹھتے زارون نے آنکھوں میں چمک لیے کہا تو نور نے کچھ کہنے کی بجائے اُس کے سینے سے سر ٹکایا۔۔۔۔۔

تم صرف میری ہو،بس زارون علی کی نور کا نام اس دنیا میں بھی میرے نام کے ساتھ آئے گا اور آخرت میں بھی“،اُسے اپنے حصار میں لیتے زارون نے محبت سے چُور لہجے میں کہا تو نور نے سر اُٹھاتے اُس کی پیشانی پر اپنے لب رکھے تو زارون نے اُسے اپنے حصارمیں لیا۔۔۔۔۔

میں نے یہ کہا تھا کہ یہ آنسو تمہیں اور خوبصورت بنا دیتے ہیں پر مجھے نہیں پتا تھا کہ تم میری بات کو اتنا سریس لے لو گی“ ،ہونٹ اُس کی آنکھوں میں رکھتے زارون نے شکوہ کیا تو نور نے مسکراتے ہوئے اُس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں بس محبت ہی محبت تھی۔۔۔۔۔

Download in PDf Format



Post a Comment

0 Comments